راہول

برازیل کے ایمازون جنگلات تباہ کن آگ میں جل رہے ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی کی شدید ترین آتشزدگی دنیا کی بیس فیصد سے زائد آکسیجن پیداکرنے والے جنگلات کو برباد کررہی ہے۔ ایمازون کا جنگل دنیا کے نو ممالک تک پھیلا ہوا ہے جو 55 لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ جہاں یہ جنگل ساڑھے پانچ کروڑ سال پرانا ہے وہیں یہ دنیا کے چالیس فیصد جانور اورچرند پرند کا مسکن ہے۔ دنیا کے اس قدیم ترین جنگل میں لگی حالیہ آگ کے باعث برازیل کی شمالی ریاستوں رورائیما، آکرے، رونڈونیا، ایمازوناس اورماتو گروسو ڈو سُل کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔

برازیل کے خلائی تحقیقاتی ادارے کے اعدادو شمار کے مطابق ایمازون کے برساتی جنگل میں 2019ء میں ریکارڈ آتشزدگی ہوئی ہے۔ نیشنل انسٹیٹیوٹ فار سپیس ریسرچ سے حاصل کردہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ سال 2018ء میں اسی دورانیے کے مقابلے میں 85 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جبکہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق برازیل کے جنگلات میں سال کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران 75 ہزار سے زائد مقامات پر آگ لگی ہے جو کہ 2013ء سے اب تک کی بلند ترین تعداد ہے اور 2018 ء میں یہ تعداد 39,759 تھی۔

عالمی ماحولیاتی اداروں نے اس آتشزدگی کا ذمہ دار برازیل کے صدر بولسونارو کی پالیسیوں کو ٹھرایا ہے۔ تاہم برازیل کے صدر نے ان الزامات کی تردیدکی ہے۔ ماحولیاتی کارکنوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ برازیلی صدر کے ماحول مخالف بیانیے اور درختوں کے صفائے کی اس کی پالیسیو ں نے اس قسم کی کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ جبکہ طویل عرصے سے ماحولیاتی تبدیلیوں پر شک کا اظہار کرنے والے بولسونارو نے جواباً غیر سرکاری تنظیموں پر الزام عائد کیا ہے کہ ان تنظیموں نے اس کی حکومت کے تشخص کو نقصان پہنچانے کے لیے خود یہ آگ لگوائی ہے اور اس کی حکومت کے پاس اس آگ سے لڑنے کے لیے وسائل کی شدید کمی ہے۔ یہی وجہ رہی کہ اس نے فوج کو بھی آگ بجھانے کے لئے طلب کرلیا ہے۔

ایمازون میں بھڑکی یہ حالیہ آگ تا دم تحریر مکمل طور پر تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے اور صورتحال اس وقت تک سنگین ہونے کے ساتھ ساتھ ریاست کے کنٹرول سے باہر نظر آ رہی ہے۔ آگ سے شمالی برازیل کو بدترین نقصان پہنچا ہے۔ رورائما، آکرے، رونڈونیا اور ایمازوناس سبھی میں 2015ء سے 2018ء کی چار سالہ اوسط کے مقابلے میں آگ لگنے کے واقعات میں بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ بی بی سی کے مطابق رورائما میں 141 فیصد، آکرے میں 138 فیصد، رونڈونیا میں 115 فیصداور ایمازوناس میں 81 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیاہے۔ اس کے علاوہ ماتو گروسو دو سُل کی جنوبی ریاست میں 114 فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ برازیل کی سب سے بڑی ریاست ایمازوناس نے اس صورتحال کے پیش نظر ہنگامی حالت کا نفاذ بھی کر دیا ہے۔

یوں تو ایمازون میں جولائی سے اکتوبر تک رہنے والے خشک موسم کے دوران یہاں آگ لگنا ایک عام سی بات تصور کی جاتی تھی اور ہر بار کی طرح اس بار بھی عام بیانیہ یہی ہے کہ یہ آگ ”قدرتی واقعات“ مثلاً آسمانی بجلی گرنے، کسانوں کے فصل اگانے اور جانوروں کو گھاس چرانے سمیت‘لکڑی چوروں کی بھی واردات ہو سکتی ہے۔ مگر جس بات کو انتہائی ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی سے چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے وہ درحقیقت یہ نظام اور اس میں پلنے والی وہ نفسیات ہے جو مسلسل منافع خوری اور مقابلے بازی کے ایک ایسے غلیظ رجحان کو جنم دیتی ہے کہ جس میں کسی بھی قسم کا استحصال کوئی معنی نہیں رکھتا خواہ وہ ماحولیات کی بربادی سمیت حیاتیات کا خاتمہ ہی کیوں نہ ہو۔

