حسن جان
ایران میں پیٹرول کی قیمتوں میں راتوں رات پچاس فیصد اضافے کے بعد مہنگائی اور معاشی تنگ دستی سے تنگ ایرانی عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ حکومت کا مضحکہ خیز موقف یہ ہے کہ قیمتوں میں حالیہ اضافے کا مقصد فیول کے استعمال میں کمی کرکے فضائی آلودگی کو روکنا اور اضافے سے ہونے والی اضافی آمدن کو معاشرے کے غریب طبقات کے لیے کیش سبسڈی کے لیے استعمال کرنا ہے۔ لیکن عوام ملاؤں کی اس فریب کاری کو خوب سمجھتے ہیں۔ قیمتوں میں اس اضافے کے خلاف پچھلے چار دنوں سے ایران کے تمام بڑے شہروں میں پرتشدد مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ان مظاہروں کو کچلنے کے لیے ایرانی ریاست طاقت کا بھرپور استعمال کررہی ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق پولیس اور سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ کی وجہ سے اب تک 200سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ جبکہ سوشل میڈیا پر نشر ہونے والی ویڈیوز میں سیکیورٹی فورسز کو عوام پر براہ راست فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ مظاہرین کو اکٹھا ہونے اور اطلاع رسانی سے روکنے کے لیے پورے ایران میں انٹرنیٹ سروسز کو مظاہرے شروع ہونے کے دوسرے دن ہی بند کردیا گیا جو بذات خود ملاں ریاست کی بوکھلاہٹ اور خوفزدگی کی علامت ہے۔ دوسری طرف مظاہرین سرکاری تنصیبات، بینک اور ریاستی طاقت کی علامت سمجھی جانے والی عمارات پر حملے کر رہے ہیں۔ متعدد جگہوں پر پاسداران انقلاب کے دفاتر اور پولیس کی گاڑیوں کو بھی نذر آتش کیا گیا ہے۔
لگ بھگ دو سال قبل بھی مہنگائی اور معاشی بدحالی کے خلاف ایران بھر میں ایک ہفتے تک احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ ان مظاہروں نے ایران میں بڑھتے ہوئے معاشی تضادات کی نشاندہی کر دی تھی لیکن وہ تضادات حل نہیں ہوئے۔ ریاست نے جبر اور مخالف مظاہروں کے ذریعے جلد ہی حالات پر قابو پالیا۔ لیکن اس وقت ملاں ریاست کا رد عمل اتنا شدید نہیں تھا جتنا اس بار دیکھنے میں آرہاہے۔ پچھلی مرتبہ ملک میں تمام تر مظاہروں کے دوران انٹرنیٹ سروس بحال تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ ریاست ان مظاہروں کی چھوٹی نوعیت کی وجہ سے انہیں زیادہ سنجیدہ نہیں لے رہی تھی۔ جبکہ اس بار معاملات یکسر مختلف ہیں۔ پچھلے چار دنوں سے ایران کا باقی دنیا سے رابطہ منقطع ہے اور انٹرنیٹ کے ساتھ ساتھ لینڈ لائن فون کے ذریعے رابطوں میں بھی خلل پیدا کی جارہی ہے۔
دوسری طرف عوام اپنی موجودہ معاشی کسمپرسی کی وجوہات کو خوب جانتے ہیں۔ اس لیے پہلے دن سے ہی مظاہرین کے نعرے معاشی مطالبات سے آگے بڑھتے ہوئے سیاسی مطالبات یعنی ملاں ریاست کے خاتمے تک پہنچ گئے۔ وہ واضح طور پر پوری ملاں ریاست کو اپنی بدحالی کی وجہ سمجھتے ہیں اس لیے وہ یہ نعرے لگا رہے ہیں، ”ہمیں اسلامی جمہوریہ نہیں چاہیے“ اور ”مرگ بر خامنہ ای“۔ بی بی سی فارسی سے بات کرتے ہوئے تہران کے ایک رہائشی ہادی نے کہا کہ”اس ریاست نے لوگوں پر اتنا جبر روا رکھا ہے کہ معمولی سے احتجاج کی بھی اجازت نہیں دیتے۔ جو بھی چھوٹا سا مظاہرہ کرتا ہے تو اسے فوراً ’فسادی‘ اور ’منافقین‘ کا نام دے دیتے ہیں۔ اس لیے جب لوگ مظاہرہ کرتے ہیں تو معاشی نعرے کو چھوڑ کر پورے نظام(اسلامی جمہوریہ) اور خامنہ ای کے خلاف نعرے بازی شروع کردیتے ہیں۔ کل رات جب میں تہران یونیورسٹی کے قریب سے گزر رہا تھا تو وہاں طلبہ کے ساتھ عام لوگ بڑی تعداد میں موجود تھے۔ وہاں پیٹرول کی قیمت میں اضافے کی کوئی بات نہیں ہورہی تھی بلکہ براہ راست مُلائی نظام اور خامنہ ای کے خلاف شدید نعرے بازی ہورہی تھی اور سیکیورٹی فورسز ہر کسی پر اندھا دھند جبر کر رہی تھیں۔“
