راشد شیخ

برصغیر کے سینے پر کھنچی گئی تقسیم کی لکیر کے زخم مسئلہ کشمیر کی صورت میں ابھی تک رِس رہے ہیں۔ جہاں بی جے پی نے حالیہ جنرل الیکشن میں ہندوتوا اور پاکستان دشمنی پر مبنی زہریلی الیکشن کمپیئن کی‘ وہیں پر کشمیرکے الحاق کی دستاویز (انسٹرومنٹ آف ایکسیشن) کی ان بنیادی شرائط کے خاتمے کی بھی کمپیئن کی جس کی وجہ سے ہندوستانی زیرِ انتظام کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی۔ نریندرا مودی کی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد ہی جموں کشمیر کی اس خصوصی حیثیت کے خاتمے پر عملی کام شروع کر دیا تھا۔ اس کے بعدبی جے پی حکومت نے ایک فیصلے کے ذریعے الحاق کی دستاویز کی ان بنیادی شرائط کو ختم کر دیا جس کی وجہ سے ریاست ِجموں کشمیر 1947ء میں ہندوستان میں شامل ہوئی تھی۔ اس فیصلے کو صادر کرنے سے پہلے 4 اگست کو پورے جموں کشمیر کو کرفیو کے ذریعے ایک جیل خانے میں بدل دیا گیا اور تمام تر ذرائع مواصلات اور نقل و حمل کو بند کر دیا گیا۔ آرٹیکل 370 کو ہندوستانی وزیر ِداخلہ امیت شاہ نے دونوں ایوانوں میں کثرت رائے سے منسوخ اور تشکیل نو ایکٹ 2019ء کو پاس کروالیا جبکہ اپوزیشن جماعتیں اس موقع پر کچھ کرنے سے قاصر رہیں۔

بی جے پی حکومت نے متوقع احتجاج کے پیش نظر‘کشمیر کی تمام ہندوستان اور پاکستان نواز قیادت اور دیگر تمام سیاسی کارکنان کو گرفتار کر لیا یا پھرنظر بند کر دیا تھا۔ اس دوران تقریباً چار ہزار سیاسی کارکنان کی گرفتاریاں عمل میں لائی جا چکی ہیں۔ کشمیر میں مکمل لاک ڈاؤن ہونے کی وجہ سے کسی بھی قسم کی خبر کا لیک ہونا بھی بڑی بات ہے۔ کم سہی مگر اس وقت صرف بی بی سی اور الجزیرہ جیسے نیوز چینل ہی کچھ نشریاتی مواد نکال سکے ہیں۔

جموں کشمیر کی 5 اگست کو خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سخت ترین جبر اور کرفیو کے باوجود جموں کشمیر، لداخ اور کارگل میں نوجوانوں نے کرفیو توڑ کر مختلف اضلاع میں احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔ تاہم فی الوقت کوئی ایسی تحریک نہیں ابھری ہے جو ہندوستانی ریاست کے جبر کی نئی لہر کو توڑ سکے۔

2016ء میں برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیر کی آزادی کی تحریک نے ایک نیا رخ اختیار کیا ہے جہاں سکولوں، کالجوں اور مختلف جامعات کے طلبہ وطالبات‘جنہوں نے اپنی آنکھ ہی فوجی جبر میں کھولی ہے، احتجاج میں نہتے دنیا کی جدید ہتھیاروں سے لیس فوج کے ساتھ پتھروں سے لڑ رہے ہوتے ہیں۔ فوجی ٹینکوں کے سامنے کھڑے ہوکر کے جرات اور بہادری کے ساتھ اپنی چھاتی تانے فوج کو للکارنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نسل نے موت کے خوف پربھی قابو پا لیا ہے۔ جو انسان خوف پہ قابو پا لے تو اسے دنیا کی کوئی فوج شکست نہیں دے سکتی۔ اس لئے جب کرفیو ختم ہو گا توکشمیر کی 2016ء کی وہ تحریک جو صرف وادی کے اندر تنہا ہوچکی تھی‘ وہ کشمیر کے تمام حصوں کے اندر اپنا اظہار کر نے کی طرف جا سکتی ہے۔

