راہول
ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے امریکہ کے صدارتی امیدوار کے طور پر نامزدگی حاصل کرنے کے لئے سینیٹر برنی سینڈرز گزشتہ روز اپنی مہم سے دستبردار ہوگئے ہیں۔ کورونا وباکے بعد پیدا ہوئی حالیہ صورتحال پر گزشتہ رات نشر ہوئی ایک آن لائن تقریر میں اُن کا کہنا تھا کہ ”میراضمیرمجھے ایک ایسی مہم جاری رکھنے کی اجازت نہیں دے سکتا جوفتح سے ہمکنار نہ ہوسکے اور اس مشکل گھڑی میں ہمارے ضروری کاموں میں مداخلت کرے۔“ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے نظریاتی جنگ جیت لی ہے اور ہم امریکی شہریوں میں سماجی، معاشی، نسلی اور ماحولیاتی انصاف جیسے معاملات سے متعلق شعور بیدار کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ برنی سینڈرز نے اپنے حامیوں سے آن لائن خطاب سے قبل اپنی مہم کے ارکان کو کانفرنس کال کے ذریعے فیصلے سے آگاہ کیا تھا۔ 78 سالہ برنی سینڈرز کے اپنی مہم کے اختتام کے اعلان کے بعدجو بائیڈن کے لئے اب ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدوار بننے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ جبکہ برنی سینڈرز کی جانب سے بھی جو بائیڈن کی ہی حمایت کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔2016ء میں بھی برنی نے ڈیموکریٹک پارٹی میں صدارتی امیدواری کے انتخابات میں پیچھے رہ جانے (انہیں ہروانے کی پوری کوشش ڈیموکریٹک اسٹیبلشمنٹ نے کی تھی) کے بعد ہیلری کلنٹن کی حمایت کر دی تھی۔ برنی سینڈرز کی یہ پسپائی ان کے گرد ابھرتی ہوئی تحریک، جس کا جھکاؤ امریکی سیاست کے معیارات کے مطابق کافی بائیں جانب تھا، کے لئے شدید دھچکے کے مترادف ہے۔
ان کے اس فیصلے سے نہ صرف امریکہ میں بلکہ پوری دنیا میں موجود ان کے حمایتی شدید مایوس ہوئے ہیں۔ ہر جگہ بس یہی سمجھا جارہا ہے کہ گزشتہ انتخابات کی طرح ایک بار پھر ایک انتہائی فیصلہ کن موقع ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ اپنے منفرد تقریری انداز اور ریڈیکل الیکشن پروگرام کے باعث وہ بالخصوص نوجوانوں میں بے حد مقبول رہے ہیں۔ ان کی دستبرداری کو ان ترقی پسند امریکی شہریوں کے لئے سیاسی نقصان اور صدمہ سمجھا جا رہا ہے جنہوں نے گذشتہ برسوں کے دوران ملک میں معاشی مساوات، سستے علاج اور ماحول دوست پالیسیوں کے لئے بھر پور آواز اٹھائی ہے۔
1991ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد اعتقادی اور سٹالنسٹ نوعیت کے نظریات رکھنے والے بڑے بڑے ’کمیونسٹ‘ خود کو سوشل ڈیموکریٹ، لبرل اور سیکولر کہلانے لگے تھے۔ کچھ کے مرکز ماسکو سے واشنگٹن منتقل ہو گئے اور انہوں نے فوکو یاما کے ”تاریخ کے خاتمے“ کے رجعتی نظرئیے کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا۔ کبھی سرمایہ داری کے خاتمے کا نعرہ لگانے والے ہی اس نظام کے سب سے بڑے وکیل بن گئے۔ اس کیفیت میں دنیا بھر میں سرمایہ داروں اور ان کے لبرل یا مذہبی وظیفہ خواروں نے خوب جشن منایا۔ ان کے نزدیک ’سوشلزم ختم ہو چکا‘ تھا اور ان کے نظام کی ابدی حاکمیت شروع ہوئی۔
ایسے میں امریکہ جیسے سماج میں جہاں سوشلزم کو بالخصوص دوسری عالمی جنگ کے بعد سے گالی بنا دیا گیا اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد صورتحال اور بھی ابتر ہو گئی، برنی سینڈرز کا ابھار لوگوں کے کروٹ لیتے ہوئے شعور کی غمازی کرتا ہے۔ گلے سڑے اور کرپٹ سیاسی نظام سے ما یوس ہوکر جو عام لوگ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرچکے تھے ان کی بڑی تعداد برنی کے نعروں اور مطالبات کی طرف متوجہ ہوئی۔ مگر یہ نئی نسل جس تبدیلی کی خواہش مند تھی کیا اُس کا حتمی راستہ برنی کی یہ حالیہ مہم دکھاتی تھی؟ امریکی سیاست کے اعتبار سے خاصی ریڈیکل ہونے کے باوجود برنی سینڈرز کی تمام تر لفاظی اسی نظام کے اندر مقید تھی جس میں رہ کر وہ ارب پتیوں کی دولت میں کسی حد تک کٹوتی اور سیاسی تبدیلی کی بات کر رہا تھا۔ مگر المیہ یہ ہے کہ وہ یہ سب کچھ ایک ایسی پارٹی کے ذریعے کرنا چاہ رہا تھا جو انہی سرمایہ داروں کی دولت کے تحفظ اور اس میں اضافے کا اوزار ہے۔ امریکی مصنف گور ویڈال کے مطابق امریکہ میں صرف ایک پارٹی ہے: دولت والوں کی پارٹی اور ریپبلکن اور ڈیموکریٹ اس کے دو دھڑے ہیں۔ امریکہ کی سیاست پر ہمیشہ یہ دو پارٹیاں ہی براجمان رہی ہیں اور امریکی محنت کشوں کے استحصال میں سرمایہ داروں کا آلہ کار بنتی رہی ہیں۔ ڈیمو کریٹک پارٹی کے حالیہ داخلی انتخابات کے دوران خود پارٹی کے اندر برنی کے خلاف چلائی جانے والی مہم سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے یہ سرمایہ دار کسی ایسے رجحان کو گنجائش دینے کو تیار نہیں ہیں جو ان کی دولت اور منافعوں میں معمولی سی کٹوتی کا بھی باعث بن سکے۔
دوسری طرف امریکی سرمایہ داری کا بحران ہے جس کے پیش نظر 3 نومبر کوامریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات چاہے کوئی بھی جیتے مگر ایک بات طے ہے کہ فاتحین کو آگے بدترین حالات کا سامنا کرنا ہو گا۔ یہ صورتحال بالکل ایک طرف کھائی ہوگی اور دوسری طرف کنویں کے مترادف ہو گی۔ ایسے میں چاہے جو بائیڈن کامیاب ہو یا پھر ٹرمپ‘ دونوں کو کانٹوں پر چل کر آنے والے چار سال گزارنے ہوں گے۔
کورونا وبا کے پھیلاؤ کے بعد امریکہ میں پیدا ہوئی صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے۔ ماضی کی تمام تر خوش فہمیاں ٹوٹ کر بکھر چکی ہیں۔ منڈی کی مقابلہ بازی پر مبنی امریکہ کے نظامِ صحت کی کورونا وائرس نے دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ جدید ترین جنگی آلات اور سازو سامان رکھنے والا امریکی سامراج موجودہ صورتحال کے سامنے بالکل بے بس نظر آتا ہے اور خود ایک لاکھ سے 2 لاکھ 40 ہزار تک اموات کا تخمینہ لگانے پر مجبور ہے۔ ہسپتالوں میں ونٹی لیٹروں اور حفاظتی سامان کی شدید قلت ہے۔ امریکی ہسپتالوں کی ایسوسی ایشن کے مطابق امریکہ میں کل 9 لاکھ 24 ہزار 107 ہاسپٹل بیڈ ہیں جو موجودہ حالات میں بہت کم پڑ رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کی کل تعداد دس لاکھ کے لگ بھگ ہے جو کہ آبادی کے تناسب سے انتہائی تھوڑی ہے۔ امریکی میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق 2030ء تک امریکہ میں تقریباً ایک لاکھ ڈاکٹروں کی کمی متوقع ہے۔
حالیہ کورونا وائرس کے متعلق پوری دنیا میں یہ واویلا ہے کہ یہ وائرس غریب اور امیر حضرات پر یکساں اثر انداز ہورہا ہے حالانکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ صرف امریکہ میں اگر اس کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ سرمائے کے اس نظام میں کس طرح ہر آندھی، طوفان یا وبا محض غریبوں ہی کی جان لیتی ہے جن میں پھر بڑی تعداد سیاہ فاموں کی ہوتی ہے۔ امریکی ریاست کیلی فورنیا میں اپنی جان کی بازی ہارنے والے ایک سترہ سالہ نوجوان کی موت کے بعد یہ خبر منظرعام پر آئی کہ وہ محض اس لئے ہسپتال میں داخل نہیں ہوسکا کیونکہ اس کے پاس ہیلتھ انشورنس کی سہولت موجو د نہیں تھی۔ اسی طرح ایک اندازے کے مطابق ریاست فلوریڈا میں کورونا سے متاثرہ ایک ایسے مریض جس کے پاس انشورنس کی سہولت موجود نہیں ہے کے علاج پر 34943 ڈالر تک خرچ آتا ہے۔ ’فیئر ہیلتھ‘ نامی ایک ادارے کی حالیہ رپورٹ کے مطابق کورونا کے ایک مریض کے علاج پر خرچ ہونے والی رقم تقریباً 73 ہزار ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ دوسری جانب جن لوگوں کے پاس انشورنس کی سہولت موجود ہے انہیں بھی 9 سے 20 ہزار ڈالر تک رقم جیب سے ادا کرنی پڑے گی۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ اس وقت امریکہ میں تقریبا 27 ملین لوگ ایسے ہیں جن کے پاس ہیلتھ انشورنس کی سہولت موجود نہیں!
