حسن جان

کُرد ایک دفعہ پھر ترکی کے ’سلطان‘ اردگان کے نشانے پر ہیں۔ شام کی آٹھ سالہ خانہ جنگی کے دوران شامی کردوں کے خلاف ترک ریاست کی یہ تیسری بڑی کاروائی ہے۔ اس حملے میں ترک فوج کے ساتھ معاونت کے لیے سیرین نیشنل آرمی بھی شامل ہے جو کرائے کے قاتلوں اور اردگان کے پالے ہوئے مذہبی جنونیوں پر مشتمل ایک پراکسی ہے۔ اس بار ترکی ”کُر د مسئلے“ کو دیرپا بنیادوں پر حل کرنے کا خواہاں ہے۔ بظاہر یہ فوجی آپریشن کردمسلح ملیشیا’ YPG‘ (پیپلز پروٹیکشن یونٹس) کے خلاف ہے جنہیں ترکی نے دہشت گرد قرار دیا ہے۔ ’YPG‘ اس وقت شمالی شام کے ایک بہت بڑے حصے پر حکومت کر رہی ہے۔ ترک صدر اردگان کے مطابق اس فوجی کاروائی کا مقصد شمالی شام میں ترک شامی سرحد پر 480 کلومیٹر لمبی اور شام کے اندر 30 کلومیٹر چوڑی پٹی پر مشتمل ’Safe Zone‘کا قیام ہے جہاں ترکی میں قیام پذیر تیس لاکھ سے زائد شامی مہاجرین کو لاکر آباد کیا جائے گا۔یعنی پہلے ان علاقوں سے کردوں کو نکالا جائے گا اور پھر ان کی جگہ ان شامی مہاجرین کو آباد کیا جائے گا جن کی اکثریت عرب النسل ہے۔ اس طرح اس تیس کلومیٹر چوڑی پٹی کے ذریعے شام کے ساتھ ترکی کی سرحد پر آباد کردوں کا رابطہ شامی کردوں سے منقطع کردیا جائے گا۔

2011ء میں شام کے صدر بشارالاسد کے خلاف تحریک اور اس کے بعد سامراجی ریاستوں کی مداخلت کے بعد شامی حکومت نے ملک کے دیگر علاقوں میں سرکشی سے لڑنے کے لیے شمالی شام کے اس وقت تک نسبتاً پرامن کرد نشین علاقوں سے اپنی فوجیں نکال لی تھیں۔ جس کے بعد کرد ملیشاﺅں نے ان علاقوں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کرد ’YPG‘ اور ’PYD‘ نے شمالی شام کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کرلیا۔ کرد ملیشاﺅں نے ان علاقوں کو ”روجاوا“ کا نام دیا جو شام کی مرکزی حکومت سے آزاد ہے۔ روجاوا کی خودمختار حکومت کے قیام نے ترکی کے مقتدر حلقوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں۔ ترکی کے لیے یہ بات قطعاً ناقابل قبول تھی کہ اس کی سرحد پر ہی شام میں کردوں کی ایک خودمختار حکومت بنے۔ ترکی پہلے سے ہی اپنے کرد علاقوں میں شورش سے نبرد آزما تھا۔ اسی لیے ترکی نے شمالی شام میں کردوں کی سرکوبی کے لیے متعدد فوجی کاروائیاں اور حتیٰ کہ ان علاقوں میں داعش کی بھی سرپرستی کی۔

