قمرالزماں خاں
یقینی طور پر کورونا کی عالمی وبا نے نہ صرف پوری دنیا کو بدل کررکھ دیا ہے بلکہ اس دنیا کی بہترین تشریح بھی کردی ہے جس کے وسائل پر اقلیتی سرمایہ دار طبقہ قابض ہے۔ سرمایہ داری ایسے ہی عالمی سطح کے غیر معمولی واقعات میں اپنے چہرے پر نقاب لینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔ سرمایہ داری نظام کتنا سفاک ہے اس کی ایک وضاحت تو اس کے صحت کے نظام نے کر دی ہے۔ جن انسانوں کی محنت کے بغیر سرمائے کا یہ کھیل ممکن نہ تھا اور سردست نہ ہے، دنیا بھر میں ان کے تحفظ کیلئے کچھ بھی موجود نہیں۔ امریکہ اس مالیاتی نظام کا چہرہ ہے اور وہاں ہسپتالوں میں ماسک، بیڈ، وینٹی لیٹراور دیگر درکارآلات کی عدم موجودگی اس صورتحال کو بالکل واضح کرتی ہے کہ اس نظام میں اکیسویں صدی کی ترقی اور عظیم تر کامیابیاں انسانوں کی زندگیاں بچانے کی اہلیت نہیں رکھتی بلکہ ان کا رخ صرف منڈی کی بقا اور منافعوں میں اضافوں تک ہی محدود ہے۔ منڈی کو کنٹرول کرنے والی قوتیں دنیا کو بغیر انسانوں کے ہی دیکھتی آرہی تھیں اس لئے ان کے لئے انسانی زندگی کے تحفظ اوربقا کبھی بھی ترجیح نہیں رہے۔ یہ کوئی الزام نہیں بلکہ پورے امریکہ اور سارے براعظم یورپ کے قبرستان اور ناکارہ ہسپتال اس کی گواہی دے رہے ہیں۔
سرمایہ داری کی ترقی مریخ سے آگے پہنچ گئی ہے مگر مریخ تک پہنچانے والے اس مزدور کو نہ دیکھ سکی جس نے وہ کیل کانٹے، آلات اور مشینیں بنائیں جن کے سبب کائنات کے دوردراز جہانوں تک رسائی ممکن ہوئی۔ سرمایہ دار وں کے نزدیک منڈی کی معیشت میں منافع کے بغیر محض انسانی بنیادوں پر کسی شعبے مثلاً صحت و تعلیم پر رقم خرچ کرنایقینی طور پر بے وقوفی اور اسراف ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ امریکہ میں صحت کا کوئی نظام ہی نہیں ہے! بالکل ہے، مگر یہ نہ تو مفت ہے اور نہ ہی انسانی ضروریات اس کی قوت محرکہ ہیں۔ بلکہ یہ منافع خوری کا نظام ہے۔ اسی طرح یورپ میں ماضی میں منافع خوری سے پاک صحت کے نظاموں کو نجکاری کی نیولبرل پالیسیوں نے بڑی حد تک مفلوج کر دیا ہے۔ کورونا وبا نے واضح کردیا ہے کہ سرمایہ داری نظام کے رہتے ہوئے نہ تو نسل انسان کا تحفظ ممکن ہے اور نہ ہی سرمایہ داری نظام کے تحت کوئی موثر نظام صحت استوار کیا جاسکتا ہے۔ سرمایہ داری میں صرف کھربوں ڈالر کمانے والی ادویات ساز کمپنیوں اور نجی ہسپتالوں کو فائدہ پہنچانے کا نام ہی ”نظام صحت“ ہے۔ ان کمپنیوں اور ان کے شعبہ تحقیق کا کردار ہمیشہ کی طرح اس عالمی وبا کے موقع پر بھی مجرمانہ ہے۔ یوں عام لوگوں کے لئے صحت کا نظام ترقی یافتہ ممالک میں بھی ریت کے ستونوں پر کھڑا تھا جو کورونا وائرس کے ٹکرانے سے زمین بوس ہوچکا ہے۔
