فیروز خان

ریاست منیسوٹا کے شہر منیاپولس میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کے سر عام قتل نے امریکہ میں نسل پرستی اور ریاستی جبر کی بربریت کوایک مرتبہ پھر سے بے نقاب کر دیا ہے۔ 46 سالہ سیاہ فام جارج فلائیڈ اور اس کو دبوچے ہوئے ایک پولیس والے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی جس میں پولیس والا اس کی گردن کو گھٹنے تلے دبائے بیٹھا تھا اور فلائیڈ مسلسل چیختا رہا کہ ”میرا دم گھٹ رہا ہے۔“ تین دوسرے پولیس والے ساتھ کھڑے تماشا دیکھتے رہے اور کسی کو پاس نہیں آنے دیا۔ یہاں تک کے فلائیڈ بے سود ہو گیا اور تھوڑی ہی دیر بعد انتقال کر گیا۔ اس سے2014ء میں ایرک گارنر کے قتل کی تلخ یاد تازہ ہو گئی جسے بالکل اسی انداز میں مارا گیا تھا۔ فلائیڈ کے قتل کے بعد منیاپولس سمیت ملک کے کئی دیگر شہروں میں احتجاجوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا ہے جس میں شدت آتی جا رہی ہے۔ منیاپولس شہر میں سوموار سے لگاتار مظاہرے ہو رہے ہیں جن میں پولیس کی جانب سے آنسو گیس کا استعمال اور شدید تشدد کیا گیا ہے۔ سی این این کے ایک کیمرہ مین کو پولیس نے اس وقت گرفتار کیا جب وہ مظاہروں کی براہ راست کوریج ٹی وی پر نشر کر رہا تھا۔ یوں اس کی گرفتاری ساری دنیا میں ٹیلی کاسٹ ہوئی۔ 28 مئی کے رات منیاپولس شہر میں ایک پولیس سٹیشن کو نذر آتش کر دیا گیا۔ مقامی اطلاعات کے مطابق پولیس کو مظاہرین پر سیدھی گولیاں چلانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ کئی مظاہرین گرفتار کر لیے گئے ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق بس ڈرائیوروں نے گرفتار مظاہرین کو جیل لے جانے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ محنت کش طبقے کی جڑت اور یکجہتی کے حوالے سے بہت اہم پیش رفت ہے۔

اس کے علاوہ مظاہروں کا سلسلہ نیو یارک، شکاگو، لاس اینجلس، ڈینور اور دیگر کئی ریاستوں اور شہروں تک پھیل چکا ہے۔ صدر ٹرمپ نے نیشنل گارڈ کے فوجی دستے منیاپولس شہر میں تعینات کر دئیے ہیں اور دھمکی دی ہے کہ ”لوٹ مار کرنے والوں کو گولی مار دی جائے گی۔“ آنے والے دنوں میں کشیدگی بڑھنے کے قومی امکانات ہیں۔

