لال خان

مرتضی بھٹو کی موت کو تئیس سال بیت گئے۔ اسکے قاتل آج بھی اعلیٰ عہدوں پر تعینات ہیں اور ان کے محلات دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ قاتل پُرتعیش زندگیاں گزار رہے ہیں۔ انکوسب جانتے بھی ہیں مگر بہت کم نام لیتے ہیں۔ عام طور پر جب اس ملک میں کوئی لیڈر قتل ہوتا ہے تو زیادہ زور وشور اس پہلو پر ہوتا ہے کہ اس کے قاتلوں کا ابھی تک سراغ نہیں مل سکا۔ لیکن اگر سراغ ملنے ہوتے تو پھر ان کو قتل کروانے کی ضرورت ہی نہ پیش آتی۔ اہم نقطہ یہ ہے کہ جب حکمران طبقات کے مختلف دھڑوں کے معاشی مفادات پر مبنی باہمی لڑائیوں اور سیاسی ٹکراؤ کی بنا پر قتل کے شواہد اور قاتل نہیں ملتے تو اس نظام اور ریاست کے دشمنوں کے قاتلوں کو بعدمیں کون پہچانے، بے نقاب کرے اور سزائیں دے گا؟

مرتضیٰ بھٹو نے حکمران سیاست اور نظام سے دشمنی مول لی تھی۔ مسلح جدوجہد کا راستہ اپنانے والوں کو ایک کہیں زیادہ مسلح اوردیوہیکل حاکمیت کبھی فراموش کرتی ہے نہ کبھی چھوڑا کرتی ہے۔ لیکن عام لوگوں میں یہ سوال بار بار ابھرتا ہے کہ اگرچہ مرتضیٰ بھٹو کی جدوجہد، قربانی اور جان پر کھیل جانے کی جرات اور نظریاتی پختگی بے نظیر بھٹو کی سیاسی جدوجہد سے کہیں زیادہ تھی تو پھر مرتضیٰ بھٹو کو پیپلز پارٹی کی روایت کی وراثت اور اکثریت کی حمایت کیوں حاصل نہ ہوسکی؟ ’’تاریخ میں فرد کا کردار‘‘ کے نام سے پلیخانوف نے بہت سیر حاصل تحریر لکھی تھی۔ انقلابات کے بار بار بکھر جانے اور ترقی کے’ ناہموار اور بے ہنگم طرز‘ نے پاکستان جیسے معاشروں میں عمومی سماجی شعور کو بھی کہیں بہت زیادہ ایڈوانس کردیا ہے اور کہیں یہ پسماندگی کا شکار ہو کر افراد کی پیروکاری میں مبتلا ہے، جس سے سیاست میں فرد کا کردار ضرورت سے کہیں زیادہ بالادست ہوجاتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ شخصیات کا تاریخ اور انقلابات میں ایک کلیدی کردار ہوتا ہے، لیکن اسکی مبالغہ آرائی اس وقت جنم لیتی ہے جب پارٹیاں کمزور ہوتی ہیں اور ان کے دوسرے لیڈر اور اہل کار یا تو انتہائی کاسہ لیسی کا کردار اپنا لیتے ہیں یا پھر اس کاسہ لیسی کے پردے میں ریاکاری سے حقیقی قیادت کے خلاف خفیہ سازشوں اور غداریوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں پارٹیوں کو ہی نقصان پہنچتا ہے۔

