آصف رشید /ظفر اللہ

پاکستان جیسے ممالک اپنی کمزور معاشی اور سیاسی حالت کی وجہ سے کئی عالمی طاقتوں کے زیر اثر رہتے ہیں۔ یہاں بالخصوص سعودی عرب، امریکہ اور چین مختلف حوالوں سے اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔ پاکستانی ریاست کے پالیسی ساز بھی اب ان کیفیات میں سفارتی کھیل کھیلنا سیکھ چکے ہیں۔ اس لئے اب واضح انداز میں کسی ایک سامراجی کیمپ میں کھڑے نظر نہیں آتے جیسا کہ50ء اور 60ء کی دہائی میں ہوا کرتا تھا۔ چینی” ون بیلٹ ون روڈ“ کے منصوبے کے تحت سی پیک نے پاکستان میں امریکی اور چینی سامراج کی مداخلت کو بڑھا دیا ہے۔ 70 سے زائد ممالک کو تجارتی حوالے سے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے والے ’ون بیلٹ ون روڈ‘ منصوبے میں سی پیک کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ بیرونی محاذ پر چینی حکمرانوں کی تمام تر توانائیاں اس وقت اس منصوبے پر مرکوز ہیں۔ 5 سے 8 ٹریلین ڈالر کا یہ منصوبہ ایشیا، مشرق وسطیٰ، یورپ اور افریقہ کے 70 سے زیادہ ممالک میں سرمایہ کاری پر مبنی ہے۔ اس میں شاہراہ ریشم اور سمندری شاہراہ ریشم کے رُوٹ شامل ہیں۔ اِن میں سے خشکی کا رُوٹ چین سے شروع ہو کر وسط ایشائی ممالک سے گزر کر ایران، ترکی اور روس سے ہوکر یورپ میں جرمنی سے وینس تک جائے گا۔ سمندری رُوٹ یونان سے ہوتا ہوا افریقہ، انڈیا، سری لنکااور انڈونیشیا سے گزر کر ویتنام کے راستے سے واپس چین میں داخل ہو جائے گا۔ پاکستان کی اقتصادی راہداری بھی چین کے اس وسیع معاشی اور اسٹریٹجک منصوبے کا چھوٹا سا حصہ ہے۔

ابھی تک اس منصوبے کے تحت پاکستان میں جو بھی سرمایہ کاری کی گئی ہے اس میں زیادہ تر انفراسٹرکچر‘ جیسا کہ سڑکوں، گوادر پورٹ اور بجلی کے منصوبے ہیں۔ 28 ارب ڈالر کے بائیس منصوبوں پر اس وقت کام چل رہا ہے جن میں پاور سیکٹر کے 22 ارب ڈالر کے منصوبے تکمیل کے مراحل سے گزر رہے ہیں یا مکمل ہو چکے ہیں۔ جس سے مجموعی طور پر بجلی کی پیداوار میں سات ہزار میگاواٹ کا اضافہ ہو ا اور لوڈ شیڈنگ تقریباًختم ہو چکی ہے لیکن بجلی کی قیمت میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے تاکہ ان منصوبوں کے لئے لیے گئے قرضوں پر سود کی ادائیگی چینی بینکوں کو کی جا سکے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے امریکی مداخلت اور پریشر کی موجودگی کی وجہ سے چین کے ساتھ اپنی بارگینگ کی پوزیشن کچھ بہتر کی ہے جس میں 7 ارب ڈالر کی مصنوعات پر محاصل میں چھوٹ حاصل کی گئی ہے۔ لیکن مجموعی طور پر سی پیک کے نئے مرحلے میں بھی چین کو بہت زیادہ ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے اور جو فری اکنامک زونز بنانے کی بات چل رہی ہے اس میں بھی چین کی کمپنیوں کو فوائد پہنچائے جا رہے ہیں۔ جیسا کہ پہلے بھی ہمارے مختلف مضامین میں بات ہو چکی ہے کہ سی پیک کے منصوبے سے میکرو اکانومی کے اعداد و شمار میں کچھ بہتری آئی تھی لیکن بے تحاشہ قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لئے مہنگائی اور بالواسطہ ٹیکسوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ سی پیک کا نیا مرحلہ بھی ایسے ہی تضادات سے لبریز ہو گا۔

چین کی سرمایہ کاری کا کردار بھی سامراجی ہے۔ جس طرح سری لنکامیں چین نے جو بندر گاہ قرضوں کے ذریعے تعمیر کی تھی جب سری لنکن حکومت ان قرضوں پر سود ادا نہیں کر سکی تو چین نے اس پورٹ کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ اسی طر ح افریقہ میں چین ریاستی قرضوں کے ذریعے مختلف انفراسٹرکچر کے پروجیکٹ لگا رہا ہے اور جب یہ ممالک قرض ادا نہیں کر سکیں گے تو ان منصوبوں کا کنٹرول چین خود سنبھال لے گا۔

پاکستان میں بھی سی پیک کو لے کر امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ 2015ء میں سی پیک کے اعلان کے بعد امریکی اور چینی پراکسیوں کی لڑائی تیز ہو گئی ہے۔ جس نے پاکستانی ریاست کے اندرونی تضادات کو شدید بھڑکایا ہے۔ 2017ء میں امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے پہلی دفعہ واشگاف الفاظ میں سی پیک کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ یہ راہداری کشمیر کے متنازعہ علاقوں سے گزر رہی ہے۔ کشمیر کے حوالے سے حالیہ بھارتی اقدامات (آرٹیکل 270 کا خاتمہ وغیرہ ) کو بھی اسی پس منظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد مختلف امریکی سفارتکاروں اور اہلکاروں کی طرف سے سی پیک پر خدشات کا اظہار دیکھنے کو ملتا رہا ہے۔

2018ءکے عام انتخابات میں عمران خان کی حکومت بننے کے بعد ہمیں سی پیک کے منصوبوں پر پیش رفت میں کافی سست روی دیکھنے کو ملی ہے۔ اپریل 2018ء میں پاکستان کے تجارتی خسارے کے نتیجے میں تیزی سے ختم ہوتے ہوئے زرِمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لئے آئی ایم ایف کے پاس جانے کے فیصلے کے جواب میں اس وقت کے امریکی سیکرٹری خارجہ مائیک پامپیو نے پریس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئی ایم کے قرضے چینی قرضوں کی واپسی کے لئے استعمال نہیں کیے جا سکیں گے۔ اس سارے عمل میں پاکستان میں امریکی اور چینی مداخلت بہت تیزی سے بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہ مداخلت ریاست کے کئی کلیدی اداروں میں اتنی گہری سرائیت کر چکی ہے کہ اب وہ تضادات مختلف شکلوں میں پھٹ کر اپنا اظہار کر رہے ہیں۔

اب ایک مرتبہ پھر 21 نومبر 2019ء کو امریکی تھنک ٹینک ویلسن سینٹرمیں خطاب کرتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کی اسسٹنٹ سیکریٹری ایلس ولس نے سی پیک کو پاکستانی معیشت کے لئے انتہائی تباہ کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”یہ قرضے پاکستانی معیشت کو قرضوں کی ایک نئی دلدل میں دھکیل دیں گے۔ جس سے پاکستانی معیشت میں اصلاحات کی امریکی کوششوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ یہ امداد یا سرمایہ کاری نہیں بلکہ انتہائی مہنگے قرضے ہیں جو پاکستانی عوام کو جکڑ کر رکھ دیں گے۔ “ اس کے علاوہ اس نے سی پیک کے قرضوں کے اثرات، لاگت، ان منصوبوں میں کرپشن اور اس سب کو ثابت کرنے کے لئے ’نئے پاکستان‘ کے حکمرانوں کے بیانات اور نیب کے اقدامات کے بارے میں تفصیل سے بات رکھی کہ کس طرح سی پیک کے منصوبے کرپشن کا باعث بنتے ہیں اور عمران خان کے اصلاحاتی ایجنڈے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

اس کے بعد فوراًہی چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایلس ولس کے بیان کو الزامات قرار دیتے ہوئے مسترد کیا اور وضاحت کی کہ یہ ایک سرمایہ کاری ہے اور پاکستان کو معیشت کے بحران سے نکالنے کا موجب بن رہی ہے۔ چند دن قبل ہی پاکستان میں موجود چینی سفیر نے کہا کہ امریکہ اس وقت کہاں تھا جب پاکستان توانائی کے بحران کا شکار ہو کر اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں ممالک (امریکہ اورچین) پاکستان اور تیسری دنیاکے غریب ملکوں کے لئے ایک سامراجی کردار کے حامل ہیں۔ یہاں کا حکمران طبقہ ان سامراجی ممالک کے کاسہ لیسوں کا کردار ادا کر کے اپنا حصہ کمیشن اور ٹھیکوں کی شکل میں وصول کرتا ہے اور نتیجتاًعوام کی وسیع اکثریت غربت کی دلدل میں مزید دھنستی چلی جاتی ہے۔

پاکستانی ریاست کے اندرونی خلفشار اور اس سے جنم لینے والے سیاسی اور سماجی بحران کواسی پسِ منظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کچھ سنجیدہ بورژوا تجزیہ نگار پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے مسئلے میں بھی ان سامراجی طاقتوں کی مداخلت کو ایک حاوی عنصر کے طور پر دیکھ رہے ہیں (جو کہ کافی حد تک درست بھی ہے)۔ لیکن اس کے علاوہ اور بھی کئی داخلی عوامل ہیں جو اس بحران کا موجب بنے ہیں۔ یہ بحران ڈیپ سٹیٹ کے اندر کئی دہائیوں سے پنپتے ہوئے تضادات کی عکاسی بھی کرتا ہے جو بعض اوقات شدت اختیار کر کے بھڑک اٹھتے ہیں اور پورے سیاسی اور سماجی منظر نامے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ایسے میں مولانا فضل الرحمان کا دھرنا جس پراسرار انداز میں شروع ہوا تھا اسی طرح اچانک ختم بھی ہو گیا ہے۔ لگتا ہے کہ مولانا خود تو کوئی پس پردہ ڈیل کر کے اٹھ گئے ہیں لیکن انہیں بٹھانے والے دھڑے کا کام نہیں بن پایا ہے۔ چنانچہ انہوں نے سپریم کورٹ کو بیچ میں ڈال کے وقت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی وقت دے کے دونوں دھڑوں کو معاملہ خود حل کرنے کا اشارہ دیا ہے کیونکہ ایک خاص حد سے آگے عدلیہ کے پر بھی جلتے ہیں۔ حالات یہی بتا رہے ہیں کہ ایکسٹینشن کا یہ معاملہ ابھی لٹکا رہے گا اور آنے والے دنوں میں سیاسی جوڑ توڑ کا بازار خوب گرم ہو گا۔ یہ لڑائی صرف طاقت اور دولت کی حصہ داری پر ہی نہیں ہے بلکہ پالیسی سازی پر بھی ہے۔ ڈیپ سٹیٹ کا ایک حصہ اس سارے سیٹ اپ سے سخت ناخوش اور بیزار ہے جس نے پچھلے دو ڈھائی سال کے دوران ریاست کے کلیدی اداروں کے سرِ عام اور حد سے زیادہ استعمال سے ان کی ساکھ کو بری طرح مجروح کر دیا ہے۔ یوں اس لڑائی میں تحریک انصاف کی حکومت چلے جانے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف جنرل باجوہ کو اگر لمبی ایکسٹینشن مل جاتی ہے تو بھی تضادات ختم نہیں ہوں گے۔ کیونکہ یہ معاملہ ایک یا دو افراد تک محدود نہیں ہے۔ حتیٰ کہ جنرل باجوہ کے ہوتے ہوئے بھی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ یہ سیاسی سیٹ اپ اسی طرح قائم رہ سکے گا۔ لیکن اس سارے تنازعے نے ”دس سالہ پلاننگ“ جیسے منصوبوں اور مفروضوں سے ہوا بہرحال نکال دی ہے۔ اس سارے معاملے سے واضح ہوتا ہے کہ اس نظام میں جبر کے ذریعے بھی استحکام کا حصول اب اتنا آسان نہیں رہا ہے اور حالات اچانک پلٹا کھا سکتے ہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت کے آنے کے بعد سی پیک منصوبوں میں کچھ تعطل کے بعد اب دوسرے مرحلے کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ جس کو اب سی پیک اتھارٹی (CPECA) کے نام سے ایک نئے ادرے کے کنٹرول میں دیا گیا ہے جس کا چیئرمین سابق ڈی جی آئی ایس پی آر ریٹائرڈلیفٹنٹ جنرل عاصم باجوہ کو بنایا گیا ہے۔ اس نئے ادارے کا مقصد بظاہر سی پیک کے منصوبوں کی بروقت تکمیل اور کرپشن کی روک تھام بتایا جا رہا ہے لیکن اس سے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (FWO) جیسے اداروں کو بلا روک ٹوک بڑے ٹھیکے مل سکیں گے۔ اس فیصلے پر تمام اپوزیشن پارٹیوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مخالفت کی ہے جو بنیادی طور پر ان کی اپنی حصہ داری کی ایک لڑائی ہے جو سی پیک کے شروع ہونے سے اب تک حکمرانوں کے مختلف دھڑوں کے درمیان جاری ہے۔

یہ معاشرہ پچھلے لمبے عرصے سے ایک کرب کا شکار ہے جو وقت کے ساتھ ناقابلِ برداشت ہوتا چلا جا رہا ہے۔ صرف معاشی اور سماجی مسائل ہی نہیں ہیں بلکہ اب تو آلودگی کا مسئلہ اس قدر سنگین ہو چکا ہے کہ انسانوں کو دم واقعی گھٹنے لگا ہے۔ حکومت ہو یا نام نہاد اپوزیشن‘ مرجہ سیاست عوام سے اتنی لاتعلق پہلے کبھی نہ تھی جتنی آج ہو چکی ہے۔ اپوزیشن کی نیم جان سی ایجی ٹیشن بھی انتہائی مطیع اور خصی ہے۔ ریاست کے کسی نہ کسی دھڑے کی آشیر باد کے بغیر اس حزب اختلاف میں کوئی حکومت مخالف تحریک چلانے کا حوصلہ ہے نہ صلاحیت اور ارادہ۔ اس ”متحدہ اپوزیشن“ کے اتحاد کا یہ حال ہے کہ مقتدر حلقے جب چاہیں سینیٹ میں ان کے اراکین سے اپنی مرضی کا ووٹ لے کے اکثریت کو اقلیت اور اقلیت اور اکثریت میں بدل سکتے ہیں۔ ایسے میں ساری حاوی سیاست ایک کٹھ پتلی تماشہ بن کے رہ گئی ہے۔ سیاسی نورا کشتی کے اس بیہودہ کھیل کو پھر میڈیا کے ذریعے پورے سماج پر مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن جہاں اس سیاست نے عوام کو مسترد کیا ہے وہاں عوام نے بھی حکمران طبقے کی اس سیاست میں دلچسپی لینا چھوڑ دی ہے۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اس وقت کوئی ایسی سیاسی جماعت موجود نہیں ہے جو وسیع تر عوام کو متحرک کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ موجودہ سیاسی سیٹ اپ کے مسلط کیے جانے کے بعد میڈیا کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہو چکی ہے۔ بورژوا صحافت میں جو چند ایک سنجیدہ اور نسبتاً دیانتدار صحافی موجود تھے انہوں نے مجبوراً سوشل میڈیا کا رُخ کر لیا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس متوازی میڈیا کو اب مین سٹریم میڈیا سے کہیں زیادہ مقبولیت حاصل ہو رہی ہے۔

ریاست بھی جتنی جابر اور جارح نظر آتی ہے اندر سے اتنی ہی کمزور اور خوفزدہ ہے۔ نظام کو مارشل لا جیسے کسی طریقے سے چلانے کی گنجائش بھی بہت کم بچی ہے۔ کیونکہ ایک طرف تو اس صورت میں عوام کا غم و غصہ پھٹ پڑنے کا خطرہ موجود ہ ہے۔ علاوہ ازیں مارشل لا کا اوزار خود داخلی دھڑے بندیوں سے کھوکھلا ہو چکا ہے۔ بحران اتنا شدید اور یہ کٹھ پتلی حکومت اس قدر نااہل ہے کہ اسے قائم رہنے کے لئے بار بار ریاستی سہارے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور تمام تر بورژوا تکلفات اور ضابطوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے معاملات میں کھلی مداخلت کر کے اسے سہارا فراہم کیا جاتا ہے۔ وزارتِ خزانہ اور اسٹیٹ بینک کو مکمل طور پر آئی ایم ایف کے ملازمین کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ آرمی چیف بنفسِ نفیس معاشی سلامتی کونسل کے ممبر کے طور پر موجود ہیں اور ملک کے بڑے سرمایہ کاروں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ جمہوریت کا مکروہ فریب شاید اس سے پہلے کبھی اتنا بے نقاب نہیں ہوا تھا۔

ایسے میں پھر معیشت کی ”بحالی“ کے دعوے بھی کیے جا رہے ہیں۔ بحالی کا مطلب تو یہ ہونا چاہئے کہ لوگوں کے حالاتِ زندگی میں کچھ بہتری کچھ آسودگی آئے‘ لیکن یہ ایسا استحصالی نظام ہے جس کی معیشت عوام کو برباد کر کے ”بحال“ ہوتی ہے۔ لیکن یہ بحالی بھی سطحی اور وقتی ہے۔ سطح کے نیچے کوئی ایک تضاد بھی حل نہیں ہوا ہے۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں ہر مہینے اضافہ کیا جا رہا ہے۔ جی ڈی پی گروتھ نہ ہونے کے برابر ہے۔ قرضے بھی مسلسل بڑھ رہے ہیں جس کا جائزہ ہم انہی صفحات پہ لے چکے ہیں۔ عوام کا خون پسینہ نچوڑ کے ٹیکس آمدن میں اضافے کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے لیکن دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ جاری مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران ایف بی آر نے 964 ارب روپے اکٹھے کیے جن میں سے 814 ارب روپے صرف قرضوں کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات کی نذر ہو گئے۔ سہ ماہی کے آخر میں حکومت کی نیٹ آمدن منفی 67 ارب روپے تھی!

اس تمام تر صورت حال میں کسی دور رس استحکام کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ حکومت چلی جاتی ہے تو بھی عوام کے مسائل حل ہونے والے نہیں ہیں۔ اور اہم بات یہ ہے کہ لوگ اب خود اس حقیقت سے واقفیت حاصل کر چکے ہیں۔ سطح کے نیچے اس تمام تر جبر و استحصال کے خلاف ایک سنجیدہ تیاری محنت کش طبقے کی مختلف پرتوں میں جاری ہے جس کا وقتی اظہار ہمیں چھوٹی چھوٹی تحریکوں کی شکل میں نظر آیا ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں شعبہ صحت کے محنت کشوں کی جرات مندانہ تحریک نے حکومت کو پسپا ہونے پہ مجبور کیا ہے۔ یہ تحریک اگر مطالبات منوانے میں کامیاب نہیں ہوئی تو ابھی ناکام بھی نہیں ہوئی ہے۔ اسی طرح ملک گیر ”طلبہ یکجہتی مارچ“ بھی ایک انتہائی اہم پیش رفت ہے جس نے ہجم میں محدود ہونے کے باوجود نہ صرف نوجوانوں بلکہ محنت کش طبقے کے ہراول پرتوں کو بھی جھنجوڑا ہے۔ پورے ملک میں اوپر سے نیچے تک طلبہ یونین کی بحث چھڑی ہے اور ’سوشلزم‘کی بات زبان زدِ عام ہوئی ہے۔ طلبہ کی اس ایجی ٹیشن سے واضح ہوتا ہے کہ نوجوانوں میں شدید بے چینی، انقلابی نظریات کی پیاس اور جستجو موجود ہے۔ محنت کشوں اور نوجوانوں کی یہ تحریکیں، جو فی الوقت زماں و مکاں میں محدود ہیں، مستقبل کی بڑی اور فیصلہ کن لڑائی کی جھلکیاں انقلابیوں کے سامنے پیش کرتی ہیں اور انہیں انقلابی قیادت کی تیاری کے مواقع فراہم کرتی ہیں جنہیں بہرصورت بروئے کار لایا جانا چاہئے۔ انقلابیوں کو بھرپور عزم و حوصلے کے ساتھ اس تیاری کو جاری رکھناہے اور طبقے کی رہنمائی کا تاریخی فریضہ سرانجام دینا ہے۔ اسی میں ساری انسانیت کی بقا اور نجات مضمر ہے۔