قمرالزماں خاں

مولانا فضل الرحمان گناہ بے لذت کے قائل نہیں ہیں۔ جس حکومت میں نہ ہوں اس کے گرنے سے ان کا کیا جائے گا؟ ان کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہے۔ نواز شریف جیل اور تنہائی کی صعوبتوں سے سمجھوتا کرچکے ہیں۔ اب ان کو جیل سے آگے کہاں بھیجا جاسکتا ہے؟ مریم نے وہ مرحلہ طے کرلیا ہے جس سے ڈرا کر اہل حکم سیاسی رہنماﺅں کو کنٹرول کیا کرتے ہیں۔

حکومت نے تاش کے سارے پتے شوکردیے ہیں مگر اس کے پاس کوئی بھی کامیابی کا پتہ نہیں ہے۔ پورے نظام کا ملبہ گزشتہ حکومتوں اور پارٹیوں پر ڈال کر بھی کام نہیں بن رہا۔ بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمارسے لوگوں کا بھرکس نکال دیا گیا ہے مگر بے تحاشہ مہنگائی، ایک سال میں تاریخی قرضوں، آئی ایم ایف کے پیکیج اورترقیاتی کاموں کو ٹھپ کرکے ان رقوم کو بھی اس نظام کے اندھے کنویں میں ڈال دیا گیا ہے مگر یہ کیسی ڈائن ہے جس کا پیٹ نہیں بھر پا رہا ؟ پاکستانی معیشت بحرانی بلیک ہول کی طرف بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ ”دوست ممالک“ کے قرض کی رقم سٹیٹ بینک میں رکھنے کے باجود زرمبادلہ کے ذخائر بڑھنے کی بجائے کم ترین سطح پر آچکے ہیں۔ کشمیر کا محاذ فقط تقریری مقابلوں کے سپرد کردیا گیا ہے۔

لوگوں کو معلوم پڑ رہا ہے کہ کشمیر کے دوسرے حصے پر بھارتی فوج کے مظالم، کرفیو، خواتین کی بے حرمتی اور نوجوانوں کی بڑی تعداد کی ہراستی کیمپوں میں منتقلی پر ہمارے پاس کرنے کیلئے صرف تقرریں ہی ہیں۔ حکومت کی زبوں حالی، معاشی، سماجی اور عوامی سطح پرمایوس کن کارکردگی، ترقیاتی کاموں کے رک جانے کی وجہ سے انفراسٹرکچر کی بربادی اور ہرداخلی و خارجی محاذ پر ناکامی ایک ایسے منظر نامے کو پیش کر رہی ہے کہ اگر کوئی حقیقی اپوزیشن جس کے پاس عوام کی نجات کا قابل عمل ایجنڈا ہو تو حکومت (چاہے اس کی پشت پر اسٹیبلشمنٹ ہی کیوں نہ ہو) کو ناکوں چنے چبوائے جاسکتے ہیں۔ ایسے میںاپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی مسلسل ٹال مٹول کو ایک بڑے امتحان کا سامنا ہے۔ ”آزادی مارچ “ قراردیے جانے والے دھرنے اوراسلام آباد لاک ڈاﺅن کیلئے جمعیت علمائے اسلام (ف)نے بالآخر 27اکتوبرکی فائنل تاریخ دے ہی دی ہے۔ اب اپوزیشن کی متذکرہ بالا جماعتوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اپنے حکومت کے خاتمے کے موقف کیلئے کیا عملی قدم اٹھاتے ہیں۔ دھرنے اور مارچ میں شامل ہوکر وہ خطرات کا سامنا کرتے ہیں یا پھر کسی نئی بہانہ بازی کے ذریعے پتلی گلی سے نکل جانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں!

