ذیشان شہزاد
حالیہ کورونا وائرس کی عالمی پیمانے پر پھیلی وبا سے متاثرین کی تعداد چونتیس لاکھ سے زیادہ ہو چکی ہے اوراور تا دمِ تحریر دو لاکھ چالیس ہزار سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں۔ اموات کا نہ رکنے والا سلسلہ ابھی جاری و ساری ہے۔ یہاں تک کہ دنیا کی واحد سُپر پاور امریکہ میں ایک دن میں تین ہزار کے لگ بھگ افراد اِس بیماری سے زندگی کی بازی ہار گئے۔ یہ تعداد 9/11 کے سانحے میں مرنے والوں کے قریباً برابر ہے۔جبکہ پاکستان میں اٹھارہ ہزارچھ سو سے زائد کورونا متاثرین ہو چکے ہیں اور چار سو سے زیادہ ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ اس لئے اس مضمون میں ہم اِس وبا کی شدت کی وجوہات کے تاریخی پسِ منظر کو بیان کر کے مستقبل کے اِمکانات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔
ماضی کے بغیر کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ اس لئے تاریخ کے سہارے کے بغیر کسی بھی حال کو نہیں سمجھا جا سکتا اور نہ مستقبل کی حقیقی پیش بینی کی جا سکتی ہے۔ سوویت یونین کے 1991ء میں انہدام کے بعد سرمایہ دارانہ دانشور فرانسس فوکویاما نے ”تاریخ کے خاتمے“ کا جو بے ہودہ اور فرسودہ نظریہ پیش کیا‘ اُس کے مطابق آسان الفاظ میں سرمایہ دارانہ جابر اور استحصالی نظام انسانوں کا بنایا ہوا وہ”بہترین“ نظام ہے جو انسانیت کی قسمت میں اَبد تک لکھ دیا گیا ہے۔ اِس کے مدِ ُمقابل منصوبہ بند معیشت کا نظریہ اب تاریخ کا ایسا حصہ بَن چکا ہے جس میں اب دوبارہ پنپنے اور سر اُٹھانے کی کوئی گُنجائش باقی نہیں بچی اور اب سرمایہ داری میں کوئی بحران نہیں آئے گا۔ مگر دوسری جانب مارکسسٹ یہ تجزیہ پیش کر رہے تھے کہ سرمایہ داری کو جو وقتی سہارا ملا ہے وہ صرف اور صرف سابقہ سوویت یونین کے انہدام سے نصیب ہوا ہے۔ جس سے نئی منڈیاں اور سستی لیکن ہنرمند لیبر سرمایہ داری کو میسر آئی ہیں۔ مگر سرمایہ داری کے خمیر میں نسلِ اِنسانی کی محنت نچوڑ کر سرمایہ داروں کی تجوریاں بھرنے کا جو جِبِلّی کردار ہے‘ اُس کے تحت دیر سے ہی سہی مگر بحران ضرور آئے گا اور جتنی تاخیر سے آئے گا اُتنی ہی اس کی شدت زیادہ اور نوعیت پُر پیچ ہوگی۔
اس پیشین گوئی کو اُس وقت شاید اتنی پذیرائی نہیں ملی۔ بلکہ اس کے برعکس عالمی سرمایہ داری نے بظاہر سوویت یونین کے ماڈل کے سرمایہ دارانہ متبادل کے طور پر (مگر حقیقت میں سرمایہ داری کے لئے اُس وقت کی ناگزیر ضرورت کے تحت) یورپی یونین اور یورپی سنٹرل بینک جیسے سامراجی ادارے تشکیل دئیے۔ جس میں جرمنی بطور معاشی قوت اور فرانس بطور سیاسی قوت ان اداروں کو تخلیق کرنے میں پیش پیش تھے۔ جرمنی اور فرانس جیسی صنعتی معیشتوں کو پُرتگال اور یونان جیسی کمزور معیشتوں کے ساتھ جوڑ کر دنیا کو یہ جتلانے کی کوشش کی گئی کہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت بھی متضاد کیفیت کی حامل معیشتوں کو باہم مربوط کرتے ہوئے ترقی کی جا سکتی ہے۔ یہ اقدام خاص طور پر یورپی بورژوازی کے لئے ایک لاٹری کی طرح تھا جس میں سارے یورپی یونین کے ممالک کو ایک کرنسی اور ایک ویزے میں جوڑ کر (سوائے برطانیہ کے) سارے یورپ کے محنت کشوں کا استحصال کر کے بے تحاشہ منافع خوری کی گئی۔ مگر اُس وقت بھی مارکسی اساتذہ یہ بتا اور سمجھا رہے تھے کہ اس طریقہِ واردات سے عالمی معیشت کو وقتی اور مصنوعی آسرے سے جو شرح منافع کا حصول ممکن ہوا ہے وہ جلد یا بدیر ایسے بحران پرمنتج ہو گا جس سے یورپی یونین کے ممالک کے مابین قومی تضادات مزید شدت سے بھڑک کر سامنے آئیں گے۔ اور ان تضادات کا گُنجلک پن اتنا شدید ہوگا کہ کسی ایک کمزور سی معیشت کا بحران بھی پورے یورپی یونین کی بنیادوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دے گا جس کے عالمی معیشت پر بھی شدید منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
نسلِ انسان کی مجموعی تاریخ میں دس سے پندرہ سال کا عرصہ کچھ زیادہ وقت نہیں ہوتا۔ مگر جیسا کہ مارکسزم ہمیں سکھاتا ہے کہ دہائیوں میں بظاہر کچھ بھی انہونا وقوع پذیر نہیں ہوتا۔ مگر پھر قلیل عرصے میں دہائیوں سے بڑے واقعات وقوع پذیر ہوجایا کرتے ہیں۔جو معاشروں، نظاموں اور انسانوں کی نفسیات کو اُن کی اساس تک ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ اور جیسا کہ کامریڈ ٹیڈ گرانٹ کہا کرتے تھے کہ واقعات، واقعات اور صرف واقعات تاریخ کے سمندر کی لہروں کا رخ موڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ بالآخر 2007ء میں سرمایہ دارانہ نظام کے سامنے عالم گیر طور پر مالیاتی اداروں کے بحران اور دیوالیہ پن کا دیو منہ کھولے کھڑا تھا جس کے بارے میں اُن کے کُند ذہن دانشور ہر امکان کو جھٹلاتے رہے تھے۔ مگر مارکسسٹوں کی پیشین گوئیاں، جو تاریخ کے اوراق پر آج بھی درج ہیں، کا عملی ثبوت ہمیں 2007-08ء کے عالمی سرمایہ داری کے گھمبیر بحران کی صورت میں نظر آیا۔ جس میں ہمیں لہمن برادرز اور گولڈ مین ساشے جیسے عالمی مالیاتی ادارے دیوالیہ پن کی دلدل میں د ھنستے نظر آئے۔ جس نے تمام بڑے بڑے یورپی بینکوں میں بھی دیوالیہ پن کی ”وبا“ پھیلا دی۔ اور ان تمام سرمایہ دارانہ گِدھوں کو ریاستوں کی جانب سے بڑے بڑے مالیاتی بیل آؤٹ پیکیج اُس عوامی پیسے کے ذریعے عطا کیے گئے جو پیسے ریاستیں عوام کا خون پسینہ نچوڑ کر اُن سے وصول کرتی ہیں۔ اس طرح سے ریاستوں نے نجی بینکوں کو تو دیوالیہ پَن سے بچا لیا مگر اُن کے اپنے قومی خزانے خالی ہو گئے۔ جس کو پھر سے بھرنے کے لئے جو عالمی ساہو کاروں نے نسخہ کیمیا دیا وہ یہ تھا کہ ریاستیں اپنے اداروں کو نجکاری کے ذریعے فروخت کر دیں۔ مزید مزدوروں کو روزگار سے محروم کر کے بچت کی پالیسی اپنائی جائے جس کو انگریزی میں ”آسٹیریٹی“ کہتے ہیں۔ جو محنت کشوں کے لئے بربادی کے نسخے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
