اویس قرنی
ایک انتہائی بے تکی بات زباں زد عام ہے کہ کورونا وبا طبقات سے ماورا ہو کر پھیل رہی ہے۔ کورونا وائرس میں تو شاید یہ صلاحیت نہ ہو کہ وہ اپنے شکار میں ترجیحات ترتیب دے سکے لیکن اس کے شکار ہونے والوں کے پاس لازماً یہ صلاحیتیں ہو سکتی ہیں کہ اس وبا کا کسی حد تک مقابلہ کیا جا سکے۔ یہی صلاحیتیں طبقاتی نوعیت کی حامل ہیں۔ حکمران طبقے اور محنت کش طبقے کے مابین صرف دولت کی خلیج نہیں ہے بلکہ اس دولت کی بدولت ہی امیر اپنے لئے ایسے حالات پیدا کر لیتے ہیں جن سے اس قسم کی وباوں سے وہ بچ جاتے ہیں اور پھر ایسی قدرتی آفات کا لقمہ اجل بھی غریب محنت کش عوام ہی بنتے ہیں۔
عالمی تحقیقاتی اداروں کے اعدادو شمار کے مطابق پاکستان کے عوام کی متوقع عمر (Life Expectency) 66 سال کے لگ بھگ ہے۔ لیکن یہ تخمینے عام عوام کے لئے لگائے گئے ہیں۔ آج تک دولتمندوں اور سرمایہ داروں کی اوسط عمر کو نہیں ناپا گیا۔ اگر آج سے ہی یہ اعدادو شمار نکالے جائیں تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ کم ازکم بھی ان کی زندگی ایک محنت کش کے مقابلے میں کئی دہائیاں زیادہ ہو گی۔ بیش بہا وسائل کی دسترس میں نہ صرف زندگی کا دورانیہ بڑھتا ہے بلکہ زندگی پر آسائش اور پر تعیش بھی ہوتی ہے۔ پھر کیا وجہ رہ جاتی ہے ان کے بیمار ہونے کی؟ ہاں دولت کی ہوس ہے اور اس کے چھن جانے کا خوف‘ جو انہیں سکون کی نیند نہیں دیتا۔
کووِڈ 19 کا مقابلہ فی الوقت صرف قوت مدافعت بڑھانے سے ممکن ہے اور قوتِ مدافعت ایک انتہائی طبقاتی نوعیت کا سوال ہے۔ محنت کش طبقے کی وسیع اکثریت کو پیٹ بھر کھانا میسر نہیں وہ قوتِ مدافعت بڑھانے والی غذایت کا اہتمام کہاں سے کریں گے۔ لاک ڈاون کے دوران کئی ممالک میں اشیائے خورود و نوش کی کمی کے باعث راشن کی دکانوں پر طویل قطاریں اس بات کا واضح اظہار ہیں کہ بھوک کسی بھی وائرس سے کہیں زیادہ مہلک ہے۔
طبقاتی اعتبار سے ایک فیصد بالائی طبقے کی زندگیوں کا تو تصور کرنا ہی محال ہے۔ اس دنیا میں ہوکر بھی یہ کسی اور دنیا کے باسی ہیں۔ ان کے کھانے کے میز پیٹ بھرنے کے لئے نہیں بلکہ پروٹین، وٹامنز، نمکیات اور دیگر ضروری جسمانی ضروریات کے حساب کتاب پر مبنی ہوتے ہیں۔ اور یہ حساب کتاب ہر فرد کا علیحدہ رکھا جا تا ہے۔ مخصوص محلول کو مخصوص وقت پر نوش کرنے کی عیاشی صرف اوپری طبقات کو ہی میسر ہے۔ سماج کی اتھاہ غربت میں رہنے والے ایسی سوچ کی عیاشی بھی نہیں رکھتے۔ یہاں تو مویشی اور انسان ایک ہی جوہڑ سے پانی پینے پر مجبور ہیں۔
