راہول
2019ء دھماکہ خیز واقعات کی صورت میں اپنے اختتام کی طرف گامزن ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے گل سڑ جانے کا اس سے بہتر اظہار آخر کیا ہوگا کہ آج دنیا بھر میں کئی ہزار میل کے فاصلے پر ہونے کے باوجود بھی لاطینی امریکہ سے مشرقی وسطیٰ تک اس نظام کی حکومتوں کے خلاف عوامی بغاوتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ لبنان سمیت خطے میں موجود دیگر ممالک میں رونما ہوئی صورتحال نے عرب بہار کی یادیں ایک بار پھر تازہ کردی ہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں میں ایکواڈور، لبنان، عراق اور چلی کی تحریکوں نے کھل کر اس بات کا اظہار کیا ہے کہ مسئلہ محض طرز حکمرانی کا نہیں بلکہ اس نظام کا ہے اور جب تک اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر نہیں پھینکا جاتا تب تک مسائل کا حل ناممکن ہے۔
لبنان بھی گزشتہ سالوں کی خاموشی کو توڑتے ہوئے ایک بار پھرشہ سرخیوں میں ہے۔ عالمی میڈیا یہاں ہونے والے واقعات کوچاہ کر بھی نظر انداز کرنے سے قاصر ہے کیونکہ ایک طویل سناٹے کے بعد بغاوت کے غیر معمولی شور سے بیروت سے واشنگٹن تک کے ایوان گونج اٹھے ہیں۔ لبنان میں حالیہ تحریک کا آغاز 17 اکتوبر کو اس وقت ہوا جب وزیر اعظم سعد حریری کی مخلوط حکومت کی جانب سے تمباکو، پٹرول اور واٹس ایپ کالوں پر ٹیکس عائد کرنے کی تجویز کے خلاف ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ تحریک کی شدت اس قدر تھی کہ چند ہی روز میں ہزاروں کے مظاہرے لاکھوں میں بدل گئے۔ جس کے بعد سعد حریری کی جانب سے نہ صرف ٹیکس واپس لینے کا فیصلہ کیا گیابلکہ دیگر مراعات دینے کا بھی اعلان کیاگیا۔ مگر سالوں سے بدترین معاشی جبر تلے دبی عوام نے اس فیصلے کے بعد تحریک کوختم کرنے کی بجائے اسے اپنی عبوری فتح مانتے ہوئے سعد حریری کے استعفے کا مطالبہ کر ڈالا۔ یہاں تک کہ لوگوں نے ہر قسم کی مصلحت و مذاکرات سے بھی انکار کیا۔ تحریک کے دباؤ میں آکر جب لبنانی صدر مائیکل عون نے مظاہرین کو مذاکرات کی پیش کش کی تو لوگوں نے اس کو ٹھکراتے ہوئے استعفے سے قبل کسی بھی مذاکرات میں شامل نہ ہونے کا بھی اعلان کیا۔ شہدا چوک بیروت میں موجود مظاہرین کا صدر عون کی جانب سے کی گئی مذاکرات کی پیش کش پر کہنا تھا کہ یہ پیش کش ناقابل تسلیم ہے کیونکہ صدر کی تقریر لوگوں کی ضروریات کو پورا نہیں کرسکتی نہ ہی یہ تقریر لوگوں کے اس معیار پر پورا اترتی ہے جس کی وہ توقع کررہے ہیں۔ بالآخر 29 اکتوبر کو جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی ہیں‘ وزیر اعظم سعد حریری کو عوام کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے استعفیٰ دینا پڑا ہے۔
لبنان میں حالیہ تحریک کا آغاز بظاہر نئے ٹیکسوں کے اجرا کے خلاف دکھائی دیتا ہے مگر بنیادی طور پر یہ تحریک یہاں سالوں سے جاری معاشی مسائل، بیروزگاری، عدم مساوات اور سرکاری بدعنوانیوں کے خلاف مجتمع شدہ غم و غصے کا شدید اظہار ہے۔ حالیہ تحریک ماضی میں یہاں اٹھی تحریکوں سے بالکل مختلف معلوم ہوتی ہے کیونکہ ماضی میں یہاں جس طرح لوگوں کو نسلی و فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرکے طبقاتی بنیادوں کو کمزور کیا جاتا رہا ہے‘اس واردات کو رواں تحریک نے سرے سے مسترد کر دیا ہے۔ مظاہرین میں شامل 23 سالہ فاطمہ‘ الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہتی ہیں ”سیاستدانوں نے ہم سے ہمیشہ جھوٹ بولا کہ ہم ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں مگر ہم نفرت نہیں کرتے۔ میں کسی اور فرقے سے ہوں اورمیری دوست کسی اور سے… مگر ہم سب یہاں اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے ایک ساتھ ہیں۔ ہم وہ زندگی نہیں گزارنا چاہتے جو ہمارے والدین نے گزاری ہے۔ “ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عبداللہ نامی شخص کا کہنا تھا کہ’’ہم یہاں واٹس ایپ کے لئے نہیں ہیں بلکہ ہم ایندھن، خواراک، روٹی، ہر چیز کے لئے ہیں۔ “ مظاہروں میں شامل لوگوں کے یہ تاثرات اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ یہ خودرو تحریک ماضی میں آزمائے گئے ہر’لیڈر‘اور مروجہ سیاسی قیادتوں کو مستردکرتے ہوئے طبقاتی جڑت کی طرف گامزن ہے۔ بیروت گزشتہ دو ہفتوں سے جام ہے اور تمام ہسپتالوں، سکولوں اور بینکوں سمیت سبھی ادارے بند ہیں۔ نہ صرف نوجوان، بچے اور بوڑھے بلکہ عورتوں کی پہلے کبھی نہ دیکھی گئی تعداد اس بار مظاہروں میں حصہ لے رہی ہے۔ لبنانی خواتین کے اس مثبت کردار سے تمام عرب دنیا کی خواتین میں بیداری کا عمل شروع ہوسکتا ہے۔
لبنان کی معیشت دنیا کی مقروض ترین معیشتوں میں سے ایک ہے جس کا قرضہ اس کے جی ڈی پی کے 150 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ بیروزگاری کی شرح چالیس فیصد سے زیادہ ہے جس کا اقرار لبنانی صدر نے کچھ عرصہ قبل خود کیا تھا۔ نوجوانوں کی اکثریت اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بھی اپنی صلاحیتوں سے یا تو کم تر نوکریاں کرنے پر مجبور ہے یا پھر انہیں اپنی قوت محنت بیچنے کے لئے بیرون ملک رخ کرنا پڑتا ہے۔ اس سال مالیاتی خسارے کا تخمینہ 9.8 فیصد ہے جبکہ اگلے سال خسارے کے 11.5 فیصد پہنچ جانے کے امکانات ہیں۔ آئی ایم ایف کی ایما پرپنشن میں کٹوتی سمیت مستقل نوکریوں کا خاتمہ کیا جا رہا ہے اور کٹوتیوں کا سلسلہ معمول بن چکا ہے۔ فی کس کی بنیاد پر دنیا میں مہاجرین کی سب سے بڑی پناہ گاہ ہونے کی وجہ سے اس معاشی بدحالی کا ذمہ دار بھی انہی پناہ گزینوں کو ٹھہرانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن حالیہ تحریک میں سرگرم نوجوانوں نے حکمرانوں کے ایسے سبھی تاثرات کو مسترد کر دیا ہے۔
حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ نے 19 اکتوبر کو حکومت کے استعفے کی مخالفت کرتے ہوئے حکومت کی حمایت میں اظہار خیال کیا تھا (یاد رہے لبنان‘ ایرانی حمایت یافتہ حزب اللہ کا اہم گڑھ ہے اور اس وقت لبنانی پارلیمنٹ میں حزب اللہ کی 13 نشستیں ہیں)۔ انہوں نے دوسری تقریر کرتے ہوئے انتباہ کیا کہ حکومت کے استعفے سے ملک ’انتشار‘کی لپیٹ میں آجائے گا۔ انہوں نے 1990ء میں اختتام پذیر ہوئی ’خانہ جنگی‘ کے طرز کی کیفیت کا بھی خدشہ ظاہر کیا۔ دراصل رواں بغاوت نے جہاں موجودہ حکومت کو للکارا ہے وہیں اقتدار کا حصہ رہی ہر جماعت پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انہیں مسترد کیا ہے۔ ایسے میں حزب اللہ کے ’قائدین‘کی جانب سے عوامی مظاہروں کی مخالفت کوئی حیران کن عمل نہیں ہے بلکہ یہ حزب اللہ میں پائے جانے والی شدید بے چینی کا اظہار ہونے کے ساتھ ساتھ خوف کی عکاسی بھی کرتا ہے کیونکہ مظاہر ے حزب اللہ کے گڑھ جنوبی لبنان تک پھیل گئے ہیں۔ عوام نے یہاں رائج اس پورے نظام ہی کو چیلنج کردیا ہے۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ لبنانی عوام جس انقلابی قیادت کی مانگ شعوری یا لاشعوری طور پہ کر رہے ہیں کیا وہ موجود ہے؟ فی الوقت ایسی کوئی قیادت سیاسی افق پر نظر نہیں آ رہی ہے۔ نہ صرف لبنان بلکہ دنیا بھر میں نوجوان نسل کو اس کیفیت کو چیلنج کے طور پر لینے کی ضرورت ہے۔ یقینًا ایسی تحریکوں کی کوکھ سے نئی قیادتیں جنم لے سکتی ہیں۔