مروجہ سیاست کی بساط کے مشاق شاطر‘ جمعیت علمائے اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمان نے عمران خان کی حکومت کوگرانے کی اس تحریک کے پہلے دن کو ’کشمیر ی عوام کے ساتھ یکجہتی کا دن ‘قراردیا ہے۔ اس اعلان سے انہوں نے کشمیر کارڈپرحکومتی اجارہ داری کوبھی چیلنج کر دیا ہے۔ حکومت کے وزیرخارجہ مولانا کو تاریخ بدلنے کی استدعا کر رہے ہیں۔ حکومتی منت سماجت کی وجہ 27 اکتوبر کی تاریخ بھی ہے، جس دن پاکستانی حکومت ‘مقبوضہ کشمیر پر بھارت سرکار کے جبر کے خلاف یوم سیاہ منانے کاارادہ رکھتی ہے۔ اسی دن اگر آزادی مارچ بھی ہوگا تو عالمی رائے عامہ کے سامنے دوسرا منظر اسلام آباد کا ہوگا جہاں آزادی مارچ کو پاکستانی حکومت جبر اور طاقت سے دبانے کی کوشش کر رہی ہوگی۔ یہ مناظر شرمندگی کا باعث بن سکتے ہیں۔

مولانا نے ایک تیر سے بہت سے شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے پاس مذہبی مصالحے بھی ہیں۔ پاکستانی ریاست اور یہاں کے مذہبی حلقوں کے اشتراک سے دہائیوں سے کچھ موضوعات کو حساس ترین بنایا گیا ہے جن کو بوقت ضرورت سیاسی استعمال کیلئے میدان میں لایا جاتا ہے۔ انہی میں سے ایک مسئلے کومولانا نے ابتدائی طور پر اپنی جماعت اور دیوبندی حلقوں میں ابھار کر مذہبی شدت پسندوں (بالخصوص مدرسوں سے وابستہ طلبہ اورعلما) کو”آزادی مارچ“ کا ہراول دستہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ وزرا کی گیدڑبھبکیاں حکومتی حلقوں اور ان کے پشت پناہوں کی سراسیمگی ظاہر کر رہی ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی لگتا ہے کہ مولانا اور ان کے مارچ کو بھی ریاستی اسٹیبلشمنٹ کے ایک حصے کی حمایت حاصل ہے۔ یوں سیاسی پراکسیوں کا نیا ٹاکرا ہونے کو ہے۔ اگرحکومت”آزادی مارچ‘ ‘ کو ریاستی طاقت سے کچلنے کی کوشش کرتی ہے تو اس سے ”آزادی مارچ “ کے شرکا مزید چارج ہوسکتے ہیں۔

اگر اس ٹکراﺅ سے خون کی چند بوندیں بھی گرتی ہیں تو پھر ان کو برقی لہروں سے دکھنے والی سکرین پر سمند ر بنانا کوئی بڑا مسئلہ نہیں رہے گا۔ ایسا ہونے سے تحریک کے سیاسی فوائد تو ہونگے مگر ساتھ ہی تحریک کا منہ زور گھوڑا کس سمت بھاگنا شروع کردے اس کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا۔ ویسے تو مولانا بہت زیرک سیاست دان ہیں اور انہوں نے آزادی مارچ کے ’مذہبی‘پہلوپر دیگر جماعتوں کے ”تحفظات“ ختم کردیے ہونگے لیکن یہ تحفظات ویسے بھی بے معنی ہیں کیونکہ پاکستان میں تقریباًہر جماعت نے ہی مذہبی سٹنٹ کو استعمال کیا ہے۔ پی پی پی یا نون لیگ جیسا سیکولر تاثر دے رہی ہیں یہ ایسے ہی غلط ہے جس طرح پی پی پی کو موجودہ معاشی پروگرام اور نظریات کے ہوتے ہوئے ترقی پسند پارٹی متصور کیا جائے۔ مسلم لیگ (جس کو اب ن لیگ کہا جاتا ہے ) نے ماضی میں ضیا الحق کے مذہبی فاشزم کی کوکھ سے ہی جنم لیا تھااور متعدد دفعہ مذہبی کارڈ کو پیپلز پارٹی کے خلاف استعمال کرکے سیاسی فوائد حاصل کئے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ’قرارداد مقاصد‘ کو آئین پاکستان کا ابتدائی حصہ بنایا گیا اور پاکستان کے نام تک کو مذہبی بنادیا گیا۔ بھٹو دور کے ایسے دیگر اقدامات اس کے علاوہ ہیں۔ اگلے سالوں میں افغانستان میں ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت کے خاتمے کیلئے’ سی آئی اے ‘کے ساتھ مل کے بنائے گئے ’طالبان ‘کے معماروں کی فہرست میں بے نظیر بھٹو اور اس کے ساتھیوں کے ناموں کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ بعد ازاں پھر یہ المیہ بھی چشم فلک نے دیکھا کہ انہی طالبان (جن کو بے نظیر کا وفاقی وزیرداخلہ جنرل نصیراللہ بابر اپنے بچے کہتا تھا) کو بے نظیر کے قتل کیلئے استعمال میں لایا گیا۔ مگر شاید ’مذہبی بیانیہ ‘فقط اکیلا وہ اعتراض نہیں ہے جس کی نشاندہی کرکے نون لیگ اور پی پی پی کے نام نہاد لبرل مولانا فضل الرحمان کے ”آزادی مارچ“ کا حصہ بننے سے ہچکچا رہے ہیں۔ دیگر بہت سے معاملات ہیں اور ان میں سے کچھ تو اپوزیشن کی غیر مذہبی جماعتوں کیلئے جان لیوا ثابت ہوسکتے ہیں۔ مگر اصل وجہ کو چھپانا بھی ضروری ہے کیونکہ اس کے ظاہر ہونے سے رسوائی بھی ہے اور بہت کچھ بدل جانے کا قوی امکان بھی ہے۔ جو کم ازکم ان پارٹیوں کی قیادتیں نہیں چاہتیں۔

