آصف رشید

یمن اس وقت ایک دھکتا دوزخ بن چکا ہے۔ پچھلے 4 سال سے سامراجی پشت پناہی میں سعودی اتحاد کی یمن پر جاری یلغار میں اب تک مرنے والوں کی تعداد 70 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ تقریباً اتنے ہی لوگ خوراک اورادویات کی قلت سے موت کی آغوش میں جا چکے ہیں جن میں زیادہ تعداد نومولود بچوں کی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق یمن میں 2 کروڑ 40 لاکھ افراد کو قحط کا سامنا ہے۔ جس سے آنے والے دنوں میں اموات کی شرح میں بہت زیادہ اضافے کا خدشہ ہے۔ اس ہولناک جنگ سے یمن میں پہلے سے بد حال انفراسٹرکچر، سکول، ہسپتال، مکان اور ڈسپنسریاں تباہ ہو چکی ہیں۔

تقریباً 40 لاکھ بچے سکول نہیں جا رہے۔ 1 کروڑ بچے شدید غذائی قلت کی وجہ سے ادھوری نشوونما (Stunned Growth)کا شکار ہیں۔ حالیہ اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں یمن کی صورتحال پر نام نہاد مہذب دنیا کی مجرمانہ خاموشی ان کی اس واردات میں درپردہ حمایت اور شمولیت کا پتہ دیتی ہے۔ سعودی عرب اور اسکی اتحادی فوج کویمن کی اس جنگ میں امریکی اور یورپی سامراجیوں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ سامراجی اس ساری واردات میں سعودی عرب کو اربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کر رہے ہیں۔ پورے مشرق وسطیٰ میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان علاقائی بالادستی کے لیے پراکسی جنگیں شدت اختیار کر رہی ہیں جسکا خمیازہ اس خطے کی محکوم عوام کو تباہی اور بربادی کی صورت میں ادا کرنا پڑرہا ہے۔

مشرق وسطیٰ میں بسنے والے عوام کا سب سے بڑا المیہ اس کی تیل کی دولت بن چکی ہے۔ پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کے انہدام کے بعد مغربی سامراجیوں نے سائیکس پیکٹ اور بیلفورڈیکلیریشن جیسے معاہدوں کے ذریعے پورے مشرق وسطیٰ کو اپنی کٹھ پتلی ریاستوں میں تقسیم کیا۔ اور دوسری عالمی جنگ کے بعد مذہبی بنیاد پرستی کے جنون کو ان معاشروں پر مسلط کیا گیا۔ 2008ء کے عالمی سرمایہ داری کے بحران کے بعد آج پورا مشرق وسطیٰ عدم استحکام، سماجی خلفشار، دہشت گردی اور ریاستی جبر کا اکھاڑہ بنا ہو اہے۔ اس خطے کی ریاستوں میں سامراجی مداخلت، داخلی تضادات اور بنیاد پرستی عوام کی زندگیوں کو جہنم بنا رہی ہے۔ ماضی قریب میں داعش، القاعدہ اور بہت سے دوسرے مذہبی جنونی گروہ آج بھی مغربی سامرجیوں کی پراکیسوں کے طور پر اس خطے میں برسر پیکار ہیں۔ ان جنونی گروہوں کو اپنے مفادات اور سامراجی عزائم کے لیے آج بھی استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ اس خطے کے بے پناہ قدرتی وسائل کی لوٹ مار کے لیے راہ ہموار کی جا سکے۔

2011ء کے عرب انقلاب نے مصر، تیونس اور لیبیا میں طاقتور آمریتوں کا خاتمہ کر کے پورے مشرق وسطیٰ کے مظلوم عوام کو جدوجہد کا راستہ دکھایا۔ انقلابی قیادتوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے یہ تحریکیں سرمایہ داری کا خاتمہ نہ کر سکیں۔ تحریکوں کی پسپائی نے رجعت اور رد انقلاب کی راہ ہموار کی اور پورے خطے کوخوفناک خون ریزی، بربریت اور خانہ جنگی میں دھکیل دیا۔

یمن میں بھی 2011ء میں علی عبداللہ صالح کی تین دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط آمریت کے خلاف تحریک ابھری اور علی عبداللہ صالح کو اقتدار اپنے نائب منصور ہادی کے حوالے کر کے سعودی عرب فرار ہونا پڑا۔ منصور ہادی نے اقتدار سنبھالتے ہی یمن کی مفلوک الحال عوام پر نئے حملے کیے جس کے بعد نئے احتجاج شروع ہو گئے۔ منصور ہادی کو سعودی عرب کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ مارچ 2015ء میں حوثی باغیوں نے دارلحکومت ’صنعا‘ پر قبضہ کر کے منصور ہادی کو عدن بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ صنعا پر قبضے کے بعد حوثیوں نے سعودی مخاصمت میں ایران کے ساتھ اپنے تعلقات بڑھانا شروع کر دیئے۔ جس سے سعودی عرب کو یہ جواز مل گیا کہ ایران حوثیوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ اس کے بعد سعودی عرب نے سترہ ملکی فوجی اتحاد تشکیل دیتے ہوئے یمن پر بمباری شروع کر دی۔ پسماندہ اور تباہ حال یمن کو تاراج کرنے کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، خوراک کی قلت کی وجہ سے مر رہے ہیں اورادویات کی قلت اس وقت غریب یمنی عوام کو زندہ درگور کر رہی ہے۔

لیکن چار سالہ اس جنگ میں سعودی عرب بے پناہ وسائل خرچ کرنے کے باوجود کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکا۔ سعودی اتحاد میں بھی متضاد مفادات کے تحت ایک پھوٹ موجود ہے۔ متحدہ عرب امارات جو سعودی عرب کا سب سے قریبی اتحادی ہے جنوبی علیحدگی پسند گروہ (STC) کی حمایت کر رہا ہے جنہوں نے حال ہی میں عدن پر کنٹرول حاصل کیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ علیحدگی پسند سعودی مخالف گروہ ہے۔ قطر کے ساتھ پہلے ہی سعودی عرب کے تعلقات کشیدہ ہیں یو ں سعودی عرب کے لیے یمن میں مشکلات زیادہ بڑھ رہی ہیں۔ یمن کے زیادہ تر علاقوں پر ابھی بھی حوثیوں کا قبضہ ہے اور ان کے حملوں اور جوابی کاروائیوں میں حالیہ عرصے میں شدت آئی ہے۔ 14 ستمبر کو حوثیوں کی طرف سے سعودی آئل کی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے بعدصورتحال زیادہ گھمبیر ہو چکی ہے۔ ابھی پچھلے ہفتے حوثیوں نے ایک وڈیو جاری کی ہے جس میں پانچ سو سعودی فوجیوں کی ہلاکت اور دو ہزار فوجیوں کی گرفتاری کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ جن میں سعودی فوجیوں کے علاوہ پاکستان اور دیگر ملکوں سے آئے ہوئے کرائے کے سپاہی بھی شامل ہیں۔ ابھی تک اس خبر کی تصدیق نہیں ہو سکی لیکن اگر یہ درست ہے تو یہ اب تک سعودی عرب کو اس جنگ میں ہونے والا سب سے بڑا نقصان ہے۔ یمن میں سعودی اتحادی نہ یہ جنگ جیت سکتے ہیں نہ ہی اس کو ختم کر سکتے ہیں۔ بلکہ یہ زیادہ خون ریز تصادم کی طرف بڑھ رہی ہے۔

اس ساری صورت حال سے پورے مشرق وسطیٰ میں جنگی تناؤ کی کیفیت میں اضافہ ہوا ہے۔ سعودی عرب اور امریکہ نے ان حملوں کی ذمہ داری ایران پر عائد کی ہے۔ ایران نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس پر حملہ کیا گیاتو ایران جنگ کا اعلان کر دے گااور خلیج فارس میں امریکی اڈے پر میزائل حملہ کرے گا۔ اس کیفیت میں اگر کوئی مزید کاروائی ہوتی ہے تو پہلے سے بحران زدہ عالمی معیشت خوفناک مسائل سے دوچار ہو جائے گی۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے کچھ دن قبل ایک انٹرویو میں واضح کیا ہے کہ جنگ کی صورت میں تیل کی قیمتیں اتنی بلند سطح کو پہنچ جائیں گی جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

یہ علاقہ دنیا کی 20 فیصدتجارت کی گزرگاہ ہے، عالمی جی ڈی پی کے 4 فیصد کا حصہ دار ہے اور دنیاکی 30 فیصد توانائی کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ اس خطے میں ہو نے والا کوئی بھی تصادم عالمی معیشت کو تباہ کر دے گا۔ اس لیے بڑے پیمانے کی جنگ کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ صرف بیان بازیوں اور اقتصادی پابندیوں کے ذریعے معاملات کو کنٹرول کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔

اس ساری صورتحال میں سعودی عرب اور ایران اپنے داخلی تضادات اور اقتصادی بحران کو خارجی محاذ پر دشمنیوں کے پیچھے چھپانے کی واردات بھی کر رہے ہیں۔ جب ایک ملک معاشی بحران کا شکار ہوتا ہے تو اسے اپنے ریاستی اقتدار کو قائم رکھنے اورداخلی طور پر جبر و استحصال کو جواز دینے کے لیے خارجی سطح پر نئے تضادات کی ضرورت ہوتی ہے۔ سعودی عرب کی 80 فیصد لیبر فورس غریب ایشیائی ممالک کے مزدوروں پر مشتمل ہے جن کو جدید دور میں بھی جبر، غلامی اور استحصال کی قدیم شکلوں میں جکڑ کر رکھا جاتاہے۔ اس جبر کے خلاف محنت کشوں کی بڑی ہڑتالیں بھی ہوئی ہیں جن کو جبر کے ذریعے کچل دیا گیا۔ اس کے علاوہ شمالی علاقوں میں بادشاہت کی پالیسیوں کے خلاف اور معاشی بدحالی کی وجہ سے شدید غم و غصہ پایا جا تا ہے جس کو مسلسل دبایا جا رہا ہے۔ لیکن جبر کی بھی حدود ہوتی ہیں۔ سطح کے نیچے موجود یہ عوامل کسی بھی وقت پھٹ کر بے قابو ہو سکتے ہیں۔ سعودی عرب کے معاشی بحران اور یمن کی جنگ کی وجہ سے شاہی خاندان میں شدید اختلافات موجود ہیں۔ محمد بن سلمان کو ان اختلافات کو دبانے کے لیے مسلسل شہزادوں کو قید کرنا پڑ رہا ہے لیکن بحران اتنا شدید ہے کہ اس طریقے سے سعودی عرب کے اند ر موجود تضادات کو صدا دبایا نہیں جا سکتا۔ آنے والے عرصے میں یہ لڑائی کسی خون ریز خانہ جنگی کو بھی جنم دے سکتی ہے۔

اسی طرح ایران کی معاشی صورتحال ٹرمپ کی طرف سے لگائی گئی پابندیوں کے بعد مزید ابتر ہو چکی ہے۔ افراط زر آسمان کو چھو رہا ہے۔ خوراک اور ادویات کی قلت سے لوگ مرنا شروع ہو چکے ہیں۔ بالخصوص کینسر کی ادویات ایران میں ناپید ہو چکی ہیں۔ سامراجی پابندیا ں اور سعودی دشمنی ایک طرف تو ایرانی ملاؤں کو اپنے محنت کشوں پر جبر و استحصال کا جواز فراہم کرتی ہیں تو دوسری طرف ملک میں مزدوروں اور نوجوانوں کی تحریکوں کو کچلنے میں مدد دے رہی ہیں۔ یہ درست ہے کہ شام اور عراق میں امریکی سامراج کی پسپائی نے خطے میں ایران کے اثرورسوخ میں اضافہ کیا ہے لیکن ایران کی معاشی کیفیت میں اتنی گنجائش موجود نہیں کہ وہ ان ملکوں میں اقتصادی فوائد حاصل کر سکے۔ الٹا ایران کو ان ملکوں میں اپنی عسکری کاروائیوں کے لیے بہت بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔ چین کے ساتھ 400 ارب ڈالر کے نئے معاہدوں سے کسی حد تک ایران کی معیشت کو سہارا ملے گا (اگر یہ معاہدے کاغذات سے باہر نکل کے عملی جامہ پہنتے ہیں تو!) لیکن یہ کیفیت نئے تضادات کو بھی جنم دے گی۔ ایران کا محنت کش طبقہ اس جبر اور خوف کو توڑتے ہوئے میدان عمل میں بھی اتر سکتا ہے اور ایرانی جابر حکومت کا خاتمہ ہی ایران اور پورے خطے کے محنت کشوں کو ان جنگوں اور خون ریزی سے نجات دلا سکتا ہے۔

مشرق وسطیٰ میں انقلابات کی بھی ایک طویل تاریخ موجود ہے۔ 1950-60ء کی دہائیوں میں خطے کے کئی ملکوں میں انقلابی حکومتیں قائم ہوئی تھیں۔ معیشتوں کوقومی تحویل میں لیا گیا تھا۔ یمن کا نام ہی ایک وقت میں ”مارکسسٹ پیپلز ریپبلک آف یمن“تھا۔ ان انقلابی حکومتوں کا خاتمہ کرنے کے لیے ہی امریکی سامراج نے جدید اسلامی بنیاد پرستی کی بنیاد رکھی تھی۔ آج مشرق وسطیٰ میں جو صورتحال ہے یہ سامراج کی ماضی کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔

مصر میں جنرل سیسی کی فوجی آمریت کے خلاف پھر سے احتجاج ہو رہے ہیں۔ ماضی کی نسبت اب کی بار محنت کش طبقے کی تحریک کو سرحدوں تک مقید کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔ عرب کی مختلف ریاستوں کے اندر بسنے والے کروڑوں انسانوں کی غلامی، دکھ، درد، تکلیفیں اور اذیتیں ایک جیسی ہیں۔ اس لیے ان کا انقلاب بھی ایک ہو گا۔ اپنی ماضی کی جاندار انقلابی روایات پر چلتے ہوئے اس خطے کے محنت کش پھر ابھریں گے!