اداریہ جدوجہد
پاکستان اور بھارت کے حکمران طبقات و سرکاری اشرافیہ 14 اور 15 اگست کو آزادی کا 72 واں جشن منا رہے ہیں۔ اس شور شرابے اور آتش بازیوں کے نیچے تقریباً ایک چوتھائی نسل ِانسان ذلت اور بربادیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں تڑپ اور سسک رہی ہے۔ یہ خطہ کرہ ارض کی سب سے بڑی غربت اور افلاس کا گڑھ بن چکا ہے۔ یہاں اسلحے و بارود پر ریاستی اخراجات دنیا میں سب سے زیادہ ہیں‘ تعلیم و علاج پر کم ترین ہیں۔ برصغیر کے ڈیڑھ ارب عام انسانوں کی زندگیوں کو دیکھیں تو یہ جشن نہیں‘ انسانیت کی تذلیل کا بے ہودہ تماشا لگتا ہے۔
کولمبیا یونیورسٹی کی اُتسا پتنائیک کی تحقیق کے مطابق برصغیر جنوب ایشیا پر برطانوی نوآبادیاتی قبضے کے دوران 1765ء سے 1938ء کے عرصے میں 44.6 ہزار ارب ڈالر لوٹے گئے۔ لیکن ’آزادی‘ کے بعد یہ لوٹ مار کہیں زیادہ پرفریب، جدید اور شدید ہی ہوئی ہے۔ ان 72 سالوں میں جو معاشی، اقتصادی، ثقافتی اور اخلاقی تنزلی ہوئی ہے اس سے ان معاشروں میں گندگی، نفسیاتی پراگندگی، پڑھی لکھی جہالت، غنڈہ گردی، بلادکار، ریاکاری اور دھوکہ دہی سماجی معمول بن گئے ہیں۔
برصغیر کی آزادی کسی جنگ یا جدوجہد کے ذریعے حاصل نہیں ہوئی تھی۔ مذاکرات اور مفادات کے ذریعے حاصل ہونے والی اس آزادی سے پہلے انقلابی تحریکوں کو جبر اور غداریوں سے کچلا گیا تھا۔ 1946ء کا انقلاب، جس کی چنگاری جہازیوں کی بغاوت نے جلائی تھی، نے پورے برصغیر میں نہ صرف انگریز سامراج کی شکست کو حقیقت میں ڈھالنا شروع کر دیا تھا بلکہ سارے سامراجی نظام کو اکھاڑنے کا فریضہ یہاں کے محنت کش عوام کے سامنے رکھ دیا تھا۔ سامراج میں پورے ہندوستان کو جام کردینے والے اس انقلاب کو کچلنے کی نہ صلاحیت تھی نہ جرات۔ لیکن تحریک کو محض حاکموں کے رنگ کی تبدیلی تک محدود رکھنے میں ان کی معاونت برصغیر ہی کے مقامی حکمران طبقات نے کی۔ لارڈ میکالے نے جن بھورے انگریزوں کی پود تیار کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اسی پیوند کردہ مقامی بوژوازی نے انقلاب پر مبنی حقیقی آزادی کو روکنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ لیکن انہوں نے صرف 1946ء کے انقلاب کی پیٹھ میں چھرا ہی نہیں گھونپا بلکہ مذہبی منافرتیں پھیلا کر متحدہ ہندوستان کی تحریک ِآزادی کو دو لخت کر دیا۔ ان کے آقا جانتے تھے کہ ایک ایسے وقت میں جب چین سے لے کر انڈونیشیا تک پورا ایشیا سرخ ہورہا تھا‘ یہاں قومی آزادی کی انقلابی تحریک‘ سوشلسٹ منزل سے پہلے کسی مرحلے پر نہیں رکے گی۔ حکمرانوں کی اس ضرورت کے تحت جو بٹوارہ کروایا گیا اس میں خصوصاً پنجاب اور بنگال میں مذہبی درندگی سے ہولناک قتل ِعام ہوا۔ 27 لاکھ معصوموں کے لہو سے دریا سرخ ہو گئے۔ نہرو اور جناح نے سیکولرازم اور جمہوریت کے اصولوں پر نئی ریاستوں کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی۔ یہ ان کی سادگی تھی یا فریب کہ انہوں نے ایک مطیع، کنگال، متروک اور تاخیر زدہ نظام پر جدید سیاسی ڈھانچے استوار کرنے کی کوشش کی۔ ایسے میں برصغیر کے ان ممالک کا ارتقا انتہائی متضاد اور ناہموار بنیادوں پر ہوا۔ اس سے یہ یکجا اور جدید قومی ریاستیں بننے کی بجائے جدت اور پسماندگی کا عجیب و غریب ملغوبہ بن گئیں۔ یہاں امارت اور غربت کی خلیج وسیع ہی ہوتی گئی۔ آج سات دہائیوں بعد اس نظام کی ’ترقی‘ اس نہج پر آن پہنچی ہے کہ جمہوریت کی بجائے فسطائیت حاوی ہو رہی ہے۔ عمران خان اور نریندرا مودی ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ دونوں محنت کش عوام پر گھناؤنے وار کر رہے ہیں جو اس نظام کو چلانے کا تقاضا ہے۔
انگریز سامراج نے جن رجعتی بنیادوں پر یہ خونی بٹوارا کروایا تھا بعد کے حکمرانوں نے بھی اسی واردات کو جاری رکھا ہے۔ قومی اور مذہبی دشمنی حکمرانوں کا اوزار ہے۔ نفرت ان کی طرز حاکمیت ہے اور جبر کے ذریعے یہ سیاسی و سرکاری اشرافیہ اپنے تسلط اور لوٹ مار کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ فسطائیت کے ہتھکنڈے بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش میں جمہوریت کے نام پر جاری ہیں۔
بٹوارے کے ذریعے سات ہزار سالہ قدیم تہذیب، ثقافت اور تاریخ کا قتل وہ جرم تھا جس کا ظلم نسلوں نے برداشت کیا ہے۔ برصغیر کی تاریخ نہ تو چندر گپت موریا کے قبضے سے شروع ہوئی تھی نہ ہی محمد بن قاسم کے حملے سے۔ دنیا کی یہ قدیم ترین تہذیب آج ماتم کناں ہے۔ سرمایہ داری نے یہاں کی خلق کو زندہ درگور کر رکھا ہے۔ سرمایہ داری کی معیشت، تہذیب اور سیاست ناکام و نامراد ہے۔ یہ نظام قومی جمہوری انقلاب کا کوئی ایک فریضہ بھی پورا کرنے میں تاریخی طور پر ناکام رہا ہے۔ ایک طرف جدیدیت ہے تو دوسری جانب پسماندگی نے برصغیر کو تاریخ کا عجائب گھر بنا دیا ہے۔
تاہم دہائیوں بعد بھی حکمرانوں کے رجعتی ہتھکنڈے برصغیر کے عوام کے درمیان تاریخی اور ثقافتی رشتے ناطے توڑنے میں ناکام رہے ہیں۔ لیکن حقیقی آزادی کے لئے طبقاتی جڑت لازم ہے۔ ایسی جڑت پر مبنی انقلابی سیاست کی منزل صرف سوشلزم ہو سکتی ہے۔ برصغیر کے کسی ایک ملک میں بھی اگر سوشلسٹ انقلاب برپا ہوتا ہے تو وہ ہزاروں سال کی مشترکہ تاریخ رکھنے والے سماجوں کو متاثر کیے بغیر کیسے رہ سکتا ہے۔ یہ پورے برصغیر کا انقلاب بن کر رہے گا۔ نہ صرف یہاں کے معاشی، سماجی اور سیاسی ڈھانچوں کو یکسر بدل دے گا بلکہ جغرافیے بھی بدل جائیں گے۔ تاریخ کے دھارے کا رُخ مڑ جائے گا۔ جنوب ایشیا کی سوشلسٹ فیڈریشن پورے کرہ ارض کے لئے مشعل ِ راہ بنے گی۔