مولانا نے ’مارچ ‘کیلئے جو ایجنڈا تشکیل دیا ہے اس میںابھی تک کے نکات یہ ہیں۔ 1: دھاندلی زدہ الیکشن کومستردکرتے ہوئے نئے شفاف الیکشن کا انعقاد۔ 2: کشمیرسے یکجہتی۔ 3: بھاری ٹیکسوں اور مہنگائی وغیرہ سے نجات۔

مئی 2018ء کی انتخابی دھاندلی جس نے عمران خان کی اقتدارتک رسائی میں فیصلہ کن کردار ادا کیا‘ بہت اہم نکتہ ہے۔ چناﺅسے قبل حکومت کے خلاف 124 دن کا دھرنا جس میں ”ایمپائیر“کے دخل کی دھرنا دینے والے خودنشاندہی کرتے رہے، الیکشن میں مداخلت کی غرض سے ”احتساب“، مبینہ کرپشن پر مقدمات اور گرفتاریاں، پارٹیوں میں نقب زنی اور وفاداریوں کی تبدیلی، الیکشن کے بعد آزاد جیتنے والوں کو ہانک کر تحریک انصاف کا حصہ بنانا اور دیگر چھوٹی چھوٹی جماعتوں کا عمران خان کے ساتھ اتحاد کرانا وغیرہ ایسے عاملین تھے جن کو جس طرح سرعام انجام دیا گیا اس سے ماضی کی ساری دھاندلیوں کا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ ان انتخابات کے نتائج نے جہاں پیپلز پارٹی کو ایک صوبے تک محدود کر دیا اور ن لیگ سے پنجاب بھی چھین لیا وہیں بطور خاص مولانا فضل الرحمان کو قومی اسمبلی کا رکن تک نہیں بننے دیا گیا۔ منہ پھٹ عمران خان نے اس صورتحال کو مولانا کی کردارکشی اور پھبتیاں کسنے کیلئے خوب استعمال کیا۔

لیکن اب عمران خان حکومت کی ایک سال کی مسلسل ناکامی نے اس کی جعلی مقبولیت کو خاک میں ملا کرحکومت مخالف تحریک کیلئے فضا کو سازگار بنا دیا ہے مگر مہنگائی، معاشی بدحالی اور ساتھ ہی ”جمہوریت“ کے بے ثمر ہونے کے باعث عام لوگوں کے لئے انتخابات کی شفافیت بے معنی ہوچکی ہے۔ جہاں تک حقیقی جمہوریت کی بحالی کی بات ہے تو اس ملک میں موجود تمام سیاسی جماعتیں خود انتہائی غیر جمہوری ڈھانچوں پربراجمان ہیں۔ جہاں نہ تو کسی باڈی کو باقاعدہ جمہوری طریقے سے منتخب کیا جاتا ہے نہ ہی پارٹی پالیسیاں اور فیصلے جمہوری عمل کے ذریعے کیے جاتے ہیں۔ خاندانی اور مافیا طرز کی قیادتیں ‘ جمہوریت کے لفظ کو صرف عام لوگوں کے شعور کو گمراہ کرنے کیلئے استعمال کرتی چلی آ رہی ہیں۔ پھر جہاں سول اور ملٹری تعلقات کے تناظر میںجمہوریت کی بحالی کی بات کی جاتی ہے تو یہاں بھی ایک گہرا تضاد‘ بلکہ منافقت عیاں نظر آتی ہے۔ یہ درست ہے کہ موجود ہ تحریک انصاف کا خود اپنا وجود اور اس کی حکومت غیر جمہوری قوتوں کی ’سیاسی انجینئرنگ ‘کا شاخسانہ ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ حکومت برائے نام ہے اور پیچھے حقیقی حکمرانی انہی کی ہے جو اس حکومت کو بنانے کے ذمہ دار ہیں۔ عمران خان چابی والا کھلونا ہے جس میں جیسی چابی بھری جاتی ہے ویسا کھیل تماشہ وہ کرتا پھرتا ہے۔ ملک کے عدل و انصاف کے ادارے روز اول سے ہی ”نظریہ ضرورت“ کے اصول کے تحت ”انصاف “ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اسی طرح اگر کارپوریٹ میڈیا کچھ شعبوں میں (اورکچھ وقت کیلئے ) ’آزاد‘ تھا بھی تو اس کی لگامیں کافی عرصہ پہلے سے کھینچی جا چکی ہیں۔ میڈیا کو خفیہ ہاتھ ایک سال سے کنٹرول ہی نہیں کر رہا بلکہ پچھلی حکومتوں میں بھی ”متوازی حکومت“ نے معیشت، داخلہ، خارجہ، میڈیا اورعدلیہ سمیت متعدد محاذوں پر اپنی حاکمیت کے جھنڈے گاڑے ہوئے تھے۔ ایک مارشل لا سے دوسرے کے درمیان جتنی بھی حکومتیں آتی ہیں ان کی نام نہاد حاکمیت کا دائرہ کار محدود سے محدود تر ہوتا جا رہا ہے۔ پھر ستم یہ ہے کہ اب ایک کٹھ پتلی حکومت کے خاتمے کی خواہش رکھنے والی سیاسی جماعتیں نہ صرف خود ڈوریاں ہلانے والوں کے زیر اثر کام کرتی آئی ہیں بلکہ نواز لیگ کے ایک بڑے حصے سمیت وہ اب بھی بیک ڈور سے مفاہمت، مصالحت اورڈیل کیلئے انتھک کوششوں میں بھی لگی ہوئی ہیں۔ یعنی دوسرے لفظوں میں اگران کے خلاف انتقامی کاروائیوں میں نرمی برتی جائے یا وہ اقتدار میں شریک کرلی جائیں تو ان کے وہ اعتراضات دب جاتے ہیں یا ختم ہوجاتے ہیں جن کا اظہار وہ اپوزیشن میں رہ کرکرتی ہیں۔ تحریک میں آنے سے ”ریلیف“ کی غیر فطری توقع کو ضعف پہنچنے کا خدشہ ہے۔ مگرپچھلے چند دنوں سے حکومتی وزرا کے بیانات جہاں ان کی فرسٹریشن اورشکستگی کو ظاہر کررہے ہیں وہاں وہ اپوزیشن کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کا کام بھی کررہے ہیں۔ اگر سندھ حکومت پر واقعی کاری ضرب لگائی گئی یا وزیراعلیٰ سندھ کو گرفتار کیاگیا تو پھر بلاول کے پاس ”آزادی مارچ“میں شامل ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ فی الحال وہ مشاورتی عمل کے تاثر سے عملی شرکت کا”فیصلہ“ لینے میں مزید تاخیر سے کام لے سکتے ہیں۔

