احسن جعفری

پچھلے کچھ عرصے سے مرکز اور تین صوبوں میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کو کراچی کا بہت درد محسوس ہونا شروع ہو گیا ہے اور ہر تھوڑے دن بعد کسی نہ کسی مسئلے کو کارپوریٹ میڈیا کے حوالے کیا جاتا ہے اور پھر بحث و تکرار کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ اس وقت تک چلتا رہتا ہے جب تک کہ ”کہیں“سے بٹن بند نہ کر دیا جائے۔ ایسا ہی ایک مسئلہ کراچی کا کچراہے جس پر بڑے بڑے نام نہاد لکھنے والے جب لکھنے پر آئے تو انہوں نے کچرے کے مسئلے کے حل نہ ہونے کی وجہ سے کراچی کا نام ہی تبدیل کر دیا۔ اگر ایسے ہی مسائل کی وجہ سے نام تبدیل کرنا ہے تو پھر پورا ملک ہی کچرے اور غلاظت سے بھرا پڑا ہے تو ”پاک“ کہاں رہا؟ پھر ”کہیں“سے یہ نعرہ بھی لگا کہ کراچی کو وفاق کے زیرِ انتظام دے دیا جائے تو کراچی میں دودھ اور شہد کی ویسی ہی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی جیسی وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں میں پچھلے 70 سالوں سے بہہ رہی ہیں۔ خیراتی ذہنیت نے کراچی کے کچرے کا حل بھی چندہ اکٹھا کرکے کچرا صاف کرنے میں نکالا اور اس غبارے سے ہوا ڈیم والے غبارے سے بھی جلدی نکل گئی۔

کراچی میں کچرے کے مسئلے کو حکمران طبقے کی تاریخی نااہلی، سرمایہ دارانہ نظام کی زوال پذیری اور منافعے کی ہوس میں زمین کے وسائل کی بے تحاشہ لوٹ مار اور بربادی سے الگ کرکے نہ دیکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کا مستقل حل پیش کیا جاسکتا ہے۔ کراچی سمیت پوری دنیا میں پائے جانے والے مسائل ہر خطے کے مخصوص حالات کی بنا پر پیچیدگی اور سنگینی میں مختلف ضرور ہو سکتے ہیں لیکن آخری تجزیئے میں مسائل کی وجہ اور کسی دیرپا حل کا نہ ملنا زوال پذیر سرمایہ داری کا ہی شاخسانہ ہے۔

پاکستان میں روزانہ 54000 ٹن سے زیادہ کچرا پیدا ہوتا ہے جس میں 2.4 فیصد سالانہ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کچرے میں کراچی کا حصہ 9000 ٹن روزانہ ہے۔ کچرا صرف کراچی یا غیر ترقی یافتہ خطوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ کچرے کا مسئلہ ایک عالمی بحران کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔ کچرے کے مسلسل اضافے کی کئی وجوہات ہیں جن میں اہم ترین صارفیت یا کنزیومرازم (یعنی منافع کے لئے مصنوعی طور پر چیزوں کی بے حد و حساب کھپت)، منصوبہ بند متروکیت، شہروں پر آبادی کا غیر ضروری دباؤ، شہروں میں مسلسل تعمیراتی کام کا جاری رہنا اورغیر ضروری اور بے تحاشہ پلاسٹک کا استعمال ہیں۔

سرمایہ داری کی قوتِ محرکہ منافع اور شرحِ منافع ہے جس کے لئے زیادہ سے زیادہ خرید کر استعمال کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ جو جتنا زیادہ استعمال کرکے دوبارہ خریدے گا وہ ہی سماج میں اعلیٰ مرتبے پر فائز سمجھا جائے گا۔ اس سوچ کو سماج پر حاوی کرنے کے لئے اشتہاربازی کا سہارا لیا جاتا ہے جس میں صارفیت کو انسانیت کی معراج بتایا جاتا ہے اور صارفین کی نفسیات کے ساتھ اس طرح کھیلا جاتا ہے کہ وہ چیز اسے اپنی زندگی کی سب سے بڑی ضرورت لگنے لگ جاتی ہے۔ بار بار چیزیں خریدنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے سے موجود چیز کو بے کاراور دقیانوس بتایا جائے۔ سو روپے کی خریداری پر ایک روپے کی خیرات وغیرہ کے ”فلاحی“ کام دکھا کرایک انسان کی دوسرے انسان کی مدد کرنے کی ارتقائی خوبی اور جذبے کا استحصال کیا جاتاہے۔ یہ ہی نہیں بلکہ مذہبی تہواروں پر بھی روحانیت کی بجائے صارفیت ہی زیادہ نظر آتی ہے اور میٹھا رمضان اور کٹھا رمضان جیسے اشتہارات دیکھنے کو ملتے ہیں۔

