لال خان 

ڈاکٹر لال خان کا یہ آرٹیکل پہلی بار 15 اپریل 2017ء کو شائع کیا گیا تھا۔ آج مشال خان کی تیسری برسی پرہم ان دونوں انقلابیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے اس آرٹیکل کو دوبارہ شائع کر رہے ہیں۔

وحشی ہجوم کے ہاتھوں مردان یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے تیئس سالہ طالب علم مشال خان کے بہیمانہ قتل کا واقعہ ایک دفعہ پھر ظاہر کرتا ہے کہ یہ سماج کس حد تک بیمار اور تعفن آمیز ہو چکا ہے۔ مشال خان پر لگائے گئے الزامات سراسر بے بنیاد تھے، جن کے کوئی ثبوت نہیں مل سکے۔ پولیس کی جانب سے ہوسٹل میں کی گئی توڑ پھوڑکی تصاویر میں اس کے کمرے میں کارل مارکس اور چے گویرا کی تصاویر دیوار پر آویزاں نظر آتی ہیں۔ شاید یہی وہ جرم تھا جس پر پارسائی، اخلاقیات اور سیاست کے ان داتاؤں نے اسے ہجوم کے ذریعے قتل کرکے سزا دی۔ رپورٹ کے مطابق جماعت اسلامی سے منسلک غنڈہ گرد تنظیم نے اس وحشت کی قیادت کی اور تحریک انصاف اور اے این پی کے طلبہ ونگ بھی اس بلوے میں شامل تھے۔ عام لوگ اس وحشیانہ کاروائی سے شدید صدمے میں ہیں۔


یہ وحشت اس جنون کو عیاں کرتی ہے جس نے فسطائی کاروائیوں کی شکل اختیار کر لی ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر یہ اس عہد کے کردار اور پاکستان میں موجود سماجی ابتری اور پراگندگی کی غمازی کرتا ہے۔ توہین اور اس جیسے دوسرے رجعتی قوانین کو جنرل ضیاالحق نے متعارف کروایا تھا، جس کی حکمرانی مختلف آمریتی یا ’جمہوری‘ شکلوں میں آج تک جاری ہے۔ آج کل کے سیکولر اور لبرل سیاست دان زور و شور سے اسی آئین و قانون کے تقدس کی تبلیغ کرتے ہیں جو ضیا الحقی شقوں سے داغدار ہے۔ پچھلے چند مہینوں سے بالخصوص اسلام آباد ہائی کورٹ کا ایک جج توہین کے ایشو کو دانستہ طور پر ابھار رہا تھا۔ لوگوں کے مذہبی جذبات سے کھیل کر جنون ابھارنے کی اس ساری مہم میں کارپوریٹ میڈیا بھی پیش پیش رہا ہے۔ مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت، جو مذہبی قدامت پسندی اور نام نہاد ’ترقی پسندی‘ کا ایک عجیب ملغوبہ ہے، اس بات کی شدت سے وکالت کر رہی ہے کہ توہین (ایک ایسی اصطلاح جسے آج تک واضح نہیں کیا گیا اور اس کے لیے کوئی پیمانہ نہیں بنایا گیا) کرنے والوں کو کچل دیا جائے۔