جمہوریت ہمارے ہاں خاصی مبہم اصطلاح ہے۔ حکمران طبقے کی جمہوریت سے مراد بھی ایک ایسا سیاسی نظام ہے جس سے فیض یاب ہونے کی صلاحیت بھی صرف کروڑپتیوں کے پاس ہی ہوتی ہے۔ جہاں تک عوام کا معاملہ ہے تو ان کو پانچ سال بعد ایک دن تپتی دھوپ میں لائن میں لگ کر دھتکار اور لاٹھیاں جھیلتے ہوئے اپنے حقوق کو غصب کرنے والے طبقے کے چند امیدواروں میں سے کسی ایک کے حق میں ووٹ دینا ہوتا ہے۔ مگر اسکامطلب یہ بھی نہیں ہے کہ عوام کی اکثریت جس کو ووٹ دیں وہی کامیاب ہو۔ اب ایسی جمہوریت سے عوام کو کیا دلچسپی ہوسکتی ہے؟

سامراجی پالیسیوں پر عمل درآمد کرکے عوام کی رگوں سے خون کے تمام قطرے نچوڑنا، محنت کش طبقے کی محنت کو لوٹنا، سامراجی اداروں کی ہدایت پر مسلسل معاشی حملے کرنا، مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ کرناوہ واحد’ پیج‘ ہے جس پر” متوازی“ اور” منتخب“ حاکمیتیں ایک ہی جگہ پائی جاتی ہیں۔ اس لوٹ مارکے عمل کو یہ دونوں حاکمیتیں ”نظام“ کہتی ہیں۔ اسی نظام کو لاحق خطرے کو بھانپتے ہی یہ سب متحارب قوتیں یکایک تمام اختلاف بھلا کر ایک ہوجاتی ہیں۔ جب کوئی سیاسی رہنما یہ کہہ رہا ہو کہ ہم نظام کو بچانے کیلئے کسی بھی سطح پر جاسکتے ہیں تو اس کا واضح مقصد ہوتا ہے کہ اس لوٹ مارکے نظام اور طبقاتی تقسیم کو جاری رکھنا ان کا نصب العین ہے اور وہ اس کا خاتمہ نہ ہونے دینے کیلئے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔

مولویوں کے جتھے یقینی طور پر از خود کسی حکومت کو گرانے کی صلاحیت نہیں رکھتے جب تک انہیں ”اوپر والوں“ کی حمایت و مدد حاصل نہ ہو۔ اگر ان کے پالن ہار ان کو ایسا کرنے کی اجاز ت دے بھی دیں تو ان کا مطمع نظر کہیں بھی ملکیت کے رشتوں کو تبدیل کرنا نہیں ہوتا۔ جیسا کہ ہم طالبان کے عہد میں مشاہدہ کرچکے ہیںیا ایسا ہی ایک منظر پڑوس میں ایرانی ملائیت کی حاکمیت میں نظر آتا ہے جہاں صرف اقتدار پر قبضہ اور حاکمیت کا طریقہ کار بدلا ہے۔ مگر طبقاتی اونچ نیچ پہلے سے بھی گہری ہوچکی ہے۔ لہٰذا عمومی طور پرملائیت کے غلبے میں بہت سے سنجیدہ مضمرات اور خطرات کے باوجود استحصالی نظام کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ طبقات جوں کے توں ہی رہتے ہیں۔ سرمایہ دارکی لوٹ ماراور استحصال میں کہیں فرق نہیں آتا اور غریب’ تبدیلی‘ کے بوجھ تلے مزید غریب اور مفلوک الحال ہوتا جاتا ہے۔ بس زندگی کو کھینچ کر ماضی میں لے جانے کی ناکام کوششوں میں سماج لہولہان ہوتا رہتا ہے اور دوسری طرف ملاﺅں کے پیٹ اور اثاثے پھلتے پھولتے رہتے ہیں۔

یہاں پر مولانا فضل الرحمان کچھ پرعزم نظر آرہے ہیں۔ ان کی مبہم گفتگواوراشارے کنائے حقیقی حاکمیت کے سرچشموں کے کچھ حصوں کی آشیرباد کاتاثر دے رہے ہیں۔ ایسا اگر ہو تو دو وجوہات ہوسکتی ہیں: تمام تر دھونس دھاندلی پر مبنی حمایت اور مدد کے باوجودتحریک انصاف حکومت کی تاریخی ناکامی نے ”مددگاروں“کو مایوس کر دیا ہو اور ان میں پھوٹ پڑچکی ہو اور ان کے کچھ حصے اگلے چار سال تک حکومت کے برقراررکھنے کا خطرہ مول لینے کو تیار نہ ہوں۔ یا پھر اپنی ہی کٹھ پتلی حکومت کو اور زیادہ پریشر میں رکھنے کیلئے مولانا سے تحریک کی بیگار لے رہے ہوں۔ اگر مولانا کے اشارے کنائے درست ہیں توسرے دست دوسرا امکان زیادہ قرین القیاس نظر آتا ہے کیونکہ ناکامی دیکھنے کیلئے بھی کسی دیانت دار آنکھ کا ہونا ضروری ہے۔