جانور وں کی قربانی کرکے گوشت تقسیم کرنے کا درس دینے والے تہوار میں لوگوں کو ڈیپ فریزر خرید کرگوشت اسٹور کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے اور اس پر کبھی کوئی فتویٰ نہیں لگتا۔ لوگوں میں صارفیت کو بڑھاوا دینے کے لئے بڑے بڑے اداکاروں کو بلا کران کے ہاتھ سے لوگوں میں خیرات (اپنے پروڈکٹس) تقسیم کروائی جاتی ہے جو ایک طرف خیرات کے کلچر کو فروغ دیتے ہیں تو دوسری طرف ان اداکاروں اور اداکاراؤ ں کے لباس اور انداز کو لوگوں کے سامنے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ لوگوں میں ویسے ہی دکھنے کا جنوں پیدا کیا جاسکے۔ صارفیت کو سماج میں بڑھاوا دینے کی تازہ مثال ایک مشہور کرکٹر کی اپنے نئے گھر کی وڈیو ہے جو آج کل بہت ”وائرل“ہو رہی ہے جس میں وہ ڈی ایچ اے میں واقع اپنے کروڑوں روپے کے گھر میں زمین پر بیٹھنے کی روایات کے ساتھ ساتھ سادہ زندگی بسر کرنے کی باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔

اسی طرح اشیا کو ایک بار استعمال کرکے کچرے کے ڈبے میں پھینک دیا جاتا ہے اور نئی چیز خریدلی جاتی ہے۔ سرمایہ دارانہ سماج جتنے ترقی یافتہ ہیں‘ یہ مسئلہ اسی قدر سنگین ہے۔ ڈسپوز ایبل یا تلف پذیر اشیا کی پیداوار کی جاتی ہے تاکہ منڈی میں دوبارہ مانگ بنائی جاسکے۔ اگر اس کی جگہ دیرپا اشیا بنائی جائیں جن کو بار بار استعمال کیا جاسکے اور خراب ہونے پر انہیں پھینکنے کی بجائے صاف کرکے یا ان کی مرمت کرکے انہیں دوبارہ قابلِ استعمال بنایا جاسکے تو کچرے میں خاطرخواہ کمی لائی جاسکتی ہے۔

زیادہ تر تلف پذیراشیا پلاسٹک سے بنی ہوتی ہیں اوردنیا میں پھیلتے کچرے میں سب سے بڑا ہاتھ پلاسٹک کا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا میں ہر منٹ دس لاکھ پلاسٹک کی بوتلیں خریدی جا رہی ہیں جس میں سے 23 فیصد سے بھی کم ری سائیکل کے لئے واپس آتی ہیں۔ اس کے علاوہ مصنوعات کو پیک کرنے کے لئے جو پلاسٹک استعمال کیا جاتا ہے (جوفی الحال 78 ملین ٹن سالانہ ہے) وہ صرف ایک مرتبہ استعمال ہوتاہے اور کبھی بھی ری سائیکل کے لئے واپس نہیں آتا اور ویسے ہی ماحول میں چھوڑ دیاجاتا ہے جو آخر کار ہمیشہ کیلئے سمندروں میں جا کر رہائش پذیر ہو جاتا ہے کیونکہ یہ ناقابل تلافی (Undegradeable) ہے۔ فی الحال تقریباً ایک ٹرک جتنااس قسم کا پلاسٹک ہر منٹ میں سمندر برد ہو رہا ہے اور اگر اسی رفتار سے یہ سلسلہ جاری رہا تو یہ تعداد 2030ء تک 2 ٹرک فی منٹ اور 2050ء تک 4 ٹرک فی منٹ تک چلی جائے گی۔ تقریباً 40 کھرب پلاسٹک کے تھیلے سالانہ استعمال کئے جاتے ہیں جن میں سے زیادہ تر کچرے کا حصہ بنتے ہیں اور بہت ہی کم تعداد ری سائیکل ہو پاتی ہے۔ یہ تمام پلاسٹک سمندری حیات اور ماحول کو ناقابلِ تلافی نقصانات پہنچا رہا ہے۔

پلاسٹک کی ری سائیکلنگ کے بارے میں ایک دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ بالعموم اس کی ری سائیکلنگ پر آنے والی لاگت نئے پلاسٹک کی تیاری کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ اور چونکہ سرمایہ داری میں ہر چیز کو پیسے میں تولا جاتا ہے لہٰذا ری سائیکلنگ کی بجائے نیا پلاسٹک بنانے کو فوقیت دی جاتی ہے جس سے پورا سیارہ برباد ہو رہا ہے۔

منصوبہ بند متروکیت (Planned Obsolescence) کے تحت سرمایہ دار ایسے طریقے سے اشیا کی پیداوار کرتے ہیں کہ اشیا ایک خاص عرصے کے بعد استعمال کے قابل نہیں رہتیں جس کی وجہ سے انہیں پھینکنا پڑ جاتا ہے اور منڈی میں نئی مانگ آتی ہے۔ منصوبہ بند متروکیت کی واضح مثال کمپیوٹر اور اسمارٹ فون ہیں جن کے ہارڈ ویئر اور سوفٹ ویئر میں اتنی جلدی جلدی تبدیلی لائی جاتی ہے کہ صرف ایک سال پہلے خریدا گیا فون یا کمپیوٹر بھی پرانا محسوس ہونے لگتا ہے۔ معمولی سی اپ گریڈیشن کرکے بنیادی ڈیزائن میں ایسی تبدیلی کی جاتی ہے کہ پورا کمپیوٹر سسٹم ہی تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ بڑے اور زیادہ میموری استعمال کرنے والے سافٹ ویئر اور ایپلیکیشنز بنائی جاتی ہیں جن کو چلانے کے لئے پھر ہارڈویئر تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ پرانا ہارڈویئر بک تو جاتا ہے لیکن کچھ ہی عرصے بعد وہ بھی کچرے کے ڈھیر میں پڑا نظر آتا ہے۔ منصوبہ بند متروکیت کی ایک اور بڑی واضح مثال اِنک جیٹ پرنٹرز ہیں جن میں اِنک کارٹرج جس کے ساتھ پرنٹنگ ہیڈ منسلک ہوتا ہے مکمل پرنٹر کی قیمت کا تقریباً 90 فیصد ہوتی ہیں۔ یعنی اِنک کارٹرج بدلنے سے بہتر ہے آپ پرنٹر ہی نیا خرید لیں۔ اس کے علاوہ ان کارٹرجز میں ایسی چپ لگائی جاتی ہیں جو ایک مخصوص تاریخ کے بعد یا ایک مخصوص تعداد پرنٹ کرنے کے بعد کام کرنا چھوڑ دیتی ہیں۔ موبائل فون میں ایسی بیٹری لگانا جو آسانی سے تبدیل نہ ہوسکے اور بیٹری تبدیل کرنے کے لئے آپ کو پورا موبائل ہی کھولنا پڑجائے یا ایسے پیچ استعمال کرنا جو ایک دفعہ کھل جائیں تو دوبارہ لگ ہی نہ سکیں‘ سمیت اس منصوبہ بند متروکیت کی اور کئی مثالیں ہیں۔ موبائل فون اور کمپیوٹرز میں استعمال ہونے والے چھوٹے چھوٹے پلاسٹک کے ٹکڑے جا بجا سڑکوں اور کچرے کے ڈھیر پر پڑے نظر آتے ہیں۔ اس کے علاہ ڈیوائسز کو آپس میں منسلک کرنے کے لئے استعمال ہونے والی کیبلز جو ہر دوسرے دن خراب ہوجاتی ہیں اس کچرے میں اور اضافہ کر رہی ہیں۔ موبائل فون کے چارجرز جو ایک مہینہ بھی مشکل سے چل پاتے ہیں سب آخر کار کچرے کے ڈھیر پر محوِاستراحت نظر آتے ہیں۔

شہروں پربڑھتے ہوئے آبادی کے دباؤ کی وجہ سے تعمیرات مسلسل جاری رہتی ہیں۔ ساتھ ساتھ شہروں میں مسلسل نئی سے نئی ہاؤسنگ اسکیمیں کھمبیوں کی طرح اگ رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے بے تحاشہ تعمیراتی کچرا پیدا ہورہا ہے۔ پرانی عمارتیں توڑی جارہی ہیں اور ان میں سے نکلنے والا کچرا کسی مناسب طریقے سے تلف نہیں کیا جا رہا۔ اسکے علاوہ اگر غور کریں تو صرف 20 یا 25 سال پرانی عمارات ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں یا منہدم ہونے کے قریب ہیں جبکہ ہزاروں سال پرانی عمارات جوں کی توں کھڑی ہیں۔ تعمیراتی میٹیریل میں بھی اب بہت زیادہ پلاسٹک کی اشیاکا استعمال ہو رہا ہے۔ پہلے جو پائپ لوہے کے لگائے جاتے تھے اب وہ بھی پلاسٹک کے لگتے ہیں لیکن عمارات کی سیلائن پھر بھی ختم نہیں ہوتی۔

مختلف قسم کے کچرے کو علیحدہ کرنا، اکٹھا کرنا، زخیرہ کرنا، ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا اور پھر اس کو تلف کرنے کے لئے جس قسم کی تکنیک اور مہارت کی ضرورت ہے وہ پاکستان کی سرمایہ داری کے پاس موجود ہی نہیں ہے۔ یہ اگر چاہیں تب بھی کراچی سمیت پورے ملک کے مسائل کا کوئی حل نہیں دے سکتے۔ ماحولیاتی آلودگی میں کچرے کا ایک بہت بڑا حصہ ہے۔ کچرے کا مسئلہ نسلِ انسان کی بقا کے مسئلے سے جڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے اس مسئلے کو صرف انتظامی یا سیاسی مسئلے کے طور پر پیش کرکے اس کا کوئی مستقل حل نہیں نکالا جاسکتا۔ صورتحال جتنی گھمبیر نظر آ رہی ہے دراصل اس سے کئی ہزار گنا زیادہ پیچیدہ ہے۔

کارل مارکس نے کہا تھا کہ ”انسان فطرت پر زندہ رہتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فطرت اس کا جسم ہے جس کے ساتھ اگر اسے مرنا نہیں ہے تو مستقل تبادلے میں رہنا چاہئے۔ انسان کی زندگی فطرت سے منسلک ہے اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ فطرت اپنے آپ سے جڑی ہوئی ہے کیونکہ انسان فطرت کا ایک جزو ہے۔“

سرمایہ داری میں انسانی مسائل کا حل تلاش کرنا دیوانے کی جنت ہی ہے۔ جب سرمایہ داری خود صارفیت اور چیزوں کے خراب ہونے کو بڑھاوا دے رہی ہے تو ان مسائل کا حل کیسے پیش کرسکتی ہے۔ اس لئے کچرے اور اس سے جڑے ماحولیاتی مسائل کا واحد حل پاکستان سمیت پوری دنیا میں ایک سوشلسٹ معیشت کا قیام ہے جس میں زمین کے وسائل کو انسانی ضروریات کی تکمیل کے لئے ایک فطری طریقے سے استعمال کیا جاسکے اور ماحول کو نقصان بھی نہ پہنچے۔ دنیا کو صاف کرنے کے لئے سرمایہ داری کا گند اٹھانا پڑے گا!