قمرالزماں خاں

پاکستان سٹیل ملز کے ملازمین اور ان کے اہل خانہ سراپا احتجاج ہیں۔ ان کے ساتھ بہت بڑا دھوکہ کیا گیا ہے۔ مزدورکے ساتھ انتظامیہ اور مالکان تو دھوکہ کرتے رہتے ہیں مگر اس دفعہ دھوکہ امور مملکت چلانے والوں نے ان لوگوں کے ساتھ کیا ہے جن کو وہ آس دلاتے رہے تھے کہ وہ برسراقتدار آ کر نہ صرف مزدوروں کی ملازمتوں کاتحفظ کرینگے بلکہ پاکستان سٹیل ملز کو بغیر نجکاری کیے بحال کرکے پھر سے منافع بخش ادارہ بنا دینگے۔ یہ وعدے کرنے والوں میں مملکت خداداد پاکستان کے موجودہ صدر ڈاکٹر عارف علوی، وزیراعظم عمران خان اور منصوبہ بندی کے وزیر اسد عمر شامل ہیں۔ قبل ازیں چھیالیس سال سے پاکستان سٹیل ملز کو بہت سے مواقع پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ یہ مل پہلے دن سے بہت سی قوتوں کو کھٹک رہی تھی۔ تحریک انصاف جس کو اسکی حرکتوں کی وجہ سے ”تحریک انتقام“ بھی کہا جارہا ہے کی حکومت سے ملک بھر میں ایک سال میں ایک کروڑنوکریاں دینے کاوعدہ ایفا نہ ہو سکا تو دوسرے سال برسر روزگار مزدوروں کو نکالناشروع کردیا۔ یہ تھا تحریک انصاف کا روزگار دینے کا وژن۔3 جون 2020ء کو ای سی ای کی میٹنگ میں پاکستان تحریک ا نصاف کی حکومت نے پاکستان سٹیل ملز کے 9350 ملازمین کو ایک ماہ کے نوٹس پر برطرف کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ایک غیر منصفانہ فیصلہ ہے۔ اس سے پہلے تحریک انصاف کا موقف تھا کہ پاکستان سٹیل ملز کو پیپلز پارٹی اور نواز لیگ حکومتوں نے تباہی کے دھانے پر پہنچایا ہے۔ مگر تحریک انصاف کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ اسکو کل کا کہا آج یاد نہیں رہتا۔ یا وہ اپنی عوام دشمنی کی وجہ سے یاد نہیں رکھنا چاہتی۔ موجودہ فیصلے سے ملک بھر کے مزدوروں میں زبردست غم وغصہ پھیل گیا ہے۔ پاکستان سٹیل ملز کے متاثرہ مزدور 4 جون سے مسلسل احتجاج پر ہیں۔ اس طرح ملک بھر کی مزدورتنظیمیں سراپا احتجاج ہیں۔ سینٹ میں اپوزیشن رہنماؤں نے اس مسئلے کو اٹھایا ہے اور سوشل میڈیا پر احتجاج کے ذریعے حکومت کے اس ظالمانہ اقدام کی مذمت کی جا رہی ہے۔ دوسری طرف حکومتی عمائدین وہ گھسی پٹی تاویلیں دے رہے ہیں جو کسی طور بھی زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتیں۔

کارپوریٹ سرمائے کیلئے ’منڈیوں پر قبضہ‘ سرمایہ داری کا سب سے اہم ہدف رہا ہے۔ کالونیل عہد کے پیچھے بھی کاروباری مقاصد غالب تھے۔ ماضی میں اس مقصد کیلئے اردگرد کے ممالک پر براہ راست قبضے کیے جاتے تھے۔ تمام جنگوں کے پیچھے ذرائع پیداوار، وسائل اور منڈیوں پر قبضوں کا بنیادی مقصد دکھائی دیتا ہے۔ جدید سرمایہ داری اپنے سامراجی مقاصد کیلئے اپنے طریقوں کو جدت دے چکی ہے۔ اب براہ راست قبضوں کی بجائے دیگر ذرائع کو ترجیح دی جاتی ہے۔ منڈی پر قبضے کیلئے عالمی سامراج نے عالمی بینک، آئی ایم ایف اور ورلڈاکنامک فورم کی طرح کے کئی ادارے قائم کرلیے ہیں۔ جو کارپوریٹ کمپنیوں کے مفادات کے حصول کیلئے پالیسیاں تیارکرتے ہیں۔ اگرچہ تکنیکی جدت کی بدولت محنت کے شدید استحصال اور ایجادات کی بنا پر ملٹی نیشنل کمپنیاں پیدواری لاگت کم کرنے پر قادر ہوچکی ہیں اور انکا مقابلہ مقامی صنعتیں اور ادارے نہیں کرسکتے۔ مگر بہت سی پالیسیاں، قوانیں اور جبری ضوابط عالمی اداروں کے ذریعے ’مقامی‘منڈیوں میں اس طرح سے وضع کرائے جاتے ہیں کہ ان ممالک کی صنعتیں، ادارے اور کاروبار دیوالیہ ہوجاتے ہیں۔ کامیابی سے چلنے والے سرکاری اداروں، کارخانوں اور خدمات کے شعبوں کو برباد کرنے کیلئے مقامی حکمران طبقے کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اداروں کی بربادی کاسب سے بڑا ذریعہ وہاں ایسی انتظامیہ کومسلط کیا جانا ہے جو اس ادارے کو غیر منافع بخش بناتے بناتے تباہی کے دھانے پر پہنچادے۔ پاکستان ان پالیسیوں کی بہت کامیاب لیبارٹری ثابت ہوا ہے۔ یہاں مقامی صنعتوں، خدمات کے اداروں اور کارخانوں کو خوفناک طریقوں سے بربادی کے دہانے پر پہنچا کر پھر پراپیگنڈہ کیا گیا کہ پبلک سیکٹر اس قابل ہی نہیں ہے کہ وہ اداروں کو چلاسکے‘ لہٰذا نجکاری کی جائے یا ان اداروں کو مکمل بند کردیاجائے۔ ہر ادارہ جب منافع سے خسارے تک پہنچتا ہے تو پھر اس پر قرض بھی چڑھتے ہیں اور ہر سال قومی بجٹ کا ایک حصہ ان خساروں اور قرضہ جات کو ادا کرنے میں خرچ ہوتا ہے۔ چنانچہ اس پراپگنڈے کو عوامی سطح پر ایک نظریاتی اور سیاسی حملے کیلئے استعمال کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ پاکستان کے تمام خسارے والے ادارے ایک وقت میں بہترین کارگردگی کے ساتھ منافع بخش تھے۔ پاکستان میں ضیائی آمریت میں پبلک سیکٹر کو تباہ کرنے کی کاوشوں کا آغاز ہوا مگروہ صرف این ایل سی بنا کر ریلوے کی تباہی کا اہتمام کرسکا۔ مگر 1988ء سے سیاسی پارٹیوں کو نجکاری کیلئے نظریاتی طور پر تیار کیا گیا۔ بے نظیر بھٹو عالمی سامراجیوں کا آسان ہدف بن کر تھیچرائیٹ سکول آف اکنامکس کی پالیسوں کو لاگو کرنے کیلئے تیارکی گئیں۔ اس طرح پاکستان میں نجکاری کا تعارف کرایا گیا۔ اگلے سالوں میں بے دردی سے اداروں کو اجاڑا گیا، برباد کیا گیا اور اونے پونے بیچا گیا۔ بہت سے منافع بخش ادارے تھے (مسلم کمرشل بینک، پی ٹی سی ایل، پاک سعودی فرٹیلائیزر کمپنی میرپورماتھیلو، لاڑکانہ شوگرملز،ٹھٹہ سیمنٹ فیکٹری، حبیب بینک اور یوبی ایل وغیرہ) جن کو بخشا نہیں گیا۔ ان تباہ کن پالیسیوں کے حقیقی ہدف بڑے ادارے رہے ہیں۔ انہی اداروں میں ایک ادارہ پاکستان سٹیل ملز تھا جس کو بہت بڑی منصوبہ بندی سے تباہی کے دھانے پر پہنچایا گیا۔ حتیٰ کہ چند سال پہلے یہ اسٹیٹ آف دی آرٹ ادارہ مکمل بندش کا شکا ر ہو گیا۔