اسلامی جماعتوں نے آج تک پاکستان کے کسی بھی الیکشن میں پانچ فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں لیے لیکن برسراقتدار سیاسی پارٹیوں کی کمزوریوں اور بدعنوانیوں کی وجہ سے ان کا سماجی جبر اور غلبہ زیادہ ہے۔ 70ء کی دہائی کے اواخر سے تمام حکمران سیاسی و ریاستی رجحانات نے سماجی بے چینی اور بغاوتوں کو کچلنے کے لیے مذہب کا استعمال کیا ہے۔ عدلیہ کی تمام تر سرگرمیوں کا محور توہین اور شراب نوشی کے مقدمات ہیں۔ ضیاالحق نے اداروں میں بڑے عہدوں پر مذہبی انتہاپسندوں کو تعینات کیا تھا اور بعد کی نام نہاد جمہوری حکومتوں نے بھی یہی عمل جاری رکھا۔ آج ریاست، سیاسی جماعتیں، پارلیمنٹ، عدلیہ اور ذرائع ابلاغ انہی رجعتی عناصر سے بھرے ہوئے ادارے ہیں۔ مشال خان کے ہولناک قتل اور اس کے ساتھیوں کے شدید زخمی ہونے کی خبرکے حوالے سے میڈیاکا تقریباً بلیک آؤٹ کوئی حادثاتی امر نہیں ہے۔ اسی طرح پچھلی چند دہائیوں سے مختلف متحارب اور متشدد فرقہ وارانہ گروہوں کے مدارس اور مساجد تیزی سے پھیلے ہیں۔ آج کل کے ملاں پرانے وقتوں کے دیہات کے معتدل اور غریب ملاؤں کی طرح نہیں ہیں، بلکہ کالے دھن اور دہشت کے انتہائی منافع بخش دھندوں میں ملوث ہیں۔

بنیادی طور پر یہ امریکی اور یورپی سامراج ہی تھے جنہوں نے مشرق وسطیٰ سے لے کر پاکستان اور انڈونیشیا تک اس جدید اسلامی بنیادپرستی کی پرورش کی تاکہ بائیں بازو کی حکومتوں اور سرمایہ داری کے خلاف محنت کشوں اور نوجوانوں کی تحریکوں کو کچلا جاسکے۔ اس خطے میں افغان ثور انقلاب کے خلاف سامراج نے ہی بنیادپرستی کو پروان چڑھایا جو پچھلی چار دہائیوں سے پاکستان اور افغانستان کو تاراج کر رہی ہے۔

آج محنت کش طبقے کو اپنی محرومیوں اور محکومیوں سے نجات کے لیے موجودہ سیاسی جماعتوں، ریاستی شخصیات اور اداروں سے کوئی امید کی کرن نظر نہیں آرہی۔ سماج میں موجود جمود نے ایک خلا پیدا کیا ہے جسے وقتی طور پر کالے دھن اور خطے کی متحارب سامراجی طاقتوں کی پشت پناہی سے چلنے والے مذہبی شدت پسندوں اور بدعنوان سیاسی اشرافیہ نے پر کیا ہے۔

غربت، محرومی اور بظاہر نہ ختم ہونے والا استحصال، روایتی جماعتوں اور قیادتوں کی غداریوں کی ماری عوام میں سیاسی بے حسی کو جنم دیتا ہے۔ ایسے وقتوں میں ماضی کے تمام تعصبات سماج پر حاوی ہوجاتے ہیں۔ رجعت ہر سماجی رشتے اور رویے میں سرایت کرجاتی ہے۔ مذہبیت اور توہماتی رجحانات بڑھ جاتے ہیں اور سماج کی وسیع پرتوں، بالخصوص درمیانے طبقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ عمومی سوچ اور سماجی شعور پستی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ 1909ء میں لیون ٹراٹسکی نے روس میں اسی طرح کی کیفیت کا تجزیہ کیا تھا: ’’جب تاریخی ارتقا کا دھارا ترقی کرتا ہے تو عوامی سوچ ہوشیار، بے باک اور ہوش مند ہوجاتی ہے۔ وہ حقائق کو فوراً پرکھ لیتی ہے… اور جب سیاسی دھارا زوال پذیر ہوتا ہے تو عوامی سوچ بے ہودگی میں غرق ہوجاتی ہے… حماقت اور بے ہودگی ڈھٹائی سے آگے بڑھتی ہے، اپنے دانت دکھاتی ہے… اپنے آپ کو مختار کل سمجھ کر وہ اپنے ہتھکنڈوں پر اتر آتی ہے۔‘‘


