راشد شیخ

انقلاب کا سالماتی عمل سماج میں سطح کے نیچے ہمیشہ جاری رہتا ہے جو کسی خاص وقت میں مجتمع ہو کر عوامی غیض وغضب بن کر تحریک کی صورت میں اپنا اظہار کرتا ہے اور استحصالی نظام کو للکارتاہے۔ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام اپنے بدترین نامیاتی بحران سے گزر رہا ہے۔ یہ نظام جس نہج پر آج کھڑا ہے وہاں یہ محنت کش طبقے کے لیے ناقابل برداشت مسائل اور اذیت کا باعث بن رہا ہے۔ امریکہ سے یورپ اور لاطینی امریکہ سے ایشیاتک، پوری دنیا میں نیولبرل پالیسیوں کے ذریعے بورژوازی اس نظام کو زندہ رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ ان پالیسیوں کے خلاف صرف اکتوبر 2019ء سے اب تک چلی، لبنان، بولیویا، کولمبیا، ایکواڈور، ایران اور عراق میں محنت کشوں کے نہ تھمنے والے طوفان امڈ آئے ہیں۔

دریائے دجلہ و فراط کے کنارے بسنے والی ہزاروں سالہ قدیم تہذیب والا عراق‘ جہاں مختلف سامراجی طاقتوں نے اپنے مفادات اور تیل کی دولت کی لوٹ مار کے لیے اس ملک کو جہنم بنارکھا ہے وہیں پر عراقی اشرافیہ اورداعش اور القاعدہ جیسی وحشی تنظیموں نے بھی عراقی عوام کی قتل و غارت میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ اکتوبر 2019ء جہاں دنیاکے کئی دوسرے ممالک میں طبقاتی جدوجہد کی ایک نئی لہر کی صورت میں ابھرا وہیں پر عراق میں بھی معاشی ناہمواری، بدعنوانی اور بیروزگاری کے خلاف عراقی نوجوانوں اور محنت کشوں نے ”گرین زون“ (عراقی سیاسی اشرافیہ اور بیوروکریسی کا گڑھ جہاں پر دولت مند افراد مقیم ہیں) کے خلاف جدوجہد اور بغاوت کا آغاز کیا۔

یکم اکتوبر کو لاکھوں مظاہرین عراقی دارلحکومت بغداد میں مارچ کرتے ہوئے ”گرین زون“ پہنچے۔ عراقی عوام کا اشرافیہ اور دولت کے ارتکاز کے خلاف اس طرح لڑائی میں آنا اس ملک کے برباداور سامراجی جنگوں سے تباہ حال محنت کش طبقے اور نوجوانوں کی نئی اٹھان کا عندیہ ہے۔ ان مظاہرین کو روکنے کے لیے عراقی سکیورٹی فورسزاور ایرانی ملیشیا کی طرف سے آنسو گیس کی شیلنگ اور دیگر ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ اب تک ان مظاہروں میں 400 سے زائد لوگوں کی ہلاکت ہو چکی ہے جس میں ہر روز اضافہ ہو رہاہے۔ یہ مظاہرے عراق کے طول و عرض میں پھیل چکے ہیں۔ بغداد، کربلا، نجف، ناصریہ، امراہ اور ہلہ سمیت کئی بڑے شہروں میں کرفیو لگادیا گیا ہے۔ شمال کے کرد علاقوں کو چھوڑ کر باقی پورے عراق میں انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی ہے۔ پرتشدد مظاہروں میں جہاں لوگوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں وہیں سکیورٹی اہلکاروں کی بھی ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں جبکہ ہزاروں لو گ زخمی ہو چکے ہیں۔ یہ مظاہرے بنیادی طور پر عراق میں بے روزگاری، غربت، مہنگائی اور دیگر معاشی وجوہات کی بنیاد پر سماج میں سطح کے نیچے موجود عوامی بے چینی کا اظہار کر رہے ہیں۔ 29 نومبر کی خبروں کے مطابق عراقی وزیر اعظم عدیل عبدالمہدی نے استعفیٰ دے دیا ہے اورعوام بغداد کے ”تحریر سکوائر“ میں جشن منا رہے ہیں۔ یہ انکی پہلی سنجیدہ کامیابی ہے لیکن مظاہرین کا کہنا ہے کہ ہم اپنے سارے مطالبات کی منظوری تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔

عراق گزشتہ چار دہائیوں سے 4 جنگوں اور سامراج کی جبری پابندیوں کی وجہ سے ایک تباہ حال ریاست تھی۔ 2003ء کے امریکی سامراجی حملے نے اس ملک کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔ اس جنگ میں 6 لاکھ عراقی مارے گئے۔ امریکی انخلا کے بعدعراقی عوام پر مقامی حکمرانوں اور سامراجی ممالک کی پالی ہوئی دہشت گرد تنظیموں نے تیل کے وسائل پر کنٹرول کے لیے مسلسل خانہ جنگی اور خون ریزی کو مسلط رکھا ہواہے۔ امریکی اور ایرانی سامراج نے اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے اور مختلف طریقوں سے اپنی وفادار حکومتیں بنانے کے لیے عراقی سماج کو مسلکی بنیادوں پر تقسیم کر کے آگ اور خون کی بھٹی میں دھکیل دیا ہے۔ اس واردات کا مقصد خطے میں اپنااثرورسوخ قائم رکھنا اور اپنے مالیاتی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ امریکہ کے جانے کے بعد عراق میں ایران کا اثرورسوخ پہلے سے کہیں زیادہ بڑھاہے اور پورے خطے میں ایران اور امریکہ (بشمول ان کے اتحادی ممالک) کی پراکسی جنگیں جاری ہیں۔

امریکہ کے جانے کے بعد عراقی حکمرانوں نے تعمیر نو کے نام پر لوٹ مارمیں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ عراقی معیشت کا سب سے اہم اور بنیادی عنصر تیل ہے جس پر نوے فیصد جی ڈی پی کا انحصار ہے جبکہ عراقی سیاسی اشرافیہ اور بیوروکریسی تیل کی آمدن کا بڑا حصہ ہڑپ کر جاتی ہے۔ عراق کی کل آبادی 4 کروڑسے کچھ زیادہ ہے جبکہ ہر سال آٹھ لاکھ نوجوان محنت کی منڈی میں داخل ہوتے ہیں جبکہ روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابرہیں۔ 2017 ء کے بعد حکومت نے بیروزگاری کے اعداد وشمار دینے ہی بند کر دئیے ہیں۔ وال سٹریٹ جنرل کے مطابق بیروزگاری کی شرح 13 فیصدہے جبکہ نوجوانوں میں یہ شرح 26 فیصد تک ہے لیکن یہ اعدادوشمار بھی حقیقی صورت حال کو واضح نہیں کرتے۔ اصل بیروزگاری اس سے کہیں زیادہ ہے۔

دنیاکے پانچویں بڑے تیل پیدا کرنے والے ملک کے انفراسٹرکچرکی حالت انتہائی دگرگوں ہے۔ سڑکوں، بجلی، پانی، صحت، روزگار اور تعلیم سے دوری نے سماج کی محرومیوں کو بہت بڑھا دیا ہے۔ موجودہ معیشت میں عراقی حکمرانوں کی کرپشن اور لوٹ مار پر اپنی ایک لڑائی موجود ہے۔ قومی دولت مختلف مسالک کی اشرافیہ میں ہی تقسیم ہو جاتی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق عراق دنیا کے پہلے 12 کرپٹ ترین ممالک میں شامل ہے۔ عراقی سیاست فرقہ وارانہ اور نسلی اعتبار سے تقسیم ہے۔ اس وقت مستعفی ہونے والے وزیرا عظم عدیل عبدالمہدی شیعہ ہیں، صدر کرد ہے اور سپیکر سنی مسلک سے تعلق رکھتا ہے۔ اسی طرح نیچے سیاست میں ہر مسلک کا اپنابلاک موجود ہے۔ جبکہ امریکہ اور ایران بھی اپنے مفادات کے لیے عراق میں سامراجی مداخلت کر رہے ہیں۔ لیکن عراقی عوام اب ان تمام سامراجی اور مقامی استحصالی مداریوں کے کھیل سمجھ چکے ہیں۔ اس تحریک کی سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ عوام نے اس تمام مسلکی اور نسلی تقسیم کو مسترد کیاہے اور یک جان ہوکر جدوجہد کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ زیادہ تر مظاہرین کا تعلق شیعہ مسلک سے ہے جو شیعہ حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ اسی طرح ایرانی سفارتخانے پر شیعہ مظاہرین کے حملے نے ثابت کر دیا ہے کہ عراقی عوام ایرانی ملاں حکومت کی مداخلت کو بھی مسترد کر چکے ہیں۔

امریکہ کی کوشش ہے کہ عراق میں ایسی حکومت قائم ہو جو امریکہ مفادات کو آگے بڑھا سکے اوراسی تناظر میں امریکہ ان مظاہروں کے متعلق عراقی حکومت کو تنبیہ کر رہاہے کہ تشدد سے گریز کیا جائے اور اصلاحات کا اعلان کیا جائے۔ خود عراقی حکومت نے بھی کچھ اصلاحات کی بات کی ہے لیکن مظاہرے تا دمِ تحریر جاری ہیں۔

عراق میں ماضی میں بھی مختلف تحریکیں ابھرتی رہی ہیں۔ 2008ء کے عالمی معاشی بحران کے بعد 2011ء میں ابھرنے والے”عرب انقلاب“نے پورے مشرق وسطیٰ میں انقلابی تحریکوں کو جنم دیا تھا اور اس وقت عراق میں بھی بڑے مظاہرے دیکھنے میں آئے تھے۔ اسی طرح 2018ء میں بھی معاشی مسائل‘ بالخصوص بیروزگاری پر مظاہرے ہوئے تھے لیکن حالیہ مظاہرے زیادہ شدید اور وسیع ہیں جن میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ لبنان، ایران اور عراق میں حالیہ مظاہروں نے پورے خطے کے حکمرانوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ یہ مظاہرے ایک طرح سے ”عرب بہار“ کا تسلسل ہیں۔ یہ سلسلہ دوسرے ممالک تک بھی پھیل سکتا ہے کیونکہ خطے کے عوام کے مسائل اور دکھ درد ایک جیسے ہیں اور فطری طور پر ان کی جدوجہد بھی ایک ہی بنتی ہے اور اور نجات کا راستہ بھی ایک ہی ہے۔

اس تحریک کی مماثلت باقی دنیا میں ابھرنے والی تحریکو ں کے ساتھ یہ بنتی ہے کہ یہ بھی ایک خود رو تحریک ہے جس کی کوئی واضح قیادت موجود نہیں ہے۔ عراق میں ماضی میں بعث پارٹی کی شکل میں بائیں بازو کی ایک تاریخ بھی موجود ہے اور (سٹالنسٹ) کمیونسٹ پارٹی اب بھی کسی حد تک عراق میں موجود ہے جس کے پاس اسمبلی میں دو نشستیں بھی ہیں لیکن یہ رجحانات عراقی محنت کشوں کو کوئی سنجیدہ متبادل دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ دنیا بھر کی تحریکوں کی طرح عراق میں بھی ایک انقلابی متبادل کی اشد ضرورت ہے۔