کسی بھی ملک کی صنعتی ترقی کیلئے سٹیل ملز کا کردار صنعتوں کی ماں کی طرح ہوتا ہے۔ صنعتی اور غیر صنعتی انفراسٹرکچر کی تعمیر میں لوہے کے استعمال کا کلید ی حصہ ہوتا ہے۔ پاکستان کو ضروریات کیلئے 3.10 ارب ڈالر کا لوہا اور سٹیل درآمد کرنا پڑتا ہے۔ جب کہ اسکی اپنی سٹیل ملز پچھلے کئی سال سے بند کر دی گئی ہے۔ یہ سٹیل ملز پاکستان کی ضروریات کا ایک بڑاحصہ پورا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے مگر اسے بندش کی نوبت تک پہنچا دیا گیا ہے۔ یہ پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی منصوبہ تھا۔ معاشی سال 2008ء میں 3 ارب سے زائد منافع کمانے والا ادارہ 2008ء کے بعد ڈرامائی طور پر خسارے کا شکار ہونے لگا۔ مشرف دور میں ادارے کو فروخت کرنے کی کوشش کی گئی تھی، جس کو سپریم کورٹ کے 9 رکنی بنچ نے کالعدم قرار دے دیا۔ پاکستان سٹیل 2020ء میں ایک مکمل غیر فعال ادارہ بنا دیا گیا ہے۔ پیداوار صفر ہوچکی ہے۔ تاہم درج ذیل شعبوں کے ملازمین تاحال ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں۔ 1: ٹاؤن شپ ڈیپارٹمنٹ 2: آفیسر میس 3: پاور ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک 4: لا ڈیپارٹمنٹ 5: ایڈمن اینڈ پرسنل 6: کارپوریٹ سیکٹر 7: فنانس اینڈ اکاؤنٹس 8: سکیورٹی ڈپارٹمنٹ۔

اوپر بتائے گئے شعبوں سے تعلق رکھنے والے تقریباً 1000 ملازمین آج بھی کورونا وبا کے باوجود روزانہ ڈیوٹی پر آرہے ہیں۔ مارچ 2020ء میں پھر سے اعلیٰ عدالت کے ذریعے پاکستان سٹیل ملز کے ملازمین کے خلاف فضا پیدا کی گئی۔ سٹیل ملز کے 6 ہزار ریٹائرڈ ملازمین ایک عرصہ سے اپنے جائز واجبات کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ پاکستان سٹیل کا تربیتی مرکز میٹیلرجیکل ٹریننگ سنٹر، جہاں ہر سال 4500 ملازمین کو تربیت دی جاتی تھی، 2014ء سے غیر فعال ہو چکا ہے۔ یہ ایک اشارہ تھا کہ مستقبل میں اس ادارے کوفعال نہیں کیا جائیگا۔ اگر سٹیل ملز کی بحالی کی صورت میں تربیت یافتہ ماہرین موجود نہیں ہونگے تو اتنا بڑا ادارہ کیسے چل سکے گا؟ صرف آؤٹ سورس ڈیپارٹمنٹ کی بحالی سے ادارہ فعال نہیں ہوگا۔ آؤٹ سورس ڈیپارٹمنٹ میں ایجوکیشن، میڈیکل، ٹرانسپورٹ، اسٹیٹ اور مینٹیننس ڈیپارٹمنٹ ہیں۔ پچھلے عرصے میں روسی وفود متعدد بار ادارے کا دورہ کر چکے ہیں اور اس طرف اشارہ کر چکے تھے کہ وہ ادارے کی بحالی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ لیکن حکومتی پالیسی مبہم اور غیر واضح ہے۔ حکومت روس صرف سرکاری سطح پر مذاکرات میں دلچسپی رکھتی ہے، جبکہ حکومت پاکستان سٹیل ملزکے اثاثے فروخت کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔

پاکستان سٹیل کا افتتاح وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 30 جون 1973ء کو بہت ساری رکاوٹوں کے بعد کیا۔ اپنی افتتاحی تقریب سے خطاب میں کہا کہ ”میں نے پاکستان سٹیل ملز کی روس کے اشتراک سے بہت ساری اندرونی و بیرونی سازشوں کے بعد بنیاد ڈالی ہے اور پاکستان سٹیل کو بنانے کے مقاصد یہ ہیں کہ یہ ادارہ فولاد سازی کے ذریعے ملک کی انجینئر نگ انڈسٹری کو ترقی دے گا اور ملک میں بیروزگاری کا خاتمہ کرے گا۔“ یوں ملک میں پبلک سیکٹر میں چلنے والے بینکوں سے قرضہ لے کر پاکستان سٹیل کو تقریباً 25 ارب کی لاگت سے مکمل کیا گیا۔ پاکستان سٹیل ملز کراچی کی پرائم لوکیشن یعنی پورٹ قاسم، مین نیشنل ہائی وے اور مین نیشنل ریلوے لائن کے بیچ میں موجود ہے۔ پاکستان سٹیل ملز کا رقبہ تقریباً انیس ہزار ایکٹرپر محیط ہے۔

پاکستان سٹیل 1980ء میں مکمل ہوکر پیداواری عمل میں داخل ہو گئی تھی۔ یہ منصوبہ 11 لاکھ ٹن سالانہ پر شروع ہوا تھا اور ادارے کے پلانٹ میں یہ گنجائش موجود تھی کہ تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ ادارے کی پیداواری صلاحیت کو اسی پلانٹ نے 33 لاکھ ٹن سالانہ تک لے کر جانا تھا۔ منصوبے کے اصل ڈیزائن کے مطابق پیداوار کے اگلے 5 سالوں میں توسیع ہونا تھی مگر بھٹو کے بعد کی حکومتوں نے توسیعی منصوبے کو آگے نہیں بڑھایا۔ وجہ لوہا مافیا کے علاوہ کیا ہو سکتی تھی؟ ایک طرف ملک کی فولادی ضرورت تقریباً 70 سے 75 لاکھ ٹن سالانہ تک پہنچ چکی مگر بدقسمتی سے فولاد سازی کے اس چلتے ہوئے ادارے کو بھی عوام دشمن حکمرانوں نے سازشوں کے ذریعے 10 جون 2015ء کو مکمل طور پہ بند کر دیا۔ کسی نے ان ”مخفی ہاتھوں“ سے باز پرس نہیں کی جنہوں نے گیس بند کر کے سٹیل ملز کی بربادی کا سامان کیا۔

پاکستان سٹیل کی تعمیر سے تکمیل اور پیداواری عمل تک دو قسم کے لوگوں نے مخالفت کی۔ ابتدا میں مذہبی انتہا پسندوں نے سٹیل ملز کی اس سبب مخالفت کی کہ اس کو بنانے والاملک روس کافر ہے اور سٹیل ملز بنا کر ملک کے گرم پانیوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ دوم امپورٹر مافیا، جن کا کہنا تھا کہ یہ ادارہ سفید ہاتھی ہے اور ملک کی معیشت پر بوجھ بنے گا۔ مافیا کی مخالفت کی بنیادی وجہ تھی کہ یہ سٹیل کی مصنوعات کی آڑ میں کسٹم حکام اور ملک کے کرپٹ افسران سے ساز باز کرکے مختلف اور چیزیں اسمگلنگ کرواتے تھے۔ پاکستان سٹیل ملزمیں 165 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا تھرمل پاور پلانٹ نصب ہے جس کی خوبی یہ ہے کہ جب ادارہ آپریشن میں ہوتا تو اس کی اپنی ’بھاری گیسوں‘جو فرنس، کوک اووین اور سٹیل بنانے والے پلانٹ سے پیدا ہوتی ہیں کو پاور پلانٹ پر لے جاکر ملک کی سب سے سستی بجلی کی پیداوار کی جاتی تھی اور ادارے کا پیداواری عمل 100 فیصد ہوتا تھا۔ اسی طرح 4000 گھروں پر مشتمل ملازمین کی رہائشی کالونی سٹیل ٹاؤن اور 3000 سے زائد گھروں پر مشتمل گلشن حدید فیز 1 کی بجلی کی ضرورت پوری کرنے کے بعد بھی سالہا سال اربوں روپے کی بجلی ”کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن“ کو یہ ادارہ دیتا رہا ہے۔ پاکستان سٹیل کے پاس 110 ملین گیلن پانی کا ریزروائر اور فلٹریشن پلانٹ ہے جس کی سٹین لیس سٹیل کی 50 کلو میٹر کی پائپ لائن جو ضلع ٹھٹھہ کی کینجھر جھیل سے پاکستان سٹیل کے بلک واٹر سپلائی ڈیپارٹمنٹ تک ہے اس سے اپنے ادارے اور رہائشی کالونی کے علاوہ مضافاتی علاقوں کے نجی صنعتی اداروں کو بھی صاف پانی دیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ آکسیجن پلانٹ جو کہ تقریباً 15 سے 20 ہزار کیوبک فٹ روزانہ آکسیجن پیدا کرتا رہا ہے ادارے کی ضروریات کے بعد ہزاروں کیوبک فٹ آکسیجن کراچی میں موجود پبلک سیکٹر کے ہسپتالوں کو سلنڈروں کے ذریعے مفت فراہم کرتا رہا ہے اور پاکستان سٹیل ملک پاکستان کا وہ واحد ادارہ ہے جو ’سیال آکسیجن‘بھی تیار کرتا ہے۔ پاکستان سٹیل نے تقریباً 4000 ایکٹر زمین مکمل انفراسٹرکچر کے ساتھ نیشنل انڈسٹریل پارک کو دی ہے جس میں نجی شعبے کی سٹیل فیکٹریوں کے ساتھ ملک کا سب سے بڑا کار مینوفیکچرنگ کا ادارہ پاک سوزوکی اور ’یاماہا موٹرز‘ بھی ہے۔ اس کے ساتھ روڈ اور دیگر انفراسٹرکچر کے ساتھ پاکستان سٹیل کا این ایل سی کے بعد بہت بڑا ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ ہے۔ جس میں تقریباً 850 گاڑیاں اور 200 کے لگ بھگ بھاری ڈمپر اور بلڈوزر ہیں اور انکی رپیئرنگ کیلئے ورکشاپس بمعہ ماہر مکینک موجود ہیں اور اپنا ریلوے ڈیپارٹمنٹ ہے جس میں 15 ریلوے انجن موجود ہیں۔ پاکستان سٹیل نے پورٹ قاسم پر خام مال کے باہر سے آنے والے جہازوں کیلئے ایک ’گودی (Jetty)‘ بھی بنوائی ہے۔ یوں مال مختلف ملکوں سے آنے والے بحری جہازوں سے اترکر بغیر کسی ٹرانسپورٹ کے اپنی کنویئر بیلٹ کے ذریعے تقریباً 7 کلومیٹر سفر طے کر کے پاکستان سٹیل کے مختلف ڈیپارٹمنٹوں میں پہنچتا ہے۔ پاکستان سٹیل پتھراور خام مال سے سٹیل بننے کے عمل میں فضلہ اور ضمنی پیداوار کو ملک کی مختلف انڈسٹریوں کو بیچتا رہا ہے۔ جس سے ادارے نے اربوں روپے کمائے ہیں۔ اس قسم کی اور مختلف ’ضمنی پیدواری اشیا‘ پاکستان سٹیل کے علاوہ اس ملک میں کہیں بھی دستیاب نہیں ہیں۔ پاکستان سٹیل نے اپنی تعمیر سے تکمیل تک کے تمام اخراجات 25 ارب بشمول سود مختلف بینکوں کو نہ صرف ادا کیے بلکہ ٹیکس کی مد میں ملکی خزانے کو سینکڑوں اربوں کا فائدہ پہنچایاگیا۔ پاکستان سٹیل کے میٹالرجیکل ٹریننگ سینٹر نے ابتدا سے مختلف شعبوں میں لاکھوں ہنر مند افراد تیار کیے جو نہ صرف اس ادارے بلکہ دنیا بھر کی سٹیل ملوں میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ 2008ء میں پاکستان سٹیل ملزکے ذمے کسی قسم کا قرضہ یا ادائیگی نہیں تھی۔

