عمران کامیانہ
پاکستان کی معیشت روزِ اول سے بحرانات کا شکار رہی ہے۔ اس کیفیت میں یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ چند ایک استثنائی عرصوں کو چھوڑ کے معاشی بحران یہاں ایک معمول کی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ درست ہے کہ ایوب خان اور پھر پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں معیشت کی شرح نمو کافی اوپر گئی لیکن یہ ترقی اتنی گہری اور وسیع نہیں تھی کہ پاکستان پسماندہ ممالک کی فہرست سے نکل کر کم از کم درمیانی آمدن والے ممالک کی فہرست میں ہی شمار ہو پاتا۔
یہاں ایک ترقی یافتہ صنعتی سماج کی معاشرتی بنیادیں تعمیر کرنے کے لئے بھی جتنے بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے وہ سرمایہ داری کے تحت مہیا نہیں ہو سکتی ہے۔ حتیٰ کہ سی پیک جیسے دیوہیکل منصوبے بھی اس ضرورت کے سامنے بہت معمولی معلوم ہوتے ہیں جو زیادہ سے زیادہ سطحی، نمائشی اور ادھوری ترقی ہی دے سکتے ہیں۔
پسماندہ معیشتوں کا بنیادی مسئلہ آخری تجزئیے میں کم پیداواریت (Productivity) ہوتا ہے جس کے پیچھے تکنیکی پسماندگی کارفرما ہوتی ہے اور جس کی وجہ سے ایک طرف داخلی سطح پر سماجی و صنعتی ترقی کے مطلوبہ وسائل حاصل نہیں ہو پاتے۔ دوسری طرف بیرونی سطح پر ایسی پسماندہ معیشتیں عالمی منڈی میں مقابلہ بازی کی سکت سے عاری ہوتی ہیں جس سے تجارتی خسارے جنم لیتے ہیں۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد ایک طرف تو سابق نوآبادیاتی ممالک کی معیشتیں داخلی طور پر بحران کا شکار تھیں‘ دوسری طرف ’بریٹن ووڈز سسٹم‘ کے تحت عالمی معیشت کے طریقہ کار اور قوانین یوں مرتب کیے گئے کہ یہ پسماندہ خطے مسلسل سامراجی ممالک اور ان کے گماشتہ اداروں پر منحصر رہے۔
نامور معیشت دان ڈاکٹر قیصر بنگالی کے مطابق 2003ءمیں پاکستان 100ڈالر کی برآمدات کے مقابلے میں 125 تا 130 ڈالر کی درآمد کرتا تھا۔ یوں 25 سے 30 ڈالر کا فرق تھا۔ لیکن آج یہی فرق 125 ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ دوسرے الفاظ میں درآمدات‘ برآمدات کے دوگنا سے بھی زیادہ ہیں۔
عالمی بینک کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پچھلے ایک عشرے کے دوران عالمی منڈی میں پاکستان کا حصہ 1.45 فیصد سالانہ گھٹتا گیا ہے اور 2010ءکے بعد سے برآمدات کم و بیش منجمد ہیں جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وقت کے ساتھ پاکستانی سرمایہ داری کا بحران گھمبیر ہی ہوا ہے۔
بعض حوالوں سے پاکستان کی سرمایہ دارانہ معیشت کا بحران خطے کے دوسرے پسماندہ ممالک سے زیادہ گہرا ہے۔ مثلاً پاکستان میں سرمایہ کاری کی جی ڈی پی سے شرح 15 فیصد سے بھی کم ہے جبکہ ہندوستان میں یہ شرح 32 فیصد، سری لنکا میں 36 فیصد اور بنگلہ دیش میں 40 فیصد تک ہے۔ اس حوالے سے 175 ممالک میں سے پاکستان کا 151 واں نمبر بنتا ہے۔ اس کم سرمایہ کاری کی وجہ سے پھر کم پیداواریت کا مسئلہ جنم لیتا ہے۔
سٹیٹ بینک کے مطابق ملکی معیشت ایک ایسے گھن چکر میں پھنسی ہوئی ہے جس میں کم سرمایہ کاری کی وجہ سے شرح نمو کم ہے اور کم شرح نمو کی وجہ سے پھر بچتیں (Savings) بھی کم ہوتی ہےں جو ایک بار پھر کم سرمایہ کاری کے مسئلے کو جنم دیتی ہیں۔ سٹیٹ بینک کی اسی رپورٹ کی مطابق ملکی تاریخ میں بلند شرح نمو کے جتنے بھی ادوار آئے ہیں وہ بیرونی عوامل پر منحصر تھے (جن میں بیرونی قرضے، سامراجی امداد اور ترسیلات زر شامل ہیں) اور اسی وجہ سے یہ شرح نمو زیادہ لمبے عرصے تک برقرار نہیں رہ سکی۔
ملک کی برآمدات کے ہجم میں 2005ءکے بعد سے کوئی اضافہ نہیں ہو پایا ہے جس کی وجہ سے معیشت کا دارومدار درآمدات پر بڑھتا چلا گیا ہے اور معیشت دان عاطف میاں کے الفاظ میں ”پاکستان صارفین کی قوم بن چکا ہے جس کی پیدا اور تخلیق کرنے کی صلاحیت بہت محدود ہے۔“
یہ کیفیت ہمیں یہاں کے سرمایہ دار طبقے کے بدلتے ہوئے معاشی کردار میں بھی نظر آتی ہے جو اب زیادہ تر سرمایہ کاری رئیل اسٹیٹ اور ریٹیل جیسے غیر پیداواری شعبوں میں ہی کرتا ہے۔ زرعی زمینوں پر بے ہودہ اور بے ہنگم ہاﺅسنگ کالونیاں بنائی جا رہی ہیں جبکہ صنعتی یونٹ بند کر کے وہاں شاپنگ مال یا بیرونی مصنوعات کے گودام تعمیر کیے جا رہے ہیں۔
اس سے حکمران طبقے کی ساری ترکیب بھی بدل گئی ہے اور صنعت سے وابستہ پرانے سرمایہ دار گھرانوں کو پچھاڑ کے رئیل اسٹیٹ سے وابستہ ملک ریاض جیسے بدعنوان نودولتیے ملک کے امیر ترین لوگ بن گئے ہیں۔
عالمی منڈی میں مقابلہ کرنے کی سکت کے لحاظ سے پاکستان کل 137 ممالک کی فہرست میں 115 ویں نمبر پر آتا ہے۔
چمڑے کی مصنوعات پاکستان کی اہم برآمدات سمجھی جاتی ہیں۔ لیکن اگر ہم چمڑے کی صنعت کو ایک مثال کے طور پہ لیں تو یہاں کی صنعت کا زوال بالکل واضح ہو جاتا ہے۔ مثلاً 2008ءمیں چمڑے کی برآمدات 1.22 ارب ڈالر تھیں جن میں دس سالوں بعد بھی کوئی اضافہ تو درکنار الٹا کمی ہی ہوئی ہے 2019ءمیں یہ بنگلہ دیش سے بھی کم ہو کر 850 ملین ڈالر رہ چکی ہیں۔
ایسے میں ملک بار بار دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچتا رہا ہے اور یہاں کے حکمرانوں کو آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک جیسے اداروں سے بھیک کے لئے رجوع کرنا پڑتا رہا ہے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ 1980ءکی دہائی کے اواخر کے بعد سے پاکستان 13ویں مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس گیا ہے۔
