قمرالزماں خاں

11 دسمبر 2019ء کو لاہورمیں وکلا کی ایک بڑی تعداد نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) پردھاوا بول کر توڑپھوڑ کی اور مبینہ طور پر ہاتھ لگنے والے ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل سٹاف اور دیگر عملے کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ یہ بلوہ کئی گھنٹے چلتا رہا اور اس موقع پر ”قانون نافذ“ کرنے والے ادارے تماشائی بنے رہے۔ اسی دوران پنجاب کے ایک وزیر فیاض الحسن چوہان کی مشکوک قسم کی انٹری ہوئی اور بالکل کسی فلم کے سین کی طرح ان کی نام نہاد ھنائی کی گئی بلکہ شاید ریکارڈ پر لانے کیلئے ہلکی پھلکی کھینچا تانی کی’عکاسی‘ کی گئی۔ اسکے بعد وکلا کے خلاف پولیس نے اپنا روائتی تشدد پروگرام شروع کردیا۔ بعد ازاں وکلا کے خلاف عدالتی اورمیڈیا ٹرائل کا لاامتناعی سلسلہ شروع کیا گیا۔ اس سانحے کاپس منظروہ واقعہ ہے جس میں پی آئی سی میں ہی چند ہفتے قبل ہسپتال کے عملے نے ایک وکیل کو اس وقت شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھاجب اس نے اپنی دل کی مریضہ ماں کیلئے مفت ادویات کا حق حاصل کرنیکی کوشش کی تھی اور ناکامی پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔ کام کے بوجھ کی اکتاہٹ، رعونت اور روائتی بے حسی سے مرصع بپھرے ہوئے ڈاکٹرزنے ہسپتال کے عملے کے ذریعے وکیل پر تشدد کراکے اسکے ”مفت علاج معالجے“کے مطالبے کاتدارک کیا۔ اس واقعے کے بعد وکلا اور ڈاکٹرز کی طرف سے ہڑتالوں اور ایک دوسرے کے خلاف چارہ جوئی کی مہمات چلیں اور پھرصوبائی وزیر قانون کی طرف سے ایک ”مصالحت“کرائی گئی۔ جس کے بعد ڈاکٹرز کے ایک راہنماکی ایک ایسی ویڈیو وائیرل ہوئی جس میں انکی طرف سے وکلا کی حق رسی کی کوششوں کاتمسخر اڑایا گیاتھا۔ یہ موقع طالع آزماؤ کیلئے موزوں تھا، چنانچہ ہسپتال پر دھاوا بول دیا گیااور غریب مریضوں کیلئے ’جیسی تیسی‘ مفت امراض قلب کی علاج گاہ کو تاراج کردیا گیا۔ چند مشکوک شواہد واضح کرتے ہیں کہ احتجاجی ریلی سے ہٹ کر بھی کچھ لوگ دونواں اطراف اشتعال انگیزی کے لئے کوشاں تھے۔ چنانچہ ایک ایسا سانحہ رونما ہوا جس میں سب سے زیادہ نقصان مریضوں کا ہوا جن میں سے چند ایک کو زندگی جیسی بے نظیر نعمت سے بھی محروم ہونا پڑا۔ دل کے عارضے میں مبتلا مریضوں جن میں سے کچھ انتہائی نگہداشت میں رکھے گئے تھے‘ کو وکلااور ڈاکٹرز کے تصادم میں ’ہسپتال‘ سے بے دخل ہوکر خود کوحالات کے رحم وکرم پر چھوڑنا پڑا۔ دوردراز سے آئے بہت سے مریضوں اور لواحقین کی بے بسی اور زبوں حالی کا تصورکیا جاسکتا ہے جن کیلئے مرض اور درد سے بڑھ کر حملہ آوروں کی یورش سے بچنا محال ہوچکا تھا۔ یہ واقعہ اس ملک کے سب سے بڑے صوبے کے صدر مقام لاہور میں رونماہورہا تھا جہاں مزدوروں، کسانوں، طالب علموں اور معاشرے کے پچھڑے ہوئے حصوں کی کسی بھی سرگرمی کو کچلنے کیلئے ریاستی اہل کار ہر وقت مستعد اور چوکنا رہتے ہیں۔ کچھ دورازکار تجزیہ نگاروں نے اسی وقت اس واقعے کو پرویز مشرف کے خلاف ممکنہ فیصلے سے قبل ہی مخصوص فضا پیدا کرنے کی کاوش قراردیاتھا۔ انکے مطابق عدلیہ اورفوج کے مابین تناؤ اور مخاصمت کی کیفیت میں بار اور جوڈیشیری کے خلاف عوامی رائے عامہ کواستوار کرنا مقصود ہے۔ مگر ہمیں ٹوٹتے اور مرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کی غلام گردشوں کی سازشوں اورریاستی بحران کی شدت میں حکمران طبقے کی باہمی لڑائیوں کے پہلو کے ساتھ کچھ دیگرزاویوں سے بھی دیکھنا ہوگا۔ غیر ہموار معاشرتی زندگی کاردعمل دیگر مضمرات کی پیدائش کی صورت میں نکل رہا ہے۔ بہت سی وجوہات جن کا تعلق معاشی اور سماجی دباؤ میں اضافے سے بنتا ہے‘کی وجہ سے پورے سماج میں تشدد، جھگڑے، بیگانگی اور جھلاہٹ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اگردیکھا جائے تو پچھلے کچھ سالوں سے ہسپتالوں میں بھی لڑائی جھگڑوں کے واقعات میں شدت آتی جارہی ہے۔ پاکستان میں سترفیصد کے قریب لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ شدید ماحولیاتی آلودگی اورغربت کے ساتھ پست معیارزندگی اور خوراک کی قلت کا معاملہ جڑا ہواہے۔ المیہ یہ ہے کہ دیگر شعبوں سمیت صحت اورعلاج معالجے میں ریاست اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں مکمل طور پر ناکام ہوئی ہے۔ عام آدمی مضرصحت پانی اور ملاوٹ شدہ وناقص خوراک کھانے پر مجبور ہے۔ اسی وجہ سے بیماریوں کی بہتات ہے۔ اگریہ کہا جائے کہ تقریباً ساری آبادی کسی نا کسی طرح کے صحت کے مسائل سے دوچار ہے تو مبالغہ آرائی نہیں ہوگی۔ ہر ہسپتال خواہ نجی شعبے کا ہو یا سرکاری‘ مریضوں سے اٹا ہوا ملتاہے۔ آبادی کا غالب حصہ غربت کی وجہ سے سرکاری ہسپتالوں کا رخ کرتا ہے جہاں انہیں امید ہوتی ہے کہ انکا مفت علاج معالجہ ہوگا۔ صحت کے مراکز اور ہسپتالوں کی آبادی سے عدم مطابقت کی وجہ سے ہر ہسپتال میں اسکی بساط سے بہت زیادہ رش ہوتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت (2015ء)کے مطابق پاکستان میں ایک ہزارآبادی کیلئے0.98 ڈاکٹرز ہیں، جبکہ فی ہزار آبادی کیلئے بیڈزکا(اس تعداد میں ہمہ قسم کے وارڈز کے بیڈ شامل ہیں) تناسب 0.6ہے۔ حکومتی وسائل (سامراجی اداروں کی گائیڈلائن کے مطابق) کاسب سے کم حصہ تعلیم اور صحت کے بنیادی شعبوں پر خرچ ہونے کی وجہ سے آبادی اور صحت کے انفراسٹرکچر کے مابین تناسب د ن بدن خراب ہوتا جارہا ہے۔ اس صورتحال میں صحت کے شعبے کو نجی تحویل کے سپرد کرنے کی پالیسی نے خرابیوں کوبڑھاوا دیا ہے۔ سرکاری ہسپتال میں موجود ڈاکٹر کادماغ ہمہ وقت اپنے نجی کلینک کی آمدن بڑھانے میں مصروف کار ہوتا ہے، وہ سرکاری ہسپتال میں آنے والے مریضوں کو وہ توجہ نہیں دے پاتا جسکے وہ مستحق ہوتے ہیں۔ اسی طرح بتدریج ادویات اور ٹیسٹ کی مفت فراہمی کی سہولت کم سے کم کی جارہی ہے۔ تکلیف دہ مسافت طے کرکے ہسپتال آنے والے مریضوں اور لواحقین کی قوت برداشت لمبی لمبی لائینوں میں لگنے اور اہلکاروں کی ڈانٹ ڈپٹ سننے کے بعد ہی ختم ہوجاتی ہے۔ سرکاری ہسپتالوں کے باہر نجی ہسپتالوں اورلیبارٹریز کو منافع بخش بنانے کی سوچ ’سرکاری ہسپتال‘ کے اندر موجود سہولیات کی فعالیت اورافادیت کے آڑے آئے رہتی ہے۔ عموماً الٹراساؤنڈ، ایم آرآئی اورگردے صاف کرنے والی سرکاری مشینیں ”خراب“رکھی جاتی ہیں۔ صحت کے شعبے میں سرکارکی عدم دلچسپی یا دوسرے لفظوں میں اس بنیادی ضرورت سے جان چھڑالینے کی پالیسی نے ایک بہت بڑا سماجی ومعاشرتی بحران پیدا کیا ہوا ہے، جس کی نشاندہی آئے روز ہسپتالوں میں لواحقین اور ہسپتال کے عملے سے لڑائی جھگڑوں سے ہوتی چلی آرہی ہے۔ سماجی اشتعال اپنی ابتدائی اورخام شکل میں اپنا فوری اظہار بسااوقات غیر ضروری ہدف پرکرتا پایا جاتاہے۔ اس بے ربط اور اضطراری ردعمل کانشانہ سردست بالکل سامنے موجود اسی جیسے کمزوراہداف بن رہے ہیں۔ ان کیفیات کی تفہیم سرکاری اورکارپوریٹ پراپگنڈہ مشینری اپنے مذموم مقاصد کیلئے کرتی ہے اور بنیادی مسائل، وجوہات اورتدارک کے ممکنات کی نشاندہی سے اجتناب برتا جاتا ہے۔ جمود کوقائم رکھ کر موجودہ گھناؤنے نظام کو بچانے کی خواہشمند قوتیں‘ ہر سماجی تحرک سے خوفزدہ ہیں۔ سماج کی مانگوں کوپورا کرنے کی بجائے سرکاری مشینری اور وسائل ’تحرک‘کو جمود میں بدلنے یا پھر اسکوبے مقصد کرکے زائل کرنے کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی میں مصروف کار رہتے ہیں۔ وکلا، ڈاکٹرز، طلبہ اورکسان تحریکوں میں یہ عمل کسی نا کسی شدت موجودنظرآتاہے۔

ماضی میں بطورخاص 68-69ء کے عوامی ابھار میں وکلا تحریک کا کردار ترقی پسند رہا ہے۔ تمام تر نظریاتی پراگندگی کے باوجود پرویز مشرف کے خلاف بھی وکلا تحریک نے ایک منظم قوت کے طور پر خود کو منوایا تھا مگر اس تحریک کی خودبالائی قیادت ہی اس تحریک سے خوفزدہ ہو کر ”ریاست ہوگی ماں کے جیسی“مکارانہ ’لوریوں‘کے ذریعے وکلا کو بہکانے میں مصروف رہی اوربالآخر غیرانقلابی راستوں پر استوار کرنے کی سازش میں کامیاب ہوگئی۔ اس تحریک کے بعدوکلاء ہی میں موجودعناصر‘ان کی قوت کا عمومی اظہار منفی مقاصد کے لئے کرانے میں کامیاب رہے، اس سے وکلا تحریک کا تشخص مسلسل مسخ ہوتاگیا۔

ینگ ڈاکٹرز جن کی تنظیم کا وجود نئے ڈاکٹرز کی محرومیوں کے ازالے، مسائل کے حل اور حقوق کے حصول کیلئے عمل میں لایا گیا تھا کو بھی ابتدائی کامیابیوں کے بعد مریضوں سے براہ راست متصادم کرادیا گیا۔ ڈاکٹرز کے مطالبات جتنے بھی صائب اور حقیقی ہوں جب وہ انکے حصول کیلئے علاج معالجے کا کسی بھی سطح پر بائیکاٹ کریں گے انکا تشخص منفی اور عوامی سطح پر ناقابل قبول ہوتا چلا جائے گا۔ ماضی میں ینگ ڈاکٹرز نے تواتر سے اپنی طاقت کا اظہارتمام مضمرات کو سامنے نہ رکھتے ہوئے کیا اور خود کو ناصرف عوامی حمائیت سے محروم کیا بلکہ محنت کش طبقے کی دیگر پرتوں سے بھی دانستا یا غیر دانستا دوری اختیار کئے رکھی۔ ینگ ڈاکٹرز میں ترقی پسند عناصر کی موجودگی سے یہ توقع پیدا ہوئی تھی کہ وہ زرپرست ڈاکٹروں کی آلودگی کو اپنے انقلابی نظریات، آدرشوں اور انسان دوستی پر مبنی رویے سے دورکریں گے۔ ’ینگ ڈاکٹرز‘ تحریک سے یہ بھی توقع تھی کہ وہ خود کومظلوموں اور محروم طبقات کی تحریکوں کے ساتھ جوڑتے ہوئے قائدانہ کردار ادا کریں گے۔ سردست اس خیال میں ضعف پیدا ہو ا ہے جسکی وجہ سے ینگ ڈاکٹر زتحریک سکڑ رہی ہے۔ اس صورتحال کا تدارک کرنے کی ضرورت ہے۔

ماضی قریب میں طلبہ تحریک کی بے نظیر اٹھان نے حکمران طبقے کے ایوانوں میں بھونچال پیدا کردیا ہے اور یکا یک انکے ہاتھ پاؤں پھول گئے ہیں۔ ایک ہی دن کے ’تحرک‘سے حکمران طبقے کے دانشوروں کی نیندیں حرام ہوگئیں، انکے ردعمل نے انکی حقیقی طاقت اور ہمت کو بھی ایکسپوز کیا۔ یہ کاوش انقلابی نظریات رکھنے والے نوجوانوں کے قائدین کی بہت بڑی جیت ہے۔ اس تحریک کے آغاز میں ہی اسکو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہم اس سازش کو لاشعوری یا اضطراری نہیں قراردے سکتے۔ یہ ایک منظم سازش بھی ہوسکتی ہے۔

ماضی قریب میں قومی تحریکوں کے عظیم الشان تحرک کو مہم جوئی کے ذریعے ناقابل تلافی نقصان پہنچایاگیا۔ ان تحریکوں کی اپنی بے ربطی اور بے سمتی ”مداخلت اورسبوتاژ“ کیلئے کافی سازگار تھی، چنانچہ اسکو نان ایشوز اور بے مقصد’بیانیے‘میں ہی زائل کرنے کی بڑی کوشش کی گئی۔ سماج میں بے چینی زیادہ اور اسکا اظہار سردست بہت ہی کم ہے مگر یہ کم اظہار ہی دشمن طبقات کی کیفیت، قوت اور برداشت کو ایکسپوز کرنے کیلئے کافی ہے۔ اگر سماجی، سیاسی اورطبقاتی بے چینی ذرا زیادہ شدت سے پھوٹ پڑی تو کم عرصے میں ہی فیصلہ ہوجائے گا۔

وکلا اور ڈاکٹرز کی لڑائی حکمران طبقے کیلئے اطمینان بخش مظہر ہے۔ سماجی ٹوٹ پھوٹ اور تقسیم سے بالادست قوتوں کواستحصال اور لوٹ مارکے نظام کو جاری رکھنے کیلئے اطمنان بخش آکسیجن فراہم ہوتی ہے۔ اپنے پس منظر اور زمینی حقائق سے جڑے ہونے کی وجہ سے وکلا، ڈاکٹرز اور طلبہ لمبے عرصہ تک خود کو سماج میں موجودگہری طبقاتی تقسیم سے بالاتر نہیں رکھ سکتے۔ ایک وکیل کا اپنی ماں کیلئے مفت ادویات کا مطالبہ ہی دراصل وہ بنیادی نکتہ اور راہنمائی ہے جس کے اور دیگر بنیادی مطالبات کے گرد سماج کے تمام متحرک حصوں کو منظم ہونا پڑے گا۔ اپنی نظریاتی اور سیاسی سمتوں کودرست کرکے پیش قدمی کرنا ہوگی۔ انکو ایک دوسرے کا مقابل بننے کی بجائے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اس کہنہ نظام کے خلاف پیش قدمی کرنا ہوگی تاکہ سرمایہ داری کاخاتمہ کرکے محنت کش طبقے کا راج قائم کیا جاسکے۔