راہول
امریکی سامراج کی منافقت کا اس سے بڑا اظہار آخر اور کیا ہوگا کہ ایک ایسے وقت میں جب پوری دنیا کورونا وائرس جیسی دیوہیکل وبا کی لپیٹ میں ہے‘ یہ کھوکھلا لیکن وحشی سامراج لاطینی امریکہ میں اپنی مداخلت سے باز نہیں آ رہا۔ 27 مارچ کو وینزویلا کے صدر مادورو سمیت ایک درجن سے زائد حکام کے خلاف امریکی محکمہ انصاف کی جانب سے منشیات کی اسمگلنگ، دہشت گردی کے فروغ اور بدعنوانی وغیرہ جیسے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ امریکی محکمہ انصاف کی جانب سے یہ الزامات عائد کرنے کے ساتھ ساتھ صدر مادوروکو گرفتار کرنے کے لئے معلومات فراہم کرنے پر ڈیڑھ کروڑڈالر جبکہ دیگر حکام کی معلومات پر ایک کروڑ ڈالر کا انعام بھی رکھا گیا ہے۔ جس کے بعد وینزویلا کے سابق جنرل کلائیور (جوکہ مادورو حکومت پر تنقید کے حوالے سے کافی مشہور تھے) نے کولمبیا میں خود کو سرنڈر کردیاہے۔ اُن پر یہ الزام تھا کہ وہ مادورو اور ایک اور ریٹائرڈ جنرل کے ساتھ مل کر منشیات سمگلنگ میں ملوث تھے۔ گرفتاری کے فوراً بعد اُسے فلائٹ آپریشن معطل ہونے کے باووجود بھی خصوصی اجازت دے کر کولمبیا سے نیویارک روانہ کردیاگیاہے۔
یوں تو گزشتہ کئی سالوں سے امریکی سامراج کی طرف سے صدر مادورو کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی جاری رہی تھی مگر ایک ایسے وقت میں جب پوری دنیا کی طرح وینزویلا بھی کورونا وائرس سے بری طرح متاثر ہے یہ سامراجی حملہ امریکی سامراج کے مکروہ چہرے کو بری طرح بے نقاب کرتا ہے۔ پچھلے بیس سال سے وینزویلا کے انقلاب کو سبوتاژ کرنے میں امریکی سامراج ہمیشہ پیش پیش رہا ہے۔ لیکن ابھی تک وینزویلا کے محنت کش طبقے نے کامیابی سے انقلاب کا دفاع کیا ہے۔ گزشتہ صدارتی الیکشن میں بھی سامراج کی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی غریب اور محنت کش طبقے کے علاقوں سے لوگوں کی بڑی تعداد نے سوشلسٹ پارٹی کو ووٹ ڈال کر سامراجی مداخلت کو شکست فاش دی تھی۔ لیکن مجموعی طور پر ٹرن آوٹ کم ہونے کے سبب خوش فہمی کا شکار ہو کر امریکی سامراج نے جان گوئیڈو جیسے کرپٹ سیاسی لیڈر کا ساتھ دیتے ہوئے اُسے وینزویلا کے نئے صدر کے طور پر قبول کرنے کا اعلان کیا اور اس کی حمایت بیس کے قریب دیگر یورپی ممالک نے بھی کی۔ مگر سامراج کے اُس وار کا بھی عوام نے جرات کے ساتھ سامنا کیا اور گوئیڈو کو نئے صدر کے طور پر قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اس کے خلاف لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ یوں یہ سامراجی واردات بری طرح ناکام ہو گئی۔
حالیہ دنوں میں جان گوئیڈو کی تیزی سے خراب ہوتی ہوئی ساکھ اور کوئی متبادل پروگرام نہ دے سکنے کے باعث وہ عوام میں بری طرح بے نقاب ہوچکا ہے۔ اسی بوکھلاہٹ میں وینزویلا میں اپنی بالواسطہ مداخلت کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لئے یہ حالیہ ہتھکنڈا استعمال کیا گیا ہے۔ دوسری جانب کورونا وائرس سے نپٹنے میں ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کی ناکامی کی بدولت امریکی حکومت کو داخلی و خارجی طور پہ بدترین تنقید کا سامنا ہے۔ ایسے میں عوامی توجہ کا رخ موڑنے اور اپنی ناکامی کو چھپانے میں بھی موجودہ اقدام کو کارآمد تصور کیا جا رہا ہے۔ جہاں پوری دنیا کا حکمران طبقہ کورونا وائرس اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر شدید اضطراب کا شکار ہے وہیں طاقت کے نشے میں بدمست امریکی سامراج کیریبین میں اپنے جنگی جہاز بھیجنے اور وینزویلا پر مزید معاشی پابندیاں عائد کرنے جیسے اوچھے ہتھکنڈے اپنا رہا ہے۔ یاد رہے کہ امریکی پابندیوں کے سبب وینزویلا کو کورونا وبا پر قابو پانے کے لئے درکار طبی و حفاظتی سامان کی درآمد میں شدید مشکلات کا سامنا ہے جس کے سبب قیمتی انسانی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔
منشیات کی اسمگلنگ کے الزامات جس سامراج کی جانب سے وینزویلا کے خلاف لگائے جارہے ہیں اس کی اپنی تاریخ ان جرائم سے بھری پڑی ہے۔ ویتنام سے لے کے کولمبیا اور افغانستان تک امریکی سامراج کی افواج اور حکام منشیات کی کاشت، تیاری اور سمگلنگ میں ملوث رہے ہیں۔ افغانستان میں امریکہ کی باضابطہ آمد کے بعد یہاں افیون کے کاروبار میں کمی واقع ہونے کے بجائے ہوشربا اضافہ ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ یہاں پوپی کے پودے (جس سے ہیروئین بنائی جاتی ہے) کی کاشت میں 2002 ء سے لے کے اب تک تقریباً چار گنا کا اضافہ ہوا ہے جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا کی 82 فیصد افیون محض افغانستان پیدا کرتا ہے۔ اسی طرح دنیا کے بیشتر خطوں کو امریکی سامراج نے اپنے سامراجی عزائم کے خاطر آگ میں جھونک کر راکھ کردیا ہے۔ براؤن یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اینڈ پبلک افیئرز کی شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کے خلاف اپنی اس نام نہادجنگ میں امریکی سامراج نے امریکہ سمیت دنیا کے 76 ممالک، جوکہ دنیا کی تقریباً 39 فیصد قومیں بنتی ہیں، میں اپنی مختلف فوجی کاروائیوں میں بری طرح سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ساتھ ساتھ شہری و قومی آزادیوں کو تاراج کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان کاروائیوں میں نائن الیون کے بعد سے اب تک افغانستان، عراق اور پاکستان میں تقریباً 4 لاکھ 80 ہزار سے 5 لاکھ 7 ہزار لوگوں کو جبکہ صرف شام میں 2011ء سے اب تک تقریبا 5 لاکھ لوگوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔ اسی قسم کی کاروائیوں اور قتل عام کے ذریعے وینزویلا کے تیل کے ذخائر پر قابض ہونا امریکی سامراج کا ایک پرانا خواب رہا ہے مگر ہر حملے کا جواب وہاں کے عوام نے انتہائی دلیرانہ انداز میں دے کر اسے شکست دی ہے۔