ایسے ہر موقع پر یہ سامراجی ادارے ان حکمرانوں کو ڈانٹ پلاتے ہیں اور معیشت کو ’نظم و ضبط‘ میں لانے کے لئے ’سٹرکچرل اصلاحات‘ کے منصوبے مرتب کیے جاتے ہیں۔ یہ منصوبے درحقیقت بحران کا سارا بوجھ محنت کش طبقے پر لادنے کی واردات پر مبنی ہوتے ہیں۔ ہر بار یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ آخری بیل آﺅٹ پیکیج ہو گا جس کے بعد معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے گی۔ لیکن جیسا کہ تاریخ گواہ ہے کہ ہر کچھ سالوں بعد یہاں کے تاریخی طور پر نااہل حکمران ایک بار پھر ان اداروں کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑے ہوتے ہیں۔
بار بار دہرائے جانے والے اس عمل سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ سامراجی اداروں کی ’اصلاحات‘بھی ان معیشتوں کو زیادہ سے زیادہ وقتی سہارا ہی دے سکتی ہیں اور بنیادی مسئلہ حل کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ مسئلے کا اس نظام کی حدود و قیود میں حل ممکن نہیں ہے۔
اس حکومت کے آنے کے بعد بورژوا اپوزیشن اور کچھ تجزیہ نگاروں میں یہ چلن بھی چل نکلا ہے کہ معیشت کے بحران کو حکمرانوں کی ’نا تجربہ کاری‘ یا ’نا اہلی‘ کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ سراسر سطحی‘ بلکہ بھونڈی تجزیہ نگاری ہے۔ نظام کے اندر ایک خاص گنجائش ہوتی ہے جس کے اندر ہی افراد حرکت کر سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکمرانوں کی نااہلی سے قطع نظر پاکستان کی معیشت نامیاتی طور پہ بحران سے دوچار ہے۔
نواز شریف دور کی بلند شرح نمو اور جزوی معاشی استحکام کی بنیاد کسی شخصی یا حکومتی کارنامے کی بجائے زیادہ تر سی پیک کی سرمایہ کاری اور بے دریغ قرضہ خوری تھی جس کی پھر اپنی حدود ہوتی ہیں۔
جس وقت سیاسی و ریاستی اشرافیہ سی پیک کو ’گیم چینجر‘ قرار دے رہے تھے ‘ ہم نے اپنی بیشتر دستاویزات اور مضامین میں اس منصوبے کے ہر پہلو کا سائنسی اور منطقی بنیادوں پر ٹھوس تجزیہ اور تناظر پیش کیا تھا جسے وقت نے درست ثابت کیا ہے۔
سی پیک سے نسبتاً بڑے پیمانے کا انفراسٹرکچر ضرور تعمیر ہوا ہے لیکن اس نے پاکستانی سرمایہ داری کے تضادات کو بھی بھڑکا دیا ہے۔ ایک طرف حکمرانوں میں سی پیک کے ٹھیکوں، کمیشنوں اور منافع خوری کی بندر بانٹ کی لڑائی نے موجودہ نازک سیاسی و ریاستی صورتحال کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا ہے تو دوسری طرف پاکستان میں امریکہ اور چین کی سرد جنگ نے شدت اختیار کی ہے جس میں ہمیں حالیہ عرصے میں امریکی سامراج کے نمائندوں کے سی پیک کے خلاف بیانات اور پھر چینیوں کی جانب سے جوابی بیانات نظر آتے ہیں۔ملک کی موجودہ صورتحال میں سامراجی طاقتوں کی یہ کھینچا تانی بھی اہم عنصر کے طور پہ شامل ہے۔ اسی طرح ملک کے قرضوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ علاوہ ازیں وقت و حالات نے ثابت کیا ہے کہ سی پیک کوئی ایسا معجزاتی منصوبہ قطعاً نہیں ہے جس سے کم از کم وسیع پیمانے پر لوگوں کو روزگار ہی مل سکے۔ سی پیک کا نیا مرحلہ بھی ایسے ہی تضادات سے لبریز ہو گا۔
لیکن پاکستان جیسے ممالک میں معیشت کا تجزیہ کرتے وقت اس حقیقت کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ حکومتیں جو پالیسیاں بناتی ہے اور بجٹ پیش کرتی ہے اُن کی عملداری کُل معیشت کے ایک انتہائی قلیل حصے پر ہی ہوتی ہے کیونکہ باقی ماندہ وہ کالی معیشت ہے جو سرکاری دستاویزات اور اعداد و شمار سے ماورا ہے۔
انتہائی محتاط اور مستند سمجھے جانے والے ماہرین کے مطابق بھی پاکستان میں کُل معیشت کا 70 فیصد کالی معیشت پر مشتمل ہے۔ یعنی یہ کالی معیشت‘ سرکاری اعداد و شمار میں نظر آنے والی معیشت کے دو گنا سے بھی زیادہ ہے۔
اس معیشت کا وسیع حصہ ہر طرح کی کرپشن، بدعنوانی، رشوت ستانی، ٹیکس چوری اور منشیات جیسے دھندوں پر مشتمل ہے۔ یہاں سمگلنگ اور ڈرگ ٹریفکنگ جیسی قانونی طور پر ناجائز سرگرمیوں کے حجم کا تخمینہ پانچ ہزار ارب روپے تک ہے لیکن یہ دیوہیکل کالی معیشت ساری کی ساری ایسے جرائم پر مبنی نہیں ہے بلکہ ٹھیلے والے اور پرچون فروش سے لے کر کنسٹرکشن اور بڑے پیمانے کی صنعت تک ہر ایسی سرگرمی جو سرکاری ریکارڈ کا حصہ نہیں ہے اِس کالی معیشت میں شمار ہوتی ہے۔
جیسا کہ مقداری تناسب سے بھی ظاہر ہے ملک کا اکثریتی روزگار (چھوٹے کاروباروں یا نوکریوں کی شکل میں) اسی معیشت سے وابستہ ہے لیکن ان زیادہ تر عارضی نوکریوں میں استحصال کی شدت کہیں زیادہ ہے۔
اِس کالی معیشت کا اپنا ایک سائیکل ہے جو نہ صرف یہ کہ سفید معیشت پر حاوی ہو چکا ہے بلکہ اس کے بغیر منڈی سکڑ جائے گی اور ساری معیشت ہی دھڑام ہو جائے گی۔
کالی معیشت صرف پاکستان کا نہیں بلکہ بالعموم ہر پسماندہ سرمایہ داری کا مسئلہ ہے۔ تازہ اندازوں کے مطابق ہندوستان میں کالی معیشت کا ہجم، جو 1955ءمیں جی ڈی پی کا صرف 5 فیصد تھا، اس وقت 62 فیصد سے تجاوز کر چکا ہے۔ افریقہ اور لاطینی امریکہ جیسے خطوں میں بھی کم و بیش یہی صورتحال نظر آتی ہے۔
ان اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ تاریخی طور پر پچھڑے ہوئے خطوں میں سرمایہ داری کا ارتقا ایک بیمار انداز سے ہوا ہے اور قانونی ضابطہ کاری و نظم و ضبط سے عاری کالی معیشت ایک کینسر کی طرح بڑھتی چلی گئی ہے۔
یہ بے ضابطہ معیشت صرف معاشی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس نے سماجی حوالے سے بھی انتہائی مضر اثرات مرتب کیے ہیں اور صنعت و تجارت سے لے کے سیاست و ثقافت تک میں بے ضابطگی اور دو نمبری کو متعارف کروایا ہے جس سے یہ سماج ایک انتشار، نفسا نفسی اور بے ہنگم پن کا شکار ہو کے رہ گئے ہیں۔
