اویس قرنی
سوشلزم اور کمیونزم کے ناقدین اکثر یہ اعتراض رکھتے آئے ہیں کہ سہولیات کی فراہمی کے پیش نظر کوئی انسان کام نہیں کرے گااور انسان فطرتاً کاہل اور کام چور ہے۔ لیکن کورونا وبا کے لاک ڈاون نے ثابت کر دیا کہ انسان کام (زیادہ درست الفاظ میں محنت) کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آج دنیا کی ایک تہائی آبادی گزشتہ کئی مہینوں سے گھروں میں مقید ہے اور اکتائی ہوئی ہے۔ لوگوں کے مزاج اکھڑے ہوئے ہیں۔ ایک بے چینی کی سی کیفیت ہے۔ محنت نے ہی انسان کو انسان بنایااور محنت ہی انسانیت کی بقا ہے۔ لوگ کام کے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ محنت انسان کی جبلت میں شامل ہے۔ ان حالات نے کمیونزم کے خلاف تقریباً ڈیڑھ سو سال سے چلنے والے پراپیگنڈہ کی یکسر نفی کر دی ہے۔
اس کرہ ارض پر نسل انسان کو موجود شکل میں وجود میں آئے تقریباً دو لاکھ سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ ان لاکھوں سالوں میں انسان ہمیشہ فطرت کے ساتھ نبردآزما رہا ہے۔ پہلے پہل فطرت نے اپنی ہیبت سے انسان کو ششدر کیا۔ حتیٰ کہ ابتدائی انسان نے ان فطری طاقتوں کو کبھی خداوں کا تو کبھی شیطان کا درجہ دیا۔ لیکن فطرت کے ساتھ انسان کی جنگ ہمیشہ چلتی رہی ہے۔ انسان زندگی سے سیکھتا رہا اور فطرت کو زیر کرتا رہا ۔ کبھی سمندروں میں غرق ہوا تو کبھی آندھی طوفانوں میں اجڑتا رہا۔ اور کبھی لاعلاج بیماریوں سے ہزاروں لاکھوں زندگیاں لقمہ اجل بنتی رہیں۔ لیکن انسان نے اجتماعی محنت کے ذریعے علوم کے ایسے ذخائر تخلیق کیے جن سے وہ سمندوروں اور صحراوں کو زیر کرتا گیا۔ اس طرح وباوں اور بیماریوں سے مسلسل لڑتا رہا۔ ان کے علاج دریافت کرتا رہا۔ یہ جنگ آج بھی جاری ہے۔ اِس وقت عالمی پیمانے پر تقریباً 75 لاکھ لوگ کورونا وائرس کا شکار ہیں جبکہ 4 لاکھ 20 ہزار زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔
آج کے جدید ترین انسانی معاشرے کو فطرت کے سب سے بے رحم اور سفاک ہتھیار کا سامنا ہے۔ کورونا وائرس اس وقت پوری انسانیت کے سامنے ایک دیوہیکل چیلنج کی صورت کھڑا ہے۔ تاحال اس مہلک وبا کے سامنے پوری انسانیت بے بس نظر آ رہی ہے۔ اس حالیہ جنگ میں نسل انسان دفاعی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے۔ لیکن دوسری طرف فطرت کا یہ حملہ بھی درحقیقت ردعمل ہے‘ اس بلادکار کا جو مٹھی بھر انسانوں نے منافع کی ہوس میں فطرت کا کیا ہے۔ حالیہ کورونا وبا کے متعلق بے شمار قیاس آرائیاں اور سازشی تھیوریاں گردش کر رہی ہیں لیکن کوئی بھی سائنسی نقطہ نظر رکھنے والا انسان اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ ان نئے وائرسوں کے پھیلاو کی بنیادی وجہ ماحولیاتی تبدیلیاں اور فطرت کا انسان کے ہاتھوں بے دریغ استحصال ہے۔ آنے والے دنوں میں ایسی مزید وبائیں بھی پھوٹ سکتی ہیں۔
تاریخ میں کئی مرتبہ ایسی جان لیوا وبائیں آتی رہیں جنہوں نے لاکھوں زندگیاں نگل لیں۔ حالیہ تاریخ میں کورونا وبا کا تقابل 1918ءکے ہسپانوی بخار سے کیا جا سکتا ہے۔ جس سے دنیا کی ایک تہائی آباد ی متاثر ہوئی تھی اور 5 کروڑ لوگ زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ اس وبا کے پس منظر میں پہلی عالمی جنگ کی ہولناکیوں کا بنیادی کردار تھا۔ ایک لمبے عرصے سے حالت جنگ میں رہنے والے سپاہیوں میں خوراک کی قلت اور حفظان صحت کے اصولوں کے فقدان کے پیش نظر مسلسل گرتی ہوئی قوت مدافعت کی حالت میں انسانوں کو اس مخصوص بیماری نے آن لیا جس کے بعد شہروں اور دیہاتوں میں لوگ تیزی سے اس بیماری سے لقمہ بنتے چلے گئے۔
وبا کی منڈی
دسمبر 2019ءسے پھیلنے والی کورونا وبا سے پہلے ہی سرمایہ داری اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گزر رہی تھی۔ سرمایہ داری کے تمام سنجیدہ معاشی ماہرین اور نمائندہ جریدے ایک نئے اور گہرے معاشی بحران کا عندیہ دے رہے تھے۔ کورونا وبانے اس میں ایک عمل انگیز کا کام کیا ہے اور عالمی پیمانے پر سرمایہ داری کو ایک بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے۔ لاک ڈاون، منڈیوں کی بندشیں اور تجارتی سرگرمیوں میں تعطل نے اس بحران کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ لیکن اگر سرمایہ داری کے بنیادی اصولوں کو مدنظر رکھا جائے تو یہ بحیثیت مجموعی کسی ایک خطے یا صنعت پر انحصار کیے ہوئے نہیں ہوتی اور جب کسی ایک منڈی میں مندی ہوتی ہے تو عین اسی وقت اس کے مقابل ایک نئی منڈی تشکیل پا رہی ہوتی ہے اور مجموعی طور پر سرمایہ داری سماجی دولت کی لوٹ مار جاری رکھتی ہے۔ صرف اس کے ذرائع بدل جاتے ہیں۔
وبا کے اس عہد میں بھی سرمایہ داری نے نئی منڈیاں تشکیل دی ہیں اور ان میں وسعت پیدا کی ہے۔ آج تمام تر پیداوار اور خدمات کے شعبہ جات میں آن لائن رحجانات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ صارفین کو گھروں میں بیٹھے ہی سہولیات و اجناس کی ترسیل کے ذرائع تخلیق کیے جا رہے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں یہ رحجان پہلے سے موجود تھا لیکن وبا کے دنوں میں اس منڈی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان جیسے پسماندہ ممالک میں بھی آئن لائن خدمات کا رحجان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ لیکن آن لائن دھندوں کےساتھ سرمایہ داری کا سب سے بنیادی ادارہ ’بینکاری‘ جڑا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ بھی دیگر کئی شعبوں خصوصاً ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں کے منافعوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لئے تمام تر خطرات کے باوجود ان شعبہ جات کے ملازمین کو خدمات دینے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں صحت کے شعبے کے بعد اس وقت کورونا وائرس سب سے تیزی کے ساتھ بینکنگ کے شعبے میں پھیل رہا ہے۔ ہر برانچ میں روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً ایک ملازم کورونا کے موذی مرض کا شکار ہو رہا ہے۔ لیکن منافع کی ہوس بینکاری کواس لئے بند نہیں ہونے دے رہی کیونکہ یہ اس نظام کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ انٹرنیٹ کی مارکیٹ میں کارپوریشنوں کی طرف سے آن لائن نوکریوں اور ’ورک فرام ہوم‘ کا رحجان بھی بڑھا ہے۔ پہلی نظر میں یہ ایک معقول طریقہ معلوم ہوتا ہے لیکن سرمایہ داری میں ہر اقدام آخری تجزیے میں شرح منافع میں اضافے اور محنت کے بدترین استحصال پر ہی منتج ہوتا ہے۔
