راہول

تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کوئی نظام تاریخی متروکیت کا شکار ہوجائے تو اس کے سماجی ڈھانچے بدترین تضادات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ موجودہ عہد کے خاندان اور یہاں پنپنے والے دوسرے سماجی رشتے درحقیقت آج اسی تلخ حقیقت کی عکاسی کررہے ہیں۔ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہر رشتہ سرمائے کی اس بے لگام منڈی میں نیلام ہوچکا ہے یا ہونے کو تیار ہے۔ ایسی صورتحال میں اس عہد کے نوجوان جب بدترین معاشی مسائل کے گھرے میں ہوں تو ان میں محبت جیسے حسین احساسات بھی دم توڑنے لگتے ہیں۔ گو ہماری ثقافتی اور تہذیبی تاریخ محبت کی ان گنت داستانوں سے بھری پڑی ہے مگر اس کے باوجود بھی ایک سچی اور کامیاب محبت کی ہر نوجوان کو جہاں تلاش ہے وہیں وہ مفادات کی اس نگر ی میں یہ سوچنے پر بھی مجبور ہے کہ آخر اس طبقاتی نظام میں مالیاتی رشتوں کے بیچوں بیچ ایک حقیقی محبت کیسے پنپ سکتی ہے۔

ہماری زیادہ تر فلموں، ڈراموں اور شاعری میں گویا محبت کے علاوہ کوئی موضوع ہی نہیں ہوتا۔ جیسے کوئی مسئلہ سماج میں موجود ہی نہ ہو۔ شوبز کی دنیا میں تو محبت کو ایسا مذہب بنا کر پیش کیا جاتا ہے کہ جس کی پرستش ہر انسان پر لازم ہے اور اس کے سوا ہر انسان کی زندگی بے معنی، بے مقصد اور پھیکی ہے۔ اس کے سوا ہر جستجو کو مخدوش کردیا گیا ہے۔ یہاں ہر نوجوان کے لئے محبت کرنا ایک ایسا ضروری فریضہ بنا دیا گیا ہے جو باقی تمام تر فریضوں سے بالاتر ہے۔ یہی سبب ہے کہ آج آرٹ کے اکثرموضوعات محبت کے گرد ہی گھومتے نظر آتے ہیں۔ محبت یہاں ایک ایسے جذبے کے طور پر پیش کی جاتی کہ وہ طبقاتی رشتوں اور مفادات سے مبرا ہے۔ ٹی وی پر نشر ہونے والی ہر کہانی بس یہی سمجھانے کی کوشش کرتی ہے کہ محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو انسانوں کے درمیان پراسراریت سے جنم لیتا ہے اور دو انسانوں کے درمیان بس یہی سب سے سچا اور عظیم تعلق پیدا کرتا ہے۔ اسی جذبے کی بدولت دونوں روحیں ایک لافانی ملاپ میں مل جاتی ہیں وغیرہ غیرہ۔ ٹیلی ویژن کی اس بھونڈی عکاسی نے سماجی شعور کو ایک ایسے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے کہ جہاں محبت کی ناکامی اور کامیابی کی کہانیوں میں مڈل کلاس کی اکثریت غرق ہوچکی ہے۔ خاص طور پر نوجوانوں میں یہ کہانیاں بے حد مقبول ہوتی ہیں اور کسی متبادل سوچ کی عدم موجودگی میں وہ اس سے لطف لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو ”محبت“ کے بغیر سچ میں کوئی سماجی راحت اور لطف آج اس نظام میں بچا ہی کہا ں ہے کہ جس سے آج کا نوجوان اور انسان لطف اندوز ہوسکے۔ لہٰذا بیشتر لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ وہ ایک نہ ایک دن اپنی من چاہی محبت حاصل کر سکتے ہیں۔ مگر جنہیں اپنی محبت حاصل ہوجائے ان پر یہ تلخ حقیقت بھی بہت جلد عیاں ہوجاتی ہے کہ سرمائے کے اس نظام میں ہر محبت اچھی زندگی کے لئے پیسہ مانگتی ہے۔ اس کو چلانے کے لئے وسائل درکار ہوتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ہر محبت دولت کی باندی بن کرہی رہ جاتی ہے۔

آج ا س منڈی، دولت اور منافع کی ہوس کے نظام نے ہر انسانی رشتے سے خوشی، وفا اور سچائی چھین لی ہے۔ انسان کو بیگانگی کا قیدی بنا کر رکھ دیا ہے۔ ایسے میں محبتیں بھی راحت دینے کی بجائے ایک عذاب ایک تکلیف بن کررہ گئی ہیں۔ یہ معاشرہ جہاں انسان کو بے کس، محروم اور بیگانہ بنادیتا ہے وہاں اس میں حقیقتاً کسی روحانی، جذباتی اور رومانوی سہارے کی شدید ضرورت اور طلب پیدا ہوجاتی ہے۔ اس جستجو میں وہ اپنے طبقاتی کردار اور زندگی کے کسی بڑے مقصد کو فراموش کر کے محبت اور اپنائیت کے حصول کے لئے افراد میں پناہ تلاش کرتا ہے۔ لیکن خصوصاً اس خطے کی معاشیات اور سماجیات کا بھی ایک بھیانک اصول ہے۔ محبت اگر مل نہ سکے تو وہ سچی رہتی ہے۔ اگر مل جائے تو بے معنی اور بوجھ بن کررہ جاتی ہے۔ جب تک محبت ملتی نہیں انسان اس کے حصول کے لئے حیران کن اقدامات کرتا ہے اور قربانیاں دیتا ہے۔ لیکن پھر جب مل جاتی ہے تو اس سے زندگی کے مسائل حل نہیں ہوتے۔ ان کا صرف آغاز ہوتا ہے۔