کالی یا غیر دستاویزی معیشت کو ’ڈاکومنٹ‘کرنے ‘ یعنی سرکاری لکھت پڑھت میں لا کر ٹیکس نیٹ کا حصہ بنانے کی موجودہ حکومت کی کوششیں پچھلی حکومتوں کی طرح ناکام نظر آتی ہیں۔ اس سلسلے میں ایک طرف تو تاجروں کی مزاحمت آڑے آئی ہے جس کے سامنے حکومت نے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں۔ دوسرا یہ غیر دستاویزی معیشت زیادہ تر چھوٹے کاروباروں پر مشتمل ہے جن کی شرح منافع اتنی نہیں ہے کہ ٹیکس نیٹ میں آنے کے بعد وہ اپنا وجود برقرار رکھ سکیں۔ زرعی شعبے میں بھی 80 فیصد تک چھوٹے کاشتکار ہیں۔
برسر اقتدار آنے سے پہلے تحریک انصاف نے معیشت کو ”ٹھیک“ کرنے کے بہت وعدے کیے تھے۔ میڈیا پر سرکاری دانشوروں کی ایک یلغار اور بھرمار تھی جنہوں نے نودولتیوں کی اس پارٹی سے لوگوں کی خوش فہمیاں وابستہ کرانے کی کوششوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔اور درمیانے طبقے کا بڑا حصہ واقعی یہ سمجھ رہا تھا کہ ”تبدیلی“ بس آنے کو ہے اور عمران خان کے برسر اقتدار آنے کے بعد سب کچھ معجزاتی طور پہ ٹھیک ہو جائے گا۔
لیکن حکومتیں جس نظام میں اقتدار سنبھالتی ہیں وہی انہیں چلاتا بھی ہے۔ اس کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں جو اس کے تحت حکمرانی کرنے والوں کو پورے کرنے پڑتے ہیں۔ اصلاح پسندانہ سوچ نظام کو بدلنے کی بجائے ٹھیک کرنے پہ یقین رکھتی ہے۔ اور ایک طبقاتی نظام کو ”ٹھیک“ کرنے کی قیمت ہمیشہ محکوم طبقات ہی ادا کرتے ہیں۔
ویسے تو روزِ اول سے ہی ملک کی معاشی پالیسیوں کا تعین سامراجی ادارے کرتے رہے ہیں لیکن اس وقت معیشت عملاً آئی ایم ایف کے کنٹرول میں ہے جس نے نہ صرف حفیظ شیخ کو دوبارہ امپورٹ کر کے مشیر خزانہ لگوایا ہے بلکہ رضا باقر کی شکل میں سٹیٹ بینک کا گورنر بھی اپنے خاص بندے کو تعینات کروایا ہے۔ یعنی کرنسی نوٹ، جو چھاپنے کا اختیار کسی ریاست کا سب سے کلیدی حق تصور کیا جاتا ہے، اب آئی ایم ایف کے ایک ملازم کے دستخطوں سے قانونی سند حاصل کریں گے۔
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں حکومت کی مجموعی آمدن کا 90 فیصد تک عام لوگوں پر اِن ڈائریکٹ ٹیکس لگا کے حاصل کیا جاتا ہے۔ یعنی غریب آدمی ماچس کی ڈبیہ تک پہ ٹیکس ادا کرتا ہے۔ جبکہ حکمران طبقات کم و بیش کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتے۔
ایک طرف آمدن کی یہ کیفیت ہے‘ دوسری طرف بجٹ کا 70 سے 80 فیصد صرف دفاع اور قرضوں پر سود کی ادائیگی میں صرف ہو جاتا ہے جس کا اعتراف خود موجودہ حکومت نے کئی بار کیا ہے۔ اور یہ دونوں ایسے شعبے ہیں جن پر اس نظام کی کوئی حکومت سوال تک نہیں اٹھا سکتی ہے۔ باقی جو کچھ بچتا ہے وہ حکومت کے انتظامی اخراجات کی نذر ہو جاتا ہے جس میں یہاں کی سرکاری افسر شاہی اور سیاسی اشرافیہ کی عیاشیاں اور بدقماشیاں بھی شامل ہیں۔
خسارے کا ناگزیر نتیجہ قرضہ ہے جو لینے کے نئے ریکارڈ موجودہ حکومت نے اپنے پہلے سال میں قائم کیے ہیں۔ یومیہ 14 ارب روپے کے قرضے پہلے سال میں لیے گئے ہیں جو پچھلی حکومت کی نسبت دو گنا ہیں۔ ان قرضوں ( جو مقامی بینکوں سے روپوں میں لیے جاتے ہیں) پر مزید سود ہے جو آنے والے دنوں میں ادا کرنے کے لئے مزید قرضے لینے پڑیں گے۔ ملکی معیشت نہ صرف خارجی (جہاں کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے کو بھرنے کے لئے ڈالروں میں قرضہ لینا پڑتا ہے) بلکہ داخلی سطح پر ایک ایسی کیفیت میں داخل ہو چکی ہے جہاں صرف سود کی ادائیگیوں کے لئے قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ موجودہ حکومت شرح سود میں تیز اضافہ کرتے ہوئے اسے 13 فیصد سے اوپر لے گئی ہے اور ابھی مزید بڑھانے کے لئے پر تول رہی ہے جس سے قرضوں کا مسئلہ مزید گھمبیر ہی ہو گا۔
ایک دوسرا طریقہ جو اس خسارے کو پورا کرنے کے لئے اختیار کیا جاتا ہے وہ نوٹ چھاپنے کا ہے جس سے افراطِ زر میں مسلسل اضافہ ہوتا ہے اور افراطِ زر کا ناگزیر نتیجہ پھر مہنگائی ہے۔ یوں عام صارفین کی قوت خرید کو کم کرنے والی یہ مہنگائی بھی عوام پر ایک طرح کا سرکاری ٹیکس ہوتی ہے۔
خسارے در خسارے اور قرضے در قرضے کی اِس کیفیت میں ترقیاتی اخراجات میں مسلسل کمی جا رہی ہے جس سے ٹرانسپورٹ، پینے کے پانی، نکاس، تعلیم و علاج وغیرہ کا پہلے سے زبوں حال انفراسٹرکچر مزید زوال پذیری اور بربادی کا شکار ہو رہا ہے۔ جاری مالی سال کے پہلے تین ماہ میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ترقیاتی اخراجات صرف 164 ارب روپے رہے ہیں۔
صحت اور تعلیم پر حکومتی اخراجات جی ڈی پی کے 3.6 فیصد سے مزید کم ہو کے صرف 3.34 فیصد رہ چکے ہیں۔
علاوہ ازیں حکومت کے ترقیاتی اخراجات معاشی سرگرمیوں کو تحریک دینے میں کلیدی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں اور ان میں کٹوتی سے ساری معیشت جمود کا شکار ہو جاتی ہے۔ یہ مظہر بھی ہم واضح طور پہ دیکھ سکتے ہیں جس میں معیشت کی اوسط شرح نمو اگلے پانچ سالوں میں صرف 2.5 فیصد تک رہنے کا تخمینہ آئی ایم ایف نے لگایا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں اتنی کم شرح نمو معاشی سکڑاﺅ یا ’کرنچ‘ کے زمرے میں آتی ہے۔
تحریک انصاف حکومت کے پہلے سال (مالی سال 2018-19ء) کے دوران بجٹ خسارہ حکومتی ہدف سے 82 فیصد زیادہ رہا۔ 3.44 ہزار ارب روپے کا یہ خسارہ جی ڈی پی کا 8.9 فیصد بنتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ گزشتہ 30 سالوں کا بلند ترین خسارہ ہے۔ جبکہ مطلق رقم کے اعتبار سے یہ ملکی تاریخ کا بلند ترین خسارہ ہے جس نے 2.3 ہزار ارب کا ریکارڈ توڑا ہے۔
اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف حکومت کے پہلے سال کا بجٹ خسارہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ حکومتوں کے آخری سالوں کے بجٹ خساروں سے بڑھ کر ہے۔ حالانکہ حکومتیں اپنے آخری سالوں میں انتخابی حاصلات کے لئے بالعموم بے دریغ خرچ کرتی ہے۔ یاد رہے کہ پیپلز پارٹی حکومت کے آخری سال کا خسارہ جی ڈی پی کے 8.2 فیصد جبکہ نواز لیگ حکومت کے آخری سال کا خسارہ جی ڈی پی کے 6.6 فیصد کے مساوی تھا۔
سٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پچھلے مالی سال کے دوران حکومتی قرضوں میں 7.6 ہزار ارب روپے (31.3 فیصد) کا اضافہ ہوا ہے۔ جس کے بعد مجموعی حکومتی قرضہ 31 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔
گزشتہ مالی سال کے دوران قرضوں میں ہونے والا اضافہ مسلم لیگ (ن) کے سارے دورِ حکومت میں لیے گئے مجموعی قرضے کے 71 فیصد کے مساوی ہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی حکومت نے قرضوں میں اتنا اضافہ اپنے پانچ سالہ دورِ اقتدار کے دوران بھی نہیں کیا تھا (پیپلز پارٹی دورِ حکومت میں قرضوں میں 6 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا تھا)۔
قرضوں میں اس تیز اضافے کی وجوہات میں مطلوبہ ٹیکس کے حصول میں ناکامی، پرانے قرضوں پر سود کی ادائیگی اور دفاع پر بے دریغ اخراجات اور روپے کی قدر میں تیز کمی شامل ہیں۔ گزشتہ مالی سال کے دوران ایف بی آر کو ٹیکس محصولات میں 580 ارب روپے کے شارٹ فال کا سامنا رہا ہے۔ جبکہ حکومتی آمدن کا 70 سے 80 فیصد صرف پرانے قرضوں اور دفاعی اخراجات کی نذر ہوتا رہا ہے۔ اسی طرح ڈالر جو جون 2018ءمیں 121 روپے کا تھا اس وقت 150 روپے سے زائد کا ہو چکا ہے جس سے بیرونی قرضوں کا بوجھ تیزی سے بڑھا ہے۔
31 ہزار ارب روپے سے زائد کے قرضوں میں 34.5 فیصد بیرونی قرضہ ہے جبکہ 65.5 فیصد اندرونی قرضہ ہے۔
موجودہ حکومت نے اپنے پہلے سال کے دوران 10.4 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے لیے جن میں سے 46 فیصد قلیل مدتی مہنگے قرضے تھے جن پر شرح سود 5.5 فیصد تک ہے۔سب سے مہنگے قرضے چینی بینکوں سے لیے گئے ہیں۔ آئی ایم ایف کے قرضوں پر 4 فیصد سود کی شرح اس سے کچھ کم ہے۔
سٹیٹ بینک کی اگست 2019ءکی رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال کے آخر میں واجبات کو شامل کیا جائے تو قرضوں اور واجبات کا مجموعی بوجھ 40.2 ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا جو ملک کے جی ڈی پی کا 104.3 فیصد بن جاتا ہے۔ یعنی قرضے اور واجبات دستاویزی معیشت کے مجموعی ہجم سے تجاوز کر چکے ہیں۔
پاکستان کا بیرونی قرضہ اِس وقت 100 ارب ڈالر کی تشویشناک سطح سے تجاوز کر رہا ہے جس پر ہر سال سود کی ادائیگیوں کے لئے خطیر رقم درکار ہے جو کرنٹ اکاﺅنٹ پر مسلسل دباﺅ ڈالے ہوئے ہے۔
بیرونی قرضے سے مراد وہ قرضے ہیں جو ملک سے باہر بینکوں، اداروں یا حکومتوں کو واجب الادا ہوتے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے امریکی ڈالر چونکہ عالمی کرنسی کی حیثیت رکھتا ہے لہٰذا بین الاقوامی سطح پہ تجارت بھی ڈالروں میں ہوتی ہے اور قرضے بھی ڈالروں میں ہی ادا کرنے ہوتے ہیں (کچھ استثنائی صورتوں کے علاوہ)۔
جیسے بجٹ خسارے سے داخلی قرضے جنم لیتے ہیں اسی طرح بیرونی قرضے کی بنیادی وجہ تجارتی خسارہ ہوتا ہے۔ تجارتی خسارے سے مراد درآمدات کا برآمدات سے زیادہ ہونا۔ تجارتی خسارے سے پھر کرنٹ اکاو¿نٹ خسارہ بھی بڑھتا جاتا ہے۔
دیوہیکل تجارتی خسارے کے بعد پاکستان کے کرنٹ اکاو¿نٹ کو جو تھوڑا بہت سہارا ملتا ہے وہ بیرونِ ملک کام کرنے والے پاکستانی محنت کشوں کے ترسیلاتِ زر سے ہے۔ لیکن محض ان ترسیلات سے کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔
تجارتی خسارے میں کمی کی انتہائی بھونڈی اور عوام دشمن کوشش میں موجودہ حکومت نے روپے کی قدر میں تاریخی کمی کی ہے تاکہ برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی ہو سکے۔ لیکن اس عمل نے ایک طرف تو مہنگائی میں اضافے اور شرح نمو میں کمی جیسے نئے تضادات کو جنم دیا ہے۔ دوسرا اس طریقے سے دورس بنیادوں پر تجارتی خسارے کا مسئلہ بھی حل نہیں ہو سکتا (جس کا جائزہ ہم آگے لیں گے)۔
پاکستان کے تجارتی خسارے کی بنیادی وجہ تکنیکی پسماندگی اور بجلی کی زیادہ قیمتوں جیسے عوامل کی وجہ سے یہاں پیدا ہونے والی زرعی و صنعتی مصنوعات کی پیداواری لاگت کا زیادہ ہونا ہے جس کی وجہ سے وہ عالمی منڈی میں چین جیسے ممالک کی سستی اجناس کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔
سی پیک کی شروعات کے بعد سے بڑے پیمانے پر مشینری کی درآمد سے تجارتی خسارے میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ پچھلی ایک دہائی میں چین کیساتھ تجارت کا خسارہ 2.9 ارب ڈالر سے بڑھ کر 12.66 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔
ملکی جی ڈی پی میں برآمدات کا حصہ صرف 7.6 فیصد ہے۔ یہ شرح درمیانی آمدن والے ممالک کی اوسط سے بھی 17 فیصد کم ہے۔
داخلی خسارے کے مسئلے کو ٹالنے یا مہنگائی وغیرہ کے ذریعے عوام پر منتقل کرنے کے لئے سٹیٹ بینک روپے تو چھاپ سکتا ہے لیکن بیرونی قرضوں کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ڈالر چھاپنے کا اختیار صرف امریکہ کے پاس ہے۔ یعنی ڈالر صرف برآمدات، باہر سے آنی والی سرمایہ کاری (FDI) اور عالمی اداروں اور دوسری حکومتوں سے قرض یا امداد وغیرہ کی شکل میں ہی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