مغربی کلاسیکی بورژوازی تو درکنار پاکستان کا محنت کش طبقہ تو مقامی دلال بورژوازی کی زندگیوں کو ہی تصور میں نہیں لا سکتا۔ حالیہ وبا کی ہی مثال لیں تو موجودہ حکومتی سیٹ اپ کا اہم کردار اپنے گھر والوں کے ہمراہ نیوزی لینڈ میں مقیم ہو گیا ہے۔ یہ وہی جہانگیر ترین ہے جس نے موجودہ حکومت کی تشکیل میں بنیادی زینے کا کردار اداکیا اور تحریک انصاف پر کروڑوں روپے نچھاور کر دیے لیکن پھر چند روز قبل ہی ملک سے آٹے اور چینی کے بحران میں اربوں روپوں کے منافعے بٹورکر حساب چکتا بھی کرلیا۔ نہ جانے اس جیسے کتنے سرمایہ دار نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اپنے کورونا وبا سے متاثرہ ممالک سے نکل کر دور دراز پرتعیش جزیروں پر مقیم ہو چکے ہوں گے۔
بالائی طبقے اور زیریں معاشرے کے درمیان ایک اور پرت پائی جاتی ہے جسے کامریڈ ٹراٹسکی ’پیلے آسمان‘ سے تشبیہ دیتے تھے۔ اس پرت میں سماج کے ستارے، نامور کھلاڑی، بڑے بڑے تجزیہ نگار و دانشور اور اداکار وغیرہ ہوتے ہیں۔ جن میں بظاہر سماج کی تکلیفوں کا بڑا درد دکھایا جاتا ہے۔ کورونا کی اس وبا میں بھی اس پرت کو بڑا سرگرم دکھایا جا رہا ہے۔ حقیقت میں ان کا سماجی تکالیف سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ لاک ڈاون کے اس دور میں یہ ستارے اپنے پر آسائش گھروں سے سوشل میڈیا کے ذریعے سادگی، خیرات اور توبہ کا درس دے رہے ہیں۔ بھارتی کرکٹر ویرات کوہلی جس پانی سے اپنی پیاس بجھاتا ہے اس کی قیمت تقریباً 1400 پاکستانی روپے فی لیٹر بنتی ہے۔ جبکہ عالمی بینک کے تخمینوں کے مطابق 80 فیصد بھارتی آبادی 2 ڈالر یومیہ سے بھی کم پرزندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ حتیٰ کہ ہر 3 میں سے ایک بھارتی شہری 1 ڈالر یومیہ پر زندگی گزار رہا ہے۔ یہ صرف ایک مثال ہے۔ ہر بڑے اداکار اور کھلاڑی کے لئے غذائیت کے ایکسپرٹ کھانے کا تعین الگ سے کرتے ہیں۔ ایسے ماہرین ان سٹارز کے یہاں ایک مکمل اور مستقل نوکری کی جگہ بنا چکے ہیں۔ ان کے گھر‘ گھر نہیں محلات ہیں جو ہر قسم کی آسائش سے آراستہ ہیں۔ ایسے سماجوں میں طبقات سے ماورا کوئی وبا یا بلا کیسے حملہ آور ہو سکتی ہے؟ پاکستان میں بھی بڑے بڑے اینکروں اور اداکاروں کی زندگیاں ان سے مختلف نہیں ہیں۔ لاہور کی مشہور فیشن ڈیزائنر کے حالیہ ویڈیو پیغام میں اس کے گھر کے مناظر کم ازکم پاکستانی طرز تعمیر تو معلوم نہیں ہوتے تھے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ جہاں ریاستی اہلکار عام جگہوں پر نوجوانوں کے اکٹھا ہونے پر تضحیک آمیز سرزنش کر رہے ہیں وہاں اس ڈیزائنر کے شوہر کو اعلیٰ ریاستی اہلکار تھانے سے باعزت باہر نکلوا گئے جس نے اپنے خانسامہ کو کورونا کی تشخیص پر گھر سے باہر نکال کر ہزاروں لوگوں کی زندگیوں کو داو پر لگا دیا تھا۔ اس پیلے آسمان میں مذہبی پیشوابھی شامل ہیں۔ ان پیشواوں کا سماجی مرتبہ اور دولت کا ذریعہ مذہبی مقامات و اجتماعات ہیں۔ اس لئے اس لاک ڈاون کی ساری بحث میں ریاستوں کو سب سے بڑا چیلنج ان مذہبی اجتماعات کو رکوانا بنا ہوا ہے۔ یہ قطعاً دینی یا مذہبی مسئلہ نہیں بلکہ خالصتاً مالیاتی مسئلہ ہے۔ کالے دھن کی معیشت کو جواز فراہم کرنے کے لئے مذہبی لبادہ اوڑھایا گیا ہے۔ اس لئے سوال صرف وقتی طور پر مذہبی اجتماعات اور مقامات کو بند کرنے کا نہیں ہے بلکہ صدیوں سے انسانی شعور کو مسخ کرنے کی پوری روایت کے اوپر قدغن لگ رہی ہے۔ اسی وجہ سے رجعتی عناصر کی مزاحمت کا سامنا ہے۔ ٹیلی وژن کے پرائم ٹائم پروگراموں میں ملاوں کی آہ و بکا کی براہِ راست کوریج کرائی جا رہی ہے۔ صرف ملاوں میں نہیں بلکہ پنڈتوں اور پادریوں میں بھی اسی قسم کی جہالت اور ڈھٹائی دیکھنے کو ملتی ہے۔
اس پیلے آسمان کو مسلط رکھنے میں درمیانے طبقے کی محرومیاں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ پیٹی بورژوازی کی ان پرتوں کے پیر کیچڑ میں ہوتے ہیں لیکن ان کی نظر آسمانوں پر ہوتی ہے۔ انہی کی محرومیوں اور بیگانگی کی وجہ سے یہ اداکار، کھلاڑی اور مذہبی پیشوا ستارے بن جاتے ہیں۔ اور یہی پھر ان ستاروں کی منڈی بھی ہوتے ہیں۔ انہی کو یہ انٹرٹینمنٹ بھی بیچتے ہیں اور یہی مذہبی چورن کے سب سے بڑے خریدار بھی ہوتے ہیں۔ یہ بظاہر بہت پڑھا لکھا طبقہ انتہائی جہالت کا حامل ہوتا ہے۔ مذہب غریبوں کو آس ضرور دیتا ہے لیکن غربا ان مذہبی پیشواوں کی عیاشیوں کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ یہ درمیانہ طبقہ ہی ہوتا ہے جس کی غیر یقینی کی کیفیت اس کو ان ملاﺅں اور پنڈتوں کی چوکھٹوں پر لا کھڑا کرتی ہے جہاں یہ خوب مال لٹاتے ہیں۔ حالیہ کورونا کی ہنگامی صورتحال میں اسی طبقے کا ذخیرہ اندوزی سے لے کر گراں فروشی تک کے جرائم میں مجرمانہ کردار ہے۔
سماج کے لمپن عناصر کا بنیادی خاصہ ہر معاملے پر غیر سنجیدگی کا ہوتا ہے۔ لاک ڈاون کی کیفیتوں میں ہجوم لگانے اور وائرس کی وبا کو خیالی اور سازشی تصور کروانے جیسے اقدامات کے ذریعے یہ معاشرے کو کہیں زیادہ گہرے بحران کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ انہی میں مذہبی جنونیت کے عناصر عود کر آتے ہیں اور یہ ایسے خود کش بمبار کی شکل اختیار کر لیتے جو اپنی جہالت میں سماجوں کو تاراج کر دیتے ہیں۔ یہ شعوری اور لاشعوری طور پر رجعتی ریاستوں کے اہم اثاثوں کا کام سر انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ مذہبی بلوے ہوں یا نسلی فسادات‘ یہ لمپن عناصر جلتی میں تیل کا کام سر انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ ان عناصر کی کئی طرح کی سماجی پرتیں ہوتی ہیں لیکن ان کا حتمی کرداررجعتی ہی رہتا ہے۔ حالیہ ہنگامی صورتحال میں مذہبی اجتماعات اور ایک خطے سے دوسرے خطے میں وائرس کی وبا پھیلانے میں ان عناصر کا بنیادی کردار ہے۔ ان کو لگام ڈالے بغیر اس وبا کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ریاست نے برسوں ان کی پرورش کی ہے اور یہ ان کو مکمل لگام ڈالنے کی متحمل بھی نہیں ہوسکتی۔
عالمی کریش 2008ءکے بعد سے معیشت ابھی تک سنبھلی نہیں ہے۔ نیولبرل معیشت کا سب سے بڑا نشانہ محنت کش طبقہ بن رہا ہے۔ بغاوتوں کی لہر بھی موجود رہی ہے۔ مشرق وسطیٰ سے لے کر لاطینی امریکہ اور مغربی ممالک تک ایک مسلسل بے چینی پائی جا رہی تھی۔ حالیہ کورونا وبا میں بغاوتیں وقتی طور پر سطح کے نیچے دب ضرور گئی ہیں لیکن تضادات تیز تر ہو رہے ہیں۔ اب یہ نظام معمول کی طرح نہیں چل سکتا ہے۔ اٹلی میں بھاری اموات کے با وجود سہولیات کے فقدان کے خلاف مزدور ہڑتالوں کا عندیہ دے رہے ہیں۔ چین اور اٹلی کے بعد اس وقت امریکہ کورونا وبا کی جکڑ میں ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بھونڈے بیانات کے خلاف لوگوں میں نفرت ابل رہی ہے۔ حالات میں معمولی بہتری سے یہ تضادات کہیں زیادہ شدت کے ساتھ پھٹ کر سامنے آیئں گے۔ بھارت اور پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک اس وبا میں ایک ٹائم بم کا کردار ادا رکر سکتے ہیں۔ ابھی تک ان ممالک سے بھاری اموات کی خبریں موصول نہیں ہوئیں لیکن یہاں کے معیار زندگی اور صحت کی سہولیات کے پیش نظر یہ کیفیت دھماکہ خیز انداز میں اپنا اظہار کر سکتی ہے۔ ان ممالک کے حکمرانوں کے تاخیر زدہ اور ناکافی اقدامات کا خمیازہ بھاری اموات کی شکل میں عام لوگوں کو بھگتنا پڑے گا۔ بھارت کے بس سٹینڈوں اور ٹرین سٹیشنوں پر ہجوم کی تصاویر ایک ڈراونا منظر پیش کر رہی ہیں۔ پاکستان اور بھارت جیسے ممالک میں سرمایہ داری کی تاریخی نااہلی نے معاشرے میں ایک انتہائی غیر مساوی ترقی کو جنم دیا ہے۔ جس کی وجہ سے چند شہروں میں انڈسٹری اور روزگار کے مواقع پیدا ہوئے اور ملک کے دیہاتوں سے بھاری مقدار میں مزدوروں نے یہاں ہجرت کی۔ حالیہ ہنگامی حالات میں جب شہروں میں لاک ڈاون کی کیفیت ہے تو لوگوں کو واپس دیہاتوں میں بھیجنا ایک نا قابل عمل اقدام ہے۔ جہاں فوری طور پر اس سے وائرس کے ملکی سطح پر پھیل جانے کے خطرات ہیں وہیں شہروں میں مقید رہ کر ان لوگوں کو اشیائے خورد و نوش مہیا کرنے کی سکت اس سرمایہ داری میں نہیں ہے۔ نتیجتاً یہ ایسی صورتحال ہے جو بھیانک کیفیت پر منتج ہو سکتی ہے۔
