راجر سِلور مین
ترجمہ: حسن جان
لال خان (جسے میں تنویر گوندل کے نام سے جانتا تھا) کی نا گہانی موت سے نہ صرف پاکستان اور دنیا بھر میں محنت کشوں کی جدوجہد کو دھچکا لگا ہے بلکہ مجھے ذاتی طور پر بھی بہت صدمہ پہنچا ہے۔ ہم چالیس سال پہلے ملے تھے۔ میں اسے اُس وقت سے ایک اتحادی، ایک کامریڈ اور وفادار دوست کے طور پر جانتا ہوں۔
تنویر کی زندگی میں اکثر یہ ہوتا تھا کہ اس کے ذاتی حالات اٹوٹ طور پر تاریخ کے دھارے کے ساتھ جڑے ہوتے تھے۔ اس لیے یہ کوئی بے محل بات نہ تھی کہ جب ہم پہلی دفعہ 1982ء میں ملے تووہ ایک انتہائی ڈرامائی حالات تھے جو کسی سنسنی خیز سیاسی فلم کا منظر لگتا تھے۔ تنویر نیدرلینڈ میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے اپنے دوست فاروق طارق اور سولہ دیگر پاکستانی کامریڈوں کے ساتھ وحشی ضیا آمریت کے خلاف انتھک جدوجہد کر رہے تھے اور ایک انقلابی رسالہ ”جدوجہد“ شائع کر تے تھے۔ ہوا یوں کہ ایمسٹرڈیم میں پاکستان اور نیدرلینڈ کے درمیان ہاکی میچ ہو رہا تھا۔ براہ راست نشر کرنے والے ٹی وی کیمروں کے سامنے کامریڈوں نے حکومت مخالف احتجاجی بینر آویزاں کیے جسے ملک میں لاکھوں ناظرین نے دیکھا۔ ضیا کی حکومت اس جرات مندانہ اقدام کا انتقام لینے کے لیے پاگل ہو رہی تھی اور اپنے جاسوسوں کے ذریعے تمام اٹھارہ کامریڈوں پر ایک پاکستانی ہوائی جہاز کو ہائی جیک کرنے کی سازش کا بیہودہ الزام لگا کر گرفتار کروا دیا۔ ملک بدری، جیل، تشدد اور ممکنہ پھانسی کے پیش نظر انہوں نے مزدور تحریک میں حمایت اور یکجہتی حاصل کرنے کے لئے مہم چلائی۔ اس طریقے سے وہ برطانوی مارکسی جریدے ”ملیٹینٹ“ اور کمیٹی فار ورکرز انٹرنیشنل کے ساتھ رابطے میں آئے‘ جس کا میں اس وقت سیکرٹری ہوتا تھا۔ جلد ہی تمام تر الزامات کا پردہ فاش ہوا۔ تمام کامریڈوں کو رہا کردیا گیا اور ڈَچ حکام نے ان سے معذرت خواہی کی۔ بعدازاں یہ پورا گروپ ’CWI‘ میں شامل ہوگیا۔
ضیا کی آمریت کے بعد کی دہائی میں ’CWI‘ نے پورے برصغیر میں بڑا مرکز تعمیر کیا۔ 1988ء میں لال خان اور فاروق نے اپنے ملک میں انقلابی تنظیم کی ٹھوس بنیادیں تعمیر کرنا شروع کیں اور چند سالوں میں ٹریڈ یونینوں، کسان تنظیموں اور طلبہ میں بڑی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس دور میں، میں پورے برصغیر بشمول سری لنکا اور ہندوستان کے تمام علاقائی مراکز میں کامریڈوں کے ساتھ کام کر رہا تھا اور مجھے پاکستان میں کامریڈوں سے ملنے کا اعزاز حاصل ہوا اور ان کی روزمرہ کی جدوجہد میں قریب سے شریک ہونے کا بھی موقع ملا۔ ان دنوں میں نے لاہور میں فاروق اور لال خان کے گھروں میں قیام کیا اور مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ لال خان مجھے اپنے آبائی گاؤں لے گیا اور ہم شکار سے خوب لطف اندوز ہوئے۔
1991ء میں ’CWI‘میں سپلٹ ہوگئی۔ اس سے عالمی سطح پر مارکسی قوتوں کو شدید نقصان ہوا اور پاکستان میں لال خان اور فاروق کے راستے عارضی طور پر الگ ہوگئے۔ لال خان کی سیاسی قیادت میں ٹراٹسکی ازم کی ایک پائیدار نظریاتی بنیاد تعمیر ہوئی جس کا اظہار بالشویک انقلاب کے سوسال مکمل ہونے پر ٹراٹسکی کی کتاب ”انقلاب روس کی تاریخ“ کے شاندار اردو ترجمے میں ہوا۔ اسی اثنا میں فاروق پیٹر ٹاف کے’CWI‘کے اکثریتی دھڑے کے ساتھ کام کرتا رہا اور قیادت کے ساتھ اصولی اختلاف بھی رکھتا رہا۔
میری اپنی سیاسی سمت بھی کم و بیش اسی راستے پر چلی۔ میں نے سپلِٹ کی مخالفت کی جسے میں غیر ضروری سمجھتا تھا اور کچھ عرصے اکثریتی دھڑے کا رسمی ممبر تھا۔ نئی صدی کے آغاز پر ’CWI‘ کے سابق ممبران کے ساتھ مل کر ہم نے ورکرز انٹرنیشنل نیٹ ورک (WIN)بنایا۔
