جنت حسین

علی یاور 19 دسمبر 1946ء کو پیدا ہوئے اور 05 ستمبر 2019ء کو انتقال کرگئے۔ یہ مضمون آپ کے تعزیتی ریفرنس پی ایم اے ہاؤس کراچی میں پڑھا گیا۔

طبقاتی جنگ میں محنت کش طبقے کے پیچھے نہ تو کوئی ریاست ہوتی ہے اور نہ ہی کسی مادی اعزاز یا انعام کا کوئی امکان۔ ظلم و جبر اور استحصال کے خاتمے کی اس عظیم اور بے لوث جدو جہد میں بہت ہی مشکل مراحل آتے ہیں۔ طبقاتی جدو جہد میں مادی انعام یا اعزاز محنت کش طبقے کے سپاہیوں کیلئے عزت افزائی نہیں بلکہ تضحیک کا باعث ہی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ایسی جدو جہد جوکسی ذاتی مفاد یا مطلب کیلئے کی جائے وہ نظریے اور مقصد کی موت بن جاتی ہے۔ طبقاتی کشمکش مسلسل جدو جہد کا نام ہے جس میں اپنی قو توں اور ساتھیوں کی با ہمی حوصلہ مندی درکار ہوتی ہے۔ ایسے میں صبرو تحمل کے ساتھ ایک جمود کی کیفیت میں اس جدو جہد کی تڑپ کوقائم رکھنے کا عمل جنگ لڑنے سے بھی زیادہ دشوار بن جاتا ہے۔ پاکستان اوراس پورے خطے میں بھی یہ کشمکش طبقات پر مبنی سماج کے وجود کے جنم سے ہی جاری رہی ہے۔ اس جنگ میں ایک بڑا معرکہ اور تصادم 1968-69ء میں ہوا لیکن محنت کش طبقہ حکمرانوں کے جبر و تسلط کو شکست دے کر حتمی فتح حاصل نہیں کرسکا۔ ایسے کٹھن حالات میں جو بعض اوقات بہت طویل بھی ہوجاتے ہیں بہت سے لوگ جھک جاتے ہیں یا اپنے طبقے سے غداری کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔ لیکن انتہائی نا مساعد حالات میں بھی ایسے انقلابی ضرور ہوتے ہیں جو نظریات پر چٹان کی طرح جمے رہتے ہیں اور جدو جہدکا سفر آخری دم تک جاری رکھتے ہیں۔ علی یاور انہی انقلابیوں میں سے تھے اور ان کا ’طبقاتی جدوجہد‘ کیساتھ تعلق دو دہا ئیوں پر محیط رہا۔ وہ ایک بیباک انقلابی ہونے کے ساتھ اساتھ یک حلیم اورنفیس انسا ن بھی تھے۔ زمانہ طالبعلمی میں اس پر خار سفر کا آغاز انہوں نے این ایس ایف کے پلیٹ فارم سے کیا تھا۔

1966ء میں ایوب خا ن کے بیٹے نے ناظم آباد میں ان کے مکان پر حملہ کروایا۔ آپ ان انقلابی نو جوانوں میں شامل تھے جنہوں نے کنونشنل مسلم لیگ کے جلسے کو منتشر کرکے اسٹیج پر قبضہ کرلیا تھا۔ ایوب خان کی آمریت سے مشرف آمریت تک آپکی جدوجہد کا احاطہ کرنا بہت مشکل کام ہے۔ آپ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدو جہد میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔ پی ٹی سی ایل، کے ای ایس سی، اسٹیل مل، پی آئی اے اور دیگر اداروں کے محنت کشوں کی ہر لڑائی کا حصہ رہے اور محنت کشوں کے اتحاد پر ہمیشہ زور دیتے رہے۔ آپ ہمیشہ خود نمائی اور ذاتی تشہیر کے سخت خلاف تھے۔ کامریڈ لال خان کی کتاب ’پاکستان کی اصل کہانی‘ میں 1968-69ء کی جدو جہد کرنے والے طالبعلموں اورمحنت کشوں کی جدو جہد کو قلم بند کرنے کیلئے جب آپ سے رابطہ کیا گیا تو آپ نے معراج محمد خان، منظور رضی، عثمان بلوچ، واحد بشیر، کنیز فاطمہ اور دیگر دوستوں کے انٹرویو کروا ئے اور خوداین ایس ایف کی ساری لڑائی کا ذکر کیامگر اپنے نام کے بغیر۔ کامریڈ علی یاور 2005ءسے 2008ء تک پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کراچی کے آرگنائز ررہے اور شاندارکام کیا۔ اسکے بعد صحت کی خرابی کی وجہ سے عملی طور پر کام نہ کرنے کے باوجود ہر میٹنگ میں آتے۔ ارتقا انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنسز کے بانیو ں میں تھے اور آ خرتک پروگراموں میں آتے رہے۔ سال میں ایک بارآپ امریکہ میں اپنے عزیزوں کے پاس جاتے۔ جب واپس آتے تو بتاتے کہ وہاں بہت بور ہوتا ہوں۔ کامریڈ اگر چاہتے تو اپنے لئے سہل زندگی کا راستہ چن سکتے تھے اور ان کے لئے زیادہ مشکل بھی نہیں تھا۔ زمانہ طالبعلمی جب نوجوان اپنے کیریئر کی دوڑ میں لگ جاتے ہیں اس وقت آپ نے ایک کٹھن راستے کا انتخاب کیا جو آج کے طلبہ کے لئے ایک مشعل راہ ہے۔

کامریڈ علی یا ور اور ان جیسے انقلابیوں کو خراج عقیدت ان کے مجسمے اور یاد گار بنا کر، ان کی برسیاں منا کر یا موت کا ماتم کرکے پیش نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ صرف ان کی جدوجہد کا معترف ہوا جاسکتا ہے۔ وہ ایک زندہ لڑائی لڑتے ہوئے گمنامی میں مرے ہیں۔ استحصال کرنے والوں اور استحصال سہنے والوں کی یہ لڑائی جاری ہے۔ محنت کش طبقے کے ا ن جانثاروں کو ان کی زندگی کی بھر پور جدوجہد کا صلہ اس لڑائی کا حصہ بن کر ہی دیا جاسکتا ہے۔ اس سماج میں جتنا دکھ اور اذیت ہے اس کو قبول کرکے ذاتی مفادات کے لئے حکمران طبقات سے مصالحت اور ان کے نظام کی اطاعت نہ صرف انسانیت کی تضحیک ہے بلکہ آخری تجزیے میں لاحاصل بھی ہوتی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آدمی محض ایک شکست خوردہ انسان کے طور پر بے معنی زندگی جیتا ہے یا پھر کامریڈ علی یاور جیسے انقلابیو ں کی طرح زندگی کو زندگی سے بڑے مقصد کے لئے وقف کرتا ہے۔