آج وینزویلا معاشی و سماجی طور پر اپنے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ اس کی معیشت کا نوے فیصد تیل کی برآمدات پر مبنی ہے۔ مگر حالیہ کورونا وائرس کی وبا، امریکی پابندیوں، عالمی معیشت کے بحران اور سعودی عرب و روس کے درمیان تجارتی جنگ کے سبب تیل کی قیمتوں میں شدید گراوٹ سے حالات بہت خراب ہو چکے ہیں۔ گزشتہ ہفتے اس کی پیداوار میں تقریباً سات لاکھ بیرل روزانہ کی کمی واقع ہوئی ہے جبکہ بیرونی ڈیمانڈ میں کمی کی بدولت اس کٹھن دور میں اس کی پہلے سے لاچار معیشت مزید دشواریوں کی زد میں ہے۔ تیل کے علاوہ دیگر حکومتی فنڈز، جن میں سونے کی فروخت وغیرہ شامل ہے، بھی دو بلین ڈالر سے تجاوز نہیں کرسکے جبکہ وینزویلا کا موجودہ زرمبادلہ کا خسارہ تقریبا 7.6 بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ یہی وجہ تھی جو پہلی بار وینزویلا کو آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا اور مادورو نے پانچ بلین ڈالر قرض کی درخواست کی جسے بڑی بے رحمی سے آئی ایم ایف نے رد کر دیا جس کے بعد اطلاعات کے مطابق انہوں نے چینی بینکوں سے بھی مدد کے لئے رابطہ کیا ہے۔
اس تمام تر صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی سامراج نے حالیہ کاروائی کے ذریعے وینزویلا کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ مجبوری کے اس عالم میں شاید وہ صدر مادورو سے اپنی شرائط منوانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ یہی سبب ہے کہ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو کی جانب سے ایک پریس بریفنگ میں کہا گیا ہے کہ وہ وینزویلا سے امریکی پابندیوں کا خاتمہ کرسکتے ہیں اگر صدر مادورو اُن سے ”تعاون“ کریں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ وینزویلا میں فوری طور پر ایک عبوری مخلوط حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے اور چند ماہ میں دوبارہ الیکشن کروائے جائیں۔ بعض حلقوں کا یہ ماننا بھی ہے کہ شاید امریکہ اس بار وینزویلا کی بائیں بازو کی حکومت کو کسی نہ کسی سطح پر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے میں کامیاب بھی ہو جائے گا۔
اس بات کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ آج وینزویلا میں حالات معاشی و سماجی طور پر بھیانک حد تک خراب ہیں۔ اس کی ایک بنیادی وجہ بحران کو انقلابی انداز سے حل کرنے میں مادورو انتظامیہ کی ہچکچاہٹ اور نا اہلی ہے۔ اس کیفیت نے محنت کش طبقے کی باشعور پرتوں میں حکومت کے حوالے سے شکوک و شبہات بھی پیدا کیے ہیں۔ انقلاب کی پیش قدمی میں سب سے بڑی رکاوٹ سوشلسٹ پارٹی کی اصلاح پسند قیادت اور صدر مادورو کی مصالحت کی روش ہے۔ منڈی کی معیشت اور ایک منصوبہ بند معیشت دو متضاد چیزیں ہیں اور بیک وقت ان دو متضاد نظاموں کو چلانا ناممکن ہے۔ شاویز نے جہاں بولیوارین انقلاب کو چھوڑا تھا وہیں سے مادورو کا فرض اسے آگے بڑھانے کا تھا مگر شاویز کے بعد سے حالات خراب ہی ہوئے ہیں۔ ادھورا انقلاب آج وینرویلا کی حکومت کے ساتھ ساتھ عوام سے بھی انتقام لے رہا ہے۔ لیکن دوسری طرف ہمیں حالیہ مہینوں میں لاطینی امریکہ کے بیشتر دوسرے ممالک میں نئے انقلابی ابھار بھی دیکھنے کو ملے ہیں۔ لاطینی امریکہ کا محنت کش طبقہ اور انقلابی نوجوان ہی ہیں جن کی یکجہتی پر تکیہ کرتے ہوئے وینزویلا کے انقلاب کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے اور پے درپے سامراجی جارحیتوں کو شکست دی جا سکتی ہے۔