ڈاکٹر طاہر شبیر

4 اپریل 1979 ء کو پاکستان کے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعدمارشل لا اور آمریت سے دل میں جو نفرت پیدا ہوئی تھی وہ آج تک موجود ہے۔ اگست 1983ء میں قائد اعظم میڈیکل کالج بہاولپور داخلہ ملا تو وہاں بائیں بازو کے طلبہ کی تنظیم ”ایگلز“ (Eagles) کے نام سے کام کر رہی تھی۔ میں نے بھی اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر”ایگلز“ میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس تنظیم کے سبھی دوست مارشل لا، آمریت اور مذہبی انتہا پسندی کے خلاف کام کرتے تھے۔

”ایگلز“ میں کام کرنے والے دوستوں کی اکثر اسلامی جمعیت طلبہ سے مُڈبھیڑ ہوتی تھی کیونکہ اسلامی جمعیت طلبہ ہر تفریحی اور تعمیری سرگرمی کی راہ میں رکاوٹ بنتی تھی۔ ایک دفعہ پنجاب کے مارشل لائی گورنر غلام جیلانی نے بہاولپور کا دورہ کیا تو ”ایگلز“ کے طلبہ نے اس کی جیپ پر گندے انڈے اور گملے پھینکے جس کے نتیجے میں بہت سے طلبہ کو گرفتار کر لیا گیالیکن ان گرفتاریوں سے طلبہ کے حوصلے کبھی پست نہیں ہوئے۔

1988ء میں فائنل ایئر ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کر کے لاہور آیا تو سٹوڈنٹ لائف ختم ہو گئی اور عملی زندگی کا آغاز ہوا۔ پانچ سال لاہور سے باہر رہنے کی وجہ سے لاہور میں بائیں بازو کے دوستوں سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ 1991ء میں روس میں کمیونزم کا خاتمہ ہوا تو ہم بھی مایوس ہو کر گھروں میں بیٹھ گئے اور اپنے آپ کو گھریلو کاموں تک محدود کر لیالیکن ان دنوں میں بھی کتابیں پڑھنے کا شوق کبھی کم نہ ہوا۔ 2001ء میں جب حمید لطیف ہسپتال کے بچہ وارڈ میں بطور چائلڈ سپیشلسٹ کام شروع کیا تو وہاں کینٹین پر کام کرنے والے چند کشمیری نوجوانوں سے تعلقات استوار ہوئے۔ اس کینٹین کا ٹھیکہ کشمیر سے آئے کامریڈ مشتاق کے پاس تھاجو اکثر میرے پاس ڈاکٹرز آفس میں ملنے آتا تھا۔ مشتاق نے 2002ء میں الحمرا ہال نمبر 1 میں ہونے والی طبقاتی جدوجہد کی سالانہ کانگریس میں شامل ہونے کی دعوت دی اور میں پہلی دفعہ اس کانگریس میں شریک ہوا۔ کانگریس میں طبقاتی جدوجہد کے کامریڈوں سے ملاقات ہوئی تو ملاقاتوں کا یہ سلسلہ آج تک ختم نہیں ہوا۔ سالانہ کانگریس پہلے الحمرا ہال نمبر 1 میں ہوا کرتی تھی لیکن ممبران کی تعداد بڑھی تو ایوانِ اقبال میں ہونا شروع ہوئی۔

سالانہ کانگریس مارچ کے مہینے میں ہفتہ اور اتوار کو دو دن صبح دس سے شام چھ بجے تک جاری رہتی ہے۔ درمیان میں ایک سے دو کھانے کا وقفہ ہوتا ہے۔ یوں تو کانگریس میں سبھی مقررین اعلیٰ پائے کی تقاریر کرتے ہیں لیکن جب ڈاکٹر لال خان کی تقریر شروع ہوتی تو تمام کامریڈز ہمہ تن گوش ہو کر سنتے تھے۔ ڈاکٹر لال خان کی تقریر کا دورانیہ ایک سے دو گھنٹے تک ہوتا تھا لیکن سننے والے کبھی اُکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتے تھے جس کی وجہ شاید یہ تھی کہ ڈاکٹر صاحب بغیر کسی خوف کے سچ بولتے تھے اور لوگ ہمیشہ سچ کو غور سے سنتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب جرنیلوں اور ججوں کے غیر آئینی اقدامات پر کھل کر تنقید کرتے تھے۔

اس کے علاوہ ڈاکٹر لال خان عالمی سامراجی اور استحصالی طاقتوں کا بھی وسیع علم رکھتے تھے اور کانگریس میں شامل نوجوانوں کو ان کے ظلم و استبداد سے آگاہ کرتے تھے۔ ہال میں موجود کامریڈز دل کھول کر ڈاکٹر صاحب کی تقریر پر داد دیتے تھے۔ شاید لوگ اس سچے اور کھرے انسان کی باتیں سننے کا ہی انتظار کرتے تھے۔ ایسے سچے اور کھرے انسان آج کے دور میں کہاں ملتے ہیں!

