اداریہ جدوجہد
5 اگست 2019ء کو مودی سرکار اور اس کے بد معاشِ اعلیٰ وزیر داخلہ امیت شاہ نے کشمیر کے سلگتے زخم پر پھر سے ایک نیا وار کیا ہے۔ یہ رعونت زدہ وار بھارت کی تیزی سے گرتی ہوئی معیشت اور بڑھتے ہوئے افلاس و مہنگائی میں ہندتوا جمہوری فسطائیت کی طاقت نہیں بلکہ اس کی کمزوری کی غمازی کرتاہے۔ نریندر مودی اور عمران خان ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ فوجی جبر کے ذریعے مسلط کردہ پاکستان کی نیم فسطائی”جمہوری“ حکومت کیلئے یہ وار ایک تحفہ بن کر وارِد ہوا ہے۔ جہاں ہندوستان کی شرح نمو گراوٹ کا شکار ہے وہیں پاکستان کی معیشت پہلے سے ہی دیوالیہ پن کا شکار ہو رہی ہے۔ دونوں ممالک کے حکمران طبقات اور ان کے فسطائی سیاسی و فوجی نمائندوں نے عوامی حقارت اور ممکنہ بغاوت کو مفلوج اور زائل کرنے کیلئے پھر سے کشمیرکے زخم کو کریدنا شروع کر دیا ہے۔ بھارتی حکمرانوں نے اس مسئلے کو جدید اسلامی دہشت گردی بنا کر دکھایا ہے جس کو امریکی اور عالمی سامراجیوں نے صرف چند دہائیوں پیشتر تخلیق کر کے اپنے مظالم کیلئے استعمال کیا۔ اب اسی دہشت گردی کو اس کے دوسرے یعنی مصنوعی دشمن کے روپ میں پیش کر کے اپنے جبر و تشدد اور جارحییتوں کا جواز بنا کر استعمال کر رہے ہیں۔ مودی سرکار نے بھی اپنی ہندتوا درندگی کو جواز فراہم کرنے کیلئے اسی سامراجی ایجاد کو بھر پور استعمال کرتے ہوئے ظلم و بربریت کا ایک نیا بازار گرم کر دیا ہے۔ سرینگر کے شری مہاراجہ ہری سنگھ ہسپتال کے اعدادوشمار کے مطابق 2016ء کے وسط سے لیکر 2018ء کے اختتام تک 1253 افراد کو پیلٹ گن کے چھروں سے اندھا کیا گیا ہے۔ بھارتی قبضے اور جارحیت کے خلاف کشمیر کے نوجوانوں اور محنت کشوں کی بغاوتوں کے اثرات پورے بھارت اور برصغیر جنوب ایشیا کی عذاب زدہ نئی نسل اور محنت کش طبقے کی بغاوتوں کیلئے تقویت کا باعث بن ر ہے ہیں۔ 7لاکھ سے زائد فوجی طاقت کا جبر اس کے سامنے ناکام و شکست خوردہ حالت میں کھڑا ہے۔
پاکستانی حکمران طبقات کی ”مذمتیں“ بھی مفاد پرستی اور منافقت پر مبنی ہیں۔ نام نہاد ”مسلم امہ“ کے دوغلے پن کا پردہ بھی چاک ہو گیا ہے۔ اقوام متحدہ جیسے ادارے کا خصی پن بھی مکمل عیاں ہے جس نے فلسطین سے لے کر کشمیر تک کے مظلوم عوام کی زندگیاں ذرا سی بھی سہل کرنے میں مکمل ناکامی کا مظا ہرہ کیا ہے بلکہ اس جیسے اداروں کی جعلی ڈرامہ بازی سے ستم مزید بڑھتے ہی گئے ہیں۔ آج ان عوام کے حالاتِ زندگی 1946-47ء سے بھی بد تر ہیں۔ ان کی غلامی کہیں زیادہ ہولناک اور خونریز ہو چکی ہے۔ ”سلامتی کونسل“ کا اجلاس اتنا ہی بے معنی تھا جتنا یہ ادارہ خود ہے۔ شاید ڈونلڈ ٹرمپ نے عمران خان کو امریکہ طلب کر کے پہلے سے ہی اسی ”ثالثی“ کی پیشکش کی تھی جس میں بھارتی حکمرانوں کی 370 اور 35-A جیسی عارضی شقوں کے خاتمے کیلئے تیاری جاری تھی۔ اب کشمیر پر جبر کی ایک نئی انتہا مسلط کر دی گئی ہے۔ لیکن یہ ہتھکنڈے آزادی کے جذبے کو کم کرنے میں مکمل ناکام ہوئے ہیں۔ 1947ء کے بٹوارے کے بعدکشمیر کا مسئلہ ایک مصنوعی تقسیم کی صورت میں پیدا کیا گیا تھا۔ یہ سامراجیوں کی ایک ایسی چال تھی جس کے تحت اس تنازعے کے ذریعے مسلسل جنگی تناؤ، عدم استحکام اور دشمنیاں پچھلے 72 سال سے قائم ہیں۔
