موسیٰ

بلوچستان کے جنوبی شہر تربت سے آٹھ کلومیٹر دور ڈنک کے مقام پر 26 مئی کی رات کو مسلح افراد ایک گھر میں ڈکیتی کے لئے گھسے۔ گھر میں موجود خاتون ملک ناز نے جب مزاحمت کی تو اس پر فائرنگ کی گئی جس سے خاتون موقع پر جاں بحق جبکہ اس کی بیٹی برمش زخمی ہوگئی جو اس وقت کراچی میں زیر علاج ہے۔ اس واقعے کے خلاف پورے بلوچستان میں شدید غم و غصہ اور ردعمل دیکھنے میں آیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مسلح افراد دراصل ایسے جرائم پیشہ گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں مکمل ریاستی سرپرستی حاصل ہے اور کھلے عام وارداتیں کرتے پھرتے ہیں اور ہر طرح کے جرائم، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، قتل و غارت اور ڈاکہ زنی میں ملوث ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ایسے گروہوں کو عرف عام میں ”ڈیتھ سکواڈ“ کہا جاتا ہے۔ ایسی کاروائیاں بلوچستان میں روز کا معمول ہیں لیکن ریاستی آشیرباد کی وجہ سے یہ لوگ تمام تر قانونی گرفت اور پابندی سے مبرا ہیں۔ ان گروہوں کے خلاف عوامی غم و غصہ بہت زیادہ ہے۔ اسی وجہ سے حالیہ ڈکیتی کی واردات نے اس عمل انگیز کا کردار ادا کیا جس سے تمام بلوچ علاقوں، حتیٰ کہ کراچی تک اس واقعے اور ڈیتھ سکواڈز کے خلاف مظاہرے پھوٹ پڑے۔ قومی جبر اور استحصال کے خلاف جنم لینے والے جس سیاسی شعور اور سیاسی عمل کو کچلنے کے لئے ریاستی سرپرستی میں یہ ”ڈیتھ سکواڈ“ تخلیق کیے گئے، آج بلوچستان میں انہی کے خلاف نوجوانوں میں ایک سیاسی تحرک اور ہلچل پیدا ہورہی ہے۔

بلوچستان میں قومی استحصال اور جبر کے خلاف جدوجہد کی ایک لمبی تاریخ رہی ہے۔ اس عمل میں ہزاروں بلوچ نوجوانوں نے اپنی جانیں قربان کی۔ 1948ء سے لے کر اب تک بلوچستان میں چار مسلح جنگیں لڑی جاچکی ہیں۔ موجودہ مسلح جدوجہد کا آغاز دو دہائی پہلے ہوا تھا جو مختلف مرحلوں سے گزرتی ہوئی اپنے عروج پر پہنچنے کے بعد اب بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ لیکن مسلح جدوجہد کی اپنی محدودیت، دوسری محکوم اقوام اور طبقات سے تحریک کے کٹ کر رہ جانے اور استحصالی قوم کو ایک اکائی سمجھ کر اس کے اندر طبقاتی تفریق کو نظرانداز کرنے کی وجہ سے ریاست کو اس موجودہ جدوجہد کو کچلنے اور زیر کرنے کا زیادہ موقع ملا۔

تحریک میں جہاں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد مسلح جدوجہد کی طرف مائل ہوکر پہاڑوں کی طرف گئی وہیں بلوچ سماج میں ایک سیاسی گہما گہمی نے بھی جنم لیا۔ لیکن جہاں ریاست نے تحریک کو کچلنے کے لئے براہ راست اپنی عسکری قوتوں کو استعمال کیا وہیں تمام قصبوں، ضلعوں اور شہروں میں جرائم پیشہ افراد کو اکٹھا کرکے مختلف گروہوں کا نام دے کر علاقے میں کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ یہ گروہ علاقے میں کسی بھی طرح کے سیاسی عمل کو سبوژ کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ سیاسی بحث و مباحثے اور گفتگو غیر اعلانیہ طور پر ممنوع قرار پائے۔ یہ جرائم پیشہ گروہ علاقے کے اندر سیاسی کارکنان کو چن چن کر مخبری کر کے اغوا کرواتے تھے جنہیں عقوبت خانوں میں سالہا سال وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا اور پھر ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکوائی جاتی تھیں۔ اس شیطانی چکر میں ہزاروں سیاسی کارکنان اور بہت سے عام بلوچ نوجوان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے یا غائب کیے گئے۔ ایک مرحلے پر آکر تو لوگ اپنی روایتی محفلوں میں عام سیاسی گفتگو سے بھی اجتناب کرتے تھے مبادا کوئی ڈیتھ سکواڈ کا بندہ ان کی مخبری کرکے انہیں اٹھوا کر غائب نہ کر دے۔ سکواڈ کے بندے گلی محلوں میں دندناتے پھرتے۔ حتیٰ کہ اپنی دکانوں میں بلوچ انقلابی شخصیات کی تصاویر آویزاں کرنے والوں کو بھی بد ترین جبر کا سامنا کرنا پڑتا اور بعض اوقات تو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑتا۔