ڈاکٹر لال خان کا رویہ اپنے کامریڈز کے ساتھ ہمیشہ دوستانہ ہوتا تھا۔ اُنہیں سٹیج پر بیٹھنے کا شوق نہیں تھا۔ سالانہ کانگریس ہوتی تو ہمیشہ جونیئر کامریڈز کو سٹیج پر بٹھا کر خود سب ساتھیوں کے ساتھ کرسیوں پر بیٹھتے تھے۔ میں نے اکثر ان کو ہال کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر نوجوانوں کی تقاریر سنتے دیکھا۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ بولنے کا موقع دیا جائے تاکہ ان میں خود اعتمادی اور نظریاتی پختگی پیدا ہو۔

انقلابی تنظیموں کے ساتھ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ کچھ ممبران غداری کر کے تنظیموں سے الگ ہو کر تنظیم کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ میری رائے میں ایسا کرنے والے دوست ریاستی اداروں کی سازشوں کا شکار ہوتے ہیں۔ طبقاتی جدوجہد کے ساتھ بھی متعدد بار ایسا ہوا کہ تنظیم کے ساتھ کام کرنے والے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر تنظیم سے علیحدہ ہو گئے لیکن اس سے تنظیم کو کبھی زیادہ فرق نہیں پڑا۔ تنظیم تن آور درخت کی طرح پھلتی پھولتی رہی اور علیحدہ ہونے والے درخت سے جھڑنے والے پتوں کی طرح سوکھ کر ختم ہوگئے۔

ڈاکٹر لال خان این جی اوز میں کام کرنے والے لوگوں کو مارکسسٹ نہیں مانتے تھے۔ اُن کا واضح موقف تھا کہ سرمایہ دارانہ ملکوں اور امریکہ کے تعاون سے چلنے والی این جی اوز کمیونزم اور مزدور طبقے کی خیر خواہ کیسے ہو سکتی ہیں۔ یہ لوگ سوشلزم کے نام پر منافقت کرتے ہیں۔

فلاحی ریاست کے بارے میں کہتے تھے کہ فلاحی ریاست لوگوں کی بھوک کو ختم کرتی ہے غربت کو نہیں۔ فلاحی ریاست لوگوں کو ان کا حق نہیں دیتی خیرات دیتی ہے۔ فلاحی ریاست طبقات کے درمیان مصالحت کی کوشش کرتی ہے طبقات کا خاتمہ نہیں چاہتی۔ جبکہ سوشلزم ایک ایسا نظام ہے جس میں طبقات کا خاتمہ ہوتا ہے اور ایک غیر طبقاتی معاشرہ قائم ہوتا ہے۔

مارکسسٹ کبھی مایوس نہیں ہوتے۔ ہمیں بھی اپنی کامیابی پر پورا یقین ہے۔ آج ہم عہد کرتے ہیں کہ ڈاکٹر لال خان کے مشن کو اُن کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے مارکسزم کی کامیابی اور طبقاتی سماج کے خاتمے تک جاری رکھیں گے۔

لال خان کے نام میری ایک نظم

اٹھا کے سر کو وہ اونچا کھڑا تھا
ہمیشہ ڈٹ کے دشمن سے لڑا تھا
ہر اِک زنجیر اُس نے توڑ دی تھی
اب اُس کی جیت کا امکاں بڑا تھا
لڑے تھے وہ بھی مل کر ساتھ اُس کے
غلامی کا جنہیں چسکا پڑا تھا
کبھی نہ حوصلہ ہارا تھا اُس نے
اگرچہ وقت بھی اُس پر کڑا تھا
خبر تھی یہ بھی ہر مسند نشیں کو
بہت مخلص تھا جو اُس کا دھڑا تھا
بحث میں مات دیتا تھا سبھی کو
عدو سے واسطہ جب بھی پڑا تھا
سبھی سائے میں اُس کے بیٹھتے تھے
وہ اِک برگد سرِ صحرا کھڑا تھا…
مخالف بھی یہ طاہرؔ جانتے تھے
کہ وہ رستے سے واپس کب مڑا تھا