ایک محنت کش طبقہ ہی ہے جس کا اس نظام میں کوئی پرسان حال نہیں۔ یہ نظام ان کا ہے ہی نہیں تو اس نظام میں ان کی بقا کی کیا بات ہوگی۔ کورونا وائرس سے اگر کوئی حقیقی معنوں میں تباہ ہو رہا ہے تو یہی محنت کش طبقہ ہے۔ جس کے خون پر یہ نظام رواں ہے۔ ڈاکٹروں سے لے کے نرسز اور پیرامیڈیکل سٹاف تک اس جنگ کا وہ ہراول دستہ ہیں جن کی اپنی زندگیاں داو پر لگی ہوئی ہیں۔ ریاست حکم ناموں کے ذریعے ان کو سیلوٹ اور سلامیاں تو دلوا رہی ہے لیکن ایک ماسک تک فراہم کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ ابھی تک ہسپتالوں میں حفاظتی سامان کی قلت ہے۔ کھوکھلے جذبوں سے اس عذاب کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ ٹھیکے داری نظام کی بدولت لاکھوں دیہاڑی دار مزدوروں کے گھروں میں فاقہ کشی ہے۔ لاک ڈاون میں بھوک کا وائرس کورونا سے کہیں زیادہ مہلک ثابت ہو رہا ہے۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 6 کروڑ پاکستانی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے لیکن اگر یہی اعدادوشمار دیکھے جائےں تو سنجیدہ تخمینوں کے مطابق حالیہ بحران میں یہ تعداد 12 کروڑ تک پہنچ سکتی ہے۔ شہروں میں لاک ڈاون کی کیفیت میں آٹے کے حصول کی قطاروں میں مسلسل اضافہ ہو رہاہے۔ فاقہ کشی کی صورتحال شدت اختیار کر رہی ہے۔ مختلف تنظیموں کی طرف سے گھروں میں مفت راشن پہنچانے کے اقدامات ہو رہے ہیں لیکن یہ ریاستی اقدامات کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ اس طرح زیادہ سے زیادہ چند فیصد متاثرین کی ہی مدد ہو سکتی ہے۔ چند ایک گھرانوں کو تو ایک مخصوص دورانیے کے لئے بنیادی غذائی اشیا فراہم کی جا سکتی ہیں لیکن اس طرح آبادی کی وسیع اکثریت تک ایک لمبے عرصے کے لئے یہ ضروریات پہنچانا ناممکن ہو جاتا ہے۔ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اس بحرانی کیفیت میں وسیع تر آ بادی کو بھوک اور موت کی کھائی میں دھکیل رہی ہے۔ محنت کش طبقہ ایسے حالات میں تیز تر نتائج اخذ کر رہا ہوتا ہے اور زندگی کی لڑائی اس سے بہت جرات مندانہ اقدامات کرواتی ہے۔ بحران کی یہ کیفیت اگر چند ہفتے مزید جاری رہتی ہے تو کچلے ہوئے طبقات کے پاس زندہ رہنے کا کوئی چارہ نہ رہے گا۔ ایسے میں جہاں پرتشدد احتجاج جنم لے سکتے ہیں وہاں بڑے پیمانے کے جرائم اور بلوے بھی جنم لے سکتے ہیں۔ قدرتی آفات اور جنگوں جیسی ہنگامی صورتحال میں سماجی خلفشار تیزی سے بڑھ کے بے قابو ہو سکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں زیادہ تر واقعات دولت اور پیسوں کی بجائے اشیائے خورد و نوش کی لوٹ مار کے ہوتے ہیں۔ حکمران سماجی خلفشار کے امکانات سے خاصے خوفزدہ دکھائی دیتے ہیں اس لئے کبھی لاک ڈاﺅن پر تذبذب کا مظاہرہ کرتے ہیں تو کبھی سرکاری امداد اور خیرات کے وعدے کر رہے ہیں۔ لیکن ان کے پاس آپشنز محدود ہیں۔ موجودہ سماجی بحران ایسی ہی کیفیات کا عندیہ دے رہا ہے۔ اس موقع پر محنت کشوں کی ہنگامی کمیٹیاں تشکیل دی جا سکتی ہیں۔ فیکٹریوں، کارخانوں اور کام کی جگہوں کے ساتھ ساتھ گلی اور محلے کی سطح تک ان کمیٹیوں کی تشکیل محنت کشوں کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
آج یہ کرہ ارض کورونا کی آگ میں جل رہی ہے اور دنیا بھر کے نیرو بانسریاں بجا رہے ہیں۔ کورونا وبا نے اس نظام ِ زر کو بنیادوں سے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ منڈی کا بھرم دھرے کا دھرا رہ گیا ہے۔ چند ہفتوں کے لاک ڈاون نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ ماحولیات کے بگاڑ جیسے دیوہیکل مسائل کو منصوبہ بندی کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ صرف دو ہفتوں کے اعدادو شمار کا جائزہ لیا جائے تو انرجی پلانٹس میں فوسل فیول کی کھپت میں 36فیصد گراوٹ ہوئی ہے، فضائی آلودگی کے سب مہلک عنصر نائٹروجن آکسائیڈ میں شرح گراوٹ 37فیصد ہوئی ہے، صرف چین کے کاربن اخراج میں 25فیصد گراوٹ جیسے حیران کن نتائج موصول ہوئے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے بیشتر ماہرین کے مطابق کووِڈ 19جیسے وائرسز کی بنیادی وجہ ماحولیاتی بگاڑ ہی ہے۔ سرمائے کی ہوس ایسے کئی مہلک وائرس اور جرثوموں کی وجہ بن رہی ہے اور آئندہ بھی بنتی رہے گی۔ ان ہنگامی حالات میں یہ حیران کن حاصلات ضرور ہوئی ہیں لیکن صورتحال میں بہتری کے بعد منافع کی ہوس اپنے نقصانات کے ازالے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ شدت میں اظہار کرے گی۔ سرمائے کے رہتے ہوئے سرمایہ داروں کی نیک نیتی کی خواہشات محض دیوانے کا خواب ہیں۔ اور کوئی بھی نظام افراد کی منشا اور نیت سے ماورا ہوتا ہے۔ یہ نظام وسیع تر انسانیت کے خون پر پل رہا ہے۔ لیکن ان وقتی حاصلات نے ثابت کر دیا ہے کہ اس کرہ ارض کو دوبارہ انسانیت کی معراج تک پہنچایا جا سکتا ہے۔اوزون تہہ کی تیز تر بحالی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ وینس شہر کا آلودہ پانی دوبارہ آبی حیات کی آماجگاہ بن سکتا ہے۔ قطبین کے برفانی تودوں کو پگھلنے سے بچایا جا سکتا ہے۔ ناپید ہونے کے قریب جانداروں کو بچایا جا سکتا ہے۔ شہروں کے باسی بھی نیلے آسمان کا چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ کاربن کے اخراج میں حیران کن حد تک کمی کی جا سکتی ہے۔ اس کرہ ارض سے سرمایہ داری کی پھیلائی غلاظت صاف کی جا سکتی ہے۔ کروڑوں بے روزگاروں کو نوکریاں دیتے ہوئے اوقات کار میں حیران کن حد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ منڈی کی معیشت ہے جس نے انسانوں کی ایک بڑی اکثریت کو تباہ حال رکھا ہوا ہے۔ محنت ہی اِس نظام کا پہیہ چلا رہی ہے اور محنت کش ہی اس بربریت کے نظام سے انسانیت کی نجات ممکن بنا سکتے ہیں۔