اداریہ جدوجہد

افراد اپنی تقدیر خود بناتے ہیں۔ لیکن جن حالات میں وہ زندگیاں گزارتے ہیں ان کا تعین وہ نہیں کرتے۔ حالات تاریخی وزن کے حامل ہوتے ہیں اور عام ادوار میں لوگوں پر حاوی رہتے ہیں۔ انہیں ایک مخصوص معمول میں قید رکھتے ہیں۔ ان کی سوچوں کو مروجہ دائروں میں مقید رکھتے ہیں۔ روایات کو ان پر مسلط رکھتے ہیں۔ ان کی فکر پر پرانے رواجوں کی مہر ثبت کرتے رہتے ہیں۔ لیکن پھر تاریخ ایسے افراد سے بھی واقف ہے جو حالات سے ٹکرانا جانتے ہیں۔ جن معمولات نے لاکھوں کروڑوں عام انسانوں کے شعور کو غلام بنا رکھا ہوتا ہے انہیں توڑتے ہیں۔ روایات کے بوجھ کو جھٹکتے ہیں۔ انقلابی سوچ اور فکر کو اپناتے اور متعارف کرواتے ہیں۔ جبر و استحصال کے خلاف جدوجہد کے راستے استوار کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جو زندگی کو گزارتے نہیں جیتے ہیں۔ اور نہ صرف خود جیتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی جینا سکھا جاتے ہیں۔ یہی لوگ پھر حالات کے دھارے موڑتے ہیں۔ ایک عہد کا استعارہ اور ایک وقت کی علامت بن جاتے ہیں۔ اپنے نظرئیے کی مادی اور مجسم شکل ہو جاتے ہیں۔ ظلم کے خلاف للکار اور سچائی کی پکار بن جاتے ہیں۔ یہ غیر معمولی انسان ہوتے ہیں دنیا جنہیں انقلابی کہتی ہے۔ 21 فروری کو ایسا ہی ایک انسان، دنیا جسے لال خان کے نام سے جانتی تھی، ہم سے ہمیشہ کے لئے بچھڑ گیا۔

بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس سماج کو ان کے گزر جانے سے کچھ خاص فرق نہیں پڑا۔ یہ کیفیت اس عہد اور وقت کے کردار کی غمازی کرتی ہے۔ آج کا عمومی سماجی شعور شاید ان کی شخصیت کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔ یہ انہیں گہرائی میں جاننے والوں کے لئے یقینا تکلیف دہ ہو گا لیکن ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ مستقبل کا انسان جب اپنی تاریخ مرتب کرے گا تو اس کے صفحات پر لال خان کا نام کئی دوسرے انقلابیوں کے ساتھ سنہرے حروف سے درج ہو گا۔

لال خان کی زندگی اور سیاسی جدوجہد پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور آنے والے دنوں میں مزید لکھا جائے گا۔ لیکن ہمارے لئے اہم سوال یہ ہے کہ تاریخ میں لال خان کا کردار اور ان کی سیاسی و نظریاتی میراث کیا ہے۔ وہ شعوری طور پر بے شمار دوسرے لوگوں کی طرح ایک انقلابی عہد کی پیداوار تھے۔ جنہوں نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں 1968ء کا انقلابی ابھار دیکھا۔ یہ بنیادی طور پہ دوسری عالمی جنگ کے بعد طبقاتی کشمکش کے عروج کا دور تھا۔ سماجی شعور اس بلندی پر اس کے بعد سے اب تک شاید دوبارہ نہیں گیا ہے۔ اُن حالات نے دوسرے بے شمار نوجوانوں کی طرح لال خان کی شخصیت پر بھی یقینا اپنا نقش ثبت کیا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بہت کم عمر میں انقلابی نظریات کی طرف راغب ہو گئے اور ان کا زمانہ طالب علمی ضیا آمریت کے خلاف بھرپور مزاحمت، جس میں ان کی تعلیم، کیرئیر اور جان تک کو خطرہ لاحق ہو گیا، سے عبارت ہے۔ لیکن پھر صرف ایک ڈیڑھ دہائی بعد تاریخ نے چین میں سرمایہ داری کو بحال ہوتے، دیوارِ برلن کو گرتے اور سوویت یونین کو ٹوٹتے بھی دیکھا۔ انقلابیوں کا اصل امتحان تو اب شروع ہوا تھا۔ جیسا کہ لینن نے کہا تھا کہ انقلابیوں کی کھری آزمائش غیر انقلابی ادوار میں ہوتی ہے۔ اور یہ صرف غیر انقلابی نہیں بلکہ ردِ انقلابی دور تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب مارکسزم اور سوشلزم کا کوئی نام لیوا ڈھونڈے سے ملنا مشکل ہو گیا تھا۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں سارا سٹالنسٹ بایاں بازو ٹوٹ کے بکھر گیا۔ پارٹیاں تحلیل ہو گئیں۔ رہنماؤں نے راہِ فرار اختیار کر لی۔ کارکنان مایوس ہو گئے۔ ایک ہُو کا عالم تھا جس میں دوبارہ سوشلسٹ انقلاب کی آواز گونجی اور کئی دہائیوں تک گونجتی رہی تو وہ پھر لال خان اور ان کے مٹھی بھر ساتھیوں کی ہی تھی۔ یوں لال خان کوئی چھوٹا انسان نہیں تھا جسے حالات نے بڑا بنا دیا ہو بلکہ وہ ایسے حالات میں اپنے دیوہیکل اور بلند قامت سیاسی وجود کیساتھ کھڑا رہا جن میں بائیں بازو کے بڑے بڑے رہنما‘ بونے بن کے منظر عام سے غائب ہو گئے تھے۔ وہ ایک انقلابی معروض کا نہیں بلکہ رجعتی اور ردِ انقلابی معروض کا انقلابی تھا۔ وہ ایک بانجھ عہد کا زرخیر انسان تھا جس کی میراث مارکسزم کے انتہائی گہرے ادراک اور سمجھ بوجھ پر مبنی ہے۔

اگر غور کیا جائے تو کامریڈ لال خان اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے جنوب ایشیائی تناظر میں مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی کے نظریات کا نچوڑ اپنے شاگردوں کے لئے چھوڑ کے گئے ہیں۔ لیکن وہ کئی غیر معمولی ذاتی اور انفرادی خوبیوں کے بھی حامل تھے۔ لال خان وہ تاریخی نقطہ تھا جہاں بے مثال شفقت، توانائی، بیباکی، عاجزی، لگن اور جرات جیسی شخصی خاصیتوں اور مارکسزم کے نظریات پر عبور کے خطوط ایک دوسرے کو منقطع کرتے تھے۔ مارکسی نقطہ نظر سے دیکھیں تو لال خان کو منفی کر دینے سے بالخصوص بعد از تقسیم کے برصغیر کے سماجوں کا تجزیہ، تناظر اور انقلابی لائحہ عمل سٹالنسٹ مغالطوں اور اصلاح پسندی میں زائل ہو کے رہ جائے گا۔ نظریاتی طور پر انہوں نے ٹراٹسکی کے غیر ہموار اور مشترک ترقی اور انقلابِ مسلسل کے نظریات کو جس طرح جنوب ایشیائی معاشروں پر منطبق کیا اس کی کوئی دوسری مثال ملنا محال ہے۔ اپنے اس غیر متزلزل سائنسی یقین کو انہوں نے انقلابیوں کی نئی نسل تک پوری انقلابی ذمہ داری سے منتقل کیا کہ ایک سوشلسٹ انقلاب ہی پچھڑے ہوئے خطوں پر کھینچی گئی سامراجی لکیریں مٹا سکتا ہے اور انہیں پسماندگی اور افلاس سے نکال کر تاریخی طور پہ آگے بڑھا سکتا ہے۔ تنظیمی طور پہ وہ پراپیگنڈا اور پارٹی کی تعمیر میں مروجہ اداروں کے استعمال کے لینن اسٹ طریقہ کار کو نئی بلندیوں پہ لے گئے۔ تنظیم سازی کے عمل کو اس اعلیٰ ثقافتی معیار سے روشناس کروایا جہاں ڈسپلن رضاکارانہ ہونے کے باوجود آہنی مضبوطی کا حامل ہو جاتا ہے۔ پاکستان جیسے معاشروں میں قومی سوال جیسے پیچیدہ مسائل پر مارکسی نقطہ نظر کو ایک نیا نکھار دیا۔ ان کا فنِ خطابت اس لئے بھی مسحور کن تھا کہ سب سے پہلے وہ خود اپنی بات پہ بھرپور انداز سے قائل ہوتے تھے۔ کامریڈ لال خان کسی انقلاب کی قیادت تو نہ کر سکے لیکن انقلاب کی قیادت تیار ضرور کر گئے۔ وہ کئی دہائیوں تک تاریک وقتوں میں ایک چراغ کی طرح طبقاتی جدوجہد کے راستے کو منور کرتے رہے۔ ایک ایسا چراغ جو آنے والی کئی دہائیوں تک بھی انقلابیوں کی راہ گزر کو روشن کرتا رہے گا…