امریکہ میں نسل پرستی اور ریاستی جبر کی ایک لمبی تاریخ ہے جو ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ سیاہ فام امریکہ میں انتہائی پسی ہوئی اور محروم سماجی پرتوں میں شامل ہوتے ہیں۔ ان کی اکثریت ان غلاموں کی اولاد ہے جنہیں افریقہ سے اغوا کر کے لایا گیا تھا اور امریکی سرمایہ داری، جو آج دنیا میں انسانی حقوق کی علمبردار بنی پھرتی ہے، کا ایندھن بنایا گیا۔ 1863ء میں انہیں رسمی طور پر تو غلامی سے تو آزادی مل گئی لیکن ان کے سماجی و معاشی حالات نہیں بدلے۔ اس کے بعد سو سالوں کی جدوجہد اورایک بہت بڑی تحریک کے نتیجے میں 1964ء میں کہیں جا کر نسلی امتیاز کے قوانین مکمل طور پر ختم کیے گئے۔ لیکن ان پر مظالم اور طبقاتی استحصال کا سلسلہ جاری ہے۔ مردم شماری کے اندازوں کے مطابق سیاہ فام ملک کی آبادی کا 12 فیصد ہیں۔ لیکن2015ء سے2019ء کے دوران پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے والوں میں ان کا تناسب 26.4 فیصد ہے۔ ان جرائم کا ارتکاب کرنے والے 99 فیصد پولیس افسران پر کوئی فرد جرم عائد نہیں کی گئی۔ اسی طرح جیلوں میں موجود قیدیوں میں 33 فیصد سیاہ فام ہیں۔ یعنی آبادی کے تناسب کے مقابلے میں تقریباً تین گنا زیادہ۔ اسی منظم عدم مساوات اور نسلی امتیاز کے نتیجے میں 2016ء کے اعداد و شمار کے مطابق ایک اوسط سفید فام گھرانے کی دولت سیاہ فام خاندان سے 10 گنا زیادہ ہے۔ اسی طرح روزگار، تعلیم اور علاج سمیت تمام شعبوں میں بہت بڑی خلیج ہے۔ حالیہ کورونا وائرس کی وبا نے اس عدم مساوات کو مزید بڑھا دیا ہے۔ کورونا سے مرنے والوں میں بھی 23 فیصد سیاہ فام ہیں۔ اس وبا سے ہونے والی معاشی بربادی کے اثرات بھی ان پر کہیں زیادہ پڑے ہیں۔

جیسا کہ مارکسی جانتے ہیں کہ ریاستیں آخری تجزئیے میں مسلح افراد کے جتھوں پر ہی مشتمل ہوتی ہیں جن کا مقصد نجی ملکیت کا تحفظ اور حکمران طبقے کی بالا دستی کو قائم رکھنا ہوتا ہے۔ اور امریکہ معاشی اور عسکری حوالے سے انسانی تاریخ کی سب سے طاقتور ریاست ہے۔ جو اپنے سامراجی عزائم کے تحت نہ صرف دنیا کے دوسرے ممالک پر مسلسل جارحیت جاری رکھے ہوئے ہے بلکہ داخلی طور پر اپنے عام شہریوں پر بھی جبر کرنے سے کبھی نہیں کتراتی ہے۔ اربن انسٹیٹیوٹ ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں 2017ء میں پولیس اور جیلوں کے نظام پر 194 ارب ڈالر خرچ کیے گئے۔ کئی صدیاں قبل بھی امریکہ کے اصل مقامی ریڈ انڈین باشندوں کے قتل عام میں امریکی فوج کا کلیدی کردار تھا۔ اسی طرح بیشتر امریکی ریاستوں میں پولیس کی شروعات غلاموں کو قابو میں رکھنے والے دستوں سے ہوئی تھی۔ یوں ان اداروں کی مشینری میں نسلی امتیاز اور تعصب کا ایک منظم ڈھانچہ اور نفسیات موجود ہے جو مسلسل ایسے واقعات کو جنم دیتی ہے۔ اسی طرح حال ہی میں تارکین وطن کو امریکی بارڈر پر پنجروں میں بند رکھنے اور ان کے چھوٹے بچوں کو والدین سے الگ کرنے کے واقعات منظر عام پر آئے ہیں جو امریکہ کی ریاستی مشینری کی انسان دشمن سوچ اور رویوں کو عیاں کرتے ہیں۔

