منیش دھارانی
طلبہ بہتر نظام تعلیم اور روشن مستقبل کے لئے کئی بارسڑکوں پر نکلتے رہے ہیں۔ ان کی جدوجہد کی ایک طویل تاریخ موجودہے۔ سامراجیت کے خلاف تحریکوں سے لیکر اپنے حقوق کی جدوجہد تک، ہر دور میں لڑی جانے والی طبقاتی لڑائی میں طلبہ کی انقلابی جدوجہد انتہائی فیصلہ کن ثابت ہوئی ہے۔ چاہے وہ پیرس کی گلیوں میں 1968ء کے جلوس ہوں یا پھر پاکستان میں، ہر چھوٹی بڑی تحریک میں طلبہ کا کردار نمایاں ہی رہا ہے۔ ان تحریکوں نے بڑی بڑی آمریتوں سمیت اُس وقت کے اُن تمام جابر حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا تھا جوخود کو ایک کبھی نہ ختم ہونے والی طاقت تصور کرتے تھے۔ یہ تحریکیں کبھی کامیابی سے ہمکنار ہوئیں تو کبھی پسپائی کا شکار رہیں مگر ظلم و استحصال کے خلاف طلبہ کی جدوجہدجاری رہی۔
1968ء میں فرانس، پولینڈ، جرمنی، سپین اور پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں طلبہ کی انہی تحریکوں سے حکمرانوں کے اقتدار لرز رہے تھے۔ مئی 1968ء میں سوربون یونیورسٹی پیرس کے اساتذہ و طلبہ فرانس کے فرسودہ تعلیمی نظام کے خلاف سڑکوں پہ نکل آئے تھے جہاں کئی دنوں تک یہ تحریک جاری رہی۔ ان مظاہروں پر پولیس کی جانب سے تشدد اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔ پولیس کے اس جبر سے متعدد افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی بھی ہوئے مگر طلبہ کے امڈتے طوفان نے ہار نہیں مانی اور ہر جبر کا سامنا کرتے ہوئے مصالحت سے انکار کردیا۔ یہ ایک ایسی مثالی تحریک تھی کہ جس میں فرانس کی ورکنگ فورس کاتقریباً بائیس فیصد حصہ ہڑتال پر تھا۔ طلبہ نے ٹریڈیونینوں کے ساتھ مل کر تحریک کو اتنی شکتی دی کہ فرانسیسی حکومت بھی ششدر رہ گئی۔
اسی سال میکسیکو میں طلبہ کی پھیلتی ہوئی تحریک کو جہاں وحشیانہ تشدد کا سامنا تھاوہیں سینکڑوں کی تعداد میں مظاہرین کو بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ ریاست کے اس بہیمانہ قتل عام کے باوجود بھی طلبہ نے جھکنے سے انکار کردیا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1970ء کی ایک ہڑتال میں دو سو سے زائد کیمپسز نے بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔
سرمایہ داری کے گہرے ہوتے ہوئے موجودہ بحران کی وجہ سے آج پوری دنیا میں تعلیمی بجٹ میں کٹوتیوں سمیت ماضی میں حاصل کی گئی حاصلات کو بری طرح چھیننے کا عمل جاری ہے۔ ان کٹوتیوں کے خلاف یورپ سمیت پوری دنیا میں احتجاجی تحریکیں بھی چلائی جا رہی ہیں۔ مگر وہ تحریکیں کسی بھی منطقی انجام پر پہنچنے سے قاصر نظر آتی ہیں۔ ایک طرف تو اس کا ذمہ دار موضوعی قوت کی کمی کو قرار دیا جا سکتا ہے مگر دوسری طرف جس رجحان کوآج فوری طور پرختم کرنے کی ضرورت ہے وہ ان میں بیشتر تحریکوں کا نام نہاد ’غیر سیاسی‘ کردار ہے۔ سماج میں ہر طرف سیاست کے متعلق ایسے منفی رجحانات کوپروان چڑھایا جا رہا ہے جو طلبہ کی ان تحریکوں کو سیاست سے الگ رکھنے کا جواز فراہم کر رہے ہیں۔ آج طلبہ میں یہ روش پروان چڑھ رہی ہے کہ ان کے مسائل کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی کسی سیاسی تبدیلی کی کوئی ضرورت ہے۔