ایسے میں کورونا وبا سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہوسکتی ہے۔ جبکہ اس وبا کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے نپٹنے کی گنجائش بھی اس کھوکھلی سپر پاور میں نظر نہیں آتی۔ آگے ایک معاشی بحران پھن پھیلائے کھڑا ہے۔ وبا سے بچ جانے والے لوگوں کو بدترین معاشی مسائل کا سامنا کرنا ہوگا۔ ابھی کچھ ہی ہفتوں میں دسیوں لاکھ امریکی بیروزگار ہو چکے ہیں اور بیروزگاری کی شرح 4.4 سے بڑھ کے 13 فیصد سے اوپر چلے جانے کے اندازے لگائے جا رہے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق 28 مارچ کو ختم ہونے والے ایک ہفتے میں 66 لاکھ لوگوں نے خود کو بیروزگار ڈکلیئر کیا ہے۔ ان حالات میں برنی سینڈرز کی مہم آنے والے دنوں میں زیادہ مقبولیت اور طاقت حاصل کر سکتی تھی۔ ڈیموکریٹک پارٹی کا ٹکٹ نہ مل سکنے کی صورت میں بھی اگر وہ آزادانہ طور پر صدارتی انتخابات لڑنے کی طرف جاتا تو سارے سیاسی منظر نامے کو بدلنے کا باعث بن سکتا تھا۔ مگر اس کی پسپائی کے باوجود بھی وہ امریکی سماج میں جاری ایک عمل کی نمائندگی کر رہا تھا جو آنے والے دنوں میں بھی جاری رہے گا۔ موجودہ حالات جس طرح سے لوگوں کو جھنجوڑ رہے ہیں اس کے پیش نظر آنے والے دنوں میں امریکی سرزمین پر کئی دھماکہ خیز واقعات جنم لے سکتے ہیں۔
2016ء کے بعد ایک بار پھر برنی سینڈرز کی پسپائی اور ناکامی سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ حکمران طبقات کی سیاسی پارٹیوں کے ذریعے معمولی اصلاحات کا پروگرام بھی آگے نہیں بڑھایا جا سکتا ہے۔ درحقیقت موجودہ صورتحال کا سبق یہی ہے کہ سرمایہ دارنہ نظام میں اصلاحات کی گنجائش موجود نہیں ہے۔ امریکہ جیسے ممالک میں جہاں محض دو دائیں بازو کی پارٹیوں کے درمیان دہائیوں سے انتخابی کھلواڑ جاری ہے‘ضروری ہے کہ متبادل پلیٹ فارم تعمیر کرنے کی طرف بڑھا جائے۔ اصلاحات کی جگہ انقلاب کے پروگرام کو متعارف کروایا جائے۔ سوشلزم کے نام پر ادھوری سوشل ڈیموکریٹک پالیسیوں کی بجائے سرمایہ دارانہ نظام کی حدود و قیود کو چیلنج کرنے والے انقلابی مطالبات اور نعرے پیش کیے جائیں۔ کیونکہ وہ دن گئے جب امریکہ میں سوشلزم کی بات مذاق سمجھی جاتی تھی۔ نئی نسل آج سنجیدگی سے سرمایہ داری کا متبادل ڈھونڈ رہی ہے اور سوشلزم عوامی سطح پر سیاسی بحث کا موضوع ہے۔ دہائیوں تک دنیا میں سرمایہ داری کے عالمی پولیس مین کا کردار ادا کرنے والے ’امریکی سامراج‘ کی کوکھ میں آج سوشلسٹ انقلاب کے بیج پک رہے ہیں۔