جی ڈی پی کی شرح نمو پچھلی حکومت کے آخری سال میں 5.8 فیصد سے کم ہوتے ہوتے پچھلے مالی سال کے دوران 3.29 فیصد رہی جو جاری مالی سال کے دوران صرف 2.4 سے 3 فیصد کے درمیان رہنے کا امکان ہے۔ سرکاری اعداد و شمار سے قطع نظر معیشت درحقیقت نمو کی بجائے سکڑاو¿ کا شکار ہے جس کے بلند افراطِ زر کے ساتھ امتزاج نے صورتحال کو اور بھی خراب کر دیا ہے۔ مہنگائی کی شرح اس وقت 13 فیصد کے آس پاس منڈلا رہی ہے (جو 9 سال کی بلند ترین شرح ہے) جبکہ شرح سود بھی وسط 2018ءمیں 6.50 فیصد سے بڑھتے بڑھتے اس وقت 13.25 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ ابھی اس میں مزید اضافے کے امکانات ہیں۔ اتنی بلند شرح سود سے جہاں سرمایہ کاری سکڑ رہی ہے وہاں حکومت پر قرضوں کے بوجھ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ جیسا کہ مندرجہ بالا اعداد و شمار سے واضح ہے۔ تاہم نجی بینک خوب مال بنا رہے ہیں۔
معیشت کی اس انتہائی کم شرح نمو کو بلند افراطِ زر (مہنگائی)کیساتھ ملا کے دیکھیں تو یہ ’سٹیگفلیشن‘ کی انتہائی گھمبیر صورتحال بنتی ہے جس سے غربت اور بیروزگاری میں بے نظیر اضافہ ہی ہو گا۔ جیسا کہ ہم پہلے بھی واضح کر چکے ہیں کہ عملی طور پہ معیشت نمو کی بجائے سکڑاو¿ کا شکار ہو چکی ہے۔
گزشتہ مالی سال کے آخر تک کے بیس مہینوں میں روپے کی قدر میں 52 فیصد کمی کی گئی جبکہ شرح سود میں 7.5 فیصد کا اضافہ کیا گیا۔ صرف روپے کی قدر میں اس کمی کی وجہ سے ڈالروں میں جی ڈی پی 33 ارب ڈالر کم ہو گیا اور قرضوں میں 4400 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔
پچھلے مالی سال کے دوران زراعت کے شعبے کی شرح نمو 3.8 فیصد کے ہدف کے مقابلے میں 0.85 فیصد، صنعت کی 7.6 فیصد ہدف کے مقابلے میں صرف 1.4 فیصد اور سروسز کی 6.5 فیصد کے ہدف کے مقابلے میں 4.7 فیصد رہی۔ یوں اکثر شعبوں کی شرح نمو ہدف سے کم نہیں بلکہ کئی گنا کم رہی۔ سب سے تباہ کن صورتحال لارج سکیل مینوفیکچرنگ کی رہی جو دو فیصد سکڑ گئی ہے۔ مجموعی طور پہ یہ معاشی نمو کی نہیں بلکہ سکڑاو¿ کی کیفیت ہے جس میں معیشت گزشتہ ایک سال کے دوران داخل ہو چکی ہے۔
عوام کے لئے اس صورتحال کے معنی مزید افراطِ زر، مہنگائی، بیروزگاری اور تعلیم و علاج جیسی بنیادی ضروریات سے محرومی ہی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں خساروں کا سارا بوجھ آخری تجزئیے میں محنت کشوں کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔
مالی سال 2019-20ءکے بجٹ کا کل تخمینہ 7022 ارب روپے رکھا گیا ہے جو پچھلے سال سے 30 فیصد زیادہ ہے۔ وفاقی محصولات مجموعی طور پر 6717 ارب روپے ہوں گے جو پچھلے سال سے 19 فیصد زیادہ ہیں۔ ایف بی آر نے اس سال ٹیکس وصولی کا ہدف 5550 ارب روپے رکھا ہے۔ بجٹ خسارے کا ہدف 3560 ارب روپے ہے جبکہ مجموعی مالیاتی خسارہ تقریباً 3137 بلین روپے ہو گا۔ لیکن یہ خسارے ان اہداف سے کہیں زیادہ بڑھ جانے کے قوی امکانات ہیں کیونکہ ٹیکس وصولیوں کا ہدف سراسر غیرحقیقی ہے۔ ختم ہونے والے مالی سال کے دوران حکومتی آمدن میں اضافہ صفر رہا ہے جبکہ ایف بی آر کی ٹیکس وصولیاں ہدف سے کئی سو ارب روپے کم رہی ہیں۔
مجموعی طور پر 4 ہزار ارب روپے سے زائد رقم صرف دو شعبوں یعنی دفاع اور قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لئے مختص کی گئی ہے جو مجموعی بجٹ کے دو تہائی سے زیادہ بنتی ہے۔ باقی کی زیادہ تر رقم جاری اخراجات کی نذر ہو جائے گی۔
توانائی کے شعبے کے گردشی قرضوں کا مسئلہ نہ صرف بدستور موجود ہے بلکہ گھمبیر ہی ہوا ہے۔ یہ گردشی قرضے 1665 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں جن میں ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق 21 ارب روپے ماہانہ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کیفیت میں لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ آنے والے دنوں میں دوبارہ سر اٹھا سکتا ہے۔
ہر شعبے کے انہی خساروں کو پورا کرنے کے لئے جب سے یہ حکومت برسر اقتدار آئی ہے‘ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اتنی مرتبہ اضافہ کیا جا چکا ہے کہ شمار رکھنا ناممکن ہو گیا ہے۔ اسی طرح جنوری سے دسمبر 2019ءکے دوران پٹرول 23 روپے اور ہائی سپیڈ ڈیزل18 روپے مہنگا کیا گیا ہے۔ جس وقت یہ سطور تحریر کی جا رہی ہیں ’اوگرا‘ نے گیس کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ جاری کرتے ہوئے اسے وفاقی حکومت کو بھجوا دیا ہے۔ جس کے تحت گھریلو صارفین کو گیس 214 فیصد، تندور صارفین کے لئے 245 فیصد، کمرشل صارفین اور سی این جی سیکٹر کے لئے 31 فیصد جب کہ فرٹیلائزر سیکٹر کے لئے گیس 153 فیصد تک مہنگی ہوگی اور اس کا اطلاق یکم جنوری 2020ءسے متوقع تھا۔ اس سے پہلے بھی برسر اقتدار آنے کے بعد اس حکومت نے گیس کی قیمتوں میں 190فیصد تک کا اضافہ کیا تھا۔ اسی طرح وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کو جون تک بجلی اور گیس مزید مہنگی کرنے کی یقین دہانی کرا دی۔آئی ایم ایف نے حکومت سے کہا ہے کہ بجلی کے ریٹ کی ایڈجسٹمنٹ بروقت کرنا ہو گی اور 2023ءتک گردشی قرضے میں اضافہ صفر کرنا ہو گا۔ دو پاور پلانٹس کی نجکاری بھی جون تک مکمل کی جائے گی۔