دوسری اہم بات جو کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث اور بھی شدت سے بے نقاب ہوئی کہ جتنے بھی حالات خراب ہوں… جنگ ہو، قحط ہو یا پھر موت بانٹنے والا عفریت نما کورونا وائرس، سرمایہ داروں کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں۔ امریکہ میں ابھی ایک بھی کورونا کا مریض نہیں تھا اور نہ ہی وہاں کسی قسم کا ہیجان پیدا ہوا تھا، ابھی خطرہ چین، ایران اور دور افتادہ ممالک میں تھا جب ٹرمپ انتظامیہ نے سرمایہ داروں کیلئے کھربوں ڈالر کی رقم لٹانا شروع کر دی۔ کروڑوں عام لوگوں کیلئے بعد ازاں معمولی رقم رکھی گئی جو چند درجن کمپنیوں کے سامنے بہت ہی حقیر تھی۔ ایسا ہی وطن عزیز میں ہوا جہاں بارہ سو ارب روپے کی خطیر رقم ملک کے سرمایہ داروں کو بانٹی گئی اور 22 کروڑ لوگوں کیلئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (جس کو احساس پروگرام کا بے معنی نام دیا گیا ہے) کے لئے 140 ارب روپے کی وہی رقم جو بجٹ میں ہر سال اناؤنس کی جاتی ہے۔ بس کیا یہ گیا ہے کہ پچھلے مہینوں میں جتنے گھرانوں کی کانٹ چھانٹ کی گئی تھی اتنے ہی نئے لوگوں کو شامل کرکے تین ماہ کی امدادی رقم یک مشت دی جا رہی ہے۔ اس امداد کو حاصل کرنے کے مراحل کتنے دشوار، شرمناک اورصحت کے حوالوں سے خطرناک ہیں اس کا اندازہ بینکوں اور امدادی سنٹروں کے باہر لوگوں کے اجتماعات سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس امدادی رقم اور اسی قسم کے نام نہاد ریلیف کی مختلف سکیموں سے زیادہ تر پیشہ وربھکاری ہی فیض یاب ہوئے ہیں۔ مگر عوام کے وہ وسیع حصے جن میں حالیہ وبائی دنوں میں برطرف اور بے روزگار محنت کش شامل ہیں ان تک کسی حکومت کی رسائی سردست ممکن نہیں ہوسکی اور نہ ہی کوئی امکان نظر آتا ہے۔
ایک طرف کورونا کی وبا نے پاکستانی سرمایہ داروں کیلئے حکومتی امداد کی راہ ہموار کی ہے تو دوسری طرف بے پناہ سرمائے اور منافعوں کی حامل فیکٹریوں نے عارضی لاک ڈاؤن کا بوجھ بھی مزدوروں پر ڈالنا شروع کردیا ہے۔ ہر روز کسی نہ کسی فیکٹری یا ادارے سے سینکڑوں مزدوروں کو فارغ کرنے کی خبریں آ رہی ہیں۔ ایک مزدور جو منڈی میں صرف اپنی قوت محنت بیچنا ہی جانتا ہو، لاک ڈاؤن (جب ہر طرف پہیہ رکا ہوا ہے) کے دوران اس کی برطرفی اس کے گھرانے کی موت کے اعلان سے کم نہیں ہوگی۔ 1200 ارب روپے کے امدادی پیکیج میں حکومت نے مزدوروں کے روزگار کو یقینی رکھنے کے کسی حکم کو جاری نہیں کیا۔ حالانکہ ایسا کرنے سے سرمایہ داروں کو کوئی نقصان نہیں ہونا تھا، ان کو بھی تو بغیر کام کیے حکومتی امداد مل رہی ہے، ٹیکسوں میں چھوٹ اور درپردہ قرضوں کی معافی کا عمل بھی جاری ہے۔ لیکن انہیں ہر حال میں منافع خوری میں اضافہ کرنا ہے۔ لاک ڈاؤن کے بعد برطرف مزدوروں کا صرف ایک حصہ ہی واپس اپنے کام پر آسکے گا، کیونکہ ان دنوں سرمایہ داروں کے ماہرین کی ٹیمیں کم مزدوروں سے زیادہ کام لینے کے منصوبوں پر سوچ بچار کررہی ہونگی۔ یقینی طور پر کورونا وبا کے طبقاتی اثرات ہر سو نظر آ رہے ہیں۔ جانی اور مالی اعتبار سے صرف محنت کش طبقہ ہی ہلاکت کی زد میں ہے۔ یہاں تک کہ جان بچانے والا عملہ صحت بدترین حالات کا شکار ہے۔ ڈاکٹر، نرسز اور ہسپتالوں کا دوسرا عملہ کورونا سے متاثر ہوکر اموات کا شکار ہورہا ہے۔ ان کو خطرناک حالات میں کام کرنے پر نہ تو الگ سے رسک الاؤنس دیا جا رہا ہے اور نہ ہی جان بچانے کا سامان ضرورت کے مطابق مہیاکیاگیا ہے۔ بلکہ الٹا ان کی تنخواہوں میں کٹوتیاں کی جا رہی ہیں۔
اگر معمول کی زندگی ہو تب بھی محنت کش طبقے کیلئے کسی قسم کی آسانی اور بہتری نظر نہیں آتی۔ صرف اوقات کار کا مسئلہ ہی نہیں ہے (حالانکہ یہی وہ اہم نکتہ ہے جہاں سے محنت کے استحصال اور سرمائے کے ارتکازکی بنیادیں ملتی ہیں)، بلکہ کم ترین سہولیات یعنی بدترین حالات کار، کم ترین حفاظتی اقدامات جن کے سبب ہر ہفتے کسی نہ کسی صنعت، کان یا کام کرنے والی جگہ پر جان لیوا حادثات کی خبریں سننے کو ملتی ہیں، کے ساتھ ساتھ ان تمام مراعات کا خاتمہ جاری ہے جو ماضی میں محنت کش طبقے نے اپنی مسلسل جدوجہد اور زبردست قربانیوں سے حاصل کی تھیں۔ مستقل ملازمتوں کی جگہ پر بہت سے ناموں سے دہاڑی داری پر کام کو فروغ دیا گیا ہے۔ ایسا کرنے کیلئے ٹھیکے داری نظام کو قائم کیا جاتا ہے۔ یوں پیداواری عمل میں مستقل عامل ہونے کے باوجود مزدورکا فیکٹری یا ادارے سے اجرت اور سہولیات کا رشتہ دن بھر کے لئے بنتا اور ختم ہوجاتا ہے۔ ایک دیہاڑی دار کیلئے صحت، رہائش، ٹرانسپورٹ، الاؤنسز، بونس اور پنشن کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور اسی طرح اس کے بچوں کی تعلیم یا دیگر ضروریات سے سرمایہ دارکو کوئی سروکار نہیں رہتا۔ اپنے حقوق کیلئے تو عملی طور پر مستقل مزدوروں کیلئے بھی کوئی پلیٹ فارم نہیں رہا۔ بطور خاص نجی شعبے کے 99 فیصد سے بھی زیادہ مزدور (اگر کسی ادارے میں یونین ہو بھی تو) کسی سوداکار انجمن کا حصہ نہیں ہیں۔ سچ بات تو یہ ہے کہ اگر کہیں (نجی اورسرکاری شعبوں میں) یونینیں موجود بھی ہیں تو بس علامت کی حد تک۔ محنت کش طبقے کی زندگی کے اتارچڑھاؤ اورمسائل کے ساتھ ان کا تعلق بہت واجبی رہ گیا ہے۔ اگر مزید غور سے دیکھیں تو جہاں معروضی حالات اور نظریاتی گراوٹ نے سرمایہ داری کو زیادہ اور مسلسل حملہ آور بنایا ہے وہاں مزدورقیادتوں کے سرنگوں ارادوں اور پست ہمتی نے اس کو مہمیز بخشی ہے۔ زیادہ تر مزدورقیادتیں سرمایہ داری کی اطاعت گزار ہوکر جدوجہد سے تائب ہوچکی ہیں اور ان کا میدان ”صاف ستھری“ مزدورسیاست تک محدود ہوچکا ہے۔ جس میں جو مل گیا اس پر قناعت اور انتظامیہ سے لڑنے سے گریز کی پالیسی شامل ہے۔ زیادہ سے زیادہ فیڈریشنوں اور یونینوں کے وکیل عہدیداروں کے روزگار کے لئے نام نہاد مزدورعدالتوں میں کیس فائل کردیئے جاتے ہیں۔ پھرفیس کیلئے مزدوروں کی ہڈیوں پر چمٹی چمڑی بھی ادھیڑلی جاتی ہے۔ مزدورعدالتیں دکھاوے کیلئے ہیں۔ یہ بے ربط اور بے ثمر ہیں۔ عدالتوں میں نہ جج پورے ہیں اور انصاف کا تو ادھر سے گزر ہونا ویسے ہی ناممکن ترین ہے۔ اگر کسی عدالت سے سہواً یا مخصوص مقاصد کی تکمیل کیلئے انتظامیہ کے خلاف فیصلہ آبھی جاتا ہے تو اس پر عمل درآمد کیسے ہو؟ اس ساری صورتحال میں کیفیت کسی طور پر بھی مزدوروں کی اکثریت کے لئے موزوں نہیں ہے بلکہ بہت ہی اذیت ناک ہے۔
موجودہ یوم مئی جس میں مزدورکھل کر اپنا رونا بھی نہیں رو سکتے، صرف سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہی منانا ممکن رہا ہے۔ مگر اب اوقات کار کی بجائے زندگی کی بقا کا معاملہ درپیش ہے۔ ایسی کیفیت میں ’مزدورماہرین‘ کی انفارمل سیکٹر کے مزدوروں کو یہ تلقین کہ وہ خود کو یونینوں میں رجسٹرڈ کرائیں بے وقت کی راگنی اور غیر حقیقی مطالبہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کہ مزدوررہنما جو عملی طور پریونینوں کے ”گدی نشین“ بن کر رہ گئے ہیں، حرکت میں آئیں۔ پہلی بات تویہ ہے کہ ہر سطح پر مزدوروں کی برطرفیوں کو ماننے سے انکار کیا جائے اور برطرف مزدوروں کو فوری طور پر تنخواہوں کے ساتھ بحال کرنے کا مطالبہ کیا جائے۔ اس ایک مطالبے کے گرد ملک گیر تحریک چلانا از حد ضروی ہے۔ اس کے ساتھ ہر قسم کے امکانات کو بروئے کارلانے کی ضرورت ہے۔ پہلے مرحلے پر سوشل میڈیا سے لے کر حکام بالا سے براہ راست مخاطب ہونے کی ضرورت ہے۔ اسی دوران ٹریڈ یونین سے متعلق رہنماؤں، یونینوں، فیڈریشنوں اور کنفیڈریشنوں کو ہر فیکٹری، ادارے اور مزدوروں کی بستیوں تک احتجاجی تحریک کو استوار کرنا ہوگا۔ کورونا وائرس جہاں ایک طرف انسانی زندگیوں پر دشمن بن کر حملہ آور ہوا ہے وہاں دنیا بھر کے محنت کشوں کو روزگار سے محروم کرنے، غربت میں اضافہ اور بنیادی حقوق کی سلبی کا باعث بنا ہے۔ لہٰذا تحریک کو بین الاقوامی سطح پر استوار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عالمگیر مطالبات کو وضع کیا جاسکے۔ اس طرح مشترکہ عالمگیر مطالبات کی شدت اوردائرہ کار زیادہ اثرات مرتب کرے گا۔ تمام تر پابندیوں کے باوجود یہ یوم مئی پچھلے سالوں کی نسبت زیادہ اہمیت کاحامل ہے۔ ہمیں اس کے دائرہ کار کو یکم مئی سے آگے بڑھانا ہو گا۔ یکم مئی کی طبقاتی یکجہتی کو جہد مسلسل میں بدل کر موجودہ عہد میں نہ صرف فوری مسائل کے حل کی تحریک شروع کی جاسکتی ہے بلکہ کورونا وائرس کی بدولت سرمایہ داری نظام کے حقیقی کردار کو اوروضاحت کے ساتھ عام لوگوں بالخصوص محنت کش طبقے کے سامنے پیش کرنا ضروری ہے۔ اس طرح اس سفاک اور انسان دشمن نظام کے خلاف اس تحریک کے آغاز کی بنیادیں استوار کی جاسکتی ہیں جواگلے مرحلوں میں ایک فیصلہ کن طبقاتی جدوجہد میں بدل سکتی ہے۔