9 اکتوبر1967ء کو بولیویا کے شہر لاپاز سے چالیس کلو میٹر دور سنگلاخ پہاڑوں میں سی آئی اے کے اہلکاروں کی زیر نگرانی چے گویرا کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ چی گویرا کا شمار سرمایہ دارنہ جبر اور سامراجی غلبے کے خلاف لڑنے والے معروف ترین انقلابیوں میں ہوتا ہے۔ 11 اکتوبر 1967ء کو امریکی مشیر برائے قومی سلامتی والٹ وٹمین روسٹوو کی جانب سے صدر لنڈن بی جانسن کو بھیجے گئے ایک مراسلے میں چے گویرا کو قتل کرنے کے فیصلے کو ’’احمقانہ‘‘ لیکن ’’بولیویا کے نکتہ نظر سے قابل فہم‘‘ قرار دیا گیا۔

 

چے ایک مارکسی انقلابی تھا اور فیڈل کاسترو کے ساتھ 1959ء میں ہونے والے انقلاب کیوبا کا لیڈر تھا۔ وہ فیڈل اور راؤل کاسترو کی ’26 جولائی تحریک‘ میں شامل ہوکر کیوبا کے امریکہ نواز ڈکٹیٹر فلگینشیو باتیستا کے خلاف جہدوجہد میں سرگرم ہوا اور اس آمریت کا تختہ الٹنے والی دو سالہ گوریلا جنگ میں اہم کردار ادا کیا۔ تاہم ہوانا اور کیوبا کے دیگر شہروں جہاں سامراجیوں کی زیادہ تر صنعت مرکوز تھی، کے محنت کشوں کی عام ہڑتال نے انقلاب کی فتح میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔

انقلاب کے بعد چے گویرا نے انقلابی ٹربیونلز منظم کیے، زرعی اصلاحات، خواندگی کی انتہائی کامیاب مہم اور مسلح افواج کی تعمیر میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اس نے کئی ممالک کے دورے کیے اور کیوبا کی انقلابی حکومت کی نمائندگی کی۔ وہ ایک شاندار مصنف اور شاعر تھا اور اس کی تحریرو ں میں گوریلا جنگ پر کتابچہ اور اس کی یاداشتیں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ وہ طلبہ سیاست میں ایک پرجوش مارکسی کارکن تھا۔

مارکسی فکر کے تحت وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ محنت کش طبقے اور محکوم لوگوں کی آزادی کا واحد راستہ پرولتاری عالمگیریت پر مبنی طبقاتی جدوجہد اور ایک عالمی انقلاب کی کامیابی ہے۔ چے نے لکھا کہ ’’مارکس کی فضیلت یہ ہے کہ وہ سماجی افکار میں ایک معیاری تبدیلی پیش کرتا ہے۔ وہ تاریخ کی تشریح کرتا ہے، اس کی حرکیات کو سمجھتا ہے، مستقبل کی پیش بندی کرتا ہے (جو اس کی سائنسی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے کافی ہیں) لیکن اس پیش بندی کے ساتھ وہ ایک انقلابی نظریہ بھی پیش کرتا ہے، کہ محض دنیا کی تشریح کافی نہیں، اسے بدلنا بھی ضروری ہے۔ انسان اپنے ماحول کی غلامی اور اسکا آلہ کار ہونے سے آزادی پا کر ہی اپنی تقدیر کا مالک بن سکتا ہے… خود کو ایک جنس کے طور پر بیچنے کی مجبوری سے آزاد ہوکر ہی انسان مکمل انسانی حالت میں آتا ہے‘‘۔ ( انقلابِ کیوبا کے نظریات کے مطالعے کے لیے نوٹس، اشاعت ویردے اولیوو، 8 اکتوبر 1960ء)۔

چے کے ذمہ داریاں سنبھالنے پر تمام تعلیمی اداروں، ماس میڈیا، کمیونٹی اور آرٹ کی سہولیات کو نیشنلائیز کر کے سوشلسٹ انقلابی نظریات کی ترویج کے لیے استعمال کیا گیا۔ ترقی کے اس نئے ماڈل کے بارے میں اس نے کہا کہ ’’آزاد کاروبار (فری مارکیٹ) کی ترقی اور انقلابی ترقی میں بہت بڑا فرق ہے۔ ایک میں دولت چند خوش نصیبوں کے ہاتھ میں مرکوز ہوتی ہے، جن میں حکومت کے دوست اور بد ترین دھوکہ باز وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب دولت عوام کی مشترکہ ملکیت ہوتی ہے…سوال یہ نہیں ہے کہ کوئی انسان کتنے کلو گوشت کھا سکتا ہے یا سال میں کتنی مرتبہ ساحل سمندر کی سیر کرتا ہے یا اپنی آمدنی سے کتنے غیر ملکی ہیرے جواہرات خرید سکتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ انسان خود کو کتنا مکمل محسوس کرتا اور اسکی اندرونی دولت اور احساس ذمہ داری کس قد ر بلند ہیں‘‘۔

11 دسمبر 1964ء کو چے گویرا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کیوبا کے وفد کا سربراہ تھا۔ اپنی ایک گھنٹے کی پرجوش تقریر میں اس نے کہا کہ  ’’اس عظیم تاریخی جدوجہد کا فیصلہ بھوکے عوام، بے زمین دہقان اور استحصال زدہ محنت کش کریں گے جو سامراجی ذلت اور حقارت کو سہہ رہے ہیں…فیصلے کی اس گھڑی میں یہ گمنام عوام اپنی تقدیر اپنے ہی خون سے لکھنا شروع کریں گے اور ان حقوق کو پانے لگیں گے جن کو وہ 500 سال سے مانگ رہے ہیں لیکن ہر کوئی ان پر ہنستا تھا… غصے کی یہ لہر ملکوں ملکوں پھیلتی جائے گی اور تاریخ کا پہیہ چلانے والے محنت کش عوام جو اب تک ایک طویل اور اذیت ناک نیند سو رہے تھے، اب پہلی مرتبہ بیدار ہو رہے ہیں‘‘۔

