انور پنھور
فروری 2001ء میں میرا کراچی میں محنت کشوں کی کسی میٹنگ میں جانا ہوا۔ جس میں ملک کے مختلف ٹریڈ یونین رہنماؤں نے شرکت کی۔ میں نے اس میں سازدا یونین کے ایک رکن کے طو ر پرشرکت کی تھی۔ اس پروگرام کے خاتمے کے بعد مجھے لاہور میں ہونے والے محنت کشوں کے ایک اور اکٹھ میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ میں اجلاس میں شرکت کرنے کے لئے لاہورگیا۔ وہاں ایوان اقبال کے ہال کے اندر سامنے جو بینر لگا ہوا تھا اس پر صرف ”کانگریس“ لکھا ہوا تھا‘ جب کہ کسی بھی پارٹی کا نام نہیں تھا۔ میں نے میزبان سے پوچھا یہ کس پارٹی کی کانگریس ہو رہی ہے؟ جواب ملا کہ یہ محنت کشوں کی کانگریس ہو رہی ہے۔ اب تک پارٹی نہیں بنی ہے لیکن لازمی بننی چاہئے۔ کانگریس میں پہلے دن کی شرکت کے بعد میری سوچ کافی حد تک بدل چکی تھی۔ اس سے پہلے میں خود کو بہت پڑھا لکھا، سمجھدار اور سچا قوم پرست اور ذہانت میں خود کو اعلیٰ سمجھتا تھا۔ مگر کانگریس کی پہلے دن کی کاروائی سن کر 40 سال عمرہونے کے باوجود مجھے ایسا لگا کہ سیاسی طور آج میرا جنم ہوا ہے۔ اور میں ایک طرح سے ملال کی کیفیت میں چلا گیا کہ پہلے یہاں کیوں نہیں آیا۔ دوسرے دن کے پہلے سیشن کے خاتمے کے بعد ہال سے باہر نکلا تو میرا تعارف کامریڈ لال خان سے کرایا گیا۔ وہ مجھے گلے لگا کر ملا اور رسمی طور پر حال احوال کیا۔ بعد میں کانگریس سے متعلق پوچھا۔ جواب میں، میں نے مطمئن ہونے کے ساتھ اس تنظیم میں شرکت کی بھی حامی بھر دی۔ تو کامریڈ دوبارہ گلے لگاتے ہوئے مبارکباد دینے لگے۔ تنظیم میں شمولیت پر وہاں کھڑے دوسرے کامریڈ بھی مبارکباد دینے لگے۔ کامریڈوں کے طرف سے اس اپنائیت کے روئیے پر میں خوشی سے پھولے نہیں سما رہاتھا۔
کامریڈ لال خان سے اس پہلی ملاقات کے بعد بیس سالوں کی خوبصورت رفاقت ملی۔ اس عرصے میں ان سے کم سے کم سینکڑوں ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کی تحریر کردہ تیس سے زیادہ تناظر پر دستاویزات اور دوسری کتابیں پڑھیں اور ٹیلیفون کے ذریعے ہر طرح کے موسموں میں مسلسل رابطہ رہا۔
کامریڈ لال خان طبیعت میں بالکل سادہ، اپنے لہجے میں نرمی رکھنے والا، سب کی بات سننے والا، ہر کسی سے شفقت سے پیش آنے والا اور سب سے اتنا پیار کرنے والا انسان تھا کہ ہر ساتھی ایسا سمجھتا کہ وہ سب سے زیادہ اس کے نزدیک ہے۔ ایسے عظیم کامریڈ کے بچھڑنے سے یقینی طور پر ہمارا بڑا نقصان ہوا ہے۔ حقیقت میں وہ اپنے سیاسی قد کاٹھ کے لحاظ سے پاکستان میں محنت کش طبقے کی وکالت کرنے والا سب سے بڑا دانشور اور انقلابی تھا۔ اس کی جدائی سے نہ صرف برصغیر بلکہ عالمی مزدور تحریک کا بھی بڑا نقصان ہوا ہے۔
لال خان کتنا بڑا آدمی اور کتنا عظیم انسان تھا اس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ حقیقت میں کامریڈ کی عظمت کے کئی پہلو ہیں۔ سرمائے کی دنیا میں دولت کے پیچھے دوڑنے سے انکار کرنا، اپنی خاندانی جمع پونجی کو انقلابی مقاصد کے لئے استعمال کرنا، تنظیم کو ایثار اور قربانی کے راستے پر گامزن کرنا اور چالیس سالہ انقلابی جدوجہد کے دوران ملے ہوئے کئی صدموں کے باوجود ثابت قدم رہنا ہی تو اس کی عظمت ہے۔ مگر ان کے جس کارنامے کو تاریخ میں ہمیشہ کے لئے یاد رکھا جائے گا وہ اس خطے میں بالشویک تنظیم کی تعمیر کرنا ہے۔
