ذیشان شہزاد
یہ آج ایک تسلیم شدہ آفاقی سائنسی حقیقت ہے کہ زندگی کاآغاز یک خلوی جاندار کے پانی میں وجود میں آنے سے ممکن ہو سکا۔ جس سے ایک اَٹل حقیقت آشکار ہو ئی کہ ”زندگی پانی سے ہے“۔ ایک جوان انسانی جسم کے خون میں پانی کی مقدار ساٹھ فیصد ہوتی ہے جبکہ بچوں میں یہ شرح 75 فیصد ہوتی ہے۔ اِس لئے لمبی اور صحت مندانسانی زندگی کا ”راز“ صاف پانی کو قرار دیا جاتا ہے۔ مگر کیا پینے کے صاف پانی کی ”عیاشی“ اِس خطہ زمین پر بسنے والے تمام اِنسانوں کو میسر ہے؟ پاکستانی سماج کے تناظر میں یہ بحث آج ہمارا موضوعِ سخن ہے۔
ویسے تو اِس کُرہ اَرض کا 71 فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہے مگر اُس میں سے صرف 2.5 فیصد پانی ہی قابلِ اِستعمال یا فریش واٹر ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر سماجوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے ہی یہ بات بخو بی عیاں ہوجاتی ہے کہ ریاست ساری عوام کو پینے کا صاف پانی مہیا کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہے۔ یہاں تک کے بے حد پسماندہ خطوں میں تو آج بھی جانور اور اِنسان ایک ہی گھاٹ سے پانی پینے پر مجبور ہیں۔ یا پھر کچھ علاقوں میں بارش کا پانی انسانوں کے زندہ رہنے کے لئے واحد اور آخری سہارا ہوتا ہے۔ جبکہ شہروں کا بوسیدہ اِنفراسٹرکچر بارانِ رحمت کو بارانِ زحمت بنا دیتا ہے‘ جہاں گلیوں سے پیدل گزرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اِس بارے میں شاعر شہزاد احمد نے کیا کمال منظر کشی کی ہے کہ:
میں کہ خوش ہوتا تھا دریا کی روانی دیکھ کر
کانپ اُٹھا ہوں گلی کوچوں میں پانی دیکھ کر
اور جب پانی سیلابِ بلا بن جائے تو محنت کشوں کی کیا حالت زار ہوتی ہے اِس کو محسن نقوی کے اِس شعر سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ:
محسن غریب لوگ بھی تِنکوں کے ڈھیر ہیں
ملبے میں دَب گئے، کبھی پانی میں بہہ گئے
مگر اُسی ریاست کے پاس جدید تباہی کے آلات اور موٹر وے جیسے ”شاہکاروں“ اور (خاص طور پر) بحران کے ادوار میں سرمایہ داروں کے لئے ہمہ وقت سرمایہ دستیاب ہوتا ہے۔ پُرانے وقتوں کی کہانیوں میں ہمیں بتایا جاتا رہا کہ لوگ پانی بھرنے کے لئے سَر پر گھڑے رکھے کئی کئی میل پیدل چل کر کنوؤں پر جایا کرتے تھے۔ آ ج ہمارے سامنے اُن کنوؤ ں کا جدید نام شاید ’فلٹریشن پلانٹ‘ ہو گیا ہے (وہ بھی آبادی کے ایک قلیل حصے کو ہی میسر ہیں)۔ جہاں عوام پرانے وقتوں کے ماشکیوں کی طرح چمڑے کے مشکیزوں کی بجائے پلاسٹک کی بوتلیں لئے اپنی باری کا انتظار (جیسا کہ پسماندہ ممالک میں اُن سے توقع کی جاتی ہے) کرنے کی بجائے ہڑبونگ مچائے ہوتی ہے۔ اور اِن جدید کنوؤں کے پُر تعیش افتتاح کرنے اور اِن پر اپنے نام کی تختی سجانے والے سرکاری عہدیداروں کو ویسے تو چُلّو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہیے۔ مگر اُس کے لئے جس شرم و حیا کی ضرورت ہوتی ہے وہ اِ س بحران زدہ سرمایہ دارانہ نظام کے دلال حکمرانوں کے نزدیک کب کی پانی میں بہہ چکی ہے۔ اِ ن جدید کنوؤں پر پینے کا پانی بھرنے والوں کی بھرمار حالیہ کورونا وائرس کی وبا کے دنوں میں کِس حد تک خطرناک ہے اِس کا اُن حاکم لوگوں سے کیا پوچھیں جن کے لئے پینے کا پانی بھی اِٹلی سے آتا ہے۔