اس ادارے کی بنیادی دستاویز میں یہ تحریر درج ہے کہ ادارہ اپنی پیداوار پر ملک کی انجینئرنگ انڈسٹری کو سبسڈی دے گا۔ اس کے باوجود ادارے نے منافع کمایا اور یونیورسٹیوں سے ڈگریاں حاصل کرنے والے لاکھوں نوجوان اور ہنر مند افراد کو بالواسطہ اور بلاواسطہ روزگار فراہم کیا اور کبھی خسارے میں نہیں گیا۔ اس ادارے میں امپورٹر مافیا نے وزارت پیداوار اور فنانس کی بیوروکریسی کے ساتھ مل کر ایک پلاننگ کے تحت انتہائی کرپٹ، نا اہل اور سٹیل ٹیکنالوجی سے نابلد عہدیدار بھیجے جنہوں نے مختلف وقتوں میں سیاسی حکومتوں کے ساتھ مل کر ادارے کی لوٹ مار کی۔ یہاں تک کہ پرائم کوالٹی مصنوعات تیار کر کے کاغذوں میں اسکریپ دکھا کر اونے پونے بیچ دیا گیا۔

اگر ادارے کی توسیع کے عمل کو مکمل کیا جاتا تو موجودہ مین پلانٹ اور اسی پاور پلانٹ سے ادارے کی پیداواری صلاحیت کو 30 لاکھ ٹن تک پہنچایا جا سکتا تھا جس سے پیداواری لاگت بھی بہت کم ہو جاتی۔ ایک اور چیز جس کو امپوٹر مافیا مشرف دور میں لاگو کرانے میں کامیاب ہوگیا وہ ایس آر اوز ہیں جو مختلف وقتوں میں جاری ہوئے اور جن کے ذریعے سٹیل کی مصنوعات کی امپورٹ پر کسٹم ڈیوٹی کو 17 فیصد سے کم کرکے 10 فیصد پر لایاگیا اور امپورٹر کیلئے ادارے کے سی ای او سے این او سی کی شرط ختم کر دی گئی۔ اس سے چین کی زائد پیداوار یہاں ڈمپ ہونے لگی۔ پاکستان سٹیل کی سیل بہت متاثر ہوئی اور ڈیلرز نے ادارے کی مصنوعات خریدنے سے انکار کر دیا۔ 2008ء سے 2012ء تک کی تیار پیداوار سٹیل یارڈ میں گل سڑ رہی تھی جس میں اس وقت کی مینجمنٹ، سی بی اے یونین اور ڈیلر مافیا کے گھٹ جوڑ سے بڑے پیمانے پر خرد برد کیا گیا۔ اس وقت کراچی سٹیل ملز کی قیمتی زمین، گودی، رہائشی کالونی، سات کلومیٹر کا کنویئر بیلٹ، بنا ہوا سامان اور (2008ء کے مارکیٹ نرخوں کے مطابق) تقریباً 22 ارب روپے کا بکھرا ہوا لوہا موجود ہے۔ اس کے علاوہ سارے انفراسٹرکچر اورمختلف قسم کے پلانٹس پر لٹیرے سرمایہ داروں کی رالیں ٹپک رہی ہیں۔ وقت کے ساتھ جس تکنیکی تبدیلی اور جدت کیلئے پاکستان سٹیل کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت تھی وہ نہ کرکے ادارے کو جس طرح تباہ کیا گیاہے اس کے پیش نظر اب عہد حاضر سے مطابقت پیدا کرنے کیلئے ایک اندازے کے مطابق 100 ارب روپے کی سرمایہ کاری درکار ہے۔ یہ سرمایہ کاری موجودہ حکومت اور ریاست کی ترجیحات دیکھتے ہوئے بہت بڑی رقم ہے۔ حالانکہ اس سے بھی زیادہ رقم ہرسال سرکاری خزانے سے نجی شعبے میں چلنے والے انرجی اور شوگر سیکٹر میں پھینک دی جاتی ہے۔ ہر سال تخفیف غربت کے نام پر 140 ارب روپے حقیقت میں ضائع کر دیئے جاتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے شعبہ جات میں مختص رقوم میں معمولی رد و بدل کر کے پاکستان سٹیل ملز کو جدید پیداواری یونٹ بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستان سٹیل ملز کو بحال کرکے اور وسعت دے کے سالانہ 3.10 ارب ڈالر امپورٹ بل کم کیا سکتا ہے۔ پاکستان سٹیل ملز کو بحال کر کے چلانا صرف وہاں کام کرنے والے مزدوروں کی ہی ضرورت نہیں بلکہ یہ پاکستانی معیشت کے مفاد میں ہے۔ گویا یہ پاکستان میں سستا لوہا فراہم کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس وقت نہ صرف پاکستان کے محنت کش طبقے کا بنیادی فریضہ ہے کہ وہ پاکستان سٹیل ملز اور ساتھ دیگر پبلک سیکٹر کے اداروں کوبچانے کیلئے جدوجہد کا آغازکرے بلکہ اس اہم نظریاتی، سیاسی اور معاشی معاملے کو سارے عوام تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ حکمران طبقے کے یک طرفہ پراپیگنڈہ، جس میں پبلک سیکٹر کو ملکی معیشت کیلئے نقصان دہ ثابت کرنے کیلئے صبح شام نام نہاد”ماہرین“ ذرائع ابلاغ پر بیٹھ کر بھاشن دیتے پائے جاتے ہیں، کا تدارک کرنا ضروری ہے۔ پاکستان کے غریب عوام کو سستی اشیا اور سستی خدمات صرف پبلک سیکٹر ہی فراہم کرسکتا ہے۔ سٹیل ملز کے تابوت میں تحریک انصاف کی حکومت آخری کیل ٹھونک رہی ہے۔ یہ ایک بیش قیمت قومی ادارے کی موت ہو گی۔ اس سے سٹیل کی صنعت میں محتاجی اور امپورٹ بل میں عارضی اضافہ مستقل ہو جائے گا۔

اس وقت پاکستان سٹیل ملز کے مزدوروں کو صرف ایک ہی نکتے پر احتجاج اور مطالبات کو مرتکز کرنے کی ضرورت ہے کہ ”تمام بر طرف مزدوروں کو بحال کرتے ہوئے سٹیل ملز کو چلایا جائے۔“ اس وقت کوارٹروں، بنگلوں اور مختلف فیزوں میں پلاٹوں کی الاٹ منٹ کا مطالبہ دراصل حکومتی حملے کو تسلیم کرنے اور ہار ماننے کے مترادف ہے۔ اس سے مزدوروں کی بحالی کے مطالبے پرضرب پڑے گی۔ ایسے مطالبات اس وقت جرم ہیں۔ یہ کسی ایک ادارے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ سٹیل ملز کے 9350 خاندانوں کی بربادی سے شروع ہونے والا حملہ پورے پبلک سیکٹر کو اپنی لپیٹ میں لینے والا ہے۔ اس وقت صرف پبلک سیکٹر میں ہی مزدورکسی نہ کسی حالت میں منظم ہیں۔ اگر مزدوروں کے اس منظم حصے کوبھی ختم کر دیا گیا تو پھر ملک میں طبقاتی استحصال اور ظلم و جبر کا نیا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ یہ زندگی اور موت کی لڑائی ہے اور اب انتخاب مزدوروں کے پاس ہے کہ جینا ہے یا مرنا ہے؟ اور اگر جینا ہے تو پھر اپنی بقا کیلئے لڑنا ہو گا!