ریحانہ اختر

اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے اختتام پر سرمایہ دارانہ نظام کے شدیدبحران نے ساری دنیا میں ماضی کے تعصبات کو پھر سے ابھارا ہے۔ اس وقت ہمیں دنیا بھرا ور بالخصوص تیسری دنیا میں خواتین کے خلاف جبر و استبداد میں بے پناہ اضافہ ہوتاہوانظر آتاہے اور اس کے خلاف ہمیں ہر جگہ حقوق نسواں کی تحریک بھی نظر آتی ہے۔ مارکسسٹوں نے ہمیشہ اس سوال کو بہت اہمیت دی‘ تاہم اس حوالے سے اس مسئلے کے کچھ پہلوؤں پر مزید روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے۔

تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو ارتقائی عمل کے دوران جب قدیم اشتراکی عہد کے انسان نے زراعت کا آغاز کیاتو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی زائد پیداوار کی دیکھ ریکھ اور حفاظت کے لئے افراد کے ایسے جتھے کی ضرورت پیش آئی جو سماج کی اجتماعی پیداواری سرگرمیوں سے باہر ہوکر صرف حفاظت کے کام پر معمور ہو سکے، جو آج کی جدید ریاست کا جد امجد ہے۔ عورت کو چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کے پیش نظردیگر سماجی پیداواری ذمہ داریوں میں نسبتاً آسائش میسر تھی جو زراعت کی تاریخ میں ایک نہایت اہم پیش رفت ثابت ہوئی۔ دراصل زراعت کا آغاز انسانی ارتقا میں ایک بڑی جست تھی۔ فلسفہ، تخلیق، بحث و مباحثہ اور ابتدائی سائنس غرضیکہ ہر قسم کے علم کی آغازکی جڑیں اسی عہد سے پھوٹتی ہیں۔ زراعت کے آغاز کے ساتھ ہی سماج میں نجی ملکیت کا بھی آغاز ہوا۔ یہیں سے ریاست کی ابتدائی شکل بھی ظہور پذیر ہوئی اور طبقاتی نظام کے آغازنے مدرسری دور کے خاتمے کا بھی اعلان کیا۔ یہی وجہ ہے کہ عورت کی آزادی کے سوال کو تاریخی اعتبار سے طبقاتی اور معاشی سوال سے علیحدہ کر کے نہ ہی سمجھا جا سکتا ہے اور نہ ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ طبقاتی سوال کے بغیر عورت کے سوال کو سمجھنے کی کوشش جڑوں کو چھوڑ کر شاخوں سے لٹکنے جیسی ہے۔

مارکسسٹ کن خطوط پر رجعت پرستوں اور بنیاد پرستوں سے مختلف ہیں؟

بنیاد پرست عورت کی آزادی کے سوال کو یکسر مسترد کرتے ہیں اور عورت کے حقوق کی بات کو فرسودہ روایات اور اپنی حاکمیت پر حملہ سمجھتے ہیں۔ بحیثیت مارکس وادی قومی آزادی کی تحریک ہو، عورتوں کے حقوق ہوں یا اقلیتوں کے حقوق کی تحریک ہو‘ ہم ان کی حمایت کرتے ہیں۔ ہر انسان کو جمہوری حقوق ملنے چاہیں لیکن مکمل معاشی آزادی اور معاشی برابری کے بغیرکوئی بھی تحریک ایک دائرے میں گول گول گھومنے کے مترادف ہے۔ تاہم سماج میں ابھرنے والی ہر تحریک جو اپنی بنیادوں میں رجعت پرستی اور فرسودگی پر ضرب لگا رہی ہو اور جس بھی حد تک ترقی پسندی کی حامل ہو وہ خوش آئند ہے۔ ایسی تحریک ایک نئی بحث کے آغاز کے ساتھ بہت سے لوگوں کو متحرک کرتی ہے جس میں مداخلت کے ذریعے اس کو درست بنیادوں پر آگے بڑھایا جا سکتاہے۔

ہم کن بنیادوں پر لبرلوں سے مختلف ہیں؟

حقوق نسواں کی تاریخ کو رسمی طور پر تین لہروں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلی لہر کا تعلق اس عہد سے ہے جب عورت کی آزادی کا سوال بہت اہمیت اختیارکر گیا تھا اور بین الاقوامی سطح پر بہت سی حاصلات لی گئیں۔ یہ انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے اوائل کی بات ہے۔ دوسری انٹرنیشنل کی سربراہی میں پہلی بار 1909ء میں محنت کش خواتین کے عالمی دن کو بین الاقوامی طور پر منایاگیا۔ پہلی لہر میں ان تمام مطالبات کو اٹھایا گیا جو کلیدی حیثیت رکھتے تھے جیسا کہ جائیداد میں برابری کا حق، ووٹ کا حق، کام کے اوقات کار اور اجرتوں میں برابری وغیرہ۔

