عمر شاہد
سری لنکا میں طویل سیاسی کشیدگی کے بعد ہونے والے حالیہ صدارتی انتخابات میں کامیاب ہو نے والے ’گو ٹا بایا راجہ پکسا‘ نے حلف اٹھانے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں ہی نسل پرستانہ سخت گیر حکمرانی کا عندیہ دیا۔ اپنی تقریر میں اس نے واضح طور پر اپنی فتح کی وجہ اکثریتی سنہالی برادری کے تعاون کو قرار دیتے ہوئے دیگر اقلیتوں خاص طور پر تاملوں سے ’تعاون‘ کرنے کی اپیل کی۔ راجہ پکسا کی تمام انتخابی مہم سنہالی نسل پرستی اور دہشت گردی کے خاتمے کے گرد گھومتی رہی جس میں بنیادی مسائل کی بجائے دائیں بازو کے نعروں کے گرد سنہالی اکثریت کو اکٹھا کیا گیا۔ تاہم اس کی پہلی تقریر کے بعد ہی اس کا مقصد عیاں ہو چکا ہے۔
اس سال ایسٹر پر سری لنکا میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے نتیجے میں 259 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔ اس کے بعد ملک میں عد م تحفظ کی فضا پھیلی رہی جس کے نتیجے میں راجہ پکسا جیسے افراد کے لئے جیت کی راہ ہموار ہوئی۔ فتح کے فوراً بعد راجہ پکسا نے اپنی کامیابی کا جشن منانے کے لئے انورادھا پور کا انتخاب کیا۔ یہ جگہ ماضی کی سنہالی ریاست کا دارلحکومت تھا جہاں جشن منانے کا مقصد واضح طور پر ملک میں اور بیرون ملک سنہالی نسل پرستی کو ہوا دینا تھا۔ راجہ پکسا کی کامیابی کے بعد سری لنکن ہائی کورٹ نے اس پر قائم کرپشن کے تمام الزامات ختم کرتے ہوئے اس کا پاسپورٹ بھی واپس کرنے کا فیصلہ دیا۔
تقریباً ایک دہائی سے سر ی لنکا میں اقتدار راجہ پکسا خاندان کے پاس رہا ہے۔ اس سے پہلے اس کا بھائی مہیندا راجہ پکسا صدر رہا۔ جس نے اپنے دور حکومت میں چھوٹے بھائی گوتابھایا کو دفاع اور شہری امور کی وزارتوں کے عہدے پر تعینات کیا ہوا تھا۔ اس نے اپنے بڑے بھائی چمل کو پارلیمنٹ کا سپیکر اور ایک اور چھوٹے بھائی بازل کو اقتصادی ترقی کی وزارت کا قلمدان سونپا تھا۔ یہ کوئی حادثہ نہیں تھا کہ اقتدار میں آنے والے نئے راجہ پکسا کو مبارکباد دینے والوں میں پیش پیش پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان، بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی اور اس کے دائیں بازو کے دیگر فطری اتحادی شامل تھے۔ عمران خان نے تو اسے پاکستان کے دورے کی دعو ت بھی دے ڈالی۔ تاہم بھارتی وزیر خارجہ نے غیر اعلانیہ دورہ کر کے اپنی ڈپلومیسی کے ذریعے بھارت اور سر ی لنکا کے مابین تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔
بے رحم اور ظالم کے القاب سے مشہور سابق ملٹری افسر گوٹا بایا راجہ پکسا کے اقتدار میں آتے ہی ملک کی اقلیتوں میں بے چینی محسوس کی جا سکتی ہے۔ وہ اپنے بھائی مہیندا راجہ پکسا کے دور اقتدار کے دوران 2005ء سے 2015ء تک سیکرٹری دفا ع رہا ہے۔ اپنے اس دور میں اس نے علیحدگی پسند تامل ٹائیگرز کے خلاف بے رحمانہ ملٹری آپریشن کیا اور ملک سے 25 سال سے زائد عرصہ تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کا بظاہر اختتام ہوا۔ تاہم اس ملٹری آپریشن کے دوران 40,000 سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور عالمی اداروں کے مطابق انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی گئیں۔ اس کے حکم پر بے شمار تامل عورتوں کے ریپ کیے گئے۔ نیز ماورائے عدالتی قتل، اغوا اورجبری گمشدگیوں جیسے غیر انسانی اقدامات ہوئے۔ اس آپریشن کے دوران کئی عام تاملوں، ترقی پسندوں، کمیونسٹوں اور صحافیوں کو بھی تامل ٹائیگرز سے تعلق کا الزام لگا کر موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ اس قتل عام کو برطانوی چینل فور کی ایک دستاویزی فلم ”Killing Fields Of Sri Lanka“ میں بخوبی دکھایا گیا ہے۔ اس قتل عام کی حمایت کئی انسانی حقوق کے علمبردار ممالک نے بھی کی اور اب جنگ کے اس مجرم کو مغربی دنیا میں خاص طور پر سراہا جا رہا ہے۔ راجہ پکسا نے اپنے بھائی سابق صدر مہیندا راجہ پکسا کو اب وزارت عظمیٰ، وزارت دفاع اور مالیات کے قلم دان سونپ دیے ہیں جبکہ دوسرے بھائی چمل کو فوڈ سکیورٹی اور تجارت کا وزیر بنانے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔
موجودہ انتخابات سے پہلے پچھلے صدر کی جانب سے اپنے وزیر اعظم کی برطرفی، عدلیہ کی جانب سے اس سیاسی بحران میں مداخلت اور حکمران طبقے کے مختلف دھڑو ں کے مابین کشیدگی نے سیاسی منظر نامے کو پر پیچ بنا دیا تھا۔ اب مشکل معاشی و سیاسی حالات میں یہ ’آہنی‘اور ’مضبوط‘ راجہ پکسا اقتدار میں آیا ہے۔ 2018ء سے ملک 17 سال کی کم ترین معاشی گروتھ کی سطح پر ہے۔ بڑھتی ہوئی غربت اور بیروزگاری کے سماجی اثرات موجودہ انتخابی مہم میں دیکھے جا سکتے تھے۔ سری لنکا پر بیرونی قرضے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وقت قرضوں اور برآمدات کا تناسب 270 فیصد ہے جس میں اکثریتی قرضہ چین کا ہے۔ پچھلے عرصہ میں چین نے قرضوں کی واپسی نہ ہونے کی صورت میں سر ی لنکا کی ایک بندرگاہ کو قبضے میں لے لیا ہے۔ دوسری جانب دیکھا جائے توخانہ جنگی کے دوران ہونے والے قتل عام کے نقو ش ابھی تک عوام کے شعور سے ختم نہیں ہو سکے۔ فوجی آپریشن سے تامل مسلح جدوجہد کو تو کچلا گیا تاہم قومی مسئلہ حل ہونے کی بجائے مزید سلگ رہا ہے۔ نوجوان نسل میں بے چینی پائی جا رہی ہے۔ سنہالی نوجوان بھی اپنے مستقبل کے بارے میں پریشان ہیں۔
ملک میں خانہ جنگی کے خاتمے کے باوجود روزمرہ زندگی میں ریاست کی دخل اندازی میں کمی نہیں آئی۔ عوام ہر جگہ چھاؤنیوں جیسی صورتحال کا شکا ر ہے۔ پچھلے عرصے میں سری لنکن فوج کامیابی سے اپنے کمرشل کاروباروں کی بنیاد رکھتے ہوئے ان میں کئی گنا اضافہ کر چکی ہے۔ ملک کے شمالی علاقوں میں سیاحت کے کاروبار سے لے کر سبزیاں بیچنے تک فوج کاروبار کر رہی ہے۔ فوجی دستر خوانوں کو لگژری ہوٹلوں میں تبدیل کر کے ان سے منافعے کمائے جا رہے ہیں۔ ایک تو خانہ جنگی اور اب ملکی معیشت کا بڑا حصہ فوج کے کنٹرول میں ہونے کی وجہ سے فوج براہ راست فیصلوں پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ پاکستان اور سری لنکا کے حکمران طبقات کے تعلقات بھی ’مضبوط‘ہیں۔ تامل ٹائیگر ز کی بغاوت کچلنے میں پاکستان کا اہم کردار رہا ہے جس کا اقرار خود سر ی لنکن افواج کے سابق جنرل نے ایک انٹرویو میں کیا جب اس نے کہا کہ تامل ٹائیگرز کو شکست پاکستانی فوج کی مدد کے بغیر ناممکن تھی۔ سری لنکن فوج کے افسر کاکول سے گریجویٹ ہونے کو اپنی شان سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فوج کی اعلیٰ قیادت میں اکثریت کاکول اکیڈمی کے گریجویٹس کی ہے۔ سری لنکن افواج کے بڑھتے اور بدلتے ہوئے کردار کی شاید یہ بھی ایک وجہ ہے۔
سابق صدر مہیندا کے دور میں فوج کے کمرشل کاروباروں کی بنیاد رکھی گئی تھی لیکن تھوڑے ہی عرصے میں صدر اور فوج کے مابین تضادات بھی سر اٹھانے لگے۔ ان تضادات نے حل ہونے کی بجائے مختلف مواقع پر پھٹ کر کشیدگیوں میں اضافہ کیا۔ مہیندا نے کافی کوشش کی کہ فوج کو قابو میں رکھ سکے لیکن بعض موقعوں پر چین کی پشت پناہی سے فوج کے احکامات زیادہ اہمیت حاصل کرتے گئے۔
ماضی میں دیکھا جائے تو سری لنکا میں بائیں بازو کی شاندار روایات موجود رہی ہیں۔ برصغیر کے خونی بٹوارے سے لے کر 1970ء تک محنت کشوں کی جدوجہد کے کئی ابواب ہیں۔ اسی طرح دنیا کی سب سے بڑی ٹراٹسکائیٹ پارٹی ’لنکا سماسماجا پارٹی‘ کا قیام بھی یہیں عمل میں آیا۔ 1935ء میں قائم ہونے والی اس پارٹی کا 40ء کی دہائی میں محنت کشوں میں اچھا اثرورسوخ تھا۔ اسی طرح 1970ء تک ملک کی سیاست میں پارٹی کا اہم کردار تھا۔ تاہم فورتھ انٹرنیشنل کی کمزوری اور پارلیمانی سیاست میں غرق ہونے کی وجہ سے یہ پارٹی انقلابی سوشلزم کی بجائے جمہوریت کے حصول تک ہی محدود ہوتے ہوئے آج نہایت قلیل رہ چکی ہے۔ اس انقلابی پارٹی کے بحران کی وجہ سے تامل ٹائیگرز اور قوم پرستانہ مسلح بغاوت کا عروج ہوا۔ اقلیتی تامل اور اکثریتی سنہالی محنت کشوں میں تفریق پیدا کر کے حکمرانوں نے طبقاتی جدوجہد کو زائل کیا ہے۔ نسلی تفریقوں کو مٹانے اور سماجی و معاشی جبر و استحصال سے نجات کے لئے سری لنکا کے محنت کشوں کو طبقاتی جڑت بنانا ہو گی۔