اداریہ جدوجہد
سرمایہ داری کے بھی کیسے کیسے فریب ہیں۔ حکمراں ایوانوں اور اداروں کی ساکھ بنانے کے لئے کیا کیا ناٹک رچائے جاتے ہیں۔ سماجی تضادات کو دبائے رکھنے کے لئے جعلی تضادات گھڑے جاتے ہیں۔ تحریکوں کے اوپر مصنوعی تحریکیں مسلط کر دی جاتی ہیں۔ کبھی مقتدر طبقات کے نمائندوں کو مسیحا بنا کے انہیں نظام کی حدود و قیود سے ماورا ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو کبھی جمہوریت کی عملداری دکھانے کے لئے پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں بحثوں کے ڈرامے کیے جاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک تماشے کا اہتمام ہر سال بجٹ کے نام سے بھی کیا جاتا ہے۔ جس میں عوام کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ ان کی زندگیوں کے ہر پہلو پر اثر انداز ہونے والی معیشت کے فیصلے انہی کے منتخب کردہ لوگ کرتے ہیں۔ حکومت قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کرتی ہے۔ اپوزیشن منافقانہ احتجاج کا ڈھونگ رچاتی ہے۔ میڈیا پر ماہرین پیچیدہ معاشی اصطلاحات پر مبنی طویل تبصرے کرتے ہیں۔ شاید سال کے یہی کچھ دن ہوتے ہیں جب میڈیا پر بورژوا نقطہ نظر سے ہی سہی‘ معیشت پر کچھ بات ہوتی ہے۔ پھر اسمبلی میں کسی متبادل سے عاری کھوکھلے بحث مباحثوں کے بعد یہ بجٹ پاس ہو جاتا ہے اور عوام کو تاثر دیا جاتا ہے کہ اگلے پورے سال کے دوران معیشت اس بجٹ کے مطابق چلائی جائے گی۔ لیکن کچھ دِنوں یا ہفتوں کے بعد یہ سارا معاملہ منظر عام سے یوں غائب کر دیا جاتا ہے جیسے کبھی ہوا ہی نہ تھا۔
پاکستان کی معیشت کا بحران گزشتہ کچھ دہائیوں کے دوران اس قدر شدید ہو گیا ہے کہ سالانہ بجٹ ایک بے معنی و بے مقصد سیاسی رسم یا ’فارمیلیٹی‘ بن کے رہ گیا ہے۔ حتیٰ کہ اب اس بارے اخباروں میں بھی پرانے کارٹون شائع کر دئیے جاتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ معیشت میں ریاستی مداخلت کے پیش نظر کسی قدر استحکام موجود ہوتا تھا اور اگلے ایک ڈیڑھ سال کی معاشی منصوبہ بندی ممکن ہوا کرتی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب بہت سی سرمایہ دارانہ ریاستیں بھی سوویت یونین کی طرز پر پانچ سالہ معاشی منصوبے مرتب کیا کرتی تھیں۔ لیکن 1980ء کی دہائی کے بعد سے ریاستوں کا عمل دخل معیشتوں میں مسلسل کم ہوتا گیا ہے۔ حکومتیں زیادہ سے زیادہ منڈی کے تابع ہوتی چلی گئی ہیں اور خاموش تماشائی کی حیثیت اختیار کر کے معیشت کی فیصلہ سازی سامراجی اداروں کے سپرد کرتی گئی ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک کا تو سارا بجٹ آئی ایم ایف جیسے اداروں کے اشاروں پر مرتب ہوتا ہے۔ حکومتی نمائندے محض اسے پیش کرتے ہیں۔ بجٹ کی بیشتر شقیں ایسی ہوتی ہے جن پر انگلی اٹھانا بھی ممنوع قرار پاتا ہے۔ ویسے بھی بالخصوص 2008ء کے بعد سے منڈی کی معیشتوں کا بحران اتنا بڑھ گیا ہے کہ کوئی دور رس پلاننگ ممکن نہیں رہی ہے۔ ایسے میں حکومتی بجٹ بھی اپنی اہمیت اور افادیت بڑی حد تک کھو بیٹھے ہیں۔ جس کا اظہار ان میں عوام کی عدم دلچسپی سے بھی ہوتا ہے۔ ایک وقت تھا جب بجٹ ایک تہوار کی سی حیثیت کا حامل ہوا کرتا تھا اور پورے ملک میں لوگ گھروں، گلیوں اور بازاروں میں ٹیلی وژن سکرینوں پر نظریں جمائے بجٹ کی خصوصی نشریات سنا کرتے تھے۔ آج زیادہ تر سرکاری ملازمین (جنہیں تنخواہ میں کچھ اضافے کی امید ہوتی ہے) یا مخصوص شعبوں سے وابستہ تاجر حضرات ہی اس طرف کوئی توجہ دیتے ہیں۔ وجہ بڑی سادہ سی ہے۔ لوگ شعوری یا لاشعوری طور پہ جانتے ہیں کہ حکومتی پالیسیوں میں دم نہیں ہے اور اس نظام کے بجٹوں سے ان کی زندگیوں میں کوئی بہتری نہیں آ سکتی ہے۔ اس حوالے سے بجٹ سے ایک دن پہلے جاری ہونے والے گزشتہ مالی سال کا سروے ہی دیکھ لیں تو واضح ہوتا ہے کہ معیشت کا بحران پالیسی سازوں کے قابو سے کس قدر باہر ہو چکا ہے۔ اس سروے کے مطابق گزشتہ بجٹ میں مقرر کیا گیا شاید ہی کوئی حکومتی ہدف پورا ہو پایا ہو۔ اُلٹا 68 سالوں میں پہلی بار معیشت 0.38 فیصد سکڑ گئی ہے۔ آبادی میں اضافے کی شرح کو مد نظر رکھیں تو یہ سکڑاؤ اس سے کہیں زیادہ بنتا ہے۔ جس کا سیدھا سا مطلب لوگوں کی آمدن میں کمی اور بیروزگاری میں ہوشربا اضافہ ہے۔ صرف زراعت کے شعبے کی شرح نمو مثبت رہی۔ سروسز اور صنعت دونوں کی شرح نمو منفی میں چلی گئی ہے۔ دوسری طرف ملک میں مہنگائی کی شرح (تقریباً 11 فیصد) دنیا میں سب سے زیادہ رہی۔ پچھلے ایک سال کے دوران مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 6.5 فیصد سے بڑھ کے 9.1 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ لیکن ان خساروں کا بوجھ عوام کے ناتواں کندھوں پر ڈالا جاتا ہے۔ سامراجی اداروں اور بینکوں کو سود کی مد میں ہزاروں ارب لٹانے کا سلسلہ اس نظام میں ہمیشہ جاری و ساری رہتا ہے۔ پچھلے مالی سال کے دوران 2.7 ہزار ارب روپے قرضوں کی واپسی اور سود کی ادائیگی کی بھینٹ چڑھ گئے جو کل حکومتی آمدن کا 62 فیصد بنتے ہیں۔ جبکہ 1227 ارب روپے ”دفاع“ کی نذر ہو گئے۔ قرضوں اور دفاع کے اخراجات (جو ہر بجٹ کا 70 سے 80 فیصد ہڑپ کر جاتے ہیں) اور اوپر سے نیچے تک سرکاری افسر شاہی کی عیاشیوں اور لوٹ مار کے بعد پیچھے خسارے ہی بچتے ہیں جنہیں پورا کرنے کے لئے پھر مزید قرضے لیے جاتے ہیں۔ اپنے پہلے دو سال کے دوران موجودہ حکومت قرضوں میں 11 ہزار ارب روپے کا نیٹ اضافہ کر چکی ہے۔ ان دو سالوں کے دوران کل حکومتی قرضہ 24 ہزار ارب روپے سے بڑھ کے 35 ہزار ارب روپے ہو چکا ہے۔ پچھلے سات سالوں کے دوران اس قرضے میں ڈھائی گنا اضافہ ہوا ہے۔
ایسی معیشت پر کوئی عوام دوست بجٹ بھلا کیسے بن سکتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو اس نظام میں ایک ہی بجٹ ہے جسے ہر سال مختلف شکلوں میں پیش کیا جاتا ہے۔ یہ سرمایہ داری کا بجٹ ہے جس کے پیش نظر سرمایہ دار طبقے کے مفادات ہوتے ہیں۔ عوام کی تعلیم، علاج اور دوسری بنیادی ضروریات کے لئے رقوم صرف خانہ پُری کے لئے ہی رکھی جاتی ہے۔ اس سال فرق صرف یہ ہے کہ حکمرانوں کو اپنے نظام کے بحران کا سارا ملبہ کورونا پر ڈالنے کا موقع مل گیا ہے۔ حالانکہ معیشت پہلے ہی شدید بحران سے دوچار تھی۔ کورونا کی وبا نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں سرمایہ داری کے بحران کو شدید تر ہی کیا ہے۔ لیکن اس بحران نے سرمایہ داری کے خساروں میں بڑا اضافہ کر دیا ہے۔ جنہیں بھرنے کے لئے آنے والے دنوں میں محنت کش طبقے پر شدید معاشی حملے کیے جائیں گے۔ اس کا اشارہ شدید مہنگائی کے باوجود سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے سے بھی ملتا ہے۔ بظاہر سرکاری شعبے کی تنخواہوں اور کم از کم اجرت کو منجمد رکھا گیا ہے تاہم افراطِ زر کو شمار کیا جائے تو تنخواہوں میں درحقیقت کمی ہوئی ہے۔ لیکن کس ڈھٹائی سے ’ٹیکس فری بجٹ‘ کا راگ الاپ کے محنت کشوں کے زخموں پر نمک چھڑکا جا رہا ہے۔ اس نظام میں عوام پر سب سے بڑا ٹیکس مہنگائی ہوتی ہے جس کی وصولی دن رات جاری رہتی ہے۔ لیکن سرمایہ دار ہر ٹیکس سے مستثنیٰ قرار پاتے ہیں۔ تحریک انصاف اپنے دورِ حکومت کے پہلے دو سالوں میں سرمایہ داروں کو 2 ہزار ارب روپے سے زائد کا ٹیکس ”معاف“ کر چکی ہے جو ملکی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ پیسہ عوام کی جیبوں سے نکل کر سرمایہ داروں کی تجوریوں میں منتقل ہوا ہے۔
جب تک یہ نظام موجود ہے انسانوں کی وسیع اکثریت سے مٹھی بھر اقلیتی طبقے تک دولت کی منتقلی جاری رہے گی اور مہنگائی، بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہی ہو گا۔ اس نظام کی ساری معیشت اور اس کے بجٹ عوام دشمن کھاتہ داریوں پر مشتمل ہیں۔ ان کھاتوں میں محنت کش طبقے کے لئے جبر، استحصال اور ذلت ہی پنہاں ہے۔ سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینک کر سوشلسٹ معیشت کی استواری ہی وہ نصب العین، منصوبہ بندی اور وسائل مہیا کر سکتی ہے کہ معیشت کے بجٹ لوگوں کی زندگیوں میں تنگی اور افلاس لانے کی بجائے آسودگی اور آسائش کا ذریعہ بن جائیں۔