ایمازون کے جنگلوں میں لگی یہ آگ زمینی سطح تک پھیل چکی ہے جو کہ بڑے درختوں کا تیزی سے خاتمہ کررہی ہے۔ ایسے میں درخت اپنی پتیوں سے محروم ہورہے ہیں اور سورج کی روشنی جنگل میں داخل ہونے کی وجہ سے پودے زیادہ آتشگیر ہو رہے ہیں۔ ایسے میں اگر انتہائی پر امید بھی رہا جائے تب بھی اس صورتحا ل سے چھٹکارااور پودوں کی کثافت بحال ہونے میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں۔ مگر آنے والے عرصے میں یہ صورتحال اس قدر گہری ہوجائے گی کہ ملک کے ایک بڑے حصے میں بارشوں کے نظام کوایک شدیدخطرہ لاحق ہوسکتا ہے جوکہ مختلف مسائل کو جنم دینے کا باعث بنے گا اور سنگین قدرتی آفات کے امکانات کو کسی طور پر بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔

دنیا کے سب سے گھنے جنگل اور زمین کے پھیپھڑے مانے جانے والے اس ایمازون میں لگی یہ آگ آج دراصل کوئی حادثہ نہیں بلکہ یہ اب یہاں کاروبار کا ایک اہم طریقہ کار اور ذریعہ بن چکی ہے۔ دراصل یہاں زمین کو صاف کرنے اور اسے مائننگ یا خاص طور پر سویابین کی کاشت کے لئے تیار کرنے کے لئے ان جنگلات کو آگ کی نذر کر دیا جاتاہے۔ یاد رہے کہ امریکہ کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ سویابین پیدا کرنے والا ملک بھی برازیل ہی ہے۔ دوسری جانب یہاں موجود تمام تر مائننگ کمپنیاں اس آگ کو پھیلانے کا کام کرتی ہیں اور اپنے بدترین اہداف کے حصول کے لئے آگ کے اس گھناؤنے دھندے کو جاری رکھنے میں انہیں اربوں کا فائدہ ہوتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس آگ کی بدولت ایمازون میں ہزاروں سالوں سے آباد غریب کسانوں اور مقامی آبادی کو یہ کان کنی کی کمپنیاں آسانی سے دربدر بھی کر دیتی ہیں۔

درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام کی منافع خوری کی بدولت آج ماحولیات کو بری طرح برباد کر دیا گیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس قسم کی وارداتوں نے نیچر کے اپنے دفاعی سسٹم کو اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ وہ چھوٹی موٹی قدرتی آفات کا بھی اب سامنا کرسکیں۔ جنگلات کی مسلسل کٹائی آج ان گھنے جنگلوں کو پسپا کررہی ہے جبکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑھتی مقدار فضا میں جاکر گلوبل وارمنگ کو تقویت بخش رہی ہے۔ جہاں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار تیزی سے بڑھ رہی ہے وہیں اس گیس کو ری سائیکل کرنے والے جنگلات کا خاتمہ کیا جا رہا ہے۔ صرف ایمازون کے جنگلات کو کاٹنے کے عمل میں گزشتہ دو دہائیوں میں اس کی مقدار میں شدید ترین اضافہ ہوا ہے۔ صرف 1991ء سے 2000ء تک کے دس سالوں میں ایمازون کے 172000 مربع کلومیٹر پرمحیط درختوں کاصفایا کر دیا گیا ہے۔ عالمی سطح پر ہر سیکنڈ میں اوسطاً ڈیڑھ ایکڑ جنگل کا خاتمہ کیا جا رہا ہے جس سے ماحول کے ساتھ ساتھ حیاتیاتی نظام بھی بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ جنگلات کی تباہی سے نباتات، حشرات اور جانوروں کی 137 انواع ہر روز معدوم ہورہی ہیں۔

عالمی طور پر ماحولیات کے لئے کام کرنے والی این جی اوز و دیگرسماجی تنظیموں کا المیہ بھی آج یہی ہے کہ وہ انہی سامراجی قوتوں سے اس مسئلے کا حل چاہتی ہیں جو دراصل خود فساد کی جڑ ہیں۔ یہ حکمران چند ایک ماحولیاتی ’معاہدوں‘کے ذریعے خبروں کی زینت توبن جاتے ہیں مگر اپنے عمل میں وہ بالکل اس کے برعکس اقدامات کر رہے ہوتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں فرانسیسی صدر میکرون نے جی سیون کے اجلاس سے قبل ٹوئٹ میں ایمازون میں ہوئی اس آتشزدگی کو ’عالمی بحران‘ قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی اس نے اس مسئلے کو جی سیون کے اجلاس میں خصوصی طور پر بحث کے لئے بھی پیش کیا جہاں جی سیون ممالک نے اس مسئلے کے حل کے لئے بیس ملین ڈالر کی رقم بھی جاری کی۔ البتہ برازیلی صدر بولسونارو کی جانب سے جی سیون ممالک کی پیش کردہ اس رقم کو لینے سے انکار کردیا گیا جس کے بعد برازیلی اور فرانسیسی صدر کے درمیان ٹوئٹر پر شدید تلخی بھی دیکھی گئی۔ بو لسونارو ایڈمنسٹریشن نے فرانسیسی صدر کو ہدایت کی کہ وہ ’اپنے گھر اور اپنی نوآبادیات‘ کا خیال رکھیں اور ان کی فکر نہ کریں۔