دوسری انٹرنیشنل کے زیر سایہ یہ مطالبات ایک خاص اہمیت حاصل کر گئے۔ یہی وجہ ہے کے امریکہ میں 1920ء میں پہلی بار عورتوں کو ووٹ کا حق دیا گیا۔ سرمایہ داری نے اپنے آغاز میں جہاں تکنیک اور صنعت کو بے پناہ ترقی دی وہیں پر اپنے عروج کے عہد میں بھی بیشتر صورتوں میں قومی سوال اور خواتین کے سوال کو حل نہ کر پائی۔ موجودہ عہد میں آپ لبرلوں کو عورت کی آزادی کا جھنڈا سب سے اونچا لہراتے دیکھیں گے۔ پوچھنے پر وہ آپ کو بتائیں گے کہ عورت کو اپنی مرضی کے کپڑے پہننے کی، ڈھابوں پر بیٹھ کر چائے اور سگریٹ پینے کی اور اپنی مرضی سے تعلقات قائم کرنے یا ختم کرنے کی آزادی چاہیے۔ جبکہ مارکسسٹ یہ سمجھتے ہیں کہ برابر کا انسان یا شہری ہونے کی حیثیت سے عورت اور مرد دونوں کو مکمل شخصی آزادی ہونی چاہیے مگر اس کو طبقاتی سوال سے کاٹ کر دیکھنے سے آپ کہیں پر بھی نہیں پہنچتے۔ سب سے پہلے محنت کش عورت کو اپنے اور اپنے خاندان کے افرادکے لئے روزگار، رہائش، خوراک کی ضمانت اور بچوں کے لئے مفت تعلیم اور علاج چاہئے۔ پھر اسے اپنی مرضی کے کپڑے پہننے کی آزادی چاہیے۔

استحصال کیا ہے؟

خاندان میں نہ ختم ہونے والی لگاتار، بغیر چھٹی کے، بلاکسی شماراور اجرت گھریلو مشقت‘محنت کش عورت کا سب سے بڑا استحصال ہے۔ سرمایہ داری نے بہت صفائی کے ساتھ محنت کی بہت بڑی مقدار کو چوری کر لیا اور محنت کشوں کو اس کا ادراک بھی نہ ہونے دیا۔ کسی بھی صنعت یا فیکٹری اور دیگر سماجی خدمات کے شعبے میں دس سے بارہ گھنٹے اپنی قوت محنت فروخت کرنے کے بعد ایک نڈھال محنت کش صرف اسی صورت اگلے دن واپس کام کی جگہ پر جانے کے قابل ہوتا ہے کیونکہ اس کے گھر میں بغیر کسی اجرت کے مزدور عورت اس کا کھانا بنانا، کپڑے دھونا، جوتے پالش کرنا اور دیگر وہ تمام امور سرانجام دیتی ہے جو ایک تھکے ہارے مزدور کوپھر سے کام کے لیے تیار کر سکیں۔ حالانکہ یہ تمام سہولیات بھی نوکری کے ساتھ ساتھ محنت کش کا حق ہے۔ آٹھ گھنٹے کام کے اوقات کار جو کہ عالمی معیار ہے کا اطلاق گھریلو محنت پر نہیں ہوتا کیونکہ اس کام کی کوئی اجرت متعین نہیں ہوتی۔ چھٹی کا حق اس لئے نہیں کیونکہ اس محنت کا کوئی شمار نہیں ہوتا۔ یکسانیت پر مبنی یہ کام ذہنی صلاحیت کے زیاں کا باعث ہے۔ عورتوں کی جائیداد میں حصہ داری نہ ہونے کی وجہ سے ان کی معاشی حیثیت ہمیشہ پست رہتی ہے۔ مگر یہ وہ تہرا استحصال ہے جس پر سوال اٹھائے جانے کی وجہ سے سرمایہ داری کی بنیادیں تک ہل جاتی ہیں۔ کیونکہ یہ اس کی مکمل تبدیلی کا مطالبہ ہے۔ اس کے علاوہ ہر بحث عورت کی آزادی کے نام پر ایک خوش نمادھوکہ تو ہوسکتی ہے نجات دہندہ نہیں۔

تیزاب گردی، جنسی ہراسانی، زبردستی کی شادی، غیرت کے نام پر قتل، رجعت اور بنیاد پرستی نے کروڑوں عورتوں کی زندگیوں کو جہنم سے بدتر کردیاہے۔ مگر یہ سب اس گلے سڑے بحران زدہ نظام کی بیماری کی اعلامات ہیں۔ مسئلے کو اس کی جڑوں سے پکڑ کر بیماری کا علاج کرنا چاہئے نہ کہ علامات کا۔ کیونکہ اس سے ان کروڑوں عورتوں کی زندگیوں میں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہاں چند لبرل اشرافیہ کی عورتوں کا کاروبارضرور چل سکتا ہے۔ اسی طرح اپر مڈل کلاس کے فیمنزم کا محنت کش طبقے کی عورتوں کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ہر وہ لڑائی جو طبقاتی مسائل سے ہٹ کر ہے وہ ایک دھوکہ اور فریب ہے۔ آنے والے حالات ان تضادات کو مزید گہرا کرتے ہوئے ہمارے لئے بحث ومباحثے کے نئے مواقع کھولیں گے جہاں ہمارا یہ فریضہ بنتاہے کہ ہم اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے محنت کش خواتین کے حقوق کی لڑائی میں ان کے شانہ بشانہ رہیں اور اس حوالے سے سماج میں موجود حقوق کی کسی بھی تحریک کی ایک مشروط حمایت کرتے ہوئے انہیں اپنے موقف کے ساتھ جوڑیں۔ عورت کوئی الگ سے طبقہ نہیں ہے بلکہ محنت کش طبقے کا اٹوٹ حصہ ہے۔ عورت‘ طلبہ، مزدور اور کسان ہے اور سماج کی ویسے ہی رکن ہے جیسے ایک مرد۔ ہم ہر طرح کی صنفی تقسیم کے خلاف ہیں۔ جس طرح مدرسری نظام کی تاریخی شکست کا آغاز نجی ملکیت کے آغاز کے ساتھ جڑا ہوا ہے ویسے ہی نجی ملکیت کے خاتمے سے ہی عورت حقیقی معنوں میں آزاد ہو سکتی ہے اور ایسا صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