بالادست طبقوں میں یہ جذبات مختلف رُخ لیتے ہیں۔ محروم طبقات میں پھر معاشی بدحالیاں اور محرومیاں محبتوں کو چکناچور کردیتی ہیں۔ عورت اور مرد کی محبت میں جنسی رشتہ بہت جلد دم توڑ دیتا ہے۔ معاشی، سماجی، ثقافتی اور ماحولیاتی قدغنیں محبتوں کو بڑا تلخ بنا دیتی ہیں۔ پھر اس نظام کی نفسیات محبتوں کو بڑی شدت سے ملکیت کے شکنجے میں جکڑ کر ان کا دم گھونٹ دیتی ہے۔ محبتیں نفرتوں اور بے وفائیوں میں بدل جاتی ہیں۔ اعتماد بے وفائی و رسوائی اور لگن اکتاہٹ میں بدل جاتی ہے۔ امیروں کے درمیان محبتیں ایک فریب، ایک مصلحت اور دھوکہ بن جاتی ہیں جبکہ غریبوں کی محبتیں ایک مجبوری ایک عذاب بن کررہ جاتی ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ معاشرہ ہمیں محبتیں کرنا سکھاتا تو ہے مگران کو نبھانے کے وسائل، ذرائع اور حالات نہیں فراہم کرتا۔ یہ معاشی نظام ہر دوسری سماجی قدر کی طرح محبتوں کو بھی انسانی زندگی کی نیلامی اور بربادی کے لئے استعمال کرتا ہے۔ ہر دوستی اور ہررشتہ مفادات کے زہر میں بھیگا ہوا ہوتا ہے۔ جب مفادات بیچ میں آ جائیں تو کوئی رشتہ رشتہ نہیں رہتا۔ ہر تعلق بیگانہ ہوکر رہ جاتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی اپنی محبت پا بھی لے تو وہ اس کے لئے پہلے سے زیادہ ذلت کا سبب بن جاتی ہے۔ جہاں ماں جیسا مقدس رشتہ بھی مفادات کی بھینٹ چڑھ چکا ہو، جہاں مائیں روٹی کے لئے اپنی اولادیں نیلام کرنے پر مجبور ہوں اوربچوں کے لئے ان کے تلخ حالاتِ زندگی میں والدین بوجھ بن جائیں وہاں کسی فرد میں پناہ تلاش کرنا اور محبت کی آس رکھنا محض ایک غلط فہمی سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔

حالیہ عرصے میں ناکام شادیوں اور طلاقوں کی بڑھتی شرح ا سی طرف اشارہ کررہی ہیں کہ یہ نظام اس قدر تعفن زدہ ہوچکا ہے کہ کوئی بھی رشتہ اب یہاں قائم نہیں رہ سکتا۔ خاندان ٹوٹ کر بکھر رہے ہیں۔ ہر رشتہ مفادات کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ ایسے میں افراد میں خامیاں اور خصوصیات تلاش کرنا، انہیں کسی رشتے کی کامیابی یا ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرانہ اس نظام کے آقاؤں کا پرانا وطیرہ رہاہے۔ بھوک، غربت، لاعلاجی اور بیروزگاری جیسے مسائل جب یہ حکمران حل نہیں کرپاتے تو محض افراد کو ان کی ناکامیوں کا ذمہ دار ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ جیسے بیروزگاری کا ذمہ دار نوجوانوں کی نااہلی کو قرار دیا جاتا ہے ویسے ہی شادی میں ناکامی یا بے وفائی کا ذمہ دار بڑی ڈھٹائی سے مرد و عورت کی ذات کو قرار دے دیا جاتا ہے اور بڑی ہٹ دھرمی سے اس نظام کی ناکامی کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اس معاشرے میں حکمران طبقات جس طرح مذہبی و قومی شاونزم اور فرقہ پرستانہ بنیاد پرستی کو طبقاتی جدوجہد میں دراڑیں ڈالنے کے لئے استعمال کرتے ہیں اس میں ثقافتی طور پر محبت اور پیار کے جذبوں کو بھی اسی درندگی سے انقلابی شعور کی پختگی میں دراڑیں پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہر شعور اور ذہن کو کسی مثبت سوچ اور انقلابی لائحہ عمل کے لئے کوئی فعال کردار ادا کرنے سے منتشر کرنے کے لئے محبت کا بے دردی سے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ مگر تاریخی گواہ ہے کہ جب تک ناانصافی، نابرابری اور طبقات رہیں گے تب تک طبقاتی کشمکش موجود رہے گی۔ ایسے میں کوئی بھی دھوکہ نسل انسان کو اس کے انقلابی فرائض کی ادائیگی سے نہیں روک سکتا۔ جس طرح نسل انسان کی بقا دولت کے اس نظام کے خاتمے سے مشروط ہے بالکل اسی طرح حقیقی محبت بھی طبقات سے پاک معاشرے ہی میں پنپ سکتی ہے۔