لیکن اِن جدید کنوؤں تک رسائی بھی محنت کشوں کی وسیع پرتوں کو دستیاب نہیں ہے۔ اِس اَمر کا اندازہ صرف اِس بات سے لگائیں کہ پاکستان میں 80 فیصد بیماریوں (خاص طور پرگردوں، جگر اور آنتوں کی بیماریوں) کی بنیادی وجہ صرف اور صرف پینے کے لئے صاف پانی کا دستیاب نہ ہونا ہے۔ اور 30 فیصد اموات کی وجہ یہی آلودہ پانی ہے جو محنت کشوں کے لئے زہر قاتل ہے۔ پانی میں آگ لگانے والے شعبدہ باز مداری کی طرح اِس ریاست کے حکمران طبقات بھی عوام کی اِس بنیادی ضرورت سے صرفِ نظر کرنا اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ہم نے ہمیشہ بچوں کی کہانیوں میں پڑھا ہے کہ حکمران جب بھی اپنی عوام کو کسی مشکل میں دیکھتے تو اپنی نا اہل حکمرانی پر شرم سے پانی پانی ہو جایا کرتے تھے!
مگر در حقیقت اِن سب گورکھ دھندوں کے پیچھے اصل کہانی یہ ہے کہ پانی جیسی بنیادی انسانی ضرورت پر بھی سرمائے کے اِس نظام میں عالمی اجارہ داریوں کا ظالمانہ اور جابرانہ قبضہ ہے۔ جن کا اگر بس چلے تو نسل اِنسان کو پانی کی بوند بوند کے لئے ترسا کر رکھ دیں۔ صاف پانی کی تجارت جہاں نیسلے جیسی غذائی اجناس بنانے والی عالمی اجارہ داری کے منافعوں میں بے پناہ اِضافہ کرتی ہے وہیں اس سے محروم طبقات کی بیماریاں پھر ادویات سازی کی اجارہ داریوں کے لئے بھی کسی لاٹری سے کم نہیں ہوتیں۔ کیونکہ نجی ملکیت کے بے ہودہ نظام میں علاج پر پانی کی طرح پیسے بہانا اِنسانوں کی مجبوری بن جاتا ہے۔ کون اپنے پیاروں کو بیماری کی حالت میں تڑپتا دیکھ سکتا ہے۔
اِس سرمائے کے نظام کی غلیظ دلدل میں پھنسے محنت کش عوام جہاں ’ماہی بے آب‘ کی طرح تڑپ رہے ہیں، بِلک رہے ہیں، سسک رہے ہیں وہیں حکمران اَشرافیہ یہ سمجھتی ہے کہ اُنہوں نے اور اُن کے نظام نے کوئی آبِ حیات پیا ہوا ہے۔ اور اس وجہ سے اِس استحصالی نظام کو اُکھاڑ پھینک کرسائنسی متبادل کی جدوجہد کرنے والوں کے بارے میں حکمران اشرافیہ کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ پانی کے دھارے کی مخالف سمت میں تیر نے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ حقیقت میں اُن کے نظام کا بحران اُن کے پست ذہنی معیار (اٹلی سے درآمد شدہ صاف پانی پینے کے باوجود) کا بنیادی سبب ہے۔ اِس لئے جب یہ ایک دوسرے کو ’پانی پی پی کر کوسنے دیتے‘ ہوئے فضول قسم کے موضوعات پر لایعنی (مگر اپنے تئیں سنجیدہ) گفتگو کرتے ہیں تو محنت کشوں کے نزدیک وہ پانی میں مدھانی مارنے کے مترادف ہوتی ہے۔ مگر ایک بار جب محنت کشوں اور مزدوروں کی آنکھوں میں اذیتوں کے آنسوؤں کے پانی کی بجائے بغاوت کا خون اُتر آیا تو ذلتوں کے مارے اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف نفرت میں سلگتے عوام کا بے کراں سمندر اِن حکمرانوں کو ان کے اِستحصالی نظام سمیت خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائے گا۔ اور تب ہی اصل میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گا۔