سید عبدالباسط شاہ (صدر ایپکا بی ایم سی و رکن ایگزیکیٹو باڈی تحریک بحالی بی ایم سی کوئٹہ)
کسی بھی ادارے کی ترقی محنت کشوں کی کاوشوں اور قربانیوں کے بغیر ناممکن ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کی سوچ در پردہ سرمایہ دارانہ بنتی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ کسی محنت کش کا بیٹا جب کسی اعلیٰ عہدے پر فائز ہوتاہے تو وہ بھی اپنا طبقہ تبدیل کرتے دیر نہیں لگاتا (بجز ان کے جن کی نظریاتی تربیت ہوچکی ہو)۔ اداروں میں ترقی یا اصلاح کے نام پر محنت کشوں کا استحصال جزو لازم بن چکا ہے۔ محنت کشوں کے دن رات کی محنت اور قربانیوں سے بننے والے اداروں میں کریڈت لینا ہویا پھر اپنے مفادات کے لیے غریب کی گردن پر پاؤں رکھ کر لسانی کارڈ کھیلنا ہو یا مذہبی کارڈ اس کام کے لیے سرمایہ دار ہر طرح سے چوکس بیٹھے رہتے ہیں۔ نجی اداروں میں محنت کشوں کے استحصال کا نہایت ہی سہل طریقہ چوری کا الزام لگانا ہے اور پبلک سیکٹر میں فرائض سے غفلت، کارسرکار میں مداخلت اور کرپشن جیسے الزامات سربراہان کے ہتھیار ہیں جن کوموقع محل کی مناسبت سے استعمال کرنا ان سرمایہ دار نما افسران کا وطیرہ رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آیا وہ کون سی وجوہات یا محرکات ہیں جو بولان میڈیکل کالج (بی ایم سی) کے ملازمین کو اس نہج پر لے آئی ہیں کہ انہیں سردی کی شدت کا احساس ہوا نہ اپنی ملازمتیں داؤ پر لگنے کی کوئی فکر ہوئی اور نہ ہی انہوں نے اپنی ذات کی پرواہ کی۔ اس ضمن میں گزارش ہے کہ بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کے ملازمین و طلبہ گزشتہ 2 ماہ سے اپنے حقوق کی جنگ لڑرہے ہیں۔ وہ حقوق جن کو بنیادی حقوق کہنا بے جا نہ ہوگا، جن میں وفات پانے والے ملازمین کے واجبات، ریٹائر ہونے والے ملازمین کے مالی حقوق پنشن گریجویٹی کی صورت میں اور دیگر ملازمین کا مستقبل کی ضمانت جیسے مطالبات ہیں۔ اپنے مطالبات کے حصول کے لیے زبانی کلامی اور تحریری طور پر گزارشات پیش کی گئیں مگر ان سب پر کوئی کاروائی عمل میں لائی گئی اور نہ ہی ان پر کوئی غور کیا گیا۔ ادارے کا سربراہ نے کسی حد تک مزاجاً اور کچھ بے جا اختیارات کا مالک ہونے کی وجہ سے ملازمین کا آقا بننے کی کوشش کی اور ملازمین کو ان کے حقوق دینے سے انکار کیا۔ جب وی سی کے اختیارات اور ایکٹ 2017ء کا بغور جائزہ لیا گیا تو یہ بات عیاں ہوگئی کہ ایکٹ میں ملازمین کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔ یہ ایکٹ چونکہ گزشتہ حکومت کے آخری ادوار میں منظور کیا گیا تھااس لئے عجلت میں کسی حد تک نامکمل اور بہت سی شقوں میں تا حال ابہام موجود ہے۔ اس لیے اب ملازمین اور طلبہ اس مطالبے پر مجبور ہوگئے کہ اس ایکٹ میں ترمیم کی جائے اور بولان میڈیکل کالج کی سابقہ حیثیت دوبارہ بحال کیا جائے۔
بی ایم سی کی بحالی کیوں نا گزیر ہے؟ اس کا جواب دینے سے قبل چند نادان دوستوں کا یہ اشکال کہ ”یونیورسٹی کے علیحدہ ہونے سے کالج ختم ہوجائے گا“ دور کرنا بھی ضروری ہے۔ ان سے گزارش ہے کہ یونیورسٹی ایک اعلیٰ اور معتبر ادارہ ہے، بی ایم سی کی علیحدگی کا یونیورسٹی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کالج اور یونیورسٹی دونوں الگ الگ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے امورچلائیں گے۔ یونیورسٹی کا کام اعلیٰ تعلیمی مواقع فراہم کرنا، امتحانات کا انعقاد کرانااور ریسرچ اینڈ ڈ یویلپمنٹ کے مواقع فراہم کرنا جیسے امور سرانجام دیناہے جبکہ کالج حسب سابق گریجویشن تک کی تعلیم جاری رکھا گا۔ یونیورسٹی کے خاتمے سے کالج کے خاتمے کو مشروط کرنا محض بچگانہ ذہنیت اور کم فہمی ہے جس کو اس موقع پر بطور پروپیگنڈہ استعمال کیا جارہا ہے جو سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔
اب بات کرتے ہیں کہ کالج کی بحالی کیوں ضروری ہے؟ اس لیے کہ، یونیورسٹی کے ساتھ انضمام سے ملازمین کی سروسز کا تحفظ مکمل طور پر ختم ہوچکا ہے، انہیں دیگر ملازمین کی طرح نہ کوئی تحفظ حاصل ہے نہ انہیں وی سی کی خواہشات کے مطابق کوئی مراعات ملیں گے۔ بے جا اور لا محدود اختیارات کے باعث وی سی نے ملازمین کے ساتھ ذاتی ملازمین جیسا سلوک روا رکھا ہے۔ دن میں بارہ بارہ گھنٹے ملازمین سے کام لینا، فوت شدہ ملازمین کو واجبات سے محروم کرنا اورریٹائرڈ ملازمین کی پنشن، گریجویٹی و دیگر مالی مراعات کی عدم ادائیگی، حاضر ملازمین کو گھوسٹ قرار دینا وغیرہ وغیرہ اس بات کا ثبوت ہیں۔
امین الدین میڈیکل سکول سے بولان میڈیکل کالج بننے تک دہائیوں کا عرصہ لگا ہے۔ بی ایم سی کو اس مقام تک پہنچانے میں گریڈ 1 کے محنت کش سے گریڈ 20 تک کے پرنسپل کی محنت اور کاوشیں شامل ہیں۔ انہوں نے اس ادارے کی ترقی کے لیے اپنی قابلیت اورصلاحیتیں صرف کی ہیں تب جاکر آج بی ایم سی اس مقام پر پہنچا ہے اور آج وی سی ملازمین کو لعن طعن کر رہا ہے کہ یہ کون ہوتے ہیں اور یہ کیا ہیں؟ آج جو ملازمین کی کارکردگی پر سوالات اٹھا رہے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ بی ایم سی ایک مکمل اور منظم ادارہ ہے جس کے بیسیوں شعبے ہیں اور ہر شعبہ انہی محنت کشوں کی کاوشوں سے فعال ہے۔ یہ تما م محنت کش دلجمعی سے اپنی ذمہ دار یاں ادا کررہے ہیں جن کی بدولت کالج ترقی کرتا رہا ہے اور انہی محنت کشوں کی بدولت آگے بڑھتا رہے گا۔
دانا بینا ہونے کے دعویدار وی سی ملازمین کو گھوسٹ قرار دے کر اپنی نااہلی خود ثابت کررہا ہے۔ انہیں یہ تک معلوم نہیں کہ کالج کے 5 ہاسٹلز ہیں، لائبریری ہے اورٹرانسپورٹ کے اسٹاف کے علاوہ کالج اس وقت 52 شعبوں میں خدمات سرانجام دے رہا ہے جہا ں بی ایم سی کے ملازمین اپنی خدمات بخوبی سر انجام دے رہے ہیں۔ ہاسٹلز اور لائبریریوں میں 3 شفٹوں میں ملازمین ڈیوٹیاں دے رہے ہیں۔ کالج بلڈنگ کے باہر ان شعبوں میں اگر بی ایم سی کے ملازمین کام کرنا چھوڑ دیں تو وہاں کا نظام مفلوج ہوکر رہ جائے۔ ملازمین پر نااہلی کا الزام لگانے والے ذرا اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھیں، کبھی وقت نکال کر سول ہسپتال کے نیو رو سرجری وارڈ کا معائنہ کریں، کبھی نیورو آئی سی یو میں جاکر مریضوں کا حال معلوم کرنے کی زحمت کریں، کبھی نیورو سرجری کے مریضوں کا فیڈ بیک تو لیں کبھی اس وارڈ کا وزٹ تو کریں جہاں بدبو اور تعفن سے مریض ہی بد حال اور بے چین رہتے ہیں، کبھی اس وارڈ کے ڈاکٹرز اور عملے کی خیر خبر بھی لیں۔ چند بستروں پر مشتمل یہ وارڈ اپنی داستان چیخ چیخ کر بیان کر رہا ہے مگر ان کی کوتاہیاں، ان کی غفلت، ان کی عدم دلچسپی اور ان کا سلوک سب معاف کیوں کہ وہ ایک طاقتور جو ٹھہرے وہ اپنے ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ ہیں۔ دوسری طرف ملازمین و محنت کش اپنے حقوق کی، اپنے دنیا چھوڑ جانے والے مرحوم محنت کش بھائیوں کے واجبات کی اور غریب ملازمین کے تحفظ کی بات کریں توان پر کرپٹ، نااہل اور چار کا ٹولہ جیسے الزامات لگائے جاتے ہیں۔
افسوس۔ ۔ ۔ ۔ افسوس! آج ملازمین کا معاشی قتل ہوا ہے، ان کی تنخواہیں بند ہیں اور ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔ یہاں تو آئے دن محنت کش کوئلے کی کان میں محنت کرتے ہلاک ہوجاتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ وہی سرمایہ دار مالکان، محنت کشوں کی لاشوں پہ کمائے جانے والے سرمایہ کے بل بوتے پران کی کرپشن اور فرائص میں غفلت پر تقریریں کرتے نہیں تھکتے۔ اسی طرح میڈیا ان سے حقیقی سوالات کی بجائے
انکے من پسند سوالات ہی کرنے پر مجبور ہے۔ اس سب کی بڑی وجہ یہ ہے کہ خود بڑے میڈیاہاؤسزمیں محنت کشوں کے حقوق پامال ہوتے ہیں اور سوال کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
جب وی سی سے واجبات کی بات کی گئی تو انتقامی کاروایوں کاسامنا کرنا پڑا اور میڈیا پر آکر بڑے دھڑلے سے غریب ملازمین کو مزید سال دو سال صبرکرنے کا مشورہ دینے لگا۔ بقول ان کے کہ یہ کام وقت طلب ہے سال دو سال میں تمام ادائیگیاں ہوجائیں گی۔ اب روزانہ کی بنیاد پر اپنے نجی ہسپتال سے لاکھوں کمانے والے کو ہزاروں میں تنخواہ دار ملازمین کا کیا احساس ہوگا، وہ کیسے ان کی تکلیفوں کا اندازہ لگا پائے گا؟ وہ کیسے یہ جان سکتا ہے کہ ایک ملازم معمولی تنخواہ میں مہینہ بھر کیسے گزارہ کر تا ہے۔
400 فیصد فیسوں کا بڑھائے جانا اور اس پہ ادارے کے سربراہ کا بڑی ہٹ دھرمی سے کہنا کہ طب کی تعلیم کے لیے چند لاکھ فیس سالانہ جمع کرنا کونسا مسئلہ ہے۔ بات پھر وہی آگئی کہ روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں کمانے والے کے لیے یہ کہنا بہت آسان ہوتا ہے۔ میڈیکل کالج کی داخلہ پالیسی میں اپنی من مانی سے تبدیلی کرناجس میں کچھ سیٹوں کو ڈویژنل میرٹ کی بجائے پروونشل میرٹ پہ کرناشامل ہے یہ شروعات ہے ضلعی اور ڈویژنل میرٹ کے خاتمے کی جس کی آڑمیں جلد میڈیکل سیٹوں کا اجرا صوبائی میرٹ پہ کیے جانے کا امکان ہے۔ یہ بات مبینہ طور پہ سامنے آرہی ہے کہ یہ ٹیسٹ کیس ہے اس کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ من مانی تبدیلیاں کرنے میں آزاد ہوجائے گی۔ جس سے پسماندہ اضلاع کے طلبہ پہ طب کی تعلیم کے دروزاے ہمیشہ کے لیے بند کیے جائیں گے۔ تعلیم فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے، کالج چونکہ بلوچستان حکومت کے زیر انتظام تھا، داخلہ پالیسی بلوچستان حکومت طے کرنے کی مجاز تھی نہ کہ کالج کو اپنے طور پر یہ اقدامات کرنے کی ضرورت تھی۔ احتجاج کا مقصد بھی یہی ہے کے کالج چونکہ گریجوایشن کراتا ہے اور انڈر گریجویٹ طلباو طالبات کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ بھاری فیس جمع کرا سکیں بلکہ وہ تو سکالرشپ اور تمام بنیادی سہولیات کے مستحق ہوتے ہیں تاکہ یک سو ہوکر تعلیم حاصل کر سکیں۔ جبکہ یونیورسٹی چونکہ ایک اعلیٰ تعلیمی ادارہ ہوتا ہے اور وہاں تک پہنچنے تک طلباو طالبات کچھ نہ کچھ وسائل پیدا کرنے کے اہل ہو چکے ہوتے ہیں اور فیس کسی نہ کسی طرح برداشت کر پاتے ہیں۔ اسی طرح ایک نئے ادارے میں ملازمین بھی نئے ہونے چاہییں تاکہ پہلے 25 سال تک ریٹائرمنٹ کا مسئلہ ہی نہ ہو اور اسی دوران یونیورسٹی اپنے پاؤں پہ کھڑی ہوجائے اور نئے آنے والے ملازمین یونیورسٹی ہی کے قوائد و ضوابط کے مطابق تعینات ہوں۔ جبکہ کالج کے ملازمین حکومت کے دیگر ملازمین کے طرح پرانے قوائد و ضوابط پر تعینات ہوئے ہیں اور اب تیس تیس سال کی ملازمت کے بعد یکدم سے الگ قوائد و ضوابط پر کام کرنا اور وہ بھی مالی مشکلات کاسامنا کرتے ہوئے بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ مثلاً یونیورسٹی میں اور ٹائم کا دیا جانا جب کہ یہاں محنت کشوں سے بیگار تو لیاجاتا رہا ہے مگر اور ٹایم نہ دارد۔ اسی طرح دوسرے الاؤنسز جو یونیورسٹی کے ملازمین کو ملتے ہیں یہاں پر دور دور تک ان کا کوئی نشان نہیں اورملازمین کے خلاف اگر کسی قسم کی کاروائی جو بلاوجہ ہی کیو ں نہ ہو صرف وی سی کے رحم کرم پہ ہے۔
آج غریبوں کے چولھے ٹھنڈے پڑ گئے ہیں اور ہمارے حکمران اپنی عیاشیوں میں لگے ہوئے ہیں۔ آج بلوچستان کے ہر ایک ایم پی اے اور ہر وزیر تک ان ملازمین کی فریاد پہنچ چکی ہے مگر پھر بھی کوئی شنوائی نہیں ہورہی ہے کیوں؟ کیونکہ یہ سب غریب طبقے سے ہیں ان میں کوئی سرمایہ دار نہیں، کوئی صنعتکار نہیں، کوئی سردار نہیں اورنہ کوئی نواب ہے۔ آج بلوچستان کے میڈیکل کے طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگ چکا ہے مگر کسی کو کوئی پرواہ نہیں کیونکہ ان میں سے کسی کا بچہ یہاں زیر تعلیم نہیں۔ آج تمام برائیوں اور خامیوں کے باوجود ایک شخص کا دفاع کیا جارہا ہے نہ جانے اس کے ساتھ سب کے کیا مفادات وابستہ ہیں۔ ایلیٹ کلاس کے بھید رب جانے ہم تو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ طلبہ کی سکالرشپ میں کٹوتی ہو یا ملازمین کی تنخواہوں کی بندش اور علاج معالجے کی مد میں ملنے والے فنڈ کی روک تھام، تمام کی تمام پالیساں محنت کشوں کے استحصال پر مشتمل ہیں۔ جس سے سرمایہ دار کو کیا لینا دینا، سرمایہ دار کی توانا آواز کے مقابلے میں محنت کشوں کی نحیف آواز نقار خانے میں طْوطی کی آواز کے مترادف ہے۔ لیکن صدا ایسا نہیں چلے گا، ایک دن محنت کشوں کی یہ نحیف آواز یکجا ہو کر حکمرانوں کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دے گی اور وہ قت زیادہ دور نہیں۔
عدل و انصاف فقط حشر پر موقوف نہیں
زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے