عمار یاسر
لاطینی امریکہ کے ملک ایکواڈور میں لینن مورینو جو کہ ترقی پسنداقدامات کا وعدہ کر کے حکومت میں آیا تھا‘ نے جب سامراجی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے کہنے پردیگر کٹوتیوں کے ساتھ ساتھ دہائیوں سے چلی آ رہی مقامی آبادی کوڈیزل پر دی جانے والی سبسڈی ختم کر دی تو عوام نے بھر پور احتجاجی مظاہرے شروع کر دیئے۔ یہاں تک کہ پورے ملک کا نظام جام ہو گیا۔ مظاہرین نے سٹرکوں کو بلاک کر دیا اور چھ تیل کے کنووں پر قبضہ کر کے کئی زور تک ان کی پیداور روک دی۔ سبسڈی ختم ہونے کی وجہ سے صرف ایک رات کے اندر ڈیزل کی قیمتوں میں دو گنا اضافہ (1.83ڈالر فی لٹر سے 2.35ڈالر فی لٹر) ہو گیا تھا۔ ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے سے نہ صرف ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ یہ پوری معیشت پر اثر انداز ہوتے ہوئے افراط زر میں بہت زیادہ اضافے کا موجب بنتا ہے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ حکومت بحران کا سارا بوجھ غریب عوام پر ڈال رہی ہے اور ان کو جو تھوڑی بہت سہولیات حاصل ہیں وہ بھی چھین رہی ہے اوردوسری طرف امیروں سے کچھ نہیں لیا جاتا اور سامراجی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں کو نافذ کیا جا رہا ہے۔ لیکن11 روز تک جاری رہنے والے ان عوامی مظاہروں نے آخر کا رحکومت کو اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور کر دیااورحکومت اور مظاہرین کے مابین مذاکرات کے بعد ایکواڈور کی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ 4.2 ارب ڈالر قرضے کا معاہدہ منسوخ کر دیا۔
یہ مظاہرے ایکواڈور کے آبائی لوگوں نے شروع کیے تھے۔ حکومت نے ان مظاہروں کوختم کرنے کے آنسو گیس اور اس جیسے بہت سے حربوں کا استعمال کیا اوردو ہفتے جاری رہنے والے ان مظاہروں میں کم از کم 7 افراد ہلاک اورسینکڑوں زخمی ہوئے اور 2000 گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ لیکن ان مظالم نے عوام کوکمزور کرنے کی بجائے ان کو مزید شکتی دی اور وہ فتح سے ہمکنار ہوئے۔
عوام اور حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات ٹیلی وژن پر براہِ راست دکھائے گئے۔ مذاکرات کی کامیابی کے بعد ایکواڈور کے دارلحکومت ’کیٹو‘جہاں دیگر تمام صوبوں سے بھی عوام اپنے حق کے لئے اکٹھے ہو رہے تھے‘ میں جشن کا سماں تھا۔ لیکن ان مذکرات کی کامیابی کے بعد بھی لوگوں کا کہنا تھاکہ وہ مکمل طور پر ان اقدامات کا خاتمہ چاہتے ہیں جو کہ آئی ایم ایف کی پالیسی پر عمل درآمد کرتے ہوئے نافذ کیے گئے ہیں اور وہ کسی صورت یہ برداشت نہیں کریں گے ان کٹوتیوں کی جگہ نئی کٹوتیاں متعارف کروائی جائیں۔ اوراگر ضرورت پڑی تو وہ اپنے مطالبات منوانے کے لئے دوبارہ بھی سڑکوں پر آسکتے ہیں۔
کسی ایک ملک میں طبقاتی لڑائی میں عوام کی جیت پوری دنیا میں لوگوں کے شعور کو آگے بڑھاتی ہے۔ بالخصوص محنت کش طبقے کی ہراول پرتیں اس سے بہت سے نتائج اخذ کرتی ہیں۔ آئی ایم ایف اور اس جیسے اداروں کا مقصد ہی تیسری دنیا کے ممالک پر اس نظام کی استحصالی اجارہ داری قائم کرنا ہوتا ہے۔ جس کی مثال ہم پاکستان میں دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح آئی ایم ایف کے پروگرام کے نفاذ کے بعد معیشت کی زبوں حالی نے عوام کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے اور روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں جبکہ بیروزگاری بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ایکواڈور کے عوام کی یہ جیت دیگر ایسے ممالک کے محنت کشوں کے لئے ایک مشعل راہ ہے جن کی معیشتوں کو ان سامراجی اداروں نے جکڑا ہواہے کہ کس طرح عوام اپنے زور بازو سے سامراجی اداروں اور ان کی کٹھ پتلی حکومتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