اس کے بعد جوابی بیان میں فرانس کی جانب سے برازیل کو معاشی نقصان کی دھمکی بھی دی گئی۔ حکمرانوں کا اس قسم کا رویہ ان کی اس سنگین مسئلے کو حل کرنے کی ”سنجیدگی“ کو بیان کرتا ہے۔ فرانس کی جانب سے محض بیس ملین ڈالر کی ایک چھوٹی سی رقم پر تو زور دیا گیا مگر عالمی طور پر سرمایہ دار جس بے دردی سے اپنے منافعوں کو دگنا کرنے کے لئے ماحولیات پر ہوئے معاہدوں کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اس پر کوئی بات نہیں کی گئی۔ فوسل فیولز کے بے تحاشہ استعمال سے ہونے والی فضائی آلودگی اور گلوبل وارمنگ آج ایک ایسی سطح پر پہنچ چکی ہے کہ پوری کی پوری آبادیوں اور ملکوں کی تباہ کاری کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں مگر تمام تر ریاستیں اس پر مکمل پابندی لگانے کے معاملے میں بے بس نظر آتی ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ کچھ سال قبل خود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برسراقتدار آ کر سامراجیت کے چہرے سے منافقت کا نقاب بھی اتار ڈالا تھا۔ اس نے پیرس معاہدے اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلقہ دیگر معاہدوں سے بھی علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس قسم کی صورتحال میں سامراجی قوتوں سے توقعات لگانامحض دیوانے کا خواب ہی ہوسکتا ہے کیونکہ طاقتوں کے ایسے معاہدے برائے نام اقدامات کے حامل ہی ہوتے ہیں۔

دوسری جانب بولسونارو کا ماحول مخالف بیانیہ کوئی اچنبے کی بات نہیں بلکہ انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے یہ تمام لیڈران اپنے نام نہاد اہداف کو پورا کرنے کے لئے ہر اس حد تک جانے کو تیار ہوجاتے ہیں جہاں وہ پہنچنا چاہتے ہیں خواہ اس کے لئے انہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنی ہو یا پھر ماحولیات اس کا نشانہ بنے۔

ایسے میں سرمایہ داری کے زوال کے عہد میں اس کے حامی اور پالیسی ساز ایک ایسے استرداد کے شکار نظام کا دفاع کر تے اور اس میں اصلاحات کی بات کرتے دکھائی دیتے ہیں جو پوری انسانی تہذیب کے لیے اب خطرہ بنتا جا رہا ہے۔

درحقیقت یہ نظام آج اس سماج کو ترقی دینے اور کسی بھی بنیادی مسئلے کو حل کرنے کی صلاحیت سے مکمل طور پر محروم ہوچکا ہے۔ اس کراہ ارض پر سرمائے کے ارتکاز نے نہ صرف محنت کشوں کا بدترین استحصال کرتے ہوئے ان کی زندگیوں کو بے یقینی کی کیفیت میں دھکیل دیا ہے۔ زراعت کے کاروبار سمیت کان کنی کی اس واردات کا خمیازہ ماحولیات کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ یہاں ہر چیز ایک جنس میں تبدیل ہوچکی ہے اور اسے بیچنا ہی اس نظام کا اولین مقصد ہے چاہے اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔

دنیا کو آکسیجن مہیا کرنے والے ایمازون کے جنگلات میں لگی اس آگ کو بجھانے کے لئے آج انتہائی اہم اور فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس سنگین مسئلے کے حل کے لئے ایک گہری اور مستقل بین الاقوامی یکجہتی درکار ہے جو نہ صرف بولسونارو کی اس انتہائی دائیں بازو کی حکومت پر دباؤ ڈالے بلکہ عالمی طور پر تمام حکومتوں کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ تمام تر درکار وسائل بروئے کار لاتے ہوئے اس آگ کو فوری طور پر بجھائیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ تمام تر حقائق کو منظر عام پر لانے کے لئے مقامی آبادی اور کسانوں سمیت ماحولیاتی تنظیموں کے نمائندگان پر مبنی ایک آزاد تحقیقاتی کمیشن بھی بنایا جائے اور تمام تر سیاسی اور کاروباری حضرات کی مداخلت اور ان کے جرائم پر انہیں فوری طور پر سزا بھی دی جائے۔