موجودہ حکمران طبقات، اُن کے ادارے اور سماجی و معاشی نظام اس فسطائیت اور جنونیت کو روکنے کے قابل نہیں ہیں، بلکہ وہ تو بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر اس میں شریک ہیں۔ یہ نظام اس حد تک گل سڑچکا ہے کہ پورے سماج کو تعفن آمیز کر دیا ہے۔ لیکن نام نہاد سول سوسائٹی اور سابقہ بایاں بازو اس مذہبی بنیادپرستی اور قدامت پسندی کے خلاف اسی نظام کے اندر سیکولرازم، لبرلزم اور ’جمہوریت‘ کا متبادل پیش کرتے ہیں۔ وہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ فسطائیت کے یہ نئے مظاہر درحقیقت بحران زدہ سرمایہ داری اور بالخصوص پاکستانی سرمایہ داری کا نچڑا ہوا عرق ہیں۔ دہشت گردی اور مذہبی جنون کی معاشی اور سماجی بنیادوں کو سمجھے بغیر کوئی تجزیہ، کوئی حل پیش نہیں کیا جا سکتا۔ صحیح تشخیص کے بغیر صحیح علاج ناممکن ہے۔ صرف عوام، بالخصوص محنت کش طبقہ، ہی ایسی قوت ہے جو اس فسطائیت سے ٹکرا سکتے ہیں۔ محنت کشوں اور نوجوانوں کی ایک ایسی تحریک درکارہے جس کا مقصد اس بیماری کی جڑ، یعنی زوال پذیر سرمایہ دارانہ نظام کا یکسر خاتمہ ہو۔ اس کینسر کا خاتمہ صرف ایک انقلابی جراحی سے ہی ممکن ہے۔ لیکن زیادہ تر ’ترقی پسند‘ رہنماؤں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس تاریخی فریضے کی انجام دہی اور اس نظام کے خاتمے کے لیے محنت کشوں کی طاقت اور صلاحیت پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ ان کے تجزیے میں محنت کشوں کی انقلابی سرکشی کا کوئی تناظر سرے سے نہیں ہے۔

عوامی شعور ہمیشہ پختہ نہیں ہوتا۔ لیکن یہ بات بالکل غلط ہے کہ محنت کش طبقہ اندھا ہے اور کچھ نہیں سمجھتا۔ عوامل کی درست جانچ صرف محنت کش طبقات ہی کرسکتے ہیں۔ ایک حقیقی اور درست تناظر عوام سے کٹ کر تخلیق نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ضروری ہے کہ گلی کوچوں، فیکٹریوں اور کام کی جگہوں میں خلق کی آواز کو سنا جائے۔ یہ نظام اور اس کے حواری عوام کے سامنے ننگے ہوچکے ہیں۔ عوام غیر معینہ مدت تک صبر اور انتظار نہیں کرسکتی۔ لیکن محنت کش طبقے کی تحریک کے بغیر کوئی بھی انقلابی پارٹی عوام میں جڑیں پیدا نہیں کرسکتی۔ صرف وہی انقلابی تنظیمیں اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہیں جو مسلسل عوام سے رابطے میں ہوں۔ طویل جمود کے دور کے بعد معروضی حالات میں پہلی تبدیلی موضوعی عنصر کو وہ موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ سماج میں ریڈیکلائزیشن پر اثرانداز ہو۔ یہ جدلیاتی تعلق ایک معیاری تبدیلی سے گزرتا ہے اور ایک انقلابی تحریک ابھر کر ایک انقلابی فتح پر منتج ہوسکتی ہے۔

مشال خان ان نوجوانوں میں سے ایک تھا جو اِن کٹھن حالات میں بھی انقلابی مارکسزم کے راستے پر چل رہے ہیں۔ اس جیسے ہزاروں نوجوانوں کو اب اس بیمار نظام کو اکھاڑنے کے لئے آگے آنا ہو گا۔ یہی مشال خان کے بہیمانہ قتل کا حقیقی انتقام ہوگا۔ عظیم مارکسی استاد فریڈرک اینگلز نے ایک صدی سے زیادہ عرصہ پہلے واضح طور پر کہا تھا کہ انسانیت کے پاس دو ہی راستے ہیں: سوشلزم یا بربریت!