سوویت یونین نے جو اجتماعی طور پر محنت کشوں کے معیارِ زندگی کو بہتر کیا تھا‘ اُس کے خوف سے دنیا بھر میں موجود سرمایہ دارانہ ریاستوں نے اپنے اپنے ممالک میں محنت کشوں کو کچھ نہ کچھ مراعات دی تھیں۔ وہ بھی سوویت یونین کے انہدام کے بعد سرمایہ داروں نے محنت کشوں سے بتدریج چھین لیں۔ اور اس کے بعد محنت کشوں کی زندگیوں پر معاشی حملے کیے گئے۔ ہر آنے والے بحران کی قیمت محنت کشوں سے پوری کروائی گئی۔ یہاں تک کے 2007-08ء کے معاشی بحران سے نکلنے کے لیے بھی نیو لبرل اکانومی کا سہارا لیا گیا۔ جس کے مطابق نجکاری اور ریاستی اخراجات میں کمی ہی بحران سے نکلنے کا ذریعہ بتائی گئی۔ سرمایہ داری کے رکھوالوں نے بینکوں کو کھربوں ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج دیئے جس کی قیمت پھر محنت کشوں کے خون و پسینے سے لی گئی۔نیو لبرل اکنامک پالیسیوں کے تحت ریاستوں نے خاص طور پر صحت اور تعلیم کے شعبوں میں بتدریج کٹوتیاں کیں۔ مثال کے طور پر فرانس کے سرکاری ہسپتالوں میں صرف سال 2018ء کے اندر4200 بیڈزکا خاتمہ اسی پالیسی کا شاخسانہ ہے۔ یہی کچھ برطانیہ سمیت یورپ کے تمام ممالک میں ”بچت“ کے نام پر ہوا۔اسی طرح پاکستان میں بھی صحت اور تعلیم کے بجٹ میں کٹوتیاں کی گئیں اور نجکاری کے ذریعے علاج اور تعلیم غریبوں کی پہنچ سے مزید دور کر دیئے گئے۔
مگر سرمایہ داری میں ایک اُصول تمام حقیقتوں پر بھاری ہے:منافع خوری۔ جس کے تحت بحران سے نکلنے کا وہ طریقہ اپنایا گیا کہ جس سے محنت کشوں کی زندگیاں مزید اجیرن تو بن جائیں مگر سرمایہ داروں کے منافع میں کمی نہ آئے۔ اور اس بحران نے آنے والے بحران کی بنیاد بھی رکھی کیونکہ آخری تجزئیے میں سرمایہ داری نظام کے پاس محنت کشوں کا خون نچوڑنے کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے کہ جس سے اس کے شرحِ منافع برقرار رہ سکے۔یہی وہ وجہ ہے کہ موجودہ بحران کی شدت بہت زیادہ ہے اور آنے والے دنوں میں معاشی بحران بھی مزید گہرا ہو گا۔
اِس کے بر عکس سویت یونین کے انہدام کے بعد لاطینی امریکہ سے اکیسویں صدی کے سوشلزم کی آواز اُبھری۔ جہاں عوامی طاقت کے زور پر اقتدار میں آنے والے بائیں بازو کے رہنماؤں نے امریکی سامراج کی طرف سے لگائی گئی شدید معاشی اور اقتصادی پابندیو ں کے باوجود عوامی اصلاحات کا بہت بڑا پروگرام شروع کیا۔ جس کے تحت عوام کو مفت تعلیم اور علاج کی سہولیات گھر گھر تک سرکاری خرچے پر مہیا کی گئیں۔ جہاں بجلی پیدا کرنے کی نجی کمپنیوں کو قومی تحویل میں لے کر بجلی کی قیمتوں میں 80 فیصد تک کمی کی گئی۔ جہاں وینزویلا میں پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کے وعدے کے مطابق 28 لاکھ تمام ضروری گھریلو اشیا سے مزین اور آراستہ گھر اب تک تعمیر کر کے بے گھر لوگوں کورہائش کے لئے دیئے جا چکے ہیں۔ مزید 185 ملین ڈالر (امریکی) اِس منصوبے پر رواں سال خرچ کیے جائیں گے۔
عوامی اخراجات میں کٹوتیوں کی پالیسی کو جب سرمایہ دارانہ ریاستوں کی جانب سے جبراً نافذ العمل کیا گیا تو محنت کشوں کی جانب سے شدید عوامی ردِ عمل کا سامنا دیکھنے میں آیا۔ تیونس کے ایک بے روزگار نوجوان کی خود سوزی سے پورے مشرقِ وسطیٰ میں ایک عوامی تحریک کا نیا دور بھی ظہور پذیر ہوا۔ جس کے تحت برسوں سے برا جمان حاکموں کو عوامی غیض و غضب کے سامنے ڈھیر ہونے میں ذرا بھی وقت نہ لگا۔ خاص کر مصر میں عوامی سر کشیوں نے ایک آمر کے بعد ایک نام نہاد جمہوری حکمران، جو ماضی کی پالیسیوں کو ہی تسلسل دے رہا تھا، کو بھی ٹھیک ایک سال کے مختصر عرصہ میں ہی پہلے سے بڑی اور منظم عوامی سرکشی کر کے نکال باہر کیا۔ لیکن عوام کو انقلابی سوشلسٹ پروگرام دینے والی قیادت کے فقدان کے باعث پورے مشرقِ وسطیٰ میں انقلابی اُبھار کو کچلنے کے لئے علاقائی یا عالمی سامراجی طاقتوں کو مداخلت کا موقع میسر آیا۔ جس کے بعد نسلِ انسانی نے بے پناہ جبر، بھوک، مذہبی فسطائیت اور ہجرت کے المیے کو جنم لیتے دیکھا۔
اسی طرح فرانس میں محنت کشوں کی ہڑتالوں سے پورا یورپ لرز گیا۔ اُس کے بعد یونان میں یکے بعد دیگرے 35 سے زائد عام ہڑتالیں کی گئیں۔ پورے یورپ میں ایک سیاسی اتھل پتھل کے عہد کا آغاز ہوا جس میں بائیں بازو کی نئی قیادتوں نے جنم لیا۔ لیکن خاص کر یونان کی نئی عوامی پارٹی ’سائیریزا‘ نے جب عوامی حمایت سے سامراجیت اور سرمایہ داری مخالف منشور کی بنیاد پر مسند اقتدار سنبھالا تو اصلاح پسندانہ سوچ کے تحت عالمی ساہوکاروں کے ایجنڈے پر انہی کٹوتیوں کی پالیسیوں کو اپنایا۔ جس سے محنت کشوں کے شعور پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ اِس کے باوجود بھی سرمایہ داری کے گڑھ امریکہ میں ”آکوپائی وال سٹریٹ“ سے لے کر فرانس میں ”پیلی جیکٹ“ والو ں کی تحریک تک اور سوڈان، الجزائر اور لبنان میں انقلابی تحریکوں سے لے کر ہندوستان میں پچیس کروڑ محنت کشوں کی ایک ہی روز میں ہڑتال میں شمولیت تک بے پناہ عوامی مظاہرے اور تحریکیں بھی دنیا کی جدید تاریخ کے منظر نامے پر گزشتہ عرصے میں ابھری ہیں۔ ان کی وجوہات میں مہنگائی اور بیروزگاری جیسے عوامل سرِ فہرست رہے ہیں جو سرمایہ داری کے بحران کی ناگزیر پیداوار ہیں۔
اس سارے پس منظر میں کورونا وائرس کی وبا محنت کشوں کے لئے ایک بھونچال بن کر آئی ہے۔ جو دراصل سرمایہ داری نظام کی متروکیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر محنت کشوں کا شعور اب ایک نئی جست لے رہا ہے۔ کیونکہ یہ نظام اور اس کے دلال محنت کشوں کے سامنے دو آپشن رکھ رہے ہیں: یا وہ کورونا سے مر جائیں یا پھر بھوک سے مریں۔ نجی ملکیت کے اس نظام کی غلاظت سے اور توقع بھی کیا کی جا سکتی ہے۔ پچھلی دہائی میں برپا ہونے والی عوامی سرکشیو ں کی ہی طرح (مگراُن سے بڑے پیمانے پر) طبقاتی لڑائیاں دنیا کے منظر نامے پر دوبارہ ضرور اُبھریں گی۔ کورونا کی وبا سے بعد کی دنیا پہلے سے بہت مختلف ہو سکتی ہے۔ لیکن موجودہ حالات نے ایک بات واضح کر دی ہے کہ سوشلسٹ نظام ہی نہ صرف ایسی وباؤں سے لڑنے کے لئے بھاری ریاستی سرمایہ کاری کو ممکن بنا سکتا ہے بلکہ رہائش، تعلیم اور علاج جیسی بنیادی ضروریات لوگوں کو فراہم کر سکتا ہے۔ جس کے لئے محنت کشوں کو عالم گیر پیمانے پر منظم ہو کے اس سرمایہ داری کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اُکھاڑ پھنکنے کی ضرورت ہے۔ یہیں ہیں گلاب، یہیں ہو گا رقص!