بظاہر ’گھروں سے کام ‘ محنت کش کو آزادی فراہم کرتا دکھائی دیتا ہے لیکن حقیقت میں یہ محنت کشوں کی زندگیوں کو مالکان کے بدترین کنٹرول میں لے آتا ہے۔ محنت کشوں کی صدیوں کی لڑائی سے حاصل کردہ ’آٹھ گھنٹے کام، آٹھ گھنٹے آرام اور آٹھ گھنٹے تفریح ‘ کی حاصلات پر ’گھروں سے کام‘ ایک شدید وار ہے۔ اس سے نوکری پیشہ ملازمین کا ہر لمحہ سرمایہ دار مالکان کی مٹھی میں آجاتا ہے۔ ملازمین کے گھروں سے کام کے دوران روزمرہ کی پیداواری لاگت میں بھی کمی ہوتی ہے۔ فیس بک کے مالک مارک زکربرگ نے وال سٹریٹ جنرل کے حالیہ انٹرویو میں عندیہ دیا ہے کہ اس پالیسی کے تحت آئندہ عشرے میں فیس بک کے آدھے ملازمین سے ’گھروں سے کام ‘لیے جانے پر سوچا جا رہاہے۔ لیکن پاکستان جیسے معاشروں میں محنت کشوں کی اکثریت ٹیکنالوجی کے اس قدر استعمال سے بے بہرہ ہے ۔ اور بیروزگاری کا عفریت ہے جو مسلسل بڑھ رہا ہے۔ یہاں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کا عذر بناتے ہوئے آنے والے دنوں میں بڑے پیمانے پر برطرفیاں کی جا سکتی ہیں اور کسی مراعات کے بغیر کم تنخواہوں پر نوجوانوں کی عارضی بھرتیاں عمل میں لائی جا سکتی ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس متضاد کردار پر کامریڈ لال خان نے واضح کیاتھا کہ ”ٹیکنالوجی کی تمام ترقی کے باوجود سرمایہ داری محنت اور منڈیوں کے شدید استحصال ‘ عدم مساوات میں اضافے اور اجرتوں میں جمود کا باعث بن رہی ہے۔ محنت کش لوگوں کے حالات بد تر ہوتے جا رہے ہیں۔ غیر یقینی اور پارٹ ٹائم روزگار معمول بن چکے ہیں۔ ڈی ریگولیشن کی وجہ سے حالات کار غیر محفوظ اور بدتر‘ جبکہ مالکان کی پوزیشن مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ نوجوان محنت کشوں کا تو کوئی پرسان حال ہی نہیں۔ سرمایہ داری کا تضاد یہی ہے کہ جدت اور ٹیکنالوجی کی ترقی سماجی رشتوں میں خلفشار پیدا کرتی ہے۔“
اور پھر وبا کی روک تھام اور علاج کے لئے درکار سامان کی قلت پیدا کر کے اربوں روپے کمائے جا رہے ہیں۔ ہینڈ سینیٹائزر غائب ہو گئے ہیں۔ ماسک کئی گنا زیادہ قیمت پر بیچے جا رہے ہیں۔ آکسی میٹروں، ملٹی وٹامنز، ضروری ادویات اور ٹیکوں کی بھی یہی کیفیت ہے جو کئی گنا زیادہ قیمت پر بھی نہیں مل رہے ہیں۔ بیشتر مریض ان مہنگی ادویات کی قیمت نہ ادا کر سکنے کی وجہ سے لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ فائیو سٹار ہوٹلوں کی طرف سے قرنطینہ کمروں کے لئے لاکھوں کے پیکیجوں کی تشہیر ہو رہی ہے۔ نجی لیبارٹریوں نے اس عرصہ میں ٹیسٹوں کی مد میں اربوں روپے کے منافعے بٹورے ہیں۔ نجی ہسپتالوں کی مختلف ریٹ لسٹیں آویزاں ہیں۔ آغا خان میڈیکل یونیورسٹی ہسپتال میں ایک دن کے ایک بیڈ کے لئے ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے تک وصول کیے جا رہے ہیں۔ آئے روز ڈاکٹروں کی کورونا کے ہاتھوں ہلاکت کی درجنوں خبریں گردش کر رہی ہیں لیکن نجی ہسپتالوں کے منافعوں کا دیو مسلسل بڑا ہوتا جا رہا ہے۔ اب ملک کے سرکاری ہسپتالوں میں کورونا کے مریضوں کے لئے جگہ ختم ہو گئی ہے۔