اس خطے اور دنیا بھر میں بائیں بازو کی نظریاتی اور سیاسی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے اور مرحلہ واریت کے طریقہ کار کو رد کرتے ہوئے کامریڈ لال خان نے لیون ٹراٹسکی کے انقلاب مسلسل کے نظرئیے کے تحت روس میں انقلاب برپا کرنے والی بالشویک پارٹی کے طریقہ کار کو مشکل ترین دور میں، جب سوویت یونین ٹوٹ چکا تھا، اپنے لئے چنا۔ 1980ء کی دہائی میں ہالینڈ میں جلاوطنی کے دوران کامریڈ ٹیڈ گرانٹ سے ملاقات کے بعد بالشویک پارٹی کی تعمیر کے لئے طبقاتی جدوجہد کی بنیاد رکھی۔ اوراسی نام سے شہید نذیر عباسی کی یاد میں تنظیمی پرچہ نکالا۔ 1986ء میں پاکستان واپس آکر تنظیمی کام کو منظم کرنے کے لئے ملک کے مختلف حصوں میں رہائش اختیار کی تا کہ بالشویک پارٹی کی بنیادیں استوار کر سکیں۔ 1989ء میں سندھ کے پسماندہ علاقے ٹنڈو محمد خان میں ایک سال اور بھٹ شاہ اور حبیب اوینیو حیدرآباد میں اور ایک سال تک رہائش اختیار کی تھی اور انتھک انقلابی کام کرتے رہے۔
مجھے تنظیم میں آئے دو سال ہوئے تھے۔ ایک دن مجھ سے اچانک سوال کیا گیا کہ تنظیم کے اندر کیسا محسوس کر رہے ہو؟ جواب میں، میں نے مختصر جملہ کہا کہ جیسے کسی بھٹکے ہوئے بندے کو راستہ مل جائے ویسا محسوس کر رہا ہوں۔ انہوں نے ٹھنڈی آہ بھرکے کہا کہ اندرون سندھ میں جو مشکل دن گذارے تھے وہ رائیگاں نہیں گئے۔ اس طرح کامریڈ نے ملک کے چاروں صوبوں اور کشمیر میں سخت محنت کی۔ کامریڈ نے نہ صرف پاکستان بلکہ ممبئی اور فریدآباد (دہلی) کی جھونپڑپٹیوں میں بھی رہائش اختیار کی اور وہاں بھی محنت کشوں کی انقلابی پارٹی کی تعمیر واسطے جدوجہد کی۔ اس کے ساتھ برصغیر کے تمام ملکوں کے علاوہ دنیا کے کئی خطوں مثلاً یورپ، افریقہ، لاطینی امریکہ اور امریکہ کے انقلابیوں کے ساتھ ان کے گہرے روابط تھے تاکہ محنت کشوں کی عالمی تحریک کو منظم کر سکیں۔
ان کے بالشویک پارٹی کے نظریات اور طریقہ کار کو اختیار کرنے کا بڑا سبب یہ تھا کہ اس پارٹی کے برپا کیے ہوئے انقلاب روس کی طرح مختلف اقوام کے قومی مسائل کو حل کرنے کے ساتھ انقلاب کا مقصد تمام انتظامی، سماجی اور معاشی کنٹرول محنت کشوں کی پنچائتوں (سوویتوں) کے حوالے کرنا ہوتا ہے۔ جب کہ چین، کیوبا اور ویتنام وغیرہ میں منصوبہ بند معیشت سمیت تمام انتظامی اور سماجی امور اس وقت کے زوال پذیر سوویت یونین کی طرز پر افسر شاہی کے حوالے تھے۔ اور افسرشاہی محنت کشوں کی کمائی ہوئی دولت میں بڑے پیمانے خردبرد کرتی تھی۔ جب کہ محنت کشوں کی ا جتماعی پنچائتوں (سوویتوں) کے کنٹرول میں ایسی مراعات اور کرپشن کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔
روس کے انقلاب میں جس طرح مختلف قومیتوں کے قومی مسئلے کو حل کرتے ہوئے، قوموں کی حق خوارادیت بشمول حق علیحدگی کو تسلیم کرتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب کو درست سمت میں لے جایا گیا وہ بالکل درست طریقہ کار تھا۔ اس سے قبل زار شاہی کی حکمرانی کے اندرروس کو محکوم قوموں کاقیدخانہ بنا دیا گیا تھا۔ اگر قومی مسئلے پر بالشویک پارٹی درست اور حقیقی معنوں میں جمہوری پوزیشن نہ لیتی تو کبھی بھی روس کا انقلاب برپا نہ ہوتا۔ اس لئے قومی مسئلے کو حل کئے بغیر سوشلسٹ انقلاب برپا کرنا ناممکن ہے۔ روس کے انقلاب کے بعد جب فن لینڈ کے عوام نے آزادی کی مانگ کی تو کامریڈ لینن نے بالشویک قیادت کو کہا کہ فن لینڈ کو علیحدگی کا حق دیا جائے۔ نہ صرف فن لینڈ بلکہ پولینڈ کو بھی یہ آزادی دی گئی۔ اس کے ساتھ اسٹونیہ، لیٹویہ اور لیتھوینیہ کو آزاد سوویت ریپبلک کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔ دنیا کے تمام ترقی پذیر ممالک کے اندرایسے ہی سوشلسٹ انقلاب کی ضرورت ہے۔ جو سماج کی ترقی اور خوشحالی کا واحد راستہ ہے۔
ایسے عظیم انقلاب کے لئے دن رات جدوجہد کرنے والے کامریڈ لال خان کا اچانک بچھڑجانا یقینا انقلابیوں اور آنکھوں میں خوشحالی کے خواب سجائے محنت کشوں کے لئے بڑا صدمہ ہے۔ مگراب ساری ذمہ داریاں ان کے ساتھی انقلابیوں کے کاندھوں پرآن پڑی ہیں۔ اب ان کو سوشلسٹ انقلاب کی تکمیل کا وچن نبھانا پڑے گا۔ یہی کامریڈ لال خان کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