حسب معمول ایرانی ملاؤں نے ان مظاہروں کو بھی بیرونی ہاتھ یعنی امریکیوں کی کارستانی قرار دے دیا ہے۔ جبکہ ایرانی سپریم لیڈر خامنہ ای اور تمام تر سرکاری اہلکار مظاہرین کو چند ’فسادی اور ’غنڈے‘ قرار دے رہے ہیں۔ دوسری طرف امریکہ اور دیگر مغربی ’جمہوریتوں‘ نے بھی منافقانہ انداز میں مظاہرین کی حمایت کی ہے۔ اس طرح کی حمایت ملاؤں کو زیادہ شدید جبر کا جواز فراہم کرکے تحریک کو کچلنے کی راہ ہموار کرتی ہے۔ اس لیے اس تحریک میں امریکہ اور مغربی جمہوریتیں ایرانی عوام کے خیرخواہ نہیں بلکہ دشمن ہیں۔
ایرانی حکومت فی الحال ایسا تاثر دے رہی ہے کہ حالات معمول پر آگئے ہیں اور مظاہرے ختم ہوچکے ہیں۔ خامنہ ای نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ حالیہ واقعات قطعاً کوئی عوامی مسئلہ نہیں تھا بلکہ سیکیورٹی مسئلہ تھا۔ جبکہ ریاست کے خوف کا یہ عالم ہے کہ ایران میں انٹرنیٹ سروس چوتھے دن بھی بند ہے اور ایران کے مختلف شہروں میں ہونے والی قومی لیول کے چار فٹبال میچز کوتا حکم ثانی منسوخ کر دیا گیا ہے۔
پچھلے جمعے کو جب پیٹرول کی قیمتوں میں اچانک اضافے کے بعد مظاہرے شروع ہوئے تو بہت سے حکومتی عہدیدار اور ایرانی پارلیمنٹ کے ارکان بھی دنگ رہ گئے اور اس اضافے کو فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ حکومتی عہدیدارا ن اس اضافے سے لاتعلقی کی راہ ڈھونڈ رہے تھے اور ملبہ دوسرے اداروں پر ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ پارلیمنٹ کے ممبران نے پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے کی درخواست دی اور اس اجلاس کے ایجنڈے میں پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی واپسی کی تحریک بھی شامل کی۔ لیکن عین وقت پر سپریم لیڈر خامنہ ای نے انتہائی منافقانہ انداز میں پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی حمایت کی اور اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا، ”میں اس حوالے سے کوئی (اقتصادی) ماہر تو نہیں ہوں لیکن اگر تین اداروں (مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ) کے سربراہوں نے فیصلہ کرلیا ہے تو اس پر عمل درآمد ہونا چاہیے“۔ اس حمایت کے بعد پارلیمینٹ اجلاس کے ایجنڈے سے اس تحریک کو خارج کردیا گیا۔ خامنہ ای نے اس موقع پر حکومتی اہلکاروں کی سراسیمگی کو دور کرکے وہی کردار ادا کیا جو کچھ ہفتے قبل عراق میں ایرانی قدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی نے ادا کیا تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق جب عراق میں معاشی مسائل کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے تو عراقی حکومت نے ایک حکومتی اجلاس میں عوام کے کچھ مطالبات منظور کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس اجلاس میں قاسم سلیمانی بھی موجود تھا (جو عراق میں ایرانی ریاست کی وسیع اور گہری مداخلت کی واضح مثال ہے)۔ قاسم سلیمانی نے اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ عوام کے کسی بھی مطالبے کو مانیں گے تو وہ اور زیادہ دلیر ہوں گے اور آپ سے مزید پس قدمی کا مطالبہ کریں گے۔ ایران میں ہمارا تجربہ یہی ہے کہ مظاہرین کے مطالبات کے سامنے ڈٹے رہو۔
یقینا ایران پر موجودہ معاشی بحران میں امریکی سامراج کی جانب سے عائد کردہ اقتصادی پابندیوں کا اہم کردار ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پچھلے سال ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے ایٹمی معاہدے سے یک طرفہ علیحدگی کا اعلان کیا اور ایران پر دوبارہ اقتصادی پابندیاں عائد کردیں۔ ان پابندیوں سے ایران کی تیل کی برآمدات پر شدید اثر پڑا۔ تیل کی برآمدات اگست 2018ء میں دو ملین بیرل فی یوم سے گر کر اگست 2019ء میں 160,000بیرل فی یوم ہوگئیں۔ حکومتی آمدنی میں اتنی بڑی گراوٹ یقینا معاشی طور پر کسی تباہی سے کم نہیں ہے۔ اسی طرح نان آئل برآمدات میں 11فیصد گراوٹ آئی ہے۔ دوسری طرف ایرانی کرنسی ریال کی قیمت مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ ان تمام مسائل سے ملک میں بیروزگاری اور مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ لیکن دوسری طرف مُلا حاکمیت کی بدانتظامی اور لوٹ مار کو نظر انداز کرنا بھی بددیانتی ہوگی۔ جو ایک طرف تو سامراج مخالفت کا ڈھونگ رچاتے ہیں اور اسی بنیاد پر اپنی سماجی حمایت بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسری طرف انہی اقتصادی پابندیوں کا فائدہ اٹھا کر اپنی دولت میں اضافہ کر رہے ہیں۔ رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت صرف خامنہ ای کی ذاتی دولت 95 اَرب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔
ایران میں موجودہ عوامی مظاہرے ایرانی ملاں اشرافیہ کے لیے اس وجہ سے بھی تشویشناک ہیں کہ عراق اور لبنان میں بھی اس وقت انقلابی تحریکیں بھرپور انداز میں آگے بڑھ رہی ہیں اور لبنان میں وزیر اعظم بھی مستعفی ہوچکا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے یہ دو ممالک ایران کے لیے نہایت اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ لبنان میں حزب اللہ کی شکل میں ایران کی بھرپور مداخلت موجود ہے (حزب اللہ نے لبنان کی حالیہ تحریک کی بھرپور مخالفت کی ہے)۔ اسی طرح عراق میں ایرانی مداخلت کی وجہ سے یہ ملک ایران کی ایک گماشتہ ریاست میں بدل چکاہے۔ دونوں ممالک اور بالخصوص عراق میں ایرانی مداخلت کے خلاف کافی غم و غصہ موجود ہے۔ اسی وجہ سے ایران کے حالیہ مظاہروں کو کچلنے کے لیے ایرانی ملاں ریاست کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں کیونکہ جب وہ عراقی مظاہروں کو کچلنے کے لیے اپنی پراکسی فورسز کو استعمال کرکے قتل عام کرسکتی ہے تو اپنے گھر میں ایسے واقعات کو بالکل برداشت نہیں کرسکتی۔ لیکن عالمی سطح پر ہونے والے واقعات اور سرمایہ داری کے عمومی زوال کے موجودہ عہد میں یہ بات طے ہے کہ ایران میں ملاؤں کی حاکمیت کے لیے خطرے کی گھنٹیا ں بج چکی ہیں۔ ایران میں حکومتی نظام مغربی ممالک کی طرح صدارتی یا پارلیمانی نوعیت کا نہیں ہے جہاں زیادہ عوامی دباؤ کی صورت میں صدر یا وزیراعظم کو ہٹا کر عوامی تحریک کو ٹھنڈا کیا جاسکے۔ یہاں عوام کے نعروں کا ہدف درست طور پر سپریم لیڈر خامنہ ای ہے جو نظام کے کرتا دھرتاہیں۔ اس لیے انقلابی تحریک کی صورت میں ملاؤں کے سارے دھڑے خامنہ ای کے پیچھے متحد ہیں کیونکہ سب اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ انقلابی تحریک کے نتیجے میں خامنہ ای کے جانے کا مطلب صرف ایک شخص کا جانا نہیں ہے بلکہ پوری تھیوکریٹک ریاست کا گرنا ہے۔ ایران میں کسی بھی انقلابی تحریک کی کامیابی کسی ایک شخص کے جانے پر منتج نہیں ہوگی بلکہ پورے مُلائی نظام کے خاتمے پر منتج ہوگی۔