موجودہ فوجی کاروائی کے آغاز کے ایک ہفتے بعد امریکی نائب صدر مائیک پینس نے انقرہ کا دورہ کیا اور اردگان سے مذاکرات کے بعد 17 اکتوبر کو ’YPG‘ اور ترکی کے درمیان پانچ روزہ جنگ بندی کا اعلان کیا جس کے تحت کرد ’ YPG‘  ترک سرحد کے قریب دو شہروں راس العین اور تل ابیض ( جن پر ترکی نے اپنی فوجی کاروائیوں کو مرکوز کیا ہے) کے درمیان 120 کلومیٹر کی پٹی سے تیس کلومیٹر پیچھے چلے جائیں گے اور اس دوران ترکی کردوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرے گا۔ اس جنگ بندی کے بعد 22 اکتوبر کو روس کے شہر سوچی میں روسی صدر پیوٹن اور ترک صدر اردگان کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد دونوں سربراہان مملکت اس بات پر متفق ہوئے کہ کُرد ’YPG‘کے مسلح دستے ترکی کے ساتھ شام کے شمالی سرحدی علاقوں کو خالی کریں گے اور مجوزہ ’Safe Zone‘ کی پٹی پر روسی اور شامی افواج مشترکہ طور پر گشت کریں گی۔ کریملن کے ترجمان نے اس معاہدے کے بعد تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ”اگر ’ YPG‘ نے سرحدی پٹی کو خالی نہیں کیا تو روسی اور شامی دستے مجبوراً علاقے سے نکل جائیں گے اور ترک فوج آکر کردوں کو کچل دے گی۔“

اس تمام صورت حال میں شامی کردوں کے لیے سب سے بڑا دھچکا امریکی سامراج کی جانب سے انہیں ترکی کے غیض و غضب کے سامنے تنہا چھوڑنا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتہائی شاطرانہ انداز میں شمالی شام سے اپنی فوج کو نکال کر ترکی کو کردوں پر چڑھائی کرنے کا عندیہ دے دیا۔ روسی مافیائی صدر پیوٹن کا گھناﺅنا چہرہ بھی بے نقاب ہوگیا ہے جو منافقانہ انداز میں سامراج مخالف بننے کا ناٹک کرتا رہتا ہے۔ ان واقعات نے ایک دفعہ پھر اس بات کو واضح کیا ہے کہ سامراجیوں کے لیے مظلوم اقوام کی تحریک اور بحیثیت مجموعی قومی سوال سودے بازی کا اوزار ہے جنہیں بڑی طاقتیں آپسی جھگڑوں میں ایندھن کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ ان طاقتوں کو ان قوموں کی مظلومیت سے کوئی سروکار نہیں بلکہ اپنی باہمی چپقلش میں ایک دوسرے کو دھمکانے اور بلیک میل کرنے کے لیے قومی سوال کو استعمال کرتے ہیں اور جب معاملات طے پاجاتے ہیں تو انتہائی منافقت سے اس قوم کی پیٹھ میں چھورا گھونپ کر اپنی راہ لے لیتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں کردوں کا مسئلہ اس حوالے سے مختلف ہے کہ ان کے ساتھ پچھلے تقریباً سو سالوں میں مختلف سامراجی ممالک بالخصوص امریکہ نے متعدد مواقع پر دغا کیا ہے۔ انہیں کئی مرتبہ اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا اور پھر بعد میں اپنے حکمرانوں کے جبر کے سامنے اکیلا چھوڑ دیا۔

کُرد کون ہیں؟

کُرد مشرق وسطیٰ میں آباد ایک قدیم نسلی گروہ ہے جس کی آبادی 30 سے 40 ملین کے درمیان ہے جن کی اکثریت شافعی سنی مسلمان ہیں اور علوی مسلمان بھی ہیں لیکن وہ اقلیت میں ہیں۔ کردوں کی اپنی الگ زبان ہے جسے کُردی کہاجاتا ہے جس کے تین اہم لہجے ہیں۔ 70 فیصد سے زائد کُرد کرمانجی لہجے میں بات کرتے ہیں جبکہ تقریباً 25 فیصد سورانی اور کلہری لہجے میں بات کرتے ہیں۔ کُرد زیادہ تر چار ممالک ترکی، ایران، عراق اور شام میں تقسیم ہیں۔ تاریخی طور پر اس علاقے کو کردستان کہا جاتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کی تاریخ میں کُردوں کا ایک اہم کردار رہا ہے۔ قرون وسطیٰ میں متعدد ایسی سلطنتیں، راجدھانیاں اور خاندانی سلسلے قائم ہوئے جن کی باگ ڈور کُردوں کے ہاتھوں میں تھی مثلاً سلسلہ شدادیان، سلسلہ روادیان، سلسلہ حسنویہ، سلسلہ مروانیان، سلسلہ بنی عیاران، سلسلہ ہزاراسپیان اور سلسلہ ایوبیان (جسے صلاح الدین ایوبی نے قائم کیا تھا) سب کرد سلطنتیں تھیں۔ بعد میں ترکوں اور منگولوں کے حملوں سے یہ سلطنتیں ختم ہوئیں۔ 1514ء میں ایرانی صفوی سلطنت اور عثمانی سلطنت کے درمیان جنگ چلدران کے بعد تاریخی کردستان ان دونوں سلطنتوں کے درمیان تقسیم ہوا اور اگلے تین سو سالوں تک کرد علاقے ان دونوں سلطنتوں کے پاس آتے جاتے رہے۔

جدید بورژوا قومی ریاست کے تصورات انیسویں صدی میں کردوں میں سرایت کرنے لگے اور ایک مشترکہ کرد ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد شروع ہوئی۔ انیسویں صدی میں عثمانی سلطنت نے کرد علاقوں کی راجدھانیوں کے اختیارات کم کرتے ہوئے ان کی نیم خودمختاری کو ختم کردیا جس سے کُرد قبائلی سربراہوں میں غم و غصے کی لہر پیدا ہوئی۔ اکا دکا بغاوتیں ہوتی رہیں جنہیں عثمانیوں اور فارس کے قاجار حکمرانوں نے کچل دیا۔ لیکن الگ کرد ریاست کے لیے بڑے پیمانے پر پہلی بغاوت انیسویں صدی کے آخر میں شیخ عبداللہ نہری کی قیادت میں شروع ہوئی جس نے عثمانی اور قاجار حکمرانوں سے آزاد کرد ریاست کا مطالبہ کیا۔ شیخ عبداللہ ایک کُرد زمیندار اور طاقتور شمدینان خاندان کا سربراہ تھا۔ عثمانیوں اور فارسیوں نے مل کر اس بغاوت کو کچل دیا لیکن کُردوں کی الگ قومی ریاست کے لیے جدوجہد کا باقاعدہ آغاز ہوچکا تھا۔

سامراجیوں کی غداریاں

پہلی جنگ عظیم میں مرکزی طاقتوں کی اتحادی طاقتوں کے ہاتھوں شکست کے بعد عثمانی سلطنت اور اتحادی قوتوں کے مابین 10 اَگست 1920ء کو فرانس میں معاہدہ سیورے (Treaty of Sèvres)طے پایا۔ معاہدے میں جہاں سلطنت عثمانیہ کو فرانس اور برطانیہ کے حلقہ ہائے اثر میں تقسیم کیا گیا وہیں کردوں کے لیے ایک الگ ریاست کردستان کا بھی وعدہ کیا گیا لیکن اس کی سرحدیں واضح نہیں تھیں۔ اس معاہدے سے ترک قوم پرست لیڈر مصطفی کمال کی قیادت میں ایک بغاوت بھڑک اٹھی جس نے اس معاہدے کو مسترد کردیا کیونکہ معاہدہ سیورے کے تحت ترکوں کے حصے میں بہت کم علاقہ بچتا تھا۔ اس بغاوت کے نتیجے میں اتحادی طاقتوں کو مجبوراً ترکوں کے ساتھ نیا معاہدہ کرنا پڑا۔ 1923ء میں معاہدہ لوزان طے ہوا جس کے نتیجے میں موجودہ ترک ریاست کا قیام عمل میں آیا اور عثمانی سلطنت کو باضابطہ طور پر تحلیل کردیا گیا۔ لیکن اتحادیوں اور نئی ترک تحریک کے درمیان ہونے والے اس معاہدے میں کہیں بھی کُردوں کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ عثمانی سلطنت کے کرد علاقوں کا بڑا حصہ ترکی کے حصے میں آیا جبکہ باقی حصے فرانس اور برطانیہ کے حلقہ اثر میں چلے گئے جنہیں بعد میں نئی بننے والی ریاستوں عراق اور شام میں شامل کردیا گیا۔ سامراجیوں نے آزاد کرد ریاست کے وعدے کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔

سامراجیوں کی اس دھوکہ دہی کے بعد کردوں کی کئی مسلح بغاوتیں ہوئیں۔ سب سے اہم بغاوت 1925ء میںترکی کے مشرقی کرد علاقوں میں ہوئی جس میں پندرہ ہزار کُرد جنگجوﺅں نے ترک فوج کے خلاف جنگ لڑی لیکن اسے جلد ہی کچل دیا گیا۔ اسی طرح 1927ء میں جنوب مشرقی ترکی میں ”ارارات کی بغاوت“ ہوئی اور 28 اَکتوبر 1928ء کو جمہوریہ ارارات کے قیام اور آزادی کا اعلان کیا گیا لیکن اس ریاست کو عالمی سطح پر کسی نے تسلیم نہیں کیا اور بیرونی حمایت کی غیر موجودگی اور تنہائی کی وجہ سے 1930ء میں ترک فوج نے فضائی بمباری اور زمینی فوج کے ذریعے جلد ہی اس بغاوت کو بھی کچل دیا۔

ترکی میں کردوں کی حالت زار

ان بغاوتوں کو کچلنے کے بعد ترکی نے کرد علاقوں میں ظلم کے پہاڑ توڑے۔ کرد علاقوں میں مارشل لا نافذ کیا گیا۔ آبادی کی ہیت کو تبدیل کرنے کے لیے البانیوں اور آشوریوں کو کرد علاقوں میں آباد کیا گیا۔ ترک کمیونسٹ پارٹی کے مطابق 1925ء سے 1938ء کے دوران پندرہ لاکھ سے زائد کُرد علاقہ بدر یا قتل کر دیئے گئے۔ کُرد زبان پر پابندی لگا دی گئی اور تاریخ کی کتابوں اور لغت سے لفظ ’کُرد‘ اور ’کردستان‘ کو حذف کیا گیا اور کردوں کے وجود سے ہی انکار کیا گیا اور انہیں ”پہاڑی ترک“ کہا جانے لگا۔ کرد زبان بولنے، مطبوعات کی اشاعت اور اس میں گانا گانے پر گرفتار کیا جاتا تھا۔ یہ پابندیاں 1991ء تک نافذ رہیں لیکن سرکاری اور نجی اسکولوں میں آج بھی کُرد زبان میں تعلیم پر پابندی عائد ہے۔ ترکی کے کُرد علاقے آج بھی کسی مقبوضہ علاقے اور فوجی چھاﺅنی کا منظر پیش کرتے ہیں۔

1978ء میں ترکی میں بائیں بازو کی کردستان ورکرز پارٹی (PKK) کا قیام عمل میں آیاجس کے بانی عبداللہ اوجالان تھے جو بعد میں شام میں جلاوطن ہوگئے اور وہی سے پارٹی کے معاملات چلاتے تھے۔ پارٹی کا مقصد مسلح جدوجہد کے ذریعے آزاد کرد ریاست کا قیام تھا۔ مسلح جدوجہد کا باقاعدہ آغاز 1984ء میں ہوا جب ’پی کے کے‘ نے ترک فوج، سرکاری اہلکاروں اور حکومتی تنصیبات کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ ان کاروائیوں کے رد عمل میں ترک ریاست نے کُرد علاقوں میں بے تحاشہ فوجی آپریشن کیے جن میں مسلح جنگجوﺅں کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں عام کرد بھی نشانہ بنے۔ کرد دیہاتوں اور قصبوں پر وحشیانہ بمباری کی گئی۔ متعدد دیہاتوں سے لوگوں کو علاقہ بدر کیاگیا جس سے لاکھوں کرد ملک کے اندر ہی مہاجر بن گئے۔ 1998ء میں ترکی نے شام پر سیاسی دباﺅ اور فوجی حملے کی دھمکی دے کر عبداللہ اوجالان کو شام سے نکلوا دیا۔ بعد میں ترکی نے سی آئی اے کے ساتھ مشترکہ آپریشن میں کینیا کے شہر نیروبی سے انہیں گرفتار کرکے ترکی واپس لایا۔ یہ’ PKK‘کی مسلح تحریک میں ایک اہم موڑ تھا کیونکہ اگلے سال 1999ء میں ہی’ PKK‘نے جنگ بندی کا اعلان کیا جو 2004ء تک جاری رہا۔

ترکی میں کردوں کے لیے سیاسی جدوجہد پر یقین رکھنے والی جماعتوں پر بھی مسلسل کریک ڈاﺅن اور جبر ہے اور ان پارٹیوں پر بار بار پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔ کرد سیاسی کارکنان، صحافی، طلبہ اور سماجی سرگرم کارکنوں کی اندھا دھند گرفتاریاں روز کا معمول ہیں۔ 2012ء میں بننے والی مقبول کرد بائیں بازو کی پارٹی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (HDP) کے ممبران پارلیمنٹ کو 2017ء میں دہشت گردی کے الزامات پر گرفتار کیا گیا اور ان کی پارلیمنٹ کی رکنیت ختم کر دی گئی۔

ایران، عراق اور شام میں کردوں پر جبر

ایران میں کُرد قومی سوال ترکی کی مانند اتنا شدید نہیں ہے کیونکہ تاریخی طور پر کُردوں کے دیگر ایرانی قومیتوں کے ساتھ گہرے نسلی، لسانی اور ثقافتی مراسم رہے ہیں۔ اسی وجہ سے ایرانی حکومت کا جبر بھی ترکی کی مانند اتنا وحشیانہ اور جابرانہ نہیں رہا ہے۔ اس کے باوجود مختلف اوقات میں کرد قومی مسئلہ سراٹھاتا رہا ہے جس کو کچلنے کے لیے ایرانی ریاست نے نہ صرف پہلوی دور میں بلکہ اسلامی جمہوریہ کے دور میں بھی بھر پور جبر کا استعمال کیا ہے۔

جدید تاریخ میں ایرانی ریاست کے خلاف کُردوں کی پہلی مسلح بغاوت 22-1918ء کے دوران ہوئی جسے ایک کُرد قبائلی رہنما سمکو شکک نے عثمانیوں کی کمک سے شروع کیا تھا لیکن اسے جلد ہی کچل دیا گیا۔ اس کے علاوہ 1926ء میں ایک اور بغاوت ہوئی لیکن ایرانی کردوں کی تاریخ میں سب سے اہم موڑ دوسری جنگ عظیم کے دوران آیا جب سوویت یونین اور برطانیہ نے ہٹلر کا مقابلہ کرنے اور اپنی مشترکہ سپلائی لائن کے لیے ایران پر قبضہ کیا۔ 1946ء میں کُرد ڈیموکریٹک پارٹی آف ایران اور بائیں بازو کی دیگر جماعتوں نے مل کر سوویت یونین کی فوجی حمایت سے جمہوریہ مھاباد (ایرانی کردستان، جو آج کے ایران کا مغربی آزربائیجان صوبہ کہلاتا ہے) کے قیام کا اعلان کیا۔ لیکن کچھ عرصے بعد ہی جب سوویت یونین نے اپنی فوجیں ایران سے نکال لیں تو یہ جمہوریہ مھاباد بھی ڈھے گئی اور ایرانی فوجیں بغیر کسی مزاحمت کے ایرانی کردستان میں داخل ہوئیں۔ جمہوریہ مھاباد صرف ایک سال قائم رہ سکی۔

ایران میں کردوں کے خلاف سب سے وحشیانہ جبر 1979ء میں خمینی کے اقتدار میں آنے کے بعد ہوا۔ کرد قوم پرست اور بائیں بازو کی جماعتوں نے شاہ ایران کے خلاف انقلابی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ انقلاب کے بعد ان جماعتوں کا مرکزی حکومت سے مطالبہ زیادہ خودمختاری کا تھا لیکن نئی تھیوکریٹک ریاست اس کے لیے قطعاً تیار نہیں تھی جس کے جواب میں کرد علاقوں میں ڈیموکریٹک پارٹی آف ایرانی کردستان اور دیگر تنظیموں نے مارچ 1979ء میں ایک سرکشی کا آغاز کیا اور شروع شروع میں ایرانی کردستان کے کئی شہروں اور قصبوں پر قبضہ بھی کرلیا۔ لیکن ایرانی پاسداران انقلاب نے ریاست کی پوری قوت کے ساتھ اسے کچل دیا۔ یہ جنگ 1983ء تک جاری رہی جس کے دوران دس ہزار سے زائد کُرد ہلاک ہوئے۔

عراق میں کردوں کی آزاد ریاست کے لیے لڑائی پہلی جنگ عظیم کے بعدہی شروع ہوئی۔ معاہدہ سیورے کے تحت عراقی کردستان برطانوی کنٹرول میں آگیا تھا۔ 1922ء میں محمود برزانی نے شمالی عراق میں کرد بادشاہت کا اعلان کیا جسے جلد ہی برطانوی فوج نے کچل دیا۔ اسی طرح 1943ء میں مصطفی برزانی نے ایک اور سرکشی کی اور اربیل اور آس پاس کے کچھ علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ برطانوی فضائی حملوں کے بعد کرد جنگجوﺅں نے ایران میں بھاگ کر پناہ لی۔ عراقی حکومت اور کردوں کے مابین پہلی وسیع پیمانے پر جنگ 1961ء میں شروع ہوئی جو 1970ء تک جاری رہی۔ 1970ء میں مذاکرات کے نتیجے میں جنگ بندی ہوئی اور شمالی عراق میں کرد علاقوں کو خودمختاری اور کرد زبان کو قومی زبان کی حیثیت دی گئی۔ ایران عراق جنگ (1980-1988ء) کے دوران عراقی اور ایرانی حکومت نے اپنے ہاں کی کرد جماعتوں کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا۔ جس کے نتیجے میں 1988ء میں اس وقت کے عراقی لیڈر صدام حسین نے شمالی عراق کے علاقے حلبجہ پر کیمیائی ہتھیاروں اور مسٹرڈ گیس سے حملہ کرکے ہزاروں کردوں کا قتل عام کیا۔

شام میں کرد آبادی کا 7 سے 10 فیصد ہےں۔ لیکن قومی جبر یہاں بھی موجود ہے۔ کرد زبان میں تعلیم پر پابندی ہے۔ تعلیم اور کاروبار میں کُرد نام کے حامل افراد کو تعصب اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 2011ء تک تین لاکھ سے زائد شامی کردوں کو شام کی حکومت نے 1961ء سے بنیادی شہریت سے ہی محروم کر رکھا تھا۔ 2011ء میں صدر بشارالاسد نے اپنے خلاف شورش کو ٹھنڈا کرنے کے لیے تین لاکھ سے زائد کردوں کو شہریت دی۔

کُرد قومی سوال اور سامراجی ممالک کی منافقت

تاریخ گواہ ہے کہ بڑی عالمی اور علاقائی سامراجی طاقتیں مظلوم اور محکوم قوموں پر جبر کے سوال کو ہمیشہ اپنے گھناﺅنے عزائم کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں۔ ایران عراق جنگ کے دوران صدام حسین نے کرد ڈیموکریٹک پارٹی آف ایران سے رابطے استوار کیے اور انہیں اسلحہ فراہم کیا تاکہ جنگ میں اپنا پلڑا بھاری کرسکے۔ اسی طرح ایران نے بھی مسعود برزانی کی کردش ڈیموکریٹک پارٹی (KDP) اور جلال طالبانی کی پیٹریاٹک یونین آف کردستان (PUK) کو اپنے ساتھ ملا کر صدام حسین کے خلاف محاذ بنایا۔ دوسری طرف اس جنگ میں امریکی سامراج نے ایران کے خلاف صدام حسین کی بھرپور حمایت کی اور جب صدام حسین عراقی کردوں کی کیمیائی ہتھیاروں سے نسل کشی کر رہا تھا تو امریکہ نے مکمل خاموشی اختیار کی۔ نوے کی دہائی میں جب امریکی افواج نے عراقی فوج کو کویت سے نکال دیا تو اس وقت کے امریکی صدر جارج بش سینئر نے کردوں کو صدام حسین کے خلاف اکسایا اور اس کی حکومت اکھاڑ پھینکنے کا کہا۔ لیکن کرد اس سرکشی میں پھر تنہا رہ گئے اور انہیں صدام حسین کی بربریت کا سامنا کرنا پڑا۔

2003ء میں جب امریکی سامراج نے صدام حسین کو ہٹانے کے لیے عراق پر حملہ کیا تو اس وقت بھی عراق کی کرد جماعتیں‘ بالخصوص مسعود برزانی اور جلال طالبانی کی جماعتیں امریکہ کی اہم تحادی تھیں اور اس کے بدلے میں انہیں کرد علاقوں میں خود مختار علاقائی حکومت سے نوازا گیا۔ لیکن جب 2017ء میں عراقی کردستان کی حکومت کے سربراہ مسعود برزانی نے الگ کرد ریاست کے لیے ریفرنڈم کروایا تو اسے اپنے اس عہدے سے ہی ہاتھ دھونا پڑا اور عراقی فوج نے عراقی کردستان میںداخل ہوکر تیل کی تنصیبات کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ اس بار بھی امریکی سامراج خاموش تماشائی بنا رہا ۔ترکی اور ایران نے بھی اس ریفرنڈم اور کردستان کی علیحدگی کی مذمت کی۔

طیب اردگان کی کردوں پر حالیہ فوج کشی میں بھی امریکی سامراج نے اپنی منافقت کا کھل کر مظاہرہ کیا۔ پہلے تو ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی شام سے اپنی ساری فوجیں نکالنے کا اعلان کیا لیکن بعد میں یہ کہا کہ شمالی شام میں تیل کی تنصیبات کی حفاظت کے لیے تین سو امریکی فوجی تعینات رہیں گے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ کردوں کی زندگیاں کوئی اہمیت نہیں رکھتی بلکہ کاروبار اور مالی مفادات زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔

مشرق وسطیٰ کی سوشلسٹ فیڈریشن ‘ واحد حل

یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اپنی طبعی عمر پوری کرچکا ہے۔ اب یہ انسانی سماج کو آگے لے جانے سے قاصر ہے۔ قومی سوال کو حل کرنا سرمایہ داری کے بنیادی فرائض میں سے ایک تھا لیکن غیر ترقی یافتہ ممالک میں قومی سوال تو موجود ہے ہی، ترقی یافتہ ممالک کے اندر بھی قومی سوال سر اٹھا رہا ہے۔ یہ ممالک ایک وقت میں سرمایہ داری کے سرخیل تھے لیکن نظام کی گراوٹ اور بوسیدگی کی وجہ سے یہاں بھی قومی سوال نے اپنا سر اٹھا لیا ہے۔ حالیہ دنوں میں سپین میں کیٹالونیا کی علیحدگی کی تحریک نے پوری شدت سے ریاست کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اسی طرح برطانیہ میں اسکاٹ لینڈ کی علیحدگی بھی برطانیہ کے حکمران طبقات کی نیندیں حرام کر رہی ہے۔ سپین اور برطانیہ سرمایہ دارانہ نظام کے ابتدائی دنوں کے رہنما ممالک تھے۔ آج ان جیسے ترقی یافتہ ممالک میں قومی سوال کا ابھرنا بذات خود نظام کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یقینا سرمایہ دارانہ بنیادوں پر کیٹالونیا اور اسکاٹ لینڈ کی علیحدگی کسی بنیادی مسئلے کو حل نہیں کر پائے گی۔

ترکی، ایران، عراق، شام اور مشرق وسطیٰ کی تاخیر زدہ اور اپاہچ سرمایہ داری کی حامل دیگر ریاستوں میں قومی سوال اور زیادہ گہرا ہے۔ یہ ریاستیں اندرونی طور پر اتنی کھوکھلی اور کمزور ہیں کہ مظلوم قومیتوں کے معاشی حقوق تو درکنار، قومی تحریک کے دیگر مطالبات مثلاً مادری زبان میں تعلیم کو بھی قبول کرنے سے خوفزدہ ہوجاتی ہیں کہ کہیں ٹوٹ ہی نہ جائےں۔ اسی وجہ سے تیسری دنیا کے تمام تر ممالک میں قومی سوال کو بدترین طریقے سے کچل دیا جاتا ہے۔

طاقتوں کے موجودہ توازن میں ترکی، ایران، شام اور عراق میں سے کوئی بھی الگ کرد ریاست کا متحمل نہیں ہوسکتا اور نہ ہی سامراجی ریاستیں اس بات کو برداشت کریں گی۔ سب سے بڑھ کر کرد قومی تحریک میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ بیک وقت چار ریاستوں سے لڑے۔ اس وقت یہ چاروں ریاستیں روجاوا کو کچلنے پر متفق ہیں۔ فی الحال وہ’ Safe Zone‘کے تیس کلومیٹر تک بات کر رہے ہیں لیکن جلد ہی پورے روجاوا کو اکھاڑ پھینکا جائے گا اور کرد تنہا ہوں گے۔

ان چاروں ریاستوں میں سرمایہ داری کی موجودگی میں آزاد کرد ریاست کا قیام کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ اس لیے مشرق وسطیٰ کے محنت کشوں کی ایک انقلابی طبقاتی تحریک جو سرمایہ داری کے خاتمے پر منتج ہو‘ کُردوں کو اس جبر سے نجات دلا سکتی ہے۔ کیونکہ ایسی انقلابی تبدیلی اُس طبقے اور نظام کو ہی ختم کردے گی جن کے مفادات موجودہ سرحدوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایسی تحریک کی ایک جھلک ہم نے 2011ء کی عرب بہار کی تحریکوں میں دیکھی جب پورے مشرق وسطیٰ میں محنت کش طبقہ تاریخ کے میدان میں اتر کر اپنی تقدیر بدلنے نکلا تھا لیکن ایک انقلابی قیادت کے فقدان کی وجہ سے وہ اپنی منزل تک نہ پہنچ سکا۔ آج ایک دفعہ پھر بیروت کی سڑکوں پر عوام نکلے ہیں۔ انقلابی قیادت کی موجودگی میں ایسی ہی تحریکیں مشرق وسطیٰ کی ان جابر سرمایہ دارانہ ریاستوں کو ڈھا سکتی ہیں اور سامراج کی کھینچی ہوئی لکیروں کو مٹا کر خطے کی ایک رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کا قیام عمل میں لا سکتی ہیں۔