اداریہ جدوجہد
نام نہاد ’نیا پاکستان‘ پرانے والے سے کہیں زیادہ آلودہ، محروم اور کمزور ہے۔ عمران خان کو جس انداز سے اقتدار میں ٹھونسا گیا ہے اور اس کی حکومت نے جس وحشت سے اس نظام کے ننگے جبر و استحصال کو مسلط کیا ہے اس کی مثال باضابطہ آمریتوں میں بھی نہیں ملتی۔ لیکن یہ حاکمیت جتنی جابر ہے‘ اتنی ہی کمزور اور بزدل بھی ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے لیڈران اور درمیانے طبقے کے حمایتی ایسا ٹولہ ہیں جن کے لئے انسانوں پر ظلم و ستم کوئی شغل ہے۔ یہاں کی پسماندہ سرمایہ داری کے معیاروں کے مطابق بھی وہ اخلاقی، سیاسی اور انتظامی حوالے سے انتہائی اوچھے اور گنوار ثابت ہوئے ہیں۔ لیکن تمام خواہش اور کوشش کے باوجود عمران خان اور اس کی ڈوریاں ہلانے والے‘ کلاسیکی فاشزم کی طرز کا وسیع جبر کرنے کی اہلیت اور صلاحیت سے عاری ہیں۔ جس کی وجہ پھر ریاست کے اندرونی تضادات ہیں۔ چین، امریکہ اور دوسری سامراجی طاقتوں کی مداخلت نے ریاستی دھڑے بندیوں میں مزید ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔ لیکن جیسے زخمی ناگن زیادہ وحشت پر اتر آتی ہے اسی طرح داخلی تضادات سے کمزور ہو جانے والے نظامِ حکومت بھی زیادہ ہٹ دھرم اور وحشی ہو جایا کرتے ہیں۔
ان حالات میں مولانا فضل الرحمان کا ’آزادی مارچ‘ اور دھرنا ہو رہا ہے جسے دیگر پارٹیوں کی نیم دلانہ حمایت حاصل ہے۔ یہ اپوزیشن پارٹیاں، جو سب اسی نظام کا حصہ ہیں، تحریک چلانا بھی چاہتی ہیں اور تحریک سے خوفزدہ بھی ہیں۔ نواز لیگ یہاں کی کلاسیکی سرمایہ دارانہ پارٹی ہے۔ جیسی یہاں کی سرمایہ داری ہے ویسی ہی اس کی پارٹی ہے۔ لیکن نواز شریف کو یہ غلط فہمی ہو گئی ہے کہ یہاں مغربی طرز کی صحت مند جمہوریت اور سول حکمرانی قائم ہو سکتی ہے۔ شہباز شریف کا دھڑا زیادہ سمجھدار ہے اور مصالحت سے اقتدار کے حصول کی پالیسی کا حامی ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے 1980ء کی دہائی میں ہی سوشلزم کو فارغ کر کے پارٹی کو سامراج اور ریاست کے لئے قابل استعمال بنانا شروع کر دیا تھا۔ باقی پارٹیوں کی حکومت مخالفت بھی بہت مبہم، موسمی، کمزور اور اسی نظام کے اندر مقید ہے۔ ایسے میں آزادی مارچ بھی کسی ریاستی دھڑے کی پشت پناہی سے مبر ا نہیں ہے۔ لیکن حکمرانوں کی دھڑے بندیاں جس نہج پہ ہیں اور نظام کے داخلی تضادات جتنی شدت اختیار کر گئے ہیں‘ پاکستان کی کُل تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ ایک سائنسی حقیقت کہ پاکستانی سرمایہ داری جس حد تک گل سڑ چکی ہے اس کے بحران کی شدت سے یہ تضادات پھٹ کر سماج پر ایک قہر نازل کر سکتے ہیں۔ اسی بحران کی شدت کی وجہ سے حکمرانوں کے اس صورتحال سے نکلنے کے ہتھکنڈے بہت محدود اور غیر موثر ہو گئے ہیں۔ یوں آزادی مارچ کی ”کامیابی“ (یا ناکامی) کے بعد بھی یہ بحران ختم نہیں ہو گا۔ مسلسل بڑھتے قرضوں، 2.4 فیصد شرح نمو، 10 فیصد سے اوپر افراطِ زر اور وسیع بیروزگاری کی کیفیت میں کوئی استحکام آنا ممکن نہیں ہے۔ اگر دارالحکومت میں اس آزادی مارچ کے دوران خونریزی یا تشدد ہوتا ہے تو اس سے ریاستی تضادات بھڑک سکتے ہیں۔ لیکن کسی مصالحت یا ڈیل کی صورت میں بھی عوام کو مزید تنگی ہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایسے میں پھر مزید ”آزادی مارچ“ ابھریں گے۔ داخلی تضادات کے دباؤ اور عمران خان کی فاش ناکامی کے پیش نظر اپنے نظام کو بچانے کے لئے سرکاری پالیسی ساز اگر حکومت بدلتے ہیں‘ کوئی ’قومی حکومت‘ مسلط کرتے ہیں یا نئے انتخابات کی طرف جاتے ہیں تو انتشار تھمے گا نہ مسائل کم ہوں گے۔
یہ تاثر بھی دیا جا رہا ہے کہ براہِ راست مارشل لا نہ لگا کر عوام پر کوئی احسان کیا جا رہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کیفیت میں وہ خود اس اقدام سے خوفزدہ ہیں۔ شاید نظام میں اب ایسی سکت اور صلاحیت ہی نہیں بچی ہے۔ اسی لئے مشرف آمریت‘ عمران خان کی اس جمہوری حکومت سے کہیں زیادہ لبرل تھی۔ جمہوریت کا نام بھی اس قدر منافقت اور فریب سے استعمال کیا گیا ہے کہ اب اس میں عوام کی دلچسپی ہی ختم ہو چکی ہے۔ اس نظام کی جمہوریت میں محنت کشوں کا طبقاتی استحصال کسی آمریت سے کم نہیں ہو رہا بلکہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ نجکاری کے خلاف کچھ جرات مندانہ تحریکیں حالیہ عرصے میں ابھری ہیں لیکن وسیع تر عوام پر ایک خاموشی طاری ہے۔ تاہم حالات جتنے تنگ ہوتے جا رہے ہیں اس کے پیش نظر ساری صورتحال اچانک بدل بھی سکتی ہے۔ اس نظام کے آقا جتنی مرضی سنسرشپ کر لیں‘ سوشلزم کا نام اب تاریخ سے حذف نہیں کر سکتے۔ لیکن انقلابی سوشلسٹوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ جہاں وہ اس عمرانی آمریت کے اقدامات کے خلاف بھرپور جدوجہد کریں وہاں مولانا فضل الرحمان اور نام نہاد اپوزیشن کے دوسرے رجحانات سے ذرہ برابر امید پیدا نہ ہونے دیں۔ حکمرانوں کے آپسی تضادات پر نظر رکھنا اور حالات کی سمت کا تعین کرنا بہت ضروری ہے۔ لیکن یہ حقیقت واضح ہونی چاہئے کہ ان لوگوں کا طبقہ ایک ہے اور یہ سب کے سب ایک دوسرے سے بڑھ کے عوام دشمن ہیں۔
محنت کش طبقے کی ہر جدوجہد میں سرخ پرچم اور سوشلسٹ پروگرام کے ساتھ شامل ہونا ہو گا۔ نسلِ انسان کی نجات اور بقا کے لئے آنے والے طوفانی واقعات اور انقلابی صورتحال کو سوشلسٹ فتح سے ہمکنار کرنے والی مارکسی تنظیم اور لائحہ عمل کی تیاری کا فریضہ آج ہم پر عائد ہے۔