کشمیرمسئلے پر پہلی پاک بھارت جنگ 1948ء میں ہوئی تھی لیکن پاکستانی اور بھارتی فوجوں کے سپہ سالار انگریز فوجی آمر فرانک میسروسی اور جنر ل روب لاک ہارٹ تھے۔ فوجیں جنگ لڑ رہی تھیں اور ان کے انگریز سپہ سالار آئندہ کے سامراجی لائحہ عمل کے منصوبے بنا رہے تھے۔ شاید نہرو کو بھی اقوام متحدہ جیسے جعلی اداروں کی قراردادوں کی اوقات اور حیثیت کا علم تھا اسی لیے اس نے حقِ خود ارادیت کی قرارداد ماننے والی چال چلی تھی۔ 72 سال بعدبے پناہ مذاکرات، نام نہاد معاہدوں اور تین چار جنگوں کے بعد کشمیر کا مسئلہ اور بھی زیاد ہ گھمبیر ہو گیا ہے۔ درحقیقت یہ مسئلہ دونوں ممالک کے حکمرانوں کیلئے داخلی بغاوتوں کو زائل کرنے کا ایک طریقہ داردات بن کر رہ گیا ہے۔
یہ جنت نظیر وادی اپنے باسیوں کیلئے کسی دوزخ سے کم نہیں۔ یہاں غربت، بے روز گاری، ذلت اور ظلم و تشدد کا ایک لاامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ بھارت کے حکمران کشمیر کو اپنا ”اٹوٹ انگ“ گردانتے ہیں اورپاکستانی نظریہ دان اس کو اپنی ”شہ رگ“ سے تعبیر کرتے ہیں۔ لیکن حل دونوں ہی نہیں کرنا چاہتے اور نہ ہی کر سکتے ہیں۔ سامراجی اسلحہ ساز کمپنیوں کیلئے یہ منافع خوری کا ایک ذریعہ ہے اورفوجی جرنیلوں کیلئے بھاری کمیشنوں کی دکان۔ اگر بھارتی اور پاکستانی حکمران طبقات نے اس لوٹ مار میں بے ہودہ بربریت کا مشاہدہ کیا ہے تو کشمیر کی اشرافیہ نے بھی مفاد پرستی کی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اسی لئے اب یہ کہنا تقریباًناممکن ہی ہے کہ عام کشمیریوں کی نمائندگی کون سی قیادت کر رہی ہے؟بھارت اور پاکستان کے تمام تر پراپیگنڈے کے باوجوددونوں ہی کشمیر کو محکوم رکھنا چاہتے ہیں اور اس تنازعے سے مالی اور سیاسی فائدے اٹھاتے رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں ہوں یا عالمی برادری (حکمران) کی مفاد پرستانہ منافقت ہو‘ایک آزاد اور خود مختار کشمیر کا کہیں تذکرہ ہی نہیں ہے۔
کشمیر کی یہ آزادی نہ تو ”مذاکرات“ کے ذریعے ممکن ہے اور نہ کسی قسم کی مسلح لڑائی سے۔ تحریکوں نے بھارت جیسی دیو ہیکل ریاست کوہِلا کر رکھ دیا ہے لیکن عملی جنگ میں یہ ان کوکبھی شکست نہیں دے سکتیں۔ کشمیر کے نوجوانوں کی تحریک پورے برصغیر کی نئی نسل میں بغاوت کے رحجانات ابھار رہی ہے اور اس میں ہی حقیقی آزادی کی واحد کرن ہے۔ لیکن اس آزادی کو حاصل کرنے لئے قومی جدوجہد کو طبقاتی جدوجہد سے جوڑنے کی شدید ضرورت ہے۔ کیونکہ جب قومی اور معاشی وسماجی حقوق کچلنے والی طاقتیں ایک ہیں تو ان کے خلاف بغاوت یکجا کیوں نہیں؟حالیہ سرمایہ دارانہ بحران میں حکمرانوں کی ریاستیں مزید بحرانوں کا شکار ہوں گی لیکن ان کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے خطے کے ڈیڑھ ارب نوجوانوں کو ایک طبقاتی لڑائی لڑنا پڑے گی۔ ان ریاستوں کو اکھاڑ کرہی یہ طبقاتی جدوجہد ایک سوشلسٹ انقلاب کے نئے سرخ سویر ے کو جنم دے سکتی ہے۔ جنوبی ایشیا کی سوشلسٹ فیڈریشن کا حصہ بن کر کشمیر کی سوشلسٹ ریپبلک کے عوام‘ حقیقی قومی، معاشی اور سماجی آزادی حاصل کرسکیں گے۔