سائرہ ناز
پاکستان کی 156 ملین کی آبادی میں 75 ملین خواتین ہیں۔ گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس کے سماجی و معاشی اشاریوں کی بنیاد پہ صنفی امتیاز کے حوالے سے پاکستان 144 ممالک میں سے 143 نمبر پہ ہے۔ ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ کے جینڈر ڈیویلپمنٹ انڈیکس کے مطابق ساؤتھ ایشین ممالک میں پاکستان سب سے کمتر درجے پہ ہے۔ پاکستان دنیا میں خواتین کے لئے چوتھا خطرناک ترین ملک ہے۔ افسوس ہم سے صرف افغانستان، یمن اور شام ہی زیادہ خطرناک ہیں۔
وائٹ ربن پاکستان کے 2004ء سے 2017ء تک کے ریکارڈز کے مطابق 51240 خواتین مختلف قسم کے تشدد کا شکار ہوئیں جن میں 15 ہزار خواتین غیرت کے نام پہ قتل ہوئیں، 5500 اغوا ہوئیں اور 4734 جنسی زیادتی کا شکار ہوئیں۔ صرف پنجاب میں 2017ء میں 746 خواتین غیرت کے نام ماری گئیں۔ 24 زندہ جلا کے مار دی گئیں اور 1000 ریپ کا شکار ہوئیں۔ یہ اعداد وشمار بہت ہی ناکافی ہیں۔ کیونکہ غلاظت کو چھپانے کے اس نظام کے پالیسی ساز ماہر ہیں۔
اعدادوشمار کے بعد وجوہات کی طرف آتے ہیں۔ دنیا کے غریبوں میں 70 فیصد خواتین ہیں۔ اس کی وجہ خواتین میں قابلیت کی کمی ہرگز نہیں بلکہ معاشی چکر میں خواتین کو مساوی مواقع اور مساوی اجرت کا نہ ہونا ہے۔ نوکری پیشہ خواتین کے حوالے سے پاکستان میں خواتین کا تناسب صرف 4.3 فیصد ہے اور ان میں سے 46.2 فیصد فقط اوسطً 1500 روپے ماہانہ اجرت پہ کام کرتی ہیں۔ لیکن معیشت میں خواتین کی غیررسمی حصہ داری اس سے کہیں بڑھ کے ہے۔ تقریباً 70 فیصد زرعی مزدور خواتین ہیں۔
اس سلسلے میں صنفی امتیاز کو ختم کرنے کے لئے سطحی اصلاحات ناکافی ہیں۔ غربت کے تدارک کے بغیر سماجی ڈھانچے میں تبدیلی ممکن نہیں۔ معاشرے میں خواتین کی سیاسی، معاشی اور سماجی مساوی حصے داری ہی عورت کے جنسی اور ذہنی تحفظ کی ضمانت ہے۔ صنفی امتیاز کو کم کرنے کے لیے غربت کا خاتمہ ناگزیر ہے اور غربت کا خاتمہ خواتین کی معیشت میں مساوی حصہ داری میں مضمر ہے۔
اب بہت سے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ عورتوں کے لیے مساوی سماجی، سیاسی و معاشی حصہ داری کیوں ضروری ہے؟
کوئی بھی ریاست اپنی 51 فیصد آبادی کو سماجی، سیاسی و معاشی جبر کا شکار اورغیر فعال بنا کہ معاشی وسماجی استحکام کیسے حاصل کرسکتی ہے اور غربت سے کیسے نبرد آزما ہوسکتی ہے؟
نوزائیدگان کی شرح اموات، آبادی کا پھیلاؤ، بنیادی صحت و صفائی کے ایشو اور ناخواندگی براہ راست خواتین کی تعلیم و صحت سے جڑے مسائل ہیں۔ جب تک ریاست خواتین کے بطور خودمختار شہری کے وجودکی قبولیت، فیصلہ سازی میں حصہ داری، نجی، قانونی اور ازدواجی حقوق کے تحفظ، وراثتی حقوق کے تحفظ، جبری و اختیاری غلامی سے نجات، مساوی اجرت و ملازمت کے مساوی مواقع کی فراہمی، سیاسی نظام میں مساوی شمولیت اور آزادی اظہار رائے کو یقینی بنانے کے لئے سیاسی و معاشی نظام میں بنیادی تبدیلیاں نہیں لاتی تب تک خواتین قتل برائے غیرت، تیزاب گردی، گھریلو تشدد، جنسی ہراسگی، جسمانی تشدد اور سماجی صنفی امتیاز کا شکار ہوتی رہیں گی۔
مگر اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ ریاستی نظام میں ان اصلاحات کی گنجائش موجود ہے؟ تو جواب تو صبح روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایسا ریاستی نظام جو اپنے شہریوں کو بلا تفریق جنس و فرقہ و مذہب کسی بھی قسم کا تحفظ یا ریلیف دینے سے قاصر ہو، بلکہ خود جبر و ناانصافی اور بددیانتی کا استعارہ ہو۔ ایسا نظام جس کی باگ ڈور ایک خاص مراعات یافتہ طبقے کے ہاتھ میں ہو اور پوری کی پوری ریاستی مشینری اسی طبقے کے مفادات کے جائز و ناجائز حصول میں جتی ہو اور اکثریتی عوام کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہ رکھتے ہوں۔ کیا ایسی ریاست اپنے مظلوم عوام یا دہرے تہرے جبر کا شکار طبقے کو کسی بھی قسم کا تخفظ دینے کے قابل ہے۔ تو جواب یقینامایوس کن ہے۔
ایک ایسا ریاستی و سماجی نظام جہاں غریب مرد بھی اتنے ہی استحصال اور جبر کا شکار ہے جتنا کہ ایک غریب عورت۔ جہاں امیر مرد بھی اتنا ہی طاقتور اور جابر ہے جتنا کہ ایک مراعات یافتہ عورت‘ تو مسئلہ جنسی تفریق کا نہیں بلکہ طبقاتی ہے۔ یہ نظام اتنا گل سٹر چکا ہے کہ اس میں مزید اصلاحات کی گنجائش ہی نہیں۔ یہاں ایک منظم مزاحمتی تحریک کی ضرورت اتنی ہی ناگزیر ہے جتنی کہ زندہ رہنے کے لئے ہوا اور پانی۔ یہ ریاستی و سماجی نظام، جس کی جڑیں مظلوم کے خون و پسینے سے سینچی گئی ہیں اور پھل سے صرف مراعات یافتہ حکمران طبقہ مستفید ہورہا ہے، ایسے نظام کو جڑ سے اکھاڑ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ جنگ صرف غریب و مظلوم عورت کی نہیں، مظلوم و غریب مرد کی بھی ہے۔ یہ لڑائی کسی جنس واحد کی ہرگز نہیں، نوع انسانی کی ہے۔ یہ لڑائی عورت اور مرد کے درمیان نہیں بلکہ دو طبقات کی لڑائی ہے۔ اگر یہ استحصال ختم نہ ہوا تو ہماری زمین نسل در نسل عقلی بالیدگی سے بانجھ اور آسمان شعور کے نور سے محروم ہی رہے گا۔