1947ء کی برصغیر کی تقسیم کے ساتھ ہی کشمیر‘پاکستان اور ہندوستان کے جبراً قبضے میں آگیا۔ اس کے ساتھ ہی اس میں آزادی کی تحریک کا آغاز بھی عمل میں آیا جو مختلف اتار چڑھاؤ اورخوبیوں خامیوں کو اپنے اندر سموئے آگے بڑھتی رہی ہے۔ اس تحریک میں تیزی اسّی اور نوے کی دہائی میں آئی اور اس وقت کشمیر پر قابض دونوں ممالک کشمیر کی اس قومی آزادی کی تحریک کو خون میں نہلانے کے درپے ہو گئے۔ اس کے بعد پاکستانی زیر انتظام کشمیر سے مسلح جہاد شروع کروایا گیا اور کشمیر کی غیر مسلح جہدوجہد کو جہاد کا ٹیگ لگا کے اس سے ہندوستانی ریاست کو وہ موقع فراہم کیا گیا جس کے ذریعے با آسانی وہ کشمیر میں قتل عام کر سکے۔ 1990ء سے لے کر آج تک 94479 کشمیری قتل ہوئے، 7048 زیر حراست تشدد برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے مارے گئے، 10125 گمشدہ ہیں اور 10283 خواتین گینگ ریپ کا شکار ہوئی ہیں۔ یہ وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے ہیں اور یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو گی۔

2016ء کے بعد کشمیر کی آزادی کی تحریک میں نئی نسل پرانی اور روایتی قیادت کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل گئی ہے جو اب کسی سامراجی طاقت یا گماشتہ قیادت کے سیاسی کنٹرول میں نہیں ہے۔ اس تحریک کے دوران جہاں نوجوانوں نے اسلحہ اٹھانے سے انکار کر دیاہے وہیں پر ہندوستانی ریاستی جبر نوجوانوں کو ایک خود رو مسلح جہدوجہد پر مجبور بھی کر رہا ہے۔ اس وقت کشمیر کی تحریک ایک انقلابی قیادت کی تلاش میں ہے۔ ہندوستان میں موجود تمام کمیونسٹ پارٹیاں سرمایہ دارانہ نظام کی حواری بن چکی ہیں اور نظریات کے فقدان کی وجہ سے تحریک کو ایک انقلابی لائحہ عمل دینے سے قاصر ہیں۔

پانچ اگست کے بعد سے لائن آف کنٹرول کی دونوں ا طراف کشمیر میں قومی محرومیاں کھل کر اپنا اظہار کر رہی ہیں اور دونوں اطراف روزگار، تعلیم اور معاش کے بنیادی مسائل موجود ہیں جو اس نظام میں نا قابل حل ہو چکے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کی حکومتیں ہمیشہ کشمیر کے مسئلے کو اپنے اندرونی تضادات پر پردہ ڈالنے، محنت کشو ں اور نوجوانوں کی بغاوتوں کو کچلنے اور طبقاتی جڑت کو توڑنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اس مسئلے پر دونوں ممالک ڈھائی جنگیں بھی کر چکے ہیں جس میں پھر قتل وغارت گری محنت کشو ں کی ہی ہوئی ہے۔ دونوں اطراف کی بورژوازی اور اسٹیبلشمنٹ اور عالمی سامراجی طاقتوں کے منافعے وار انڈسٹری کے ساتھ بھی منسلک ہیں۔ اس لیے کچھ وقت کے لیے مسئلہ کشمیر کو لے کر دونوں ممالک کے درمیان کبھی جنگی جنون تو کبھی دوستی کے ناٹک ہوتے رہتے ہیں۔ قومی شاونزم کی زہریلی مہم کے ذریعے محنت کشو ں کی طبقاتی جڑت کو توڑا جاتا ہے اورمذہبی بنیاد پرستی کو ابھار کر انقلابی تحریکوں میں دراڑیں ڈالی جاتی ہیں۔

آرٹیکل 370 کے خاتمے کے ایک ماہ بعد بھی کشمیر میں کرفیو نافذ ہے۔ جہاں ایک طرف پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں ریاستی آشیر باد کے ساتھ کچھ مظاہرے ہندوستان کے خلاف کروا ئے جا رہے ہیں وہیں پر پاکستانی حکمرانوں اور مسلم امہ کے اتحادکی قلعی اس مسئلہ پر عوام کے سامنے کھل کر عیاں ہو چکی ہے۔ کشمیر کی آزادی کا حل امریکی سامراج اور یو این سلامتی کونسل سے لینے کی بات کی جارہی ہے۔ اقوامِ متحدہ جیسے اداروں کو لینن نے چوروں کے باورچی خانے قرار دیا تھا۔ ان عالمی اداروں نے ہمیشہ سامراجی دلالی کا کردار ادا کیا ہے۔ محکوم قوموں اور محنت کش طبقات کے قتل عام کا تماشہ دیکھا ہے۔ ان سے کبھی بھی خیر کی امید نہیں کی جا سکتی۔ ہندوستانی کارپوریٹ میڈیا کی طرح پاکستانی میڈیا بھی کشمیر کے متعلق درست معلومات عوام تک لانے سے کتراتا ہے۔ مکمل میڈیا سنسر شپ ہے اور نام نہاد دانشور یہ جگالی کرتے نہیں تھکتے کہ عمران حکومت نے ہندوستان کو سفارتی محاذ پر شکست سے دوچار کر دیا ہے۔ حالانکہ بورژوا سیاست اور سفارت کے نکتہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو پاکستان اس وقت شدید عالمی تنہائی کا شکار ہو چکا ہے۔ موجودہ حکومت ہر محاذ پر مسلسل ناکام ہوتی نظر آ رہی ہے۔ ایسے میں ہر جمعہ ایک گھنٹہ کھڑے ہو کر کشمیر کے ساتھ یکجہتی کو بہت بڑا قدم بنا کر پیش کیا جا رہاہے۔

کشمیری عوام کو اگر کسی کی یکجہتی کی ضرورت ہے تو وہ پاکستان اور ہندوستان کے محنت کشو ں کی یکجہتی ہے جس سے دونوں اطراف کے حکمران خوف زدہ ہیں۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے کاسب سے زیادہ فائدہ دونوں طرف کی حکومتیں اٹھا رہی ہیں۔ جنہیں وقتی طور پر وسیع تر عوام کے سلگتے ہوئے مسائل سے توجہ ہٹانے کا موقع مل گیا۔ کشمیر کے ایشو کو استعمال کر کے تحریک انصاف کی حکومت ہر روز محنت کش طبقے پر کوئی نیا وار کر رہی ہے۔ دوسری طرف ہندوستان کی معیشت بھی شدید بحران کا شکار ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ہندوستانی معیشت کی حقیقی شرح نمو صرف فیصد رہ گئی ہے۔ ایسے میں مودی اب ’وِکاس‘ (ترقی) کا نعرہ بھی نہیں لگا سکتا‘ عملاً کوئی بہتری تو دور کی بات ہے۔ جن وعدوں کے ساتھ یہ سرمایہ دارانہ نظام کی شدید بحرانی کیفیت میں اقتدار میں آئے ہیں‘ اس کے پیش نظر عوام سے کیا گیا ایک وعدہ بھی پورا کرنے سے قاصر ہیں۔ بلکہ عوام دشمن پالیسیاں دونوں کا ایجنڈا ہے۔ لیکن یہ سلسلہ بھی لمبا عرصہ چلنے والا نہیں۔

ریڈ کلف لائن کے دونوں طرف پرولتاریہ کی جڑت کشمیر کے زخموں پر مرہم رکھ سکتی ہے اور اس کا مظاہرہ پانچ اگست کے بعدسے لاہور میں لاہور لیفٹ فرنٹ کے کشمیر یکجہتی مارچ، پورے ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی (مارکسسٹ) کے احتجاجوں اور پاکستانی کشمیر سمیت راولپنڈی میں پیپلز نیشنل الائنس کے مظاہروں کی صورت میں ہو رہا ہے۔

ہمالیہ کے پہاڑوں میں گونجنے والے مقبول ترین نعرہ ”اس پار بھی لیں گے آزادی، اس پار بھی لیں گے آزادی“ کو صرف برصغیرکے محنت کشو ں کی طبقاتی جڑت ہی حقیقت بنا سکتی ہے۔ مارکسسٹ محکوم قوموں کے حق خود ارادیت بشمول حق علیحدگی کا احترام کرتے ہیں کیونکہ اس سلسلے میں لینن نے کہا تھا کہ قومی جہدوجہد کے تمام دریاؤں کو طبقاتی جہدوجہد کے سمندر میں اتارنا انقلابیوں کے لئے لازم ہوتا ہے۔ ایک انقلابی قیادت ہی اس خطے کی انقلابی تحریکوں کو درست سمت فراہم کرتے ہوئے کشمیر کی مکمل آزادی سمیت بر صغیر کے بٹوارے کے زخموں کا مداوا کر سکتی ہے۔