بائیں بازو میں سیاسی اختلافات سے ذاتی تعلقات شاذ و نادر ہی بچ پاتے ہیں۔ لال خان کی سچائی اور اصول کو یہ شاندار اعزاز حاصل ہے کہ سیاسی اختلافات کے اس پورے عرصے میں اس میں ذرہ برابر بغض یا رقابت نہیں تھی۔ اس کے برعکس اس نے فاروق اور مجھ سے دوستی اور باہمی احترام کا رشتہ برقرار رکھا اور یہ تعلق قائم رہا۔ مثلاً مجھے آج بھی یاد ہے جب ہم ہمارے مشترکہ استاد ٹیڈ گرانٹ کے جنازے پر 2008ء میں ملے تو لال خان نے گرم جوشی سے میرا استقبال کیا۔
مجھے سیاسی اور ذاتی طور پر واقعی خوشی ہوئی جب لال خان نے 2017ء کی شروعات میں مجھ سے دوبارہ رابطے استوار کیے۔ پچھلے تین سال سے میں اور لال خان فون، ای میل اور ملاقاتوں کے ذریعے رابطے میں رہے۔ اس دوران لال خان دو دفعہ لندن آئے اور ہم نے کئی شامیں گہری بحث و مباحثوں میں گزاریں۔ میں نے اسے لیبر پارٹی کے مقامی سرگرم کارکنان اور ایک ایرانی مارکسسٹ سے ملوایا۔ میں لندن میں اس کی فیملی سے بھی ملا۔ نومبر 2018ء میں مجھے پاکستان میں ”طبقاتی جدوجہد“ کی سالانہ کانگریس میں آنے کی دعوت دی گئی جسے میں نے اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہوئے قبول کیا اور 1991ء کے بعد پہلی دفعہ پاکستان آیا۔ یہ کانگریس لال خان کی زندگی بھر کی عظیم جدوجہد کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
پاکستان کو پہلے سے زیادہ بنیاد پرستی کی لعنت کا سامنا ہے جو برطانوی سامراج کی باقیات میں سے ہے اور جسے بٹوارے کے وقت آل انڈیا نیشنل کانگریس اور مسلم لیگ نے خوب بڑھاوا دیا۔ طبقاتی جدوجہد کی کانگریس سے چند دن پہلے پورا ملک بنیاد پرست غنڈوں کے ٹولوں کے احتجاج کی وجہ سے جام ہوگیا تھا۔ سڑکیں بند، فون سگنل بند‘ غرضیکہ پورا ملک رک گیا تھا۔ ان تمام تر مشکلات کے باوجود پورے پاکستان سے 1500 سے زائد کامریڈ کانگریس میں شریک ہوئے جو ان کی جانفشانی اور قربانی کا غماز ہے اور یہ سب کچھ کامریڈ لال خان کی وجہ سے ہی ممکن ہوا۔
لا ل خان کی شخصیت کے اثرات اس پوری کانگریس میں نظر آرہے تھے۔ ہال میں لگے ہوئے پوسٹروں میں، مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی کی تصویروں میں، چیئر کی شاندار قابلیت میں، سکیورٹی اور نظم و ضبط میں، انقلابی نغموں اور شاعری میں، شرکا کے اس عزم و ہمت میں جس سے وہ مذہبی غنڈوں کا مقابلہ کرکے ہال تک پہنچے، شرکا کی پرولتاری ساخت میں اور اس بات میں کہ جن کامریڈوں نے وہاں بات کی وہ اپنے اپنے علاقوں کے لیڈر تھے، خواتین اور نوجوان شرکا کی تعداد میں اور سب سے بڑھ کر مباحثوں کے اعلیٰ سیاسی معیار اور انقلابی جوش و خروش میں۔ جیساکہ کانگریس کے اختتامی کلمات میں، میں نے کہا تھا (اور میں اپنے ایک ایک لفظ پر یقین رکھتا ہوں)”کانگریس کے دوران بعض اوقات مجھے ایسے محسوس ہوتا تھا کہ میں ٹراٹسکی کی کتاب ’انقلابِ روس کی تاریخ‘ کے صفحات میں کہیں گم ہوگیا ہوں یا بالشویک پارٹی کی کانگریس میں شریک ہوں۔ “
لال خان کی موت کی بھیانک خبر کی بدشگون پیش بینی اس کانگریس کے دوران ہی ہو رہی تھی۔ میں اس دوران لال خان اور اس کی فیملی کے ساتھ مقیم تھا اور یہ واضح تھا کہ اس کی صحت ٹھیک نہیں ہے۔ وہ”1968-69ء کے انقلاب کے پچاس سال“ پر مبنی ایک سیشن کو سم اپ کرنے والا تھا لیکن اس سے پہلی رات کو ہی اسے ہسپتال میں داخل کر دیا گیا تھا اور وہ کانگریس نہیں آسکا۔ لیکن لال خان کی پچھلے چالیس سال کی جدوجہد اور میراث کی عظمت کا سب سے بڑا ثبوت یہ تھا کہ اس کی غیر حاضری کے باوجود خلا پیدا نہیں ہوا اور کانگریس نہیں رکی۔ یہ کامریڈوں کے اس اعلیٰ معیار کا غماز ہے جسے پروان چڑھانے میں لال خان نے اہم کردار ادا کیا تھا۔
بلاشبہ وہ ایک عظیم انسان تھا۔ وہ ایک دوستانہ، دل آویز، کرشماتی شخصیت اور حس مزاح کا مالک انسان تھا۔ لندن کے سینٹ پال کیتھڈرل کے فرش پر اس کے معمار کرسٹوفر رین نے کندہ کاری سے لکھا ہے، ”اگر تم میری یادگار دیکھنا چاہتے ہو تو اپنے اردگرد دیکھو۔ “ لال خان کے بارے میں بھی یہی کہا جاسکتا ہے۔ انقلابی تحریک کی ہر حرکت اور رو میں لال خان اور اس کی میراث کو یاد رکھا جائے گا۔