اگر گیس کی قیمتوں میں اضافے کی اس تجویز پر عمل درآمد کیا جاتا ہے تو روٹی کی قیمت دو سے تین گنا ہو جائے گی، سی این جی کی فی کلو قیمت میں 24 روپے کا اضافہ ہو جائے گا جبکہ یوریا کھاد کی فی بوری قیمت 600 روپے تک بڑھ جائے گی۔ بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے سے بھی ہر چیز کی قیمت بڑھے گی۔ دوسرے الفاظ میں مہنگائی کا نیا طوفان لوگوں کو برباد کر کے رکھ دے گا اور سماجی و معاشی عدم استحکام شدید تر ہو جائے گا۔
لیکن یہاں سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کی ان کڑوی گولیوں سے کیا معیشت بحال ہو سکے گی؟ لیکن یہ سوال پھر ایسے سوالوں کو بھی جنم دیتا ہے کہ ”معیشت کی بحالی“ کی تعریف کیا ہے اور اگر کوئی معاشی استحکام حاصل ہوتا بھی ہے تو کیا وہ دیرپا ہو ہو سکتا ہے اور اس کی قیمت اور نوعیت کیا ہو گی؟ ان سوالوں کے جوابات کے لئے پھر ہمیں اس نقطہ نظر کو سمجھنا ہو گا جس سے آئی ایم ایف جیسے سامراجی ادارے مسئلے کو دیکھتے ہیں اور ان کے پیش کردہ نسخوں پر غور کرنا ہوگا۔
اگر ہم بورژوازی کے سنجیدہ تجزیہ نگاروں کی ہی بات کریں تو وہ لمبے عرصے میں پاکستانی معیشت کے مستقبل سے زیادہ پرامید نظر نہیں آتے۔ مثلاً آئی ایم ایف سے 39 مہینوں میں 6 ارب ڈالر قرض کا معاہدہ طے پانے کے بعد بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ماہر معیشت ڈاکٹر اشفاق کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ملنے والا قرضہ‘ مصر ماڈل کا چربہ ہی معلوم ہوتا ہے۔”آئی ایم ایف میں مصر کو ایک پوسٹر چائلڈ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ جبکہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے سے پہلے مصر میں تقریباً 30 فیصد لوگ خطِ غربت سے نیچے تھے اور آج یہ شرح 55 فیصد ہے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہو گا۔ شرح سود بڑھے گی، روپے کی قدر کم ہو گی، غربت اور بے روزگاری بڑھے گی، تمام طرح کی سبسڈیاں ختم ہوں گی، گیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھیں گی اور یہ سب عوام کے لئے بہت تکلیف دہ ہو گا۔”اِس سے پاکستان میں کسی قسم کا استحکام نہیں آئے گا کیونکہ یہ معیشت کی شرح نمو (گروتھ ریٹ) کو گرا دے گا۔“
آئی ایم ایف کا سارا پروگرام بنیادی طور پر میکرواکنامک اشاریوں کو درست کرنے پر مبنی ہے جس کے دو پہلو ہیں: ۱) ایک طرف بیرونی محاذ پر تجارتی خسارہ کم کرنے کے لئے درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ کیا جائے ۔ جس کے لئے روپے کی قدر میں شدید کمی کا نسخہ استعمال کیا گیا ہے تاکہ درآمدات مہنگی ہو جائیں اور ان کی کھپت کم سے کم ہو سکے جبکہ برآمدات سستی ہو جائیں اور ان میں اضافہ ہو ۔ ۲) دوسری طرف داخلی محاذ پر مالیاتی خسارے کو کم کرنے کے لئے حکومت کے اخراجات کم سے کم کیے جا رہے ہیں، سبسڈیاں ختم کی جا رہی ہیں اور بالواسطہ ٹیکسوں میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے۔
بنیادی طور پر یہ بطور ملک پاکستان کی کھپت کو کم کرنے کے نسخے ہیں کیونکہ خساروں کا مطلب ہے کہ کوئی ملک اپنی استطاعت سے زیادہ کھپت کر رہا ہے۔ کھپت کو کم کرنے کا دوسرا مطلب معاشی سکڑاﺅ ہے۔
جیسے پہلے بھی وضاحت کی گئی ہے کہ ان نسخہ جات نے ایسے نئے تضادات کو جنم دیا ہے جنہوں نے بنیادی طور پر مسئلے کو گھمبیر کر دیا ہے۔ درآمدات مہنگی ہونے، سبسڈیوں کے خاتمے اور ٹیکسوں میں اضاضوں سے مہنگائی آسمانوں سے باتیں کر رہی ہے جس سے ایک طرف عام لوگوں کی بدحالی بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف پیداواری لاگت میں ناگزیر طور پہ اضافہ ہو گا۔ مہنگائی کو قابو کرنے کے لئے شرح سود میں اضافہ کر دیا گیا ہے جس سے سرمایہ کاری مزید سکڑ گئی ہے۔ سرکاری اخراجات میں کمی کے لئے منصوبوں کی بندش، چھانٹیوں اور نجکاری وغیرہ سے ایک طرف بڑے پیمانے پر لوگ بیروزگار ہو رہے ہیں‘ دوسری طرف سماجی انفراسٹرکچر کی زبوں حالی مزید بڑھ رہی ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو معیشت کی شرح نمو بیٹھ گئی ہے اور افراطِ زر بڑھ گیا ہے۔ اس کیفیت کو ’سٹیگفلیشن‘ کہا جاتا ہے جس کا نتیجہ بیک وقت بیروزگاری اور مہنگائی دونوں میں اضافے کی صورت میں نکلتا ہے۔
یوں میکرو اکنامک اشاریوں میں بہتری سطحی ہے دوررس نہیں۔ دوسرا عوام کی زندگیوں میں اس کے اُلٹ اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
’آسٹیریٹی‘ کا شکار معیشت کا ایک اور مسئلہ یہ ہے ہوتا ہے کہ معاشی سکڑاﺅ کی کیفیت میں اس کی قرضوں کو واپس کرنے کی استطاعت بری طرح متاثر ہوتی ہے اور قرضوں کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔
گزشتہ کچھ ہفتوں سے سرکاری سطح پر یہ واویلا بھی کیا جا رہا ہے کہ کڑوی گولیاں کام دکھا رہی ہیں اور معیشت اب ”استحکام“ کی جانب گامزن ہے۔ اس حوالے سے جاری مالی سال کے پہلے پانچ مہینوں میں تجارتی خسارہ 33.04 فیصد کم ہو گیا ہے۔ لیکن اگر تھوڑا گہرائی میں دیکھا جائے تو درآمدات میں 18 فیصد کمی ہوئی ہے جبکہ روپے کی قدر میں اتنی بڑی گراوٹ کے باوجود برآمدات میں صرف 5 فیصد سے بھی کم کا اضافہ ہو پایا ہے۔
درآمدات میں کمی بھی معیشت کی شرح نمو میں گراوٹ کے ساتھ جڑی ہے۔ دوسرے الفاظ میں خساروں کو قابو کرنے کے لئے ساری معیشت کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی انسان کو بیماری کی تکلیف سے نجات دلانے کے لئے قتل کر دیا جائے۔
جاری مالی سال کے پہلے پانچ مہینوں میں کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے میں جو 73 فیصد کمی آئی ہے اس کی ایک وجہ شدید معاشی سست روی کے ساتھ ساتھ وہ ڈالر بھی ہےں جو زیادہ شرح سود کے تعاقب میں یہاں آ رہے ہےں۔ واضح رہے کہ پاکستان میں بنیادی شرح سود 13.25 فیصد ہے جبکہ امریکہ میں یہ شرح صرف 1.75 فیصد ہے۔ یوں دونوں ملکوں کی شرح سود میں 11.50 فیصد کا فرق ہے۔ اس فرق کا فائدے اٹھانے کے لئے آنے والے بیرونی پیسے کو ”گرم پیسہ“ (Hot Money) کہا جاتا ہے جو کسی پیداواری سرگرمی میں صرف ہونے کی بجائے حکومت کو قرضہ دے کر منافع (سود) کمانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
لیکن ’گرم پیسے‘ کا یہ بہاﺅ ایک عارضی عمل ہے جو معیشت کو کئی طرح کے خطرات سے دوچار کر دیتا ہے۔ یہ پیسہ جیسے آ رہا ہے اسی طرح بہت تیزی سے واپس بھی جا سکتا ہے جس سے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر راتوں رات غائب ہو جائیں گے، روپے کی قدر میں پہلے سے بھی زیادہ تیز گراوٹ آئے گی اور معیشت بڑے خلفشار کا شکار ہو جائے گی۔ دوسرا یہ کہ اس پیسے کو ملک میں رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ شرح سود بلند رکھی جائے۔ لیکن بلند شرح سود سرمایہ کاری میں کمی کا نسخہ ہے جس سے پھر معیشت کی شرح نمو گراوٹ کا شکار رہے گی۔
اس حوالے سے ایشیائی ترقیاتی بینک کی ایک تازہ رپورٹ بہت اہمیت کی حامل ہے جس کے مطابق ملکی معیشت جب بھی 3.8 فیصد سے زیادہ کی شرح کی نمو پائے گی تو ادائیگیوں کا توازن بگڑنے لگے گا۔ یعنی تجارتی اور کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے پھر سے بڑھنے لگیں گے۔ رپورٹ کے مطابق ایسے عرصے جن میں معیشت کی شرح نمو اوپر بیان کردہ شرح نمو کی حد سے تجاوز کرتی ہے ان میں زرِ مبادلہ کے ذخائر تیزی سے ختم ہوتے ہیں جس کے بعد پھر ایسی مانیٹری اور مالیاتی پالیسیوں کے عرصے آتے ہیں جو شرح نمو کو گرا دیتی ہیں۔ لیکن اس صورت میں پھر بیروزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔اگر غور کیا جائے تو پاکستان اب ایسے ہی عرصے سے گزر رہا ہے۔
مذکورہ بالا رپورٹ کے مطابق ”روپے کی قدر میں خاصی کمی کے باوجود … تجارتی اشیا کی برآمدات 2.2 فیصد کی کمی آئی ہے… پاکستان کی برآمدی کارکردگی میں بہتری سب سے اہم سٹرکچرل چیلنج ہے۔“ لیکن برآمدات میں اضافے کے لئے جن اقدامات کی تجویز پیش کی گئی ہے وہ معیشت کی ساری طرز میں تبدیلی کے مترادف ہیں جو کہ یہاں کی سرمایہ داری کے بس سے باہر کی بات ہے۔“
یوں جو بھی اقدامات اس وقت آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت اٹھائے جا رہے ہیں وہ بحران کا سارا بوجھ عوام پر منتقل کررہے ہیں۔ لیکن ان اقدامات سے بھی میکرو اکنامک اعشاریوں میں کچھ وقتی بہتری تو شاید آ جائے (جسے بہت مبالغہ آرائی سے پیش کیا جائے گا) لیکن معیشت کا بحران مستقل بنیادوں پر حل نہیں ہو گا۔
اگر میکرو اکنامک اشاریوں میں کچھ استحکام آتا ہے تو اول تو وہ جزوی ہو گا‘ یعنی کچھ اشاریے ہی مستحکم ہو پائیں گے جبکہ باقی محاذوں پر صورتحال بگڑ جائے گی۔ دوسرا یہ کہ ایسی کیفیت زیادہ دیرپا نہیں ہو گی۔
اس حوالے سے آئی ایم ایف نے اپنے بیل آﺅٹ پروگرام پر جو پہلی نظر ثانی (Review) کی ہے وہ بہت اہمیت کی حامل ہے جس میں جاری مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں ہی بجٹ میں طے کردہ بہت سے اہداف کو تبدیل کرنا پڑ گیا ہے۔ ان تبدیلیوں سے کی روشنی میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ معیشت ابھی اُس ”مالیاتی نظم و ضبط“ سے کوسوں دور ہے جسے نافذ کرنا آئی ایم ایف کے پروگرام کا نصب العین ہے۔ حکومتی اخراجات بجٹ کے ہدف سے بہت اوپر نکل جائیں گے جبکہ آمدن کم رہے گی۔
آئی ایم ایف نے واضح کیا ہے کہ پاکستانی معیشت کو آئندہ برسوں میں بھی ’مشکلات‘کا سامنا رہے گا۔ شرح نمو کم رہے گی جبکہ خسارہ بڑھ سکتا ہے۔ صوبے شاید بجٹ اہداف پورے نہ کرسکیں۔ اسٹرکچرل اصلاحات میں پیشرفت کی رفتار سست ہے اور آئی ایم ایف پروگرام کی ناکامی پر بیرونی فنانسنگ متاثر ہوگی۔ مزید برآں ایف اے ٹی ایف کی ممکنہ بلیک لسٹنگ کے باعث سرمایہ کاری میں کمی آ سکتی ہے۔
ریویو کے مطابق بجٹ خسارے کا ہدف جی ڈی پی کے 7.3 فیصد کی بجائے 7.6 فیصد کر دیا گیا جو 3.4 ہزار ارب روپے بنتا ہے۔ جبکہ ایف بی آر کی ٹیکس کولیکشن کا ہدف 5.5 ہزار ارب روپے سے 265 ارب روپے کم کر کے 5.2 ہزار ارب روپے کر دیا گیا ہے۔واضح رہے کہ ایف بی آر کو جاری مالی سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران ہی 211 ارب روپے کے شارٹ فال کا سامنا ہے اور مالی سال کے آخر تک کولیکشن 5.2 ارب روپے سے بھی خاصی کم رہے گی۔
اسی رپورٹ کے مطابق قرضوں پر سود کی ادائیگی 2.98 ہزار ارب روپے کی بجائے 3.12 ہزار ارب روپے رہے گی۔ یعنی اس مد میں تین مہینوں میں ہی 147 ارب روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔
آئی ایم ایف نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو جولائی سے دسمبر تک صحت اور تعلیم کے 698 ارب روپے بجٹ میں سے صرف 570 ارب روپے خرچ کرنے کی اجازت دی ہے۔ جس سے پتا چلتا ہے کہ کیسے بنیادی سہولیات کے پہلے سے انتہائی قلیل بجٹ پر چھری چلائی جا رہی ہے۔
اس مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں قرضوں پر سود کی ادائیگی اور دفاع کی مد میں ہونے والے اخراجات ایف بی آر کی مجموعی ٹیکس کولیکشن کے 84.4 فیصد کے برابر تھے جبکہ ان ادائیگیوں کے بعد وفاتی حکومت کی نیٹ آمدن منفی 67 فیصد تھی!
مجموعی طور پر پاکستان جاری مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں آئی ایم ایف پروگرام کے پانچ سب سے اہم ترین اہداف پورے نہیں کر پایا ہے۔ مزید برآں آنے والے دنوں میں ایسی مزید نظر ثانیاں کرنی پڑیں گی جن میں بجلی ، گیس اور پٹرول کے ریٹ بڑھا کے اور صحت و تعلیم کے اخراجات مزید کم کر کے عوام کا جینا مزید دوبھر کیا جائے گا۔
وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق گزشتہ ایک سال میں گیس کی قیمت میں 55 فیصد، بجلی ٹیرف میں ساڑھے 18 فیصد اور موٹر ایندھن کی قیمتوں میں 16 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ صحت کی سہولیات کی قیمتوں میں 16 فیصد، دالوں کی قیمت میں 54 فیصد، آلو کی قیمت میں 42 فیصد، تازہ سبزیوں کی قیمتوں میں 40 فیصد، چینی کی قیمت میں 33 فیصد، آٹے کی قیمت میں 16 فیصد، مصالحہ جات کی قیمتوں میں 19 فیصد اور خوردنی تیل کی قیمت میں 16 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ابھی اگلے دو ماہ میں منی بجٹ لائے جانے کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں جس میں 150 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگانے کی تیاری ہے۔ اس سے پہلے جون میں پیش کیے جانے والے بجٹ میں 735 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے گئے تھے۔
روپے کی قدر میں گراوٹ بھی ادائیگیوں کے توازن کو بہتر کرنے کا وقتی نسخہ ہی ہے۔ یہ بات یاد رہنی چاہئے کہ اس سے پہلے بھی حکومتیں روپے کی قدر میں کمی کرتی آئی ہیں۔ مثلاً 2008ءمیں بھی روپے کی قدر میں تقریباً 30 فیصد کمی کی گئی تھی لیکن لمبے عرصے میں بیرونی خسارے کا مسئلہ اپنی جگہ موجود رہا ہے۔ اب کی بار پچھلے دو سالوں میں روپے کو تقریباً 47 فیصد ڈی ویلیو کیا گیا ہے جس سے عوام کی بھاری قیمت پر وقتی طور پر ادائیگیوں کا توازن تو شاید بہتر ہو جائے لیکن کچھ عرصے بعد یہ مسئلہ دوبارہ سر اٹھائے گا۔
دوسری طرف آئی ایم ایف کے پروگرام نے عوام کے حالات زندگی پر انتہائی بھیانک اثرات مرتب کیے ہیں۔ ملک کے معروف معیشت دان حفیظ پاشا کے مطابق تحریک انصاف حکومت کے دو سالوں بعد ایک کروڑ اسی لاکھ مزید لوگ انتہائی غربت کا شکار ہو جائیں گے۔ ڈاکٹر پاشا کے مطابق قومی غربت کی شرح جو جون 2018ءمیں 31.3 فیصد تھی‘ جون 2020ءکے آخرمیں 40 فیصد سے بڑھ جائے گی۔ دوسرے الفاظ میں خطِ غربت سے نیچے رہنے والے افراد کی تعداد چھ کروڑ نوے لاکھ سے بڑھ کے آٹھ کروڑ ستر لاکھ ہو جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ”یہ بہت تشویشناک صورتحال ہے جس میں معیشت کی شرح نمو آبادی کی شرح نمو کے قریب قریب ہے اور خوراک کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔“ یوں معاشی اشاریوں میں جس نام نہاد استحکام آنے کی بات کی جا رہی ہے وہ عوام کی زندگیوں میں نئے عذاب لے کے آ رہا ہے۔
ملک میں غیر یقینی کا یہ عالم ہے کہ بین الاقوامی تنظیم ’اِپسوس‘ کے ایک تازہ سروے کے مطابق صرف 3 فیصد لوگ موجودہ معاشی صورتحال سے مطمئن ہیں ۔ 79 فیصد یا تو موجودہ معاشی کیفیت سے ’کافی غیر مطمئن‘ تھے یا ’بہت زیادہ غیر مطمئن‘ تھے۔ صرف 21 فیصد لوگوں کا خیال تھا کہ ملک درست سمت میں جا رہا ہے جبکہ باقی کے 79 فیصد کے نزدیک حالات و واقعات کی سمت درست نہیں ہے۔ صرف 9 فیصد کا خیال تھا کہ ان کا معیارِ زندگی اگلے 5 سال میں بہتر ہو گا۔ 90 فیصد لوگوں کو گھریلو اخراجات کے معاملات میں مشکلات کا سامنا تھا۔ 83 فیصد لوگ نوکری چلی جانے کے خوف میں مبتلا ہیں جبکہ 31 فیصد ایسے تھے جو خود روزگار کھو چکے ہیں یا کسی ایسے فرد کو جانتے ہیں جس کا روزگار چلا گیا ہے۔
یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے کہ ایسی ذہنی اذیت اور عدم استحکام سے دوچار سماج میں کوئی مستحکم سیاست یا ریاست قائم نہیں ہو سکتی ہے۔