لال خان
آج سے 52 سال قبل، یکم دسمبر1967ء کو لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر ایک نئی سیاسی پارٹی کے سنگِ بنیار رکھنے والے دو روزہ تاسیسی کنونشن کا اختتام ہو ا تھا۔ تقریباً 300 افراد کے اس اجتماع میں شریک تھے جس میں اس پارٹی کی بنیاد انقلابی سوشلزم پر رکھی جارہی تھی۔ سب ہمت اور حوصلے سے سرشار تھے لیکن بہت کم مندوبین کو امید تھی کہ یومِ تاسیس کے اتنے تھوڑے عرصے بعد پاکستان پیپلز پارٹی ابھر کر ملک کی سب سے بڑی پارٹی اور محنت کش طبقے کی روایت بن جائے گی۔ اس سے بھی کم شرکا کو یہ ادراک تھا کہ وہ جس اجلاس میں شریک ہیں وہ تاریخ کا لازمی جزو ہو جائے گا۔
پیپلز پارٹی کے اس تاسیسی اجلاس کے صرف 11 ماہ بعد اس ملک کی تاریخ کا پہلا اور اب تک کا سب سے بڑا انقلابی ریلا اٹھا۔ 6 نومبر 1968ء سے لے کر 25 مارچ 1969ء تک کے 139 دنوں میں عملی طور پر طاقت حکمران ایوانوں سے نکل کر گلیوں، بازاروں، تعلیمی اداروں، کھیتوں اور فیکٹریوں میں امڈ آئی۔ اس نقلابی تحریک کی تمام تر توانائی طلبہ، نوجوانوں اور محنت کشوں پر مشتمل تھی۔ عوام کی پکار کو سیاسی اظہار دینے والے پیپلز پارٹی کی تاسیسی دستاویز کے انقلابی نکات ہی تھے جن کی بنیاد پر تحریک کی قیادت پارٹی کے ہاتھ آئی۔ آج تقریباً آدھ صدی بعد نہ صرف نئی نسل ان تاریخی ساز نظریات اور واقعات کی آگاہی سے محروم ہے بلکہ آج کی پیپلز پارٹی کا بھی شاید ہی کوئی ’’لیڈر‘‘ ایسا ہو گا جس نے پارٹی کی بنیادی دستاویزات کا مطالعہ کیا ہو۔ وہ منشور، جس نے 1968-69ء کا انقلاب جیت کر ذوالفقار علی بھٹو کی جھولی ڈال دیا تھا اور پیپلز پارٹی کو راتوں رات ملک کی سب سے بڑی سیاسی قوت میں تبدیل کر دیا تھا، اسکے چند کلیدی نکات مندرجہ ذیل ہیں:
* ’’سرمایہ دارانہ نظام کو بچانے کی آخری کوشش میں حکومت نے پاکستان کے غیر مراعات یافتہ عوام کا بڑے پیمانے پر استحصال کرنے کی اجازت حکمران طبقے کو دے دی ہے…حقیقی حل ایک سوشلسٹ پروگرام اپنانے سے ہی ممکن ہے، جیسا کہ اس منشور میں دیا گیا ہے کہ معیشت میں بنیادی تبدیلی لائی جائے جس سے استحصال کا خاتمہ ہو اور دستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے سرمایہ دارانہ مداخلت کے بغیر ملک کو ترقی دی جائے…پارٹی کی پالیسی کا حتمی مقصد طبقات سے پاک معاشرے کا قیام ہے جو کہ ہمارے دور میں صرف سوشلزم کے ذریعے ہی ممکن ہے…پارٹی سمجھتی ہے کہ مفاہمت اور اصلاح پسندنعرے لگانا لوگوں کو جھوٹی امید دلا کر دھوکہ دینا ہے…‘‘
* ’’پہلا قدم لازمی طور پر سامراج کے چنگل سے رہائی پانا ہے۔ دوسری اقوام کے ساتھ مل کر ایشیا کی سرزمین کو امریکہ اور دوسری مغربی سامراجی طاقتوں کے قبضے سے چھڑانے کی جدوجہد کریں گے۔‘‘
* ’’تمام دولت انسانی محنت سے پیدا ہوتی ہے…تمام بڑی صنعتیں قومی تحویل میں لی جائیں گی…مالیاتی اداروں کی نجی تحویل استحصال کا ماخذ ہے…جب تک ریاست تمام بینکوں کو اپنی تحویل میں لے کر انہی قومی ملکیت نہیں بناتی وہ افراط زر پر قابو نہیں پا سکتی…ایک سوشلسٹ نظام اس بنیاد کو تبدیل کرے گا جو دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کا باعث ہے۔‘‘
* ’’جاگیر داروں کی طاقت کے خاتمے کے لئے جاگیروں کی تقسیم ایک قومی ضرورت ہے…پارٹی جاگیر داری کا خاتمہ اور سوشلسٹ اصولوں کے مطابق کسانوں کے مفادات کا تحفظ چاہتی ہے۔‘‘
* ’’کارخانوں کے نظم و نسق کو چلانے کے لئے مزدوروں اور تکنیکی ماہرین کی شمولیت کو بتدریج متعارف کروایا جائے گا…محنت کشوں کوذرائع آمدو رفت، چھٹیاں اور تفریحی کیمپ فراہم کئے جائیں گے…مفت طبی سہولیات کو محنت کشوں کے لئے فلاحی نظام کا لازمی حصہ بنایا جائے گا…عمر رسیدہ اور معذور افراد کے لئے پنشن اور رہائش گاہوں کا انتظام کیا جائے گا۔‘‘
* ’’سوشلسٹ حکومت کو انتظامیہ کا ایک مختلف ڈھانچہ درکار ہو گااور سوشلسٹ سماج اپنے قیام کے ساتھ ان ڈھانچوں کو خود ہی پیدا کرے گا۔‘‘
* ’’ہر شہری کو بلا تفریق رنگ، نسل اور مذہبی عقیدہ مساوی سیاسی حقوق، قانون کا تحفظ، حکومتی عہدوں تک رسائی حاصل ہو گی اور روزگار کے لئے کسی بھی قسم کا تعصب نہیں ہو گا…‘‘
* ’’یونیورسٹوں اور کالجوں کے نصاب پر بھرپور طریقے سے نظر ثانی ہو گی اور یونیورسٹیوں کی سماجی زندگی سے علیحدگی کو ختم کرنا ہوگا…ایک پانچ سالہ منصوبہ شروع کیا جائے گا جس کے ذریعے تمام ضروری سکول تعمیر کئے جائیں گے اور اساتذہ کو تربیت دی جائے گی۔‘‘
* ’’ملک کے تمام علاقوں میں ایک ’’عوامی فوج‘‘ کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ عوامی فوج ہی بیرونی جارحیت کے خلاف بہترین ہتھیار ہے۔‘‘
* ’’آئین کا قانونی ڈھانچہ اگر حکمران طبقے کے مفادات کے لئے بنایا جائے تو ترقی کا ضامن نہیں ہو سکتا…موجودہ انتخابی نظام ملکیت والے طبقات کو پارلیمان میں بالادستی دینے کا نہایت کارگر طریقہ ہے۔ الیکشن لڑنے کے اخراجات اتنے زیادہ ہیں کہ کوئی بھی غریب امیدوار برداشت نہیں کر سکتا جب تک اس کو امیر سرپرستوں کی پشت پناہی حاصل نہ ہو…پیپلز پارٹی سماجی، معاشی اور سیاسی ڈھانچوں میں ایک انقلابی تبدیلی کا منصوبہ پیش کر رہی ہے۔ پاکستان کے عوام اور صرف پاکستان کے عوام ہی اس انقلاب کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں۔ اس لئے پارٹی کا نعرہ ہے: طاقت کا سرچشمہ عوام!‘‘
ان 52 سال میں پیپلز پارٹی کو تین مرتبہ محنت کش عوام نے اقتدار دلوایا۔ لیکن پارٹی قیادت کا اس بنیادی انقلابی پروگرام سے انحراف بڑھتا ہی چلا گیا۔ جس مفاہمت کی مذمت تاسیسی دستاویز میں کی گئی اسی کو پارٹی قیادت نے اپنا نظریہ اور سیاست بنا لیا۔ پارٹی کی قیادت محنت کشوں کی امنگوں کی ترجمان بننے کی بجائے ’’مفاہمت‘‘ اور ’’مصالحت‘‘ میں غرق ہو کر اس استحصالی نظام کا حصہ اور حکمران طبقات کا آلہ کار بنتی چلی گئی اور اس کی پالیسیاں اور حکومتیں سامراج اور سرمایہ داری کے ایجنڈے پر چل کر محنت کشوں کی امیدوں کو پاش پاش کرتی گئیں۔ یوں عوام کی نجات کے لئے تخلیق پانے والی پارٹی ان کی ذلت، رسوائی، استحصال او ر محرومی میں اضافے کا باعث بنتی رہی۔
پیپلز پارٹی کی نظریاتی، سیاسی اور تنظیمی زوال پزیری کا عمل آج انتہا پر پہنچ چکا ہے۔ پارٹی پر مسلط موجودہ ٹولے نے عوام کی جتنی تضحیک کی ہے اس کے بوجھ تلے پارٹی کی روح اور اساس ہی مر گئی ہے۔ پارٹی کی بنیاد اور موجودہ حالات کو اقبال کا یہ شعر خوب بیان کرتا ہے:
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمین پر آسماں نے ہم کو دے مارا!
پیپلز پارٹی سے محنت کشوں اور نوجوانوں کی مایوسی نے ہی عوام کی سیاسی پسپائی، سماجی پراگندگی اور رجعت کے راستے ہموار کئے ہیں۔ لیکن قیادت کی غداریوں سے گھائل پاکستان کا محنت کش طبقہ اس دردناک استحصال سے نجات کے لیے تڑپ رہا ہے۔ بغاوت سطح کے نیچے سلگ رہی ہے، اضطراب بڑھ رہا ہے اور برداشت کا پیمانہ لبریز ہوتا جارہا ہے۔ ظاہری طور پر نسبتاً سکوت اور جمود کا معروض حاوی ہے لیکن بغاوت اس معاشرے کی کوکھ لاوے کی طرح پک رہی ہے۔ کہرام زدہ ملک میں جبر و استحصال اور مسائل 1967ء کی نسبت کہیں زیادہ بڑھ گئے ہیں‘ زندگی کی تلخیاں کہیں زیادہ دردناک ہوگئی ہیں۔
پارٹیوں کے منشور بدل سکتے ہیں لیکن تاسیسی دستاویزات سے انحراف پارٹی کی موت بن جاتا ہے۔ اگر پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت نے محنت کش طبقے اور نوجوانوں سے ان کی روایت چھین لی ہے تو ایک نئی انقلابی تحریک اس طبقاتی جنگ میں محنت کشوں کی فتح کا نیا سیاسی اوزار تراش لائے گی۔