اویس قرنی
اس سال کے طلبہ یکجہتی مارچ نے ایک ہلچل سی مچا دی ہے۔ دہائیوں سے دبی بحث جب کھلی تو طاقت کے سارے سر چشمے بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئے۔ ابھی تک حکمرانوں میں سے کسی میں اتنی ہمت پیدا نہیں ہوئی کہ نوجوانوں اس للکار کے مدمقابل کھڑا ہوسکے۔ حکمران جماعت سے لے کے اپوزیشن کی تمام تر سیاسی پارٹیاں اس قدر دباؤ کا شکار ہیں کہ سبھی پہلی دفعہ اس بات پر متفق نظر آ رہے ہیں کہ طلبہ یونین بحال ہونی چاہئے۔ حکمران طبقے کی اس پسپائی کی وجہ نوجوانوں کا منظم ہونا ہے۔ مارچ سے پہلے اور مارچ کے بعد اس کے منتظمین کو ہر طرف سے یلغار کا سامنا تھا۔ کہیں سے کوئی رجعتی ٹولہ اس کو ایلیٹ کلاس اور این جی او کا پراجیکٹ بتا رہا تھا تو دوسری طرف سے کفر کے فتویٰ بھی جاری کیے جا رہے تھے۔ روایتی دائیں بازو اور فرقہ پرست بائیں بازو میں تفریق نا ممکن ہو چکی تھی۔ لیکن اس مارچ کو منظم کرنے والوں نے اس تمام رجعتی تکرار کا جواب 29 نومبر کو 50 سے زائد شہروں میں تاریخی مارچ کے انعقاد سے دیا۔
ریاست کی طرف سے مسلسل دھمکانے کے واقعات بھی دیکھنے کو ملے۔ خاص نمبروں سے مخصوص لوگوں کو کالوں پر دھمکیاں بھی ملتی رہیں لیکن یہ کارواں منزل کی جانب رواں رہا۔ آخری ہفتے میں تو ملک بھر کے متحرک منتظمین کو کھانے اور سونے تک کا ہوش نہ ہوتا تھا۔ دن بھر سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں دورے، سٹڈی سرکل اور عوامی اجتماعات کا اہتمام اور راتوں کو مارکیٹوں اور ہاسٹلوں میں طلبہ سے ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ مرکزی مطالبات پر مبنی لیف لیٹ ملک بھر میں لاکھوں کی تعداد میں چھپوایا اور تقسیم کیا گیا۔ بھوک، تھکاوٹ اور بے خوابی میں ساتھیوں کے مزاج بھی اکھڑتے رہے مگر جدوجہدکی لگن انہیں پھر بغل گیر کر دیتی اور دوبارہ کام کا آغاز ہو جاتا۔ راتوں رات پمفلٹ چھپتے‘ اگلے دن سارے ختم ہو جاتے اور پھر نئے سرے سے دوبارہ چھپوائے جاتے۔ سارا دن اور رات گئے تک مارچ کی آگاہی مہم چلانے والوں کا کام یہاں ختم نہ ہوتا۔ راتوں کو دیر تک نت نئے سٹیکر، پوسٹر اور پرچار کے لیف لیٹ باہمی مشاورت سے تیار ہوتے رہتے۔ نئے نعرے تخلیق کیے جاتے۔ سارے دن کی تھکان کو مزاح کے ذریعے زائل کرنے کی کوششیں ہوتی رہتیں۔ کئی ایک بار تو ٹراٹسکی کی کتاب’انقلاب روس کی تایخ‘ کے اقتباسات پڑھے جاتے اور پھر سے کام پر جُٹ جاتے۔ پھر چند گھنٹوں کی نیند کی آغوش میں جانے سے پہلے سوشل میڈیا پر پرچار کی باری آتی تھی۔ ملک بھر کے محنت کشوں، ٹریڈیونین رہنماؤں اور نوجوانوں سے اور پھر دوسرے ممالک سے یکجہتی کے پیغامات موصول کرنا‘ ان کو ترتیب دینا اور پھر سوشل میڈیا پر ان کو مشتہر کرنا بظاہر بڑا آسان لگتا ہے لیکن ایک محنت طلب کام ہے۔ موبائل کی گھنٹیاں مسلسل بجتی رہتیں۔ مختلف شہروں کے مارچ منتظمین ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کرتے، درپیش مسائل پر سوچتے اور ایک دوسرے کو سارے دن کا احوال بتاتے۔ حوصلے بلند تر ہوتے گئے۔ اس سال کے مارچ میں ایک اہم تبدیلی کارپوریٹ میڈیا کی مداخلت تھی۔ جہاں لاہور فیض فیسٹول کی ایک ویڈیو نے تہلکہ مچا دیا وہاں ہر ٹی وی چینل کو طلبہ کے انٹرویو چاہیے تھے۔ یہاں نوجوانوں کو طلبہ یونین کا مدعا عوام کے سامنے رکھنے کا وسیع وسیلہ میسر آیا۔ لیکن کارپوریٹ روِش رکھنے والے میڈیا کو سنسنی کی اتنی عادت پڑ چکی ہے کہ وہ بھونڈے سوالات اور الزامات لگانے سے بھی گریز نہ کرتے تھے۔ ساتھیوں کو اس تکلیف دہ مرحلے سے بھی گزرنا پڑا اور انہوں نے احسن انداز میں طلبہ حقوق کی اس جدوجہد کو مین سٹریم بحث میں لا کھڑا کیا۔
لیکن جیسے کامیابیوں کے بہت سے وارث پیدا ہو جاتے ہیں اسی طرح اس تاریخی مارچ کے بھی کئی وارث پیدا ہوگئے ہیں۔ تقریباً ہر سیاسی پارٹی کا رہنما آج طلبہ یونین کی بحالی کا علمبردار بناہوا ہے لیکن یہی سیاسی پارٹیاں تھیں جو ضیا کی خون آشام آمریت کے بعد کئی بار اقتدار میں آئیں، وعدے بھی کیے لیکن کبھی بھی کسی نام نہاد جمہوری حکومت یا سیاسی جماعت نے طلبہ یونین کی بحالی کا کوئی بھی واضح لائحہ عمل نہ دیا۔ سندھ حکومت کی جانب سے آج ایک دفعہ پھر طلبہ یونین بحالی کا اعلان ہوا ہے جو خوش آئند ہے۔ لیکن اسی پارٹی نے 2008ء کی وفاقی حکومت میں بھی ایسا ہی ایک اعلان کیا تھالیکن بات آگے نہ بڑھ سکی۔ اب کی بار یہ اعلان حکمرانوں کی خیرات نہیں بلکہ ایک منظم تحریک کے دباؤ کے تحت ہوا ہے اورطلبہ ایکشن کمیٹی واضح مطالبہ بھی رکھتی ہے کہ فوری طور پر ریاستی سطح پر طلبہ یونین کے الیکشن کا شیڈول جاری کرتے ہوئے انتخابات کو یقینی بنایا جائے۔ اسی طرح کشمیر میں بھی طلبہ یونین بحالی کا نوٹیفیکیشن جاری ہوئے زمانہ بیت گیا ہے۔ ن لیگ کے عہدیداران بھی آج طلبہ یونین کی بحالی پر بیان بازی کرتے نہیں تھکتے لیکن اپنے دور حکومت میں انہیں کوئی توفیق نہیں ہوئی کہ نوجوانوں کے اس آئینی حق کی سلبی پر کوئی لب کشائی کرتے۔ 29 نومبر کی شام سے پہلے تک بھی اس سیاسی اشرافیہ کی طرف سے کوئی حوصلہ افزا بیان سامنے نہ آیا۔ ایسے میں ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ یہ لڑائی طلبہ کو خود لڑنا ہوگی۔ یہ طلبہ کی ہی جدوجہد کا شاخسانہ ہے کہ آج تمام نام نہاد لیڈران طلبہ یونین پر پابندی اٹھانے کی بات کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
کارپوریٹ میڈیا نے طلبہ یکجہتی مارچ کوکئی اور رنگ دینے کی بھی بھر پور کوشش کی ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ جیسے فسطائی رحجانات اور انقلابی طلبہ کو ایک صف میں کھڑا کرنے کی بڑی ہی گھناؤنی واردات کرتے ہوئے یہ باور کروانے کی کوشش کی گئی کہ دایاں ا ور بایاں بازو ”متحد“ ہے۔ جمعیت کو بھی اب طلبہ یونین کی بحالی یاد آ گئی ہے۔ طلبہ یونین پر پابندی کو 36 سال ضرور ہوئے ہیں لیکن یہ پابندی صرف ترقی پسند رجحانات کے لئے ہے۔ ریاست اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ نے جمعیت جیسی رجعتی تنظیموں کی مسلسل آبیاری پہلے دن سے جاری رکھی ہے اور تعلیمی اداروں میں ترقی پسند سوچ اور روایات کو ان غنڈہ گرد تنظیموں کے ذریعے کچلا جاتا رہا ہے۔ مشال خان کے قتل کا اندوہناک واقعہ اس ساری واردات کا کھلا ثبوت ہے۔ لہٰذا طلبہ یونین کی بحالی کی لڑائی ترقی پسند طلبہ تنظیموں نے ہی لڑی ہے اور قربانیاں بھی دی ہیں۔ اب نہ صرف سیاسی اشرافیہ بلکہ جمعیت جیسے ردِ انقلابی رجحانات بھی انگلی کٹوا کر شہیدوں میں نام لکھوانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حالانکہ ان کا کردار ہمیشہ طلبہ حقوق کی جدوجہد کو کچلنے پر مبنی رہا ہے۔ جیسا کہ حالیہ مارچ سے ایک دن قبل پنجاب یونیورسٹی میں شعوری طور شر پسند عناصر کی طرف سے ریلیاں نکلوائی گئیں اور انتشار پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ اس لئے انقلابی نوجوانوں کو انتہائی چوکنا اور محتاط رہنا ہو گا اور اپنے دوست اور دشمن کی تمیز کرنا ہو گی۔ ہمیں اس بات کا ادراک بھی کرنا چاہیے کہ ہمارا کام صرف یونین بحالی کی جدوجہدکو منظم کرنا نہیں (یونین بحالی تو ہماری جدوجہد کے سفر کا صرف ایک مرحلہ ہے، منزل نہیں) بلکہ ان رجعتی اور فسطائی رحجانات کے خلاف ایک ناقابل مصالحت طبقاتی جنگ لڑنا بھی ہے۔ اور یہ لڑائی آخری تجزیے میں نظریات کی لڑائی ہے جس کے لئے خود کو مارکسزم اور انقلابی سوشلزم کے نظریات سے لیس کرنا ہماری اولین ذمہ داری بن جاتی ہے۔ میدان عمل میں نظریات کی پختگی اور درست طریقہ کار ہی فتح کی واحد ضمانت ہے۔
طلبہ یکجہتی مارچ کے لال جھنڈوں اور نعروں نے اس مارچ کے نظریات کو بھی واضح کر دیا ہے۔ یونین بحالی کی لڑائی میں مصروف ان نوجوانوں کی بڑی تعداد بغیر کسی ہچکچاہٹ کے خود کو سوشلسٹ انقلاب کا سپاہی مانتی ہے اور یہی وہ بات ہے جو یہاں حکمران طبقے کے دانشوروں اور پالیسی سازوں کو کھٹک بھی رہی ہے اور انہیں بوکھلا بھی رہی ہے۔ سرمایہ داری کے یہ کاسہ لیس طالب علموں میں ابہام اور بد دلی پیدا کرنے کے لئے مسلسل راگ الاپ رہے ہیں کہ طلبہ سیاست نظریات سے عاری کو ئی غیر سیاسی چیز ہوتی ہے یا پھر وہی پرانی بکواس کہ طلبہ کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہونا چاہئے وغیرہ۔ ساتھ ہی دوسرا وار سوشلزم اور کمیونزم پر کیا جا رہا ہے۔ ان کا خوف معقول ہے کیونکہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں سرمایہ داری نے انسانیت کا جو حشر کر دیا ہے ایسے میں سوشلزم کا بھوت واقعی ان کے سروں پر منڈلا رہا ہے۔ اور انہیں اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ نوجوانوں کی دونسلوں کو نظریات اور سیاست سے دور رکھنے کے بعد اب یہ انقلابی نو جوان نئی نسل کے پاس جس سیاست کا پیغام لے کر جا رہے ہیں وہ ایک طبقاتی سیاست ہو گی جو سرمایہ داری کی ہر قدر کو مسترد کرے گی۔ اس لئے و ہ حواس باختہ بھی ہیں اور منہ سے جھاگ بھی نکال رہے ہیں۔ ان انسان دشمن لوگوں کے حملوں سے ہمیں اور بھی یقین ہو چلا ہے کہ ہماری سمت درست ہے!
طلبہ ایکشن کمیٹی نے ایک تاریخی کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ لیکن یہ اختتام نہیں بلکہ ایک نئے سفر کا آغاز ہے۔ ابتدائی کامیابیوں نے ہماری ذمہ داریوں میں کہیں زیادہ اضافہ کر دیا ہے۔ اب جھوٹے وعدے بھی کیے جائیں گے، روایتی حیلے بہانوں کا استعمال کر کے تحریک کو تھکانے کی کوششیں بھی ہوں گی اور پھوٹ ڈلوانے کی وارداتیں بھی ہوں گی۔ جھانسے بھی دئیے جائیں گے اور خریدنے کی کوششیں بھی ہوں گی۔ اور سارے حملے صرف دائیں طرف سے ہی نہیں ہوں گے بلکہ بائیں بازو کے فرقہ پرست عناصر بھی پینترے بدل بدل کے وار کریں گے۔ یہ تحریک تحریک کرنے والے وہ دیوالیہ لوگ ہیں کہ جب تحریک سامنے آئی ہے تو اسے پہچاننے سے ہی عاری اور انکاری ہیں۔ بدترین اندھے وہ ہوتے ہیں جو دیکھنا نہیں چاہتے۔ یونائٹیڈ فرنٹ کا طریقہ کار، جسے لینن کی قیادت میں تیسری انٹرنیشنل نے بہت محنت اور بحث سے وضع کیا تھا، فرقہ پرستوں کے انتہائی محدود شعور اور سازشی سوچ میں ویسے بھی سما نہیں سکتا۔ لیکن ہمارا کام آگے بڑھنا اور بڑھتے چلے جانا ہے۔ فتوحات بھی ہوں گی۔ کبھی پسپائی اور شکست کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ لیکن منزل جب انقلاب ہو تو سفر کی کٹھنائیاں حوصلوں کو پست نہیں کر سکتیں۔ طلبہ ایکشن کمیٹی کو خود کو مزید منظم، فعال اور نظریاتی طور پر زیادہ یکجا کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے مقداری حوالے سے بھی مزید پھیلانے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک نئے عہد کی لڑائی ہے جو نئے سماج کے لئے لڑی جائے گی۔ اسے لڑنے والے انقلابی سوشلزم کے علمبردار ہیں۔