دوسری طرف ن لیگ کا شہباز شریف دھڑا اپنی کھال بچانے کیلئے یک طرفہ چاپلوسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحریک اور مارچ سے گریز کی پالیسی پر گامزن ہے۔ جبکہ نواز شریف اور پارٹی میں اس کا دھڑا سب کچھ داﺅ پر لگا ہونے کی وجہ سے مولانا کے ”آزادی مارچ“کے دنگل میں کود سکتے ہےں۔ جہاں تک زرداری یا بلاول بھٹوکے موقف کا معاملہ ہے تواول ان کو یہ نظر آ رہا ہے کہ ان کی صفوں میں اب تحریک چلانے والے کارکن زیادہ بچے ہی نہیں ہیں۔ کارکن کیوں ایسی قیادت پر اعتبار کریں گے جو ہر لمحہ ڈیل کے ایجنڈے کو اپنی ترجیح میں رکھے ہوئے ہے۔

یہ حقیقت بھی اپنی جگہ پر موجود ہے کہ پاکستان کے عوام مسلم لیگ اور پی پی پی کی حکومتوں کو متعدد دفعہ بھگت چکے ہیں اور انہیں بخوبی معلوم ہے کہ تب بھی کہیں دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہہ رہی تھیں۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت (بالخصوص شہباز شریف کو) خطرہ یہ بھی ہے کہ کہیں دھرنے اورتحریک کیلئے جمع ہونے والے لوگ ’ جمہوریت کی بحالی‘ کے نان ایشو کی بجائے اپنی زندگی کی بقا کی جنگ نہ شروع کر دیں۔ یہ جنگ کسی بھی نعرے سے بھڑک سکتی ہے مگر پھر ایک حکومت کا خاتمہ کرنے کی بجائے اس ظالمانہ نظام کے خاتمے پر منتج بھی ہوسکتی ہے۔

مولانا فضل الرحمان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ان کے پاس ملک بھر سے لوگ آتے ہیں اور وہ تمام ہی موجودہ عوام دشمن، آئی ایم ایف کی ایجنٹ اور غیر عوامی مفادات کے لئے لوگوں کا خون نچوڑنے والی حکومت کے مخالف ہیں۔ خود حکمران طبقہ ان مسائل سے آنکھیں چار کرنے کی بجائے کشمیر کے مسئلے کے پیچھے چھپنے پر مجبور ہے۔ ان کے پاس نہ نہتے کشمیریوں کو بھارتی غنڈہ حکومت کے ستم سے بچانے کیلئے کوئی عملی حل ہے نہ ہی پاکستان کے عوام کی مشکلات کم کرنے کی کوئی راہ۔ مگر آخر کب تک لوگ لفظوں اور تقریروں سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے؟ طبقاتی غلامی کے خلاف پاکستان کے عوام کو تاریخ کے میدان میں نکلنا ہی ہوگا۔ مگر تمام ترالزامات کی درستی کے باجود مولانا فضل الرحمان اور ان کے حلیفوں کے پاس ان میں سے کسی بھی ایک مسئلے کا درست حل موجود نہیں ہے جن کی بنیاد پر وہ بظاہر حکومت گرانے کے خواہاں ہیں۔ یہ حکومت ناکام ہوچکی ہے تواپوزیشن جماعتوں کی حکومتیں بھی تین تین بار ناکام ہوچکی ہیں۔ اس نظام کے بندھنوں میں جتنی بھی حکومتیں بدل جائیں کچھ بھی نہیں بدلے گا۔ صرف تب سب کچھ بدل سکتا ہے جب یہ استحصالی نظام اکھاڑ کر محنت کش طبقے کا راج قائم ہو۔ عوام دشمن طبقہ اسی وقت سے ڈر رہاہے۔