ایسا نہیں ہے کورونا کی اس وبا نے بالکل بے خبری میں حکومتوں کو آن لیا۔ جنگلات کے مسلسل کٹاو، ماحولیاتی آلودگی اور درجہ حرارت میں بڑی تبدیلیوں کے پیش نظر ایک خطرناک وبا کے پھیلاو کی تشویش تقریباً دو دہائیاں قبل سے پائی جا رہی تھیں۔ کورونا وبا کے پھوٹنے سے سالوں قبل اس کی ویکسین بنانے کی تیاریاں کی جاسکتی تھیں۔ کیونکہ ماضی میں اسی قسم کے وائرسوں خصوصاً ’سارس‘ اور ’مرس‘ کا سامنا ہوچکا تھا۔ لیکن منافع کی ہوس نے انٹرنیشنل فارماسوٹیکل کمپنیوں کو اس مرض کے علاج کی تخلیق کے لئے کسی قسم کی تحریک دینے سے باز رکھا ۔ بالکل اسی طرح جس طرح اینٹی بائیوٹکس بنانے والوں نے بیکٹیریل انفیکشن سے بچاو کی ویکسین بنانے کو روک رکھا ہے۔ ماضی کے ان وائرسوں پرایک دوررس سائنسی تحقیق سے آج کم از کم بہت سارا ابتدائی کام ہو چکا ہوتا اور لاکھوں لوگوں کی زندگیاں بچائی جا سکتی تھیں۔ اب ویکسین کی تیاری میں کم از کم ایک سے ڈیڑھ سال کا عرصہ درکار ہے اور عالمی تخمینوں کے پیش نظر تب تک 5 کروڑ لوگ اس وبا کے ہاتھوں جان کی بازی ہار سکتے ہیں۔
جرمن آئیڈیالوجی میں کارل مارکس نے سرمائے کے قوانین کے تابع پیداواری قوتوں کے کردار کے بار ے میں واضح کیا تھا کہ’ ’ اپنے ارتقائی عمل کے ایک خاص نقطہ پر موجودہ حالات کے پیش نظر پیداواری قوتیں اور ذرائع تجارت اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں جہاں یہ صرف تباہی کا موجب بنتے ہیں۔ یہ قوتیں(مشینری اور پیسہ) اب پیداواری نہیں بلکہ تباہ کن بن جاتی ہیں۔“ 1845-46ءمیں برسلز کی سیاسی جلاوطنی میں لکھی گئی یہ سطور آج کی وبا کی تباہی کی جدلیاتی منطق کو واضح کر رہی ہیں۔ منافع خوری کے اس نظام میں جکڑی پیداواری قوتیں وسیع تر انسانیت کو صرف برباد ہی کر سکتی ہیں۔ ایک منصوبہ بند معیشت میں ہی ان قوتوں اور ذرائع کا کردار اپنے الٹ میں بدل کر نہ صرف انسان کی اجتماعی بہبود میں بھرپور کردار ادا کرے گا بلکہ یہی پیداواری قوتیں اور ذرائع منافع اور سرمائے کے رشتوں سے آزاد ہوکر انسانیت کو اس کی معراج تک پہنچائیں گی۔ انسانیت کا مستقبل اندھی منڈی کی وحشت نہیں بلکہ سوشلزم کی منصوبہ بندی ہے۔
کورونا وبا اور طبقاتی تفریق
کورونا وائرس میں تو شاید یہ صلاحیت نہ ہو کہ وہ اپنے شکار میں ترجیحات ترتیب دے سکے لیکن اس کے شکار ہونے والوں کے پاس لازماً یہ صلاحیتیں ہو سکتی ہیں کہ اس وبا کا کسی حد تک مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ یہی صلاحیتیں طبقاتی نوعیت کی حامل ہیں۔ حکمران طبقے اور محنت کش طبقے کے مابین صرف دولت کی خلیج نہیں ہے بلکہ اس دولت کی بدولت ہی امیر اپنے لئے ایسے حالات پیدا کر لیتے ہیں جن سے اس قسم کی وباوں سے وہ بچ جاتے ہیں اور پھر ایسی قدرتی آفات کا لقمہ اجل بھی غریب ہی بنتے ہیں۔
کووِڈ 19 کا مقابلہ فی الوقت صرف قوت مدافعت بڑھانے سے ممکن ہے اور قوتِ مدافعت ایک انتہائی طبقاتی نوعیت کا سوال ہے۔ محنت کش طبقے کی وسیع اکثریت کو پیٹ بھر کھانا میسر نہیں وہ قوتِ مدافعت بڑھانے والی غذایت کا اہتمام کہاں سے کریں گے۔ لاک ڈاون کے دوران کئی ممالک میں اشیائے خورد و نوش کی کمی کے باعث راشن کی دکانوں پر طویل قطاریں اس بات کