عمر عبداللہ

کسی بھی معاشرے میں عورت کی حالت زار سے اس معاشرے کی معاشی و ثقافتی ترقی کے معیار کو پرکھا جاسکتاہے۔ سرمایہ داری وہ نظام ہے جس کے اندر ہر انسان کی قدر کا تعین اس کے منافع کمانے کی صلاحیت سے ہوتا ہے۔ جس کے نتیجے میں ایک ایسا غیر ہموار سماج ترتیب پاتا ہے جس میں طبقات کا وجود ناگزیر ہے اور جس میں کسی ایک کا فائدہ کسی دوسرے کا نقصان ہے، کسی ایک کی آزادی کسی دوسرے کی غلامی ہے اور کسی ایک کی خوشحالی کسی دوسرے کی بدحالی ہے۔ اس نظام کا سب سے بنیادی یونٹ یعنی خاندان جس کی موجودہ شکل کا ارتقا نجی ملکیت کے وجود میں آنے کے بعد ہوا اس نظام کا مکمل عکس رکھتا ہے۔

سرمایہ داری میں خاندان کی تین بنیادی ذمہ داریاں ہیں۔ پہلی ذمہ داری ملکیت کو قائم رکھنا اور ایک نسل سے دوسری نسل تک اس کی منتقلی ہے۔ دوسری ذمہ داری لیبر فورس کو زندہ رکھنا، مسلسل محنت کے قابل بناناہے۔ تیسری ذمہ داری متبادل ورک فورس کی افزائش نسل کرنا ہے۔ یہ تین ذمہ داریاں خاندان کے اندر طاقت کے ڈھانچے کا تعین کرتی ہیں اور چونکہ یہ پورے نظام کا بنیادی ستون ہے لہٰذاپورا معاشرہ بھی اسی ڈھانچے کا ایک اظہار ہے۔ مرد اور عورت کا تضاد جہاں سب سے پہلے حیاتیاتی ہے جو افزائش نسل کے عمل کو یقینی بناتا ہے وہاں دوسرا بڑا تضاد ملکیت اور پیداواری عمل سے پیدا ہوتا ہے۔ عورت کی حیثیت کا تعین اس نظام میں اس کی ذمہ داریوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ چونکہ عورت اس نظام میں بچے کی پیدائش اور پرورش کر کے لیبر فورس میں اضافہ کرتی ہے لہٰذا یہ نظام خود کو قائم ودائم رکھنے کے لیے عورت کی اس صلاحیت کی ملکیت کو لازم بناتاہے جو اس نظام نے خاندان کے ادارے کے ذریعے ایک پدر شاہی ڈھانچے میں عورت کو قید کر کے قائم رکھی ہوئی ہے۔

ادارہ شماریات پاکستان کے مطابق پورے ملک میں 5 فیصد سے بھی کم خواتین گھر، گاڑی یازمین کی ملکیت رکھتی ہیں۔ جس کی بہت بڑی وجہ وہ روایات ہیں جس کے تحت بہنوں سے زمین اور جائیداد شادی کے وقت بھائیوں کے نام لکھوادی جاتی ہے۔

کسی بھی معاشرے میں سیاست اس کے اندرونی تضادات کا اظہار ہوتی ہے۔ عورت کی اس نظام کے خلاف جدجہد اور لڑائی کی تاریخ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ چاہے غلام داری نظام کے خلاف غلاموں کی بغاوتیں ہوں، جاگیرداری کو کچلنے کی محنت کش طبقے کی جنگ ہو یا پھر سرمایہ داری سے نجات حاصل کر کے سوشلزم کی تعمیر کی جدوجہد ہو‘ عورتوں کے کردارکو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ انسان جب جاگیرداری سے سرمایہ داری میں داخل ہو ا تو صنعتی ترقی اور پارلیمانی جمہوریت کے ارتقا نے ایسے حالات پیدا کیے کہ عورتیں بھی اپنی دوسرے درجے کی شہریت کو چیلنج کرکے اپنے حقوق کے لئے ایک منظم جدوجہد کا آغاز کر سکیں۔ امریکہ اور یورپ میں انیسویں صدی میں عورتوں نے بنیادی سیاسی حقوق جیسے ووٹ کا حق اور بغیر نمائندگی کے ٹیکس لگائے جانے کے خلاف جدوجہد کو منظم کیا۔ سرمایہ دارانہ انقلاب نے پوری دنیا میں عورتوں کے معاشرے میں وجود کا ازسرنو تعین کیا اور اس عمل کے دوران کئی خواتین نے جمہوری اور سیاسی حقوق کی جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا۔ جہاں ایک طرف ان خواتین نے معاشرے کے فرسودہ قوانین پر تنقید رکھی تو دوسری طرف عملی جدو جہد کے میدان میں بھی خواتین کو منظم کیا۔ یہ وہ دور تھا جس میں بالعموم پورے معاشرے میں اور خاص طور پر عورتوں میں شرح خواندگی نہ ہونے کے برابر تھی اور اس کے ساتھ ساتھ عورتوں پر تعلیم کے دروازے بھی مکمل طور پر بند تھے۔

انیسویں صدی میں امریکہ میں عورتوں کی تعلیم اور سیاسی تربیت کے لئے ایماولارڈاور میری لیون نے ایک طویل جدجہد کو منظم کیا۔ 1833ءمیں اوہایو کے اوبرلن کالج نے لڑکیوں کے لئے کالج کے دروازے کھول دئیے اور ا س سے فارغ ہونے والی خواتین نے جدوجہد کو آگے بڑھایا۔ انیسویں صدی میں جس سوال نے امریکہ میں عورتوں کو سب سے زیادہ متحرک کیا وہ غلامی کے خاتمے کا سوال تھا۔ جنوبی کیرولینا کی گرمکی بہنوں نے غلامی کے خلاف لڑائی میں اہم کردار ادا کیا۔ جن میں سے ایک کو ”جنوب کی کرسچن خواتین سے اپیل “ نامی کتاب لکھنے پر علاقہ بدرکر دیا گیا۔ یہ خاتون شمالی امریکہ جا کر غلامی کے خلاف مزاحمتی تحریک کا حصہ بن گئی۔

صنعتی انقلاب نے بڑی تعداد میں خواتین کو گاﺅں سے نکال کر شہروں میں فیکٹریوں اور کارخانوں میں سستی محنت فروخت کرنے پر مجبور کر دیا۔ اور پھر عورتوں کے حقوق کی جدوجہد مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس کی خواتین کے کلبوں سے نکل کرفیکٹریوں اور کارخانوں میں مرد محنت کشوں کے شانہ بشانہ شروع ہو گئی۔ اب سوال مردوں کے سیاسی کنٹرول میں حصہ داری کا نہیں بلکہ سرمایہ دار اور محنت کش طبقے کے تضاد میں بدل گیا۔ جو مرد اور عورت مزدور کے استحصال میں کوئی فرق نہیں کرتا تھا۔

عورتوں کے حقوق کی تحریک کو تاریخی اعتبار سے تین حصوں میں تقسیم کیا جاتاہے۔ پہلے دور کا آغاز انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں ہوا۔ روزالکسمبرگ اور محنت کش خواتین کے عالمی دن کی بانی کلارہ زاٹکن اس تحریک کی روح رواں تھیں۔ اس عہد میں خواتین نے مرد محنت کشوں کے شانہ بشانہ انقلابی تحریکوں میں اہم کردار ادا کیا‘ بالخصوص انقلاب روس نے خواتین کو حقیقی معاشی، سیاسی اور سماجی آزادی کی معراج تک پہنچایا۔ جہاں عورتوں کو ترجیحی بنیادوں پرروزگار کی فراہمی، طلاق کا حق، ابارشن کا حق، بچوں کی پرورش کے لئے نرسریاں، اجتماعی لنگر خانے، اجتماعی دھوبی گھاٹ، زچگی کے دوران تنخواہ کے ساتھ پانچ ماہ کی چھٹی، مفت تعلیم اور صحت کے ساتھ ساتھ حقیقی معنوں میں گھریلومشقت سے بڑی حد تک نجات ملی اور عورت کے سماجی ترقی میں کردار کو ابھارا گیا۔

حقوقِ نسواں کی تحریک کا دوسرا حصہ 1960ءاور 70ءکی دہائی کا ہے۔ جس میں اس تحریک نے پوری دنیا میں عروج حاصل کیا۔ سیمونے دی بیویر کی ” دی سیکنڈ سیکس“ نامی کتاب جو 1949ءمیں لکھی گئی نے اس تحریک کی نظریہ سازی میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ اس کتاب میں مرد اور عورت کے باہمی رشتوں کے اندر طاقت کے توازن کو زیر بحث لایا گیا جس نے اس تحریک کے سب سے جاندار نعرے ” پرسنل از پولیٹکس“ کو جنم دیا۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی پوری دنیامیں انقلابات اور ترقی پسند تحریکوں کا دور تھا۔ ڈاکٹر کنگ کی جمہوری حقوق کی تحریک سے لے کر پاکستان میں1968-69ءکے انقلاب تک‘ پوری دنیا انقلابی تحرک کی زد میں تھی۔ ایسے میں خواتین کے حقوق کی جنگ کا کھلنا ناگزیر تھا۔ اس تحریک کے نتیجے میں عورتوں نے بہت سی حاصلات جیسے تعلیم اور روزگار کا حق اور بہت سے دیگر بنیادی حقوق حاصل کیے۔ اس عہد میں حقوقِ نسواں کی تحریک میں سوشلسٹ نظریات کو بہت پذیرائی حاصل ہوئی۔

1990ءسے لے کر کم و بیش اب تک کے عہد کو تیسرا حصہ قرار دیا جاتا ہے۔ جس پر سویت یونین کے ٹوٹنے کے بہت گہرے اثرات موجود تھے۔ یہ دور نیولبرلزم کے عروج کا دور تھا جس میں مزدور تحریک کی پسپائی کی وجہ سے طبقاتی سیاست منظر عام سے غائب ہو گئی اور سرمایہ داری کو آخری نظام قرار دے دیا گیا۔ جس کے نتیجے میں شناخت کی سیاست تمام تضادات کا سیاسی اظہار بن کر سامنے آئی۔ جس میں فیمنزم کی تحریک بھی ایک اہم کردار کے ساتھ سامنے آئی ہے جس کا مقصد شناخت کی سیاست کے گرد اسی نظام کے اندر رہتے ہو ئے جدوجہد کرنا تھا۔ پوسٹ ماڈرن ازم کے مبہم اور بے سروپا خیالات سامنے آئے۔ اس فیمنسٹ تحریک کا سب سے اولین مطالبہ گے میرج کو قانونی حیثیت دلوانا رہا ہے۔

لیکن جب تک طبقات موجود ہیں طبقاتی کشمکش ختم نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ 2008ءکے بحران کے بعد دنیابھر میں تحریکوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ہے اور یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ امریکہ میں ہیلری کلنٹن کی شکست شناخت کی سیاست کی شکست تھی۔ اور اب ہم شاید حقوقِ نسواں کی چوتھی تحریک کے عہد میں داخل ہو چکے ہیں جہاں ایک بار پھر سے مارکسزم اور سوشلزم کے نظریات حاوی ہو رہے ہیں۔ جس کی واضح مثال ڈیموکریٹک پارٹی کے حالیہ الیکشن ہیں جن میں برنی سینڈر کی ورکنگ کلاس سیاست کے سامنے ایلزبتھ وارن کی شناختی سیاست ہوا میں تحلیل ہو گئی ہے۔

پاکستان میں بھی خواتین کی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ چاہے وہ 1968-69ء کا انقلاب ہو یا پھر روز مرہ کی اساتذہ، نرسز، ڈاکٹرز، لیڈی ہیلتھ ورکرز اور دوسرے بہت سے شعبوں میں ابھرنے والی محنت کشوں کی جدوجہد ہو‘ خواتین کا کردار ہمیشہ ہر اول رہا ہے۔ فیمنزم کی پاکستان میں تحریک کو دیکھیں تو یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ یہ تحریک بالعموم اپر مڈل کلاس اور مڈل کلاس کی لبرل خواتین کے ڈرائنگ رومز سے نکل کر عوامی سطح پر مقبولیت حاصل نہیں کر سکی۔ سوائے کچھ استثنات کے۔

پاکستان میں عام حالات میں عورتوں کے سیاسی جدوجہد میں شامل نہ ہونے کی تاریخی وجوہات ہیں۔ صنعتی طور پر پسماندہ ہونے اور جاگیرداری کی باقیات کا مکمل خاتمہ نہ ہو سکنے کی وجہ سے عورتوں کی ایک بہت قلیل تعداد لیبر فورس کا حصہ ہے۔ خواتین، جو آبادی کا تقریباً50 فیصدہیں، کی اکثریت کچن میں قید ہے۔ یہ معاشرے کا وہ حصہ ہے جس کا استحصال شدید اور جس پر جبر دوگناہے۔ یہ گھریلو خواتین بغیر کسی چھٹی کے ہر روز صرف چھت اور تین وقت کی روٹی کے لئے چوبیس گھنٹے کی محنت کی اذیت میں مبتلا ہیں۔ معاشی طور پر مرد پر منحصر ہونے کے باعث گھریلو تشدد اور ازدواجی ریپ جیسے مظالم کا ہر روز شکار ہوتی ہیں۔ جو خواتین پاکستان میں نوکری پیشہ ہیں وہ تہرے جبر کا شکار ہیں جو سولہ گھنٹے کی محنت (آٹھ گھنٹے نوکری اور آٹھ گھنٹے گھریلو مشقت) کے عوض آٹھ گھنٹے کی اجرت پاتی ہیں۔ پھر کا م کی جگہوں پر جنسی ہراسانی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ معاشی تنگ دستی اور بیروزگاری کے خوف سے ان کا آواز اٹھانامشکل ہے۔ عورتوں میں فیمنسٹ تحریک کی پذیرائی نہ ہونے کی دوسری بڑی وجہ اس تحریک کا مواد اور ایجنڈا ہے۔ پچھلے تین سالوں سے آٹھ مارچ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ہونے والے ”عورت آزادی مارچ“ کو بلاشبہ کچھ پذیرائی ملی ہے اور آنے والے دنوں میں اس میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن ان بنیادوں پر اور ان نعروں کے ساتھ عورتوں کی وسیع تعداد کو متحرک کرنا ممکن نہیں ہے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ محنت کشوں کی اکثریت کو جیتنے کی بجائے یہ تحریک محنت کش خواتین اور مردوں کو اس حقیقی تحریک سے بیگانہ کر رہی ہے جس کا مسئلہ روٹی، کپڑا، مکان، علاج، تعلیم، روزگار وغیرہ ہے اور جو آبادی کی وسیع اکثریت کے مطالبات اور مسائل ہیں۔ اورجن کا کھانا گرم کرنے پر لڑائی سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ جو بدن کپڑے بڑی مشکل سے خریدنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ان کو اس سے فرق نہیں پڑتا کہ خواتین کو اس ملک میں جینز پہننے کی آزادی کیوں نہیں ہے۔ پاکستان کی فیمنسٹ تحریک میں اشرافیہ کی لبرل خواتین کی تانہ شاہی، ہٹ دھرمی، این جی اوزکی اس تحریک میں مداخلت اور سیاسی نابالغ پن کو صاف کیے بغیراس تحریک کو آگے بڑھانامشکل نظر آتا ہے۔ لیکن جب اس تحریک کے اندر موجود طبقاتی تضاد اور کشمکش آنے والے دنوں میں کھل کر اپنا اظہار کرے گی تو نہ چاہتے ہوئے بھی اس تحریک کو ان سوالوں کے جواب دینے پڑیں گے۔ اور ایسے تمام نعروں سے جان چھڑانی ہو گی جو محنت کش طبقے کی جڑت کو نقصان پہنچائیں اور عورت کو سماج میں اس کی طبقاتی حیثیت سے کاٹ کر ایک الگ مخلوق دیکھنے کی کوشش کریں۔ بصورت دیگر جماعت اسلامی اور اس تحریک میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔

لینن کی بیوی کروپسکایا اپنی کتاب ”مزدور عورت“ میں لکھتی ہے کہ ” مزدور عورتوں اور مردوں کو جو چیز ایک دوسرے کے ساتھ متحد کرتی ہے وہ اس سے کہیں زیادہ طاقتور ہے جو انہیں ایک دوسرے سے الگ کرتی ہے۔ اپنے حقوق سے اجتماعی محرومی، اپنی مشترکہ ضروریات اور مشترکہ حالات زندگی انہیں ایک دوسرے سے متحد کرتے ہیں۔ مرد اور عورت مزدوروں کی یکجہتی، ایک اجتماعی مقصد، اجتماعی احداف اور ان کے حصول کا اجتماعی راستہ… مزدور طبقے کے لئے عورت کا سوال یہی ہے۔“

سرمایہ دارانہ نظام طبقات کی تفریق پر کھڑا ہے۔ پدرشاہی ملکیت کے رشتوں کا اظہار ہے اور سرمایہ داری کی بنیاد بھی۔ اور آج جس عہد میں سرمایہ داری داخل ہو چکی ہے اس میں کسی طبقے، رنگ، نسل، زبان یا جنس کی اکثریت کو عزت کی زندگی تو دور بنیادی سہولیات بھی دینے کی سکت نہیں رہی۔ اور اس نظام کے اندر کچھ حاصل کرنا دیوانے کا خواب ثابت ہو گا۔ انیسویں صدی کے اواخر میں امریکہ میں غلامی کا خاتمہ ہوا اور غلام بغیر کسی ملکیت کے آزاد کر دیے گئے۔ ایک ایسے معاشرے میں جو ان کی ہزاروں سال کی لوٹی ہوئی محنت پر کھڑاتھا۔ آج سینکڑوں سالوں کے بعد بھی امریکہ میں سیاہ فام امریکیوں کی زندگیوں میں کوئی بڑا فرق نہیں پڑا۔ آج بھی وہ غربت اور ذلت کے پاتال میں کھڑے آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس طرح اگر اس نظام میں جہاں عورت تاریخی طور پر مرد کے مقابلے میں کم تر درجے کی حامل ہے کو قانونی آزادی مل بھی جاتی ہے تو ان کا انجام امریکی سیاہ فاموں سے بھی بدتر ہو گا۔

اس لیے ہمیں ان تمام تفریقوں کو جو محنت کش طبقے کی جڑت میں رکاوٹ بنےہیں، ببانگ دہل رد کردینا چاہیے۔ کیونکہ سرمایہ داری اور ملکیت کے خاتمے کے بغیر کوئی آزادی ممکن نہیں او ر سرمایہ داری سے لڑنے کے لئے اس سے بہتر اورا س سے زیادہ طاقتور نظریے کی ضرورت ہے۔ سوشلزم ہی وہ واحد نظریہ ہے جس کی بنیاد پر تمام طبقاتی تضادات، جو تاریخ طور پر عورت کی غلامی کی بنیاد ہیں، کو ختم کر کے یہاں ہر قسم کے استحصال سے پاک معاشرے کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