حالیہ مظاہروں میں سیاہ فاموں کے ساتھ سفید اور دیگر نسلوں کے نوجوان اور محنت کش بھی شامل ہیں جو نہ صرف ریاستی جبر بلکہ کورونا وائرس کے خطرے کے باوجود باہر نکلے ہیں۔ جارج فلائیڈ کے قتل نے ایک چنگاری کا کردار ادا کیا ہے۔ یہ مظاہرے نہ صرف پولیس کی بربریت کے ایک واقعے کے خلاف احتجاج کی علامت ہیں بلکہ امریکی سماج میں طویل عرصے سے پنپتی ہوئی سرمایہ داری کی زیادتیوں کے خلاف شدید غصے اور بے چینی کا اظہار بھی ہیں۔ بالخصوص 2008ء کے بعد ایک نسل جوان ہوئی ہے جو تعلیم، علاج، روزگار اور معاشی تحفظ وغیرہ کے حوالے سے اپنے والدین کے مقابلے میں کہیں زیادہ مشکلات کا شکار ہے۔ اور کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن نے ان مسائل کو مزید ناقابل برداشت بنا دیا ہے۔ لیبر فورس کا ایک چوتھائی یعنی چار کروڑ محنت کشوں نے بے روزگاری الاؤنس کے لئے درخواستیں دی ہیں۔ ان میں اکثریت کم آمدنی والے محنت کشوں کی ہے جن میں نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ لاک ڈاؤن کے خلاف کچھ دن پہلے انتہائی دائیں بازو کے گروہوں نے ہتھیار بند مظاہرے بھی کیے ہیں۔ لیکن حالیہ مظاہرے اس بات کا ثبوت ہیں کہ سماج میں مزاحمتی اور ترقی پسند قوتیں بھی پسپا نہیں ہوئی ہیں۔ کارپوریٹ میڈیا کی جانب سے ان مظاہروں میں شامل لمپن عناصر کی لوٹ مار اور تشدد کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا مقصد عوام کے دوسرے حصوں کو ان سے کاٹنا ہے۔ لیکن سوشل میڈیا کے دور میں اب ایسا کرنا آسان نہیں رہا ہے۔

امریکہ میں پولیس کے جبر و بربریت کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوتے رہے ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں سے اس پولیس گردی کے خلاف ”بلیک لائیوز میٹر“ (سیاہ فاموں کی زندگیاں بھی قیمتی ہیں) جیسی تحریکیں بھی بنی ہیں۔ اس حوالے سے لبرل حلقے پولیس میں احتساب کا بہتر نظام قائم کرنے اور پولیس اور کمیونٹی کے درمیان بہتر تعلقات استوار کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ لیکن بنیادی مسئلہ یہ معاشی و سماجی نظام اور اس کا محافظ ریاستی ڈھانچہ ہے۔ نظام کو بدلے بغیر مسئلے کا کوئی دیرپا حل موجود نہیں ہے۔ جنوبی افریقہ کی شکل میں سب سے واضح مثال ہمارے سامنے موجود ہے جہاں نسل پرستی کے سرکاری طور پر خاتمے کے دہائیوں بعد بھی سیاہ فام اکثریت کی حالت نہیں بدلی۔ اسی طرح باراک اوباما کے دور میں جس طرح سیاہ فام آبادی پر پولیس کے جبر میں اضافہ ہوا اس سے پتا چلتا ہے کہ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے اعلیٰ سرکاری عہدے صرف نمائشی کردار ہی ادا کرتے ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام محنت کشوں کو منقسم رکھ کر ان پر اپنی بالادستی قائم رکھتا ہے۔ اس کے لئے رنگ، نسل، مذہب، جنس وغیرہ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اور محنت کشوں کے ایک حصے کو انتہائی پسماندہ اور غریب رکھ کر ان کی محنت کا بدترین استحصال کیا جاتا ہے۔ نسل پرستی، ریاستی جبر اور دوسرے تمام رجعتی تعصبات، امتیازوں اور مظالم کا خاتمہ کرنے کے لئے ان کا موجب بننے والے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ضروری ہے۔ امریکہ جیسے سماج میں اتنے بے پناہ اور دیو ہیکل وسائل موجود ہیں جن سے ایک منصوبہ بند معیشت کے تحت عوام کی محرومیوں کا خاتمہ بہت کم عرصے میں ہو سکتا ہے۔ تمام رنگوں اور نسلوں کے محنت کشوں اور انقلابی نوجوانوں کو طبقاتی بنیادوں پر جوڑتے ہوئے ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی اس خواب کو حقیقت میں بدلا جا سکتا ہے۔