دوسری طرف یہ مسلح گروہ ہر طرح کی مالیاتی لوٹ مار میں بھی ملوث رہتے تھے۔ مثلاً کوئٹہ کراچی شاہراہ پر مسافر بسوں کی لوٹ مار ایک معمول بنادیا گیا۔ نہ صرف مسافر گاڑیوں بلکہ اشیائے خورد و نوش سے بھرے ہوئے ٹرکوں کی لوٹ مار بھی کی جاتی تھی۔ چھوٹے بڑے تاجروں اور دکانداروں کو تاوان کے لئے اغوا کیا جاتا۔ مختلف شاہراہوں پر ناکہ لگا کر گاڑیوں سے بھتہ وصول کیا جاتا۔ اس عمل میں ان گروہوں کو مکمل ریاستی سرپرستی حاصل رہی۔

اسی طرح نظریاتی میدان میں قومی جبر کے خلاف تحریک کو کچلنے کے لئے مذہبی انتہاپسندی کو خوب پروان چڑھایا گیا۔ اس عمل میں بھی یہی ڈیتھ سکواڈ پیش پیش رہے۔ ایک طرف ان گروہوں کے ذریعے بلوچستان کے مختلف علاقوں بالخصوص کوئٹہ میں شیعوں کی ٹارگٹ کلنگ کی جاتی تھی، دوسری طرف انتہاپسندی کے خلاف آپریشن کے نام پر بلوچ علاقوں میں سیاسی کارکنوں اور بلوچ مسلح تنظیموں کے خلاف کاروائی کی جاتی تھی۔ مکران کے علاقے میں ذکری فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھی ڈیتھ سکواڈ کے کارندوں نے انتہائی بے دردی سے نشانہ بنایا۔

غرضیکہ بلوچستان میں یہ مسلح ڈیتھ سکواڈ ریاستی اداروں کی ”بی۔ٹیم“ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ تربت میں حالیہ واردات کے بعد سوشل میڈیا میں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سرگرم ڈیتھ سکواڈ کے کارندے عسکری اداروں کے مقامی اہلکاروں کے ساتھ تصاویر لیتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔ مختلف مواقع پر ان کی کاروائیوں کے خلاف میڈیا میں کچھ آوازیں بھی اٹھیں۔ مثلاً 2014ء میں خضدار کے علاقے توتک سے ایک اجتماعی قبر دریافت ہوئی جس سے دو سو سے زائد لاشیں برآمد ہوئی۔ اکثر لاشیں ناقابل شناخت تھیں۔ بلوچ سیاسی پارٹیوں اور سرگرم کارکنان نے اس اجتماعی قبر کا الزام مقامی ڈیتھ سکواڈ کے سرغنہ شفیق مینگل پر لگایا۔ اس واقعے پر ایک عدالتی کمیشن بھی بنا لیکن وہ کاغذوں تک ہی محدود رہا۔ آج بھی اس واقعہ کے کردار دندناتے پھر رہے ہیں۔

بلوچستان میں قومی جبر کے خلاف چلنے والی تحریک کی مارکسیوں نے ہمیشہ تنقیدی حمایت کی ہے اور اس تحریک کی نظریاتی اور سیاسی بڑھوتری کے لئے ہمیشہ جدوجہد کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر اس عمل اور اقدام کی مخالفت بھی کی ہے جو ریاستی جبر کو مزید جواز دیتا ہے اور تحریک کو دوسرے مظلوم طبقات اور قومیتوں سے کاٹ کر اُن کی حمایت سے محروم کردیتا ہے۔ تقریباً ایک دہائی سے زائد عرصے کے بعد بلوچستان میں سیاسی بیداری کی ایک نئی لہر آ رہی ہے۔ تمام تر ریاستی جبر کے باوجود 2018ء میں گمشدہ افراد کی بازیابی کے لئے ایک سیاسی تحرک نے جنم لیا لیکن ریاست بوکھلا گئی اور اسے کچلنے کی کوشش کی۔ لیکن چنگاری سلگتی رہی۔ آج سانحہ تربت کے خلاف ایک بار پھر وہ چنگاری بھڑک اٹھی ہے۔ بلوچستان کے تمام اہم شہروں میں اس سانحے کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے ہوئے جس میں نوجوانوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ حالیہ دنوں میں بلوچستان میں چلنے والی تحریکوں کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ ان سب میں بلوچ خواتین نے ہر اول کردار ادا کیا‘ چاہے بولان میڈیکل کالج کی بحالی کی تحریک ہو یا گمشدہ افراد کی بازیابی کی ریلی۔ سانحہ تربت کے خلاف کوئٹہ اور کراچی میں ہونے والے مظاہروں اور ریلیوں کی قیادت بھی خواتین نے کی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس تحریک کومظلوم طبقات اور دیگر قومیتوں کی تحریک سے جوڑا جائے۔ اس وقت پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین معاشی، سیاسی اور سماجی بحران سے گزر رہا ہے۔ کرونا کی وبا نے اس بحران کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ سماجی بے چینی مختلف چھوٹی چھوٹی تحریکوں میں اپنا اظہار کر رہی ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ سانحہ تربت سے جنم لینے والی تحریک کو سماج میں چلنے والی دیگر تحریکوں سے جوڑ کر ایک ایسی عوامی طاقت تخلیق کی جائے جو نہ صرف قومی جبر کا خاتمہ کردے بلکہ اس نظام زر کا خاتمہ بھی کرے جو تمام تر قومی اور طبقاتی جبر کی بنیاد ہے۔