لیکن جن پارٹیوں کی نظریاتی بنیادیں مضبوط ہوں، ہمت، جرات اور جذبے بلند ہوں وہ ایسے بحرانوں سے زیادہ طاقتور اور فعال ہو کر نکلا کرتی ہیں۔ تاہم پیپلز پارٹی کوئی ایسی پارٹی نہ تھی۔ آغاز میں اس کے بانیوں نے اس کو ٹھوس نظریاتی اور انقلابی سوشلزم کے سائنسی نظریات پر استوار کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن یہ سب کچھ معمول کے حالات میں نہیں بلکہ ایک امڈتی عوامی بغاوت کے طوفان کے تھپیڑوں میں کیا جارہا تھا۔ اسی لیے خصوصاً اقتدار میں آنے کے بعد بھٹو کی شخصیت پارٹی کا متبادل بننی شروع ہو گئی تھی۔ اگر پارٹی نظریاتی اور تنظیمی طور پر مضبوط ہوتی تو بھٹو کی مقبولیت سے انقلابی پروگرام آگے بھی بڑھتا اور بھٹو بھی پارٹی کے سامنے جوابدہ ہوتا، مشترکہ جمہوری بنیادوں پر پارٹی کے فیصلے، پالیسیاں اور حکمت عملی تشکیل پاسکتے تھے۔ لیکن پیپلز پارٹی کی اس خامی کا خمیازہ بھی پھر بھٹو کو ہی سب سے زیادہ بھگتنا پڑا تھا۔ بیگم نصرت بھٹو جب راولپنڈی جیل میں بھٹو صاحب سے آخری ملاقات کرنے گئیں تو ذوالفقار علی بھٹو بار بار پارٹی کی جانب سے تحریک نہ چلانے کا شکوہ کرتے رہے۔ نصرت بھٹو نے آخر میں صرف ایک ہی جواب دیا تھا ’’ذوالفقار ! تم باہر کوئی ’بالشویک پارٹی‘ چھوڑ کر آئے تھے کہ اب شکوہ کررہے ہو؟‘‘۔

اقتدار کے دور میں پارٹی پر مسلط ہونے والی زیادہ تر ’قیادت‘ بھٹو کی موت کے بعد یا تو پارٹی سے بھگوڑی ہو گئی یا پھر فرار۔ ریاستی اقتدار میں پارٹیوں کے ڈھانچے ٹوٹتے ہیں، فعال اور مضبوط نہیں ہوا کرتے۔ فوجی بغاوت کے بعد پارٹی میں کئی رجحانات پیدا ہوئے، ان میں سے زیادہ جوشیلے، غم اورانتقام کی آگ سے بھرے نوجوانوں میں مسلح جدوجہد کا رجحان ابھرا۔ جب تمام عالمی اور ’مسلم لیڈروں‘ سے فریاد کر کر کے بھی مرتضیٰ بھٹو اپنے والد کی جان بچانے میں ناکام ہوا تو اس نے اسی مسلح جدوجہد کے راستے کو اپنایا۔ یہ راستہ جہاں پُر خار اور خطرناک ہوتاہے وہاں ایسے راستوں پر چل نکلنے والوں کے لیے پھر مروجہ سیاست اور معمول کی زندگی میں لوٹنا ممکن نہیں رہتا۔ اس میں ہار یا جیت زندگی اور موت کا کھیل ہوتا ہے۔ واپسی کا صرف ایک ہی طریقہ ہوتا ہے کہ حکمرانوں کے وعدہ معاف گواہ بن کر اپنے مقصد اور نظریے سے غداری کا مرتکب ہوا جائے۔

اس کے برعکس بے نظیر ’مصالحت‘اور ’مفاہمت‘ کے جس راستے پر چل پڑی تھی وہ مرتضیٰ کے مقابلے میں دوسری انتہا تھی۔ یعنی مروجہ نظام اور سیاست کا حصہ بن کر اقتدار کے حصول کا راستہ۔ اسی پالیسی کے تحت ہی اس کو مغربی سفارتکاری کے ذریعے 1984ء میں رہائی ملی اور وہ لندن میں قیام پذیر ہوئی۔ برطانوی اصلاح پسند دائیں بازو کے ڈیوڈ اون جیسے لیڈر ان کے اصلاح کار اور سیاسی گرو بنے۔ امریکہ کے دوروں کے دوران انہوں نے سفارتی کوششوں کے ذریعے پاکستان واپس آنے اور اقتدار حاصل کرنے کی سیاست بھر پور انداز میں شروع کردی۔ سامراج کی انگلی پکڑ کرچلنے والی قیادتوں کی پارٹیوں کوانقلابی اور سوشلسٹ نظریات سے دستبردار ہونا پڑتا ہے، اپنے ذاتی دشمنوں کو بھی گلے لگانا پڑتا ہے۔ نہ انقلابی سیاست کی جاسکتی ہے اور نہ ہی عوام پر قہر ڈھانے والوں کے خلاف کوئی اقدام اٹھانے کی گنجائش رہتی ہے۔

مغربی سفارتکاری سے اسی ’مفاہمت‘ کی بنیاد پر 1986ء میں بے نظیر کی پاکستان واپسی ہوئی۔ یہاں عام نوجوانوں اور محنت کش عوام ان سے کچھ اور ہی توقعات لگائے بیٹھے تھے۔ لاہور میں 10 اپریل کو ان کے استقبال کے لیے لاکھوں افراد امڈ آئے۔ وہ ’’بے نظیر آئی ہے، انقلاب لائی ہے!‘‘ کا نعرہ لگا رہے تھے لیکن بے نظیر کی واپسی انقلاب کے مقصد کے لیے تو نہیں کروائی گئی تھی۔ بہرکیف اس عوامی ابھار نے ضیا الحق کی جابرانہ آمریت کے دن گن دیئے تھے۔ اس کا چلے جانا ٹھہرچکا تھا۔ اس کے جانے کا راستہ اس کے رویے کے مطابق ہی اس کے سامراجی آقاؤں نے طے کیا۔

لیکن جب مرتضیٰ بھٹو واپس آیا تو وہ اسکی بہن اور پیپلز پارٹی کا دوسرا اقتدار تھا۔ پیپلز پارٹی کی ان حکومتوں میں عوام کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا، ان کو جس مایوسی اور بددلی کا شکار ہونا پڑا تھا اس سے 69ء کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کی پنجاب اور سندھ میں ساکھ بہت حد تک مجروع ہوچکی تھی۔ اس تنزلی کا مرتضیٰ کو دو حوالوں سے نقصان اٹھانا پڑا۔ وہ ایک دہائی سے سیاسی عمل سے دور تھے۔ بے نظیر ہی عوام کے سامنے تھی اور ان کی مفاہمت پر مبنی پالیسیوں کی وجہ سے میڈیا اور حکمران ذرائع ابلاغ نے انہی کو پیپلز پارٹی کا تشخص بنا کر عوام کے شعور پر ’مسلط ‘کردیا تھا۔ دوسری جانب جب مرتضیٰ نے اپنی جدوجہد اور پیپلز پارٹی کے بنیادی سوشلسٹ پروگرام پر سیاست کرنے کی کوشش کی تو ان کو ایسے عوام کا سامنا تھا جو پیپلزپارٹی کے دو اقتداروں سے اس حد تک بد ظن ہوچکے تھے کہ ان میں شاید وہ ہمت اور حوصلہ ہی نہیں رہا تھا کہ وہ دوبارہ اس پارٹی کے لیے ایک نئی جنگ کرنے میدان میں اترتے۔ اس سے مرتضیٰ کو جس مایوسی کا شکار ہونا پڑا وہ ایک طرف تھی لیکن اس کا غم وغصہ اور بغاوت اس کو نظام سے ٹکرانے کے لیے بار بار ابھار رہے تھے۔ لیکن پھر عوام ٹکراتے بھی تو کس سے؟  پیپلز پارٹی ہی کی حکومت سے؟ یہ تاریخ کا وہ المناک تضاد ہے جس کی وجہ سے مرتضیٰ بھٹو وسیع عوامی تحریک ابھارنے اور اس نظام کو بدلنے کی اپنی خواہش کو آگے نہیں بڑھاسکے۔ اسی کشمکش میں ریاستی قوتوں نے پس پردہ رہتے ہوئے ’’اپنوں‘‘ کی سازشوں کے ذریعے ہی 1996ء میں انکا بہیمانہ خون کروایا۔ خون تو اوروں کا بھی گرا مگر مرتضیٰ لڑتے ہوئے مرا تھا۔ مصالحت اس نے آخری دم تک نہیں کی تھی۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انقلابات بندوقوں کی گولیوں سے نہیں، نوجوانوں اور محنت کشوں کے عزم، حوصلے اور ان کے سماجی کردار کو باشعور کرکے ایک بغاوت میں بدل دینے سے آیا کرتے ہیں۔

آج حقیقت یہ ہے کہ عوام جن تجربات سے گزرے ہیں، جن معاشی اور سماجی عذابوں کا شکار ہیں، ان میں اتنے دبے ہوئے ہیں کہ اب ان کو ایسی موروثی شخصیات اور ناموں پربھروسا نہیں رہا۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ عوام پھر نئی انقلابی تحریک میں نہیں اٹھیں گے۔ یہ بغاوت ہو کر رہے گی۔ لیکن ضروری نہیں کہ پھر جو نام اور وراثتی تشخص اتنے مجروح ہوچکے ہیں، صرف انہی کے گرد اور انہی کی پیروی میں نئے انقلاب کی لہر پھوٹے!