اویس قرنی
نسل انسان بڑی تباہ کاریوں، جنگوں، قدرتی آفات، وباؤں اور بیماریوں سے لڑ کر آج یہاں کھڑی ہے۔ تمام انسانی تاریخ کی مجتمع شدہ محنت نے انسان کو اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ اس کرہ ارض سے باہر نکل کر نئے سیاروں پر زندگی کے آثار ڈھونڈ رہا ہے۔ خلاؤں کی حدود کو عبور کرتے ہوئے اس نے پہلے چاند اور اب مریخ پر فطرت کے خلاف اپنے عزم کے جھنڈے گاڑے ہیں۔ لیکن ٹیکنالوجی کی اس بے نظیر طاقت اور ترقی کے باوجود آج پوری انسانیت ایک وائرس، جو اتنا چھوٹا ہے کہ عام خوردبین سے نظر نہیں آتا اور جسے پوری طرح سے جاندار بھی نہیں کہا جا سکتا، کے آگے بے بس نظر آتی ہے۔ درحقیقت اس نوول کورونا وائرس نے اس سرمایہ دارانہ نظام کی اہلیت کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ سرمائے کا یہ نظام اس وبا کے سامنے گھٹنے ٹیک چکا ہے۔ بڑی بڑی طاقتیں آج زیر ہو گئی ہیں اور سماج میں ایک بے یقینی و بے چینی کی فضا ہے جو اضطراب میں بدلتی جا رہی ہے۔
اب یہ طے ہے کہ منڈی کی معیشت میں ایسی آفتوں کے خلاف نہیں لڑا جا سکتا اور یہ بھی طے ہے کہ پوری دنیا کا حکمران طبقہ انسانیت کی بجائے اپنے منافعوں کو بچانے کی تگ و دو کر رہا ہے۔ اس وبا میں لوگوں کے طرزِ عمل کو دیکھیں تو سرمایہ دارانہ سماج کا سب سے بڑا المیہ ’غیر سنجیدگی‘معلوم ہوتا ہے جو اسی نظام کی دین ہے۔ انتشار اور نفسا نفسی پر مبنی ایک نظام میں انسانوں سے سنجیدگی کی توقع کی بھی کیسے جا سکتی ہے۔ یہ غیر سنجیدگی حکمرانوں سے لے کے عوام کی وسیع پرتوں تک میں یکساں نظر آتی ہے جس کی وجہ سے انسانیت کو درپیش یہ سنگین مسئلہ بھی فروعی اور بے معنی بحثوں کی نذر ہو رہاہے۔ لیکن دوسری طرف گرزرتا ہوا ایک ایک لمحہ کئی زندگیوں کو لقمہ اجل بنا رہا ہے۔ اس وقت دنیا کا سب سے طاقتور حکمران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس وائرس کو ”چینی وائرس“ قرار دے رہا ہے تو دوسری جانب چین، جہاں سے یہ وبا پھوٹی ہے، کے حکمران اس وائرس کو امریکہ کی لیبارٹریوں میں تیار کردہ بتا رہے ہیں۔ موجودہ حالت میں سامراجی قوتوں کی یہ چپقلش ایک بھونڈا مذاق معلوم ہوتی ہے۔
جہاں ترقی یافتہ ممالک کی یہ صورتحال ہے وہاں تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک ایک بند گلی میں داخل ہو چکے ہیں۔ ایک ایسا دشمن ہے جس کو بندوق اور بم سے مٹایا نہیں جا سکتا۔ اس دشمن کا مقابلہ صرف بلند سماجی شعور، ثقافتی معیار اور جدید ترین سماجی انفراسٹرکچر سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن منافعے کے اس نظام میں یہ سب ممکن ہی نہیں ہے۔ سماجی شعور اور معیار زندگی کا براہ راست تعلق ہو تا ہے۔ جہاں آدھی سے زائد آبادی 2 ڈالر یومیہ سے کم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہو اور لوگوں کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہ ہو‘ وہاں بلند ثقافتی معیار اور حفظانِ صحت کے طریقہ کار بے معنی ہو کے رہ جاتے ہیں۔ پانی کی لائنوں میں جب گٹر کی آلائشوں کی ملاوٹ ہو رہی ہو تو ہاتھ دھونے سے صاف نہیں بلکہ پہلے سے زیادہ غلیظ ہو جاتے ہیں۔ جہاں ایک کمرے کے مکان میں آٹھ آٹھ لوگ (یا کئی صورتوں میں اس سے بھی زیادہ) اکٹھے گزر بسر کرتے ہوں وہاں خود تنہائی (Self Isolation) بھی ایک عیاشی بن جاتی ہے۔ جہاں آبادی کی ایک بڑی اکثریت کی روٹی روزانہ کی اجرت پر منحصر ہو وہاں بھوک وبا سے کہیں بڑی وحشت بن کر آشکار ہوتی ہے۔
ہسپتالوں میں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کورونا وائرس سے بچاؤ کی چیزیں اور ضروریات کا دوسرا سامان مارکیٹوں سے غائب ہو رہا ہے۔ ذخیرہ اندوزی عروج پر ہے۔ لوگوں کو زبر دستی گھروں میں کتنے دنوں تک بند رکھا جا سکتا ہے؟ بھوک انہیں نکالے گی اور جب یہ نکلیں گے تو حالات پہلے سے کہیں زیادہ پرانتشار ہو جائیں گے۔ کم و بیش اسی انداز میں سرمایہ داری کے سب سے اہم جریدے ’اکانومسٹ‘ نے غریب ممالک کے حکمرانوں کو تنبیہ کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان جیسے ممالک کی خستہ حال سرمایہ داری اس وبا کا مقابلہ کرنے سے بالکل ہی قاصر ہے (ترقی یافتہ ممالک میں بھی حالات بہت پتلے ہیں)۔ اس لئے حیلے بہانے کر کے بحث و تکرار کے ذریعے وقت کی مہلت لی جا رہی ہے۔ لیکن وقت بڑا بے رحم ہے۔ یہاں اس مہلت کا مطلب ہزاروں زندگیوں کی بربادی ہے۔ لیکن یہاں کے حکمران اپنے طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لئے ہزاروں نہیں لاکھوں زندگیوں کو روندنے کے درپے ہیں۔