17 دسمبر کو چے گویرا نیو یارک سے دنیا بھر کے دورے پر روانہ ہوا جس میں فرانس، عوامی جمہوریہ چین، شمالی کوریا، متحدہ عرب جمہوریہ، الجزائر، گھانا، گنی، مالی، داہومی، کانگو، برازیل، تنزانیہ کے ساتھ آئرلینڈ اور پراگ بھی شامل تھے۔ اس دورے کے دوران اس نے یوراگوائے کے ایک ہفت روزہ اخبار کے ایڈیٹر کارلوس کوئیجانو کو ایک خط میں لکھا: ’’سرمایہ داری کے اندھے اور اکثریت کی آنکھوں سے اوجھل قوانین انسان پر اس کی مرضی اور سوچ کے بغیر عمل کرتے ہیں۔ اسے اپنے سامنے صرف ایک بظاہر لا محدود افق کی وسعت دکھائی دیتی ہے۔ راک فیلر کی کامیابی کی مثالیں دینے والے سرمایہ داری کے حامی تویہی تصویر پیش کرتے ہیں۔ لیکن راک فیلر کی کامیابی اور دولت کے لیے جس پیمانے کی غربت اور تکلیف ضروری ہے اور اس پیمانے کی دولت کے ارتکاز سے جو محرومی جنم لیتی ہے اس کا ذکر نہیں کیا جاتا۔ عام طور پر لوگوں کو یہ تصویر دکھانا ہمیشہ ممکن نہیں ہوتا…‘‘

’چی گویرا: انقلاب کی معاشیات‘ کی مصنفہ ہیلن گیف نے لکھا کہ ’’اس وقت کے بعد سے گویرا کی نجی تحریروں میں سوویت یونین کی سیاسی معیشت پر بڑھتی ہوئی تنقید دکھائی دیتی ہے۔ اس کے مطابق سوویت ’مارکس کو فراموش‘ کر چکے ہیں۔ چنانچہ اس نے سوویت یونین کی کئی پالیسیوں کی مذمت کی جن میں سرمایہ داری سے سوشلزم کی جانب تبدیلی کے لیے طبقاتی جدجہد کے لازمی جزو تشدد پر پردہ ڈالنے کی کوششوں اور امریکہ کے ساتھ پر امن بقائے باہمی کی خطرناک پالیسی شامل ہے۔ گویرا پیسے، سود، اجناس کی پیداوار، منڈی کی معیشت اور تجارتی رشتوں کا مکمل خاتمہ چاہتا تھا…‘‘

بولیویا روانگی کے وقت اس نے اپنی بیوی اور پانچ بچوں کے نام ایک وصیتی خط میں لکھا کہ ’’سب سے بڑھ کر، دنیا میں کہیں بھی، کسی کے ساتھ بھی ہونے والی کسی بھی نا انصافی پر تکلیف محسوس کرنا۔ یہ ایک انقلابی کی سب سے خوبصورت خاصیت ہے‘‘۔  

جہاں دنیا بھر کے محکوم اور نوجوان چے سے محبت کرتے تھے وہیں سامراجی حکام اور سرمایہ داری کے منصوبہ ساز اس سے متنفر اور خوف زدہ تھے۔ درحقیقت وہ سوشلسٹ انقلاب کا سب سے طاقتور، پر اثر اور مشہور نشان بن گیا تھا۔ سامراجی چے گویرا کو قتل کرنے کے لیے بے چین تھے۔ 1957-1968ء تک سی آئی اے کے ایجنٹ رہنے والے فلپ ایگی نے اپنی یاداشتوں میں لکھا ہے کہ ’’کمپنی ( سی آئی اے) کو چے گویرا سے زیادہ کسی انسان کا خوف نہیں تھا کیونکہ اس میں روایتی اقتداروں کے سیاسی جبر کے خلاف جدوجہد کی قیادت کرنے کی صلاحیت اورکرشماتی شخصیت موجود تھی‘‘۔

2008ء میں بولیویا میں صدر ایوو مورالس کی حکومت نے چے گویرا کی دو پرانی نوٹ بکس پر مشتمل ’مہر بند‘ ڈائریوں اور اس کے روزنامچے اور کئی بلیک اینڈ وائٹ تصاویر جاری کیں۔ اسی ملک میں چے گویرا کو سی آئی اے کی ایما پر قتل کیا گیا تھااور موجودہ بائیں بازو کی حکومت نے اسے تمام اعزاز و اکرام دئیے ہیں۔ چے کی میراث نہ صرف جاری و ساری ہے بلکہ آج اسکا احترام ماضی سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ آج بھی سماج کی انقلابی تبدیلی اور امید کا نشان ہے، بالخصوص نوجوانوں کے لئے۔

موت سے چند ماہ قبل تین بر اعظمی کانفرنس کے لیے اپنے آخری پیغام میں چے گویرا نے لکھا تھا کہ ’’ہمیں موت جہاں بھی ملے، ہم بانہیں کھولے اس کا استقبال کریں گے، لیکن اس شرط پر کہ ہماری پکار کسی اورکے کانوں تک پہنچے اور ہمارے ہتھیار اٹھانے کے لیے اور ہاتھ تیار ہوں‘‘۔