پاکستان جیسے معروضی حالات میں یہ سوال آج انتہائی اہمیت کاحامل ہے۔ یہاں سماجیات سے لیکر سیاسیات تک ہر شعبے میں پڑھایا جانے والا نصاب اس قدر سیاست کی ’برائیوں‘ سے بھر دیا گیا ہے کہ یونیورسٹی کی سطح پر ہر طالب علم یہ سمجھنے لگا ہے کہ اس کے مسائل سیاسی تبدیلی سے حل نہیں ہوسکتے۔ یہی سبب ہے کہ آج ایسے طلبہ و طالبات کی ایک بہت بڑی تعداد خود کو کسی بھی سیاسی تحریک سے دور رکھنے کو ایک اچھا فیصلہ سمجھتی ہے۔
مگر تاریخی طور پر دیکھا جائے تو یہ سبق ضرور حاصل کیا جاسکتا ہے کہ سیاست کبھی بھی ہماری خواہشات کی مرہون منت نہیں رہی بلکہ لینن کے الفاظ میں ”یہ ایک دن خود ہمارے دروازے پر دستک دیتی ہے۔“ ہم چاہیں یا نہ چاہیں ہمیں سیاست کا نشانہ بنناپڑتا ہے۔ آج سرمایہ دارانہ نظام نے لوگوں کی عادات واطوار، رویوں، شعور اور نفسیات تک کو یکسر بدل کے رکھ دیاہے۔ نوجوانون کو سیاسی، معاشرتی اور ثقافتی سرگرمیوں سے دور کر دیا گیاہے۔ غیریقینی صورتحال نے نوجوانوں کو نفسیاتی مسائل اور بیگانگی کا شکارکر دیا ہے۔ ایسی صورتحال میں بہت سے لوگ بڑا سوچنا تو درکنار سننا بھی پسند نہیں کرتے۔
ماضی میں ہونے والی طلبہ سیاست بے شک آج بھی نوجوانوں کے لئے مشعل راہ ہے۔ بڑے رہنماؤں کی ایسی بے شمار مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں کہ جنہوں نے اپنے سیاسی کریئر کا آغاز طالب علمی کے دور سے کیا۔ مگر گزشتہ دو دہائیوں میں طلبہ سیاست کو اس قدر بدنام و برباد کردیا گیا ہے کہ نوجوانوں کے والدین تو اپنے بچوں کو سیاست نہ کرنے کا درس دیتے ہی ہیں مگر اساتذہ بھی اس عمل میں بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔ آج بیشتر تعلیمی اداروں میں خود انتظامیہ کی جانب سے غنڈہ گردی اور لمپنائزیشن کا ایک ایسا کلچر متعارف کروایا گیا ہے کہ جس کی وجہ سے نظریاتی سیاست کے خواہشمندوں کو بھی شدید مایوسی کاسامنا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کی مثال ہمارے سامنے ہے جس میں جمعیت جیسی غنڈہ گردتنظیم کو انتظامیہ کی پوری حمایت حاصل ہے۔
ایک طرف تو مذکورہ بالا صورتحال ہے مگر دوسری طرف جس طرح طلبہ سیاست اور یونینز پر مکمل طور پہ پابندی عائدکی گئی ہے اس سے یہ درسگاہیں آج بدترین گھٹن سے دوچار ہیں۔ ضیا آمریت سے قبل جب طلبہ یونینز بحال تھیں تو ان کے رہنماؤں کو یونیورسٹی سینڈیکیٹ میں بھرپور نمائندگی حاصل ہوتی تھی اور فیسوں سمیت طلبہ کو درپیش ہر مسئلے کو یونیورسٹی انتظامیہ کے سامنے پیش کیا جاسکتا تھا۔ مگر طلبہ یونین پر پابندی کے بعد آج طلبہ کے پاس کوئی بھی پلیٹ فارم رہا ہی نہیں کہ جہاں وہ اپنے مطالبات پیش کرسکیں اور اپنے حقوق کی جدوجہد کو جاری رکھ سکیں۔
آج تعلیمی اداروں میں فیسوں میں اضافہ، ہاسٹلز کی کمی، بسوں کی کمی، صاف پانی و کھانے کے فقدان سمیت ایسے بے شمار مسائل ہیں کہ جن کی طرف یونیورسٹی انتظامیہ دیکھنے کو بھی تیار نہیں۔ دوسری طرف کرپشن اور ہراسانی (Harassment) اب تعلیمی اداروں میں معمول بنتی جا رہی ہے۔ یہی نہیں بلکہ یونیورسٹیوں میں اب طلبا و طالبات کے قتل کے واقعات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ حال ہی میں چانڈکا میڈیکل کالج میں پیش آنے والا واقعہ جہاں افسوسناک تھا وہیں یہ واقعہ کئی اہم سوال بھی چھوڑ گیا ہے۔ تعلیمی اداروں کی صورتحال آج بد سے بدتر کر دی گئی ہے۔ شاید ہی اس سے پہلے کبھی حالات اتنے بدتر ہوں۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم آج طلبہ کو منظم و متحرک کرنے کا سلسلہ نہ صرف جاری رکھیں بلکہ اسے اشد تیز کرنے کی ضرورت ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام آج ایک بند گلی میں داخل ہوچکا ہے۔ اس کی غلاظتیں پورے سماج میں تعفن پھیلا رہی ہیں۔ تعلیم، صحت اور صاف پانی کی سہولیات سمیت ہر بنیادی ضرورت سے انسان کو محروم کیا جارہا ہے۔ آج دنیامیں اتنے وسائل موجود ہیں کہ کرہ ارض پر موجود بنی نوع کیلئے اس کی ضرورت کے مطابق ہر چیز کو پیدا کیا جاسکتا ہے۔ مگر اس سب کے باوجود بھی محض ایک مخصوص طبقہ ہمارے وسائل پر راج کررہا ہے اوراکثریت آبادی غیر انسانی ماحول میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ تعلیم کی حیثیت کسی بھی معاشرے کی ترقی میں آج ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے مگر منافع خوری کے اس نظام میں دنیا کے لگ بھگ 264 ملین بچے اسکول جانے سے قاصر ہیں۔ 175 ملین بچے پرائمری تک رسائی کے بعدا سکول چھوڑ دیتے ہیں اور اپنی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے چائلڈ لیبرمیں شمار ہو جاتے ہیں۔
یونیورسٹیوں تک پہنچنے والوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔ مگر اس تھوڑی تعداد کو بھی یہ نظام آج روزگار سمیت ایک بہتر زندگی نہیں دے پارہا اور بیروزگاروں کی ایک بہت بڑی فوج جنم لے چکی ہے۔ جن کے پاس پہلے سے روزگار موجود ہے وہاں ڈاؤن سائزنگ کے ذریعے انہیں ملازمتوں سے نکالا جارہا ہے۔ یہ تمام تر سلگتے مسائل نہ صرف اس نظام کی متروکیت کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ اس کا خاتمہ کرنا آج ہمارے لئے ایک اہم چیلنج بھی ہے۔ دنیا بھر کے طلبہ آج پہلے سے کئی گنا زیادہ متحد اور منظم ہوسکتے ہیں۔ جس طرح پچھلے دنوں پنجاب یونیورسٹی میں طلبہ نے متحد ہو کر جمعیت جیسی غنڈہ گرد تنظیم کے خلاف ایک بھر پور ریلی نکالی اور اس تنظیم کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیامستقبل میں بھی طلبہ کا یہی اتحادایسی کئی لڑائیاں لڑ سکتا ہے۔
ٹیکنالوجی اس نظام کے خلاف ایک انتہائی اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کی جاسکتی ہے۔ دنیا کے ایک ملک میں ابھرتی تحریک کے ساتھ دیگر ممالک میں چند گھنٹوں میں یکجہتی کے مظاہرے آج پہلے سے کئی گنا تیزی سے ممکن ہیں۔ نظام کی ناکامی کی گونج آج پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے مگر بدقسمتی سے یہ سماج انقلابی قیادت کے بحران سے دوچار ہے۔ اسی بحران کا خاتمہ کرنے کے لئے نوجوانوں کو محنت کشوں کے شانہ بشانہ اس نظام کے خلاف جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