ایک طرف کورونا کی وبا ہے تو دوسری جانب ملائیت کی ڈھٹائی پر مبنی رجعت نے حالات کو اور گھمبیر کر دیا ہے۔ ایک طرف لوگوں کو گھروں میں محصور کرنے کے لئے پولیس سڑکوں پر تشدد کر رہی ہے تو دوسری جانب پوری ریاست ملاؤں کے اجتماعات کو رکوانے سے قاصر نظر آتی ہے۔ یہ ملائیت اسی نظام کی ناگزیر پیداوار ہے جسے دہائیوں یہاں کے حکمرانوں نے پال پوس کر اس عفریت میں تبدیل کیا ہے کہ کوئی منطقی بات کرنا بھی انسان کی جان کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔
دنیا بھر کے حکمران کرفیو جیسے مکمل لاک ڈاؤن سے اجتناب کر رہے ہیں۔ کیونکہ ایک مکمل لاک ڈاؤن پہلے سے مفلوک الحال معیشت کو بالکل منہدم کر دے گا۔ دوسری طرف کروڑوں لوگ روزگار سے محروم ہو رہے ہیں اور سرمایہ دارانہ ریاستوں میں اتنی سکت ہی نہیں کہ بیروزگار ہونے والوں کے لئے کسی الاؤنس کا بندوبست کر سکیں۔ یہ بندوبست کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لئے لازم ہے کہ مالیاتی اداروں، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور کارپوریشنوں کو فوراً قومی تحویل میں لیا جائے۔ اسلحہ بارود کی فیکٹریوں کو بند کرتے ہوئے انسانی فلاح و بہبود اور ریسرچ پر رقوم خرچ کی جائیں۔ لیکن اس کے لئے سرمایہ داری کے بندھنو ں کو توڑنا ہو گا۔ جو کہ ایک پرولتاری انقلاب ہی کر سکتا ہے۔
پاکستان میں تو پہلے سے ہی موجودہ عوام دشمن حکومت نے آئی ایم ایف کے سامراجی منصوبوں کو نافذالعمل کیا ہوا تھا۔ ڈاؤن سائزنگ، نجکاری، بیروزگاری اور مہنگائی کے خلاف سطح کے نیچے بغاوت ابل رہی تھی۔ کئی اداروں میں مختلف ایشوز پر محنت کشوں کی تحریکیں بھی چل رہی تھیں۔ حالیہ کورونا بحران نے وقتی طور پر ان تحریکوں کو دبایا ضرور ہے لیکن یہ تضادات اب پہلے سے کہیں زیادہ شدت اختیار کریں گے۔ لوگ فی الوقت ڈرے ہوئے ہیں۔ لیکن مالی حالات جتنی تیزی سے خراب ہو رہے ہیں اس کے پیش نظر محنت کش طبقہ خاموش نہیں رہے گا۔ ابھی زندہ رہنے کا سوال دیگر تمام سوالوں پر حاوی ہے لیکن پھر زندہ رہنے کے لئے کورونا سے بچنا ہی کافی نہیں بلکہ روٹی بھی چاہئے جو بیشتر گھروں سے غائب ہوتی جا رہی ہے۔
کم و بیش ایسی ہی غیر معمولی صورتحال کا سامنا لینن اور بالشویک پارٹی کو رہا ہوگا جب پہلی عالمی جنگ انسانیت پر مسلط کی گئی تھی۔ ہر طرف قتل و غارت اور بے یقینی کی کیفیت نے لوگوں کو گھیر رکھا تھا۔ ان حالات میں اصلاح پسندوں نے عالمی جنگ میں اپنے اپنے ملکوں کی بورژوازی کی حمایت کا اعلان کیا تھا جس کے خلاف لینن نے ایک ناقابل مصالحت جنگ لڑی۔ دوسری انٹرنیشنل ٹوٹ کے بکھر گئی۔ جنگ کے اواخر میں روس میں انقلاب پھوٹ پڑا۔ لینن نے اسی وقت امن، زمین اور روٹی کے نعرے کے ذریعے سوشلسٹ پروگرام پیش کیا۔ جنگ سے تباہ حال ملک میں اس نعرے کی اہمیت کو آج لاک ڈاؤن کی کیفیت میں ہم کہیں زیادہ بہتر طور پہ سمجھ سکتے ہیں۔ آج ایک بار پھر روٹی کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ جس کے گرد آنے والے دنوں میں انتہائی جارحانہ نوعیت کے احتجاج شروع ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں ساری صورتحال یکسر بدل جائے گی۔ محنت کشوں کو آج بھی اپنی بقا کی لڑائی خود لڑنا ہو گی۔ اس نظام کے پالیسی سازوں کے پاس ان پر ترس کھانے کی گنجائش بھی نہیں ہے۔ حکمرانوں کے خلاف نفرت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ سماجی بے چینی اور غم و غصہ ایک دھماکہ خیز انداز سے پھٹ سکتا ہے۔ ایسی کیفیت انقلابیوں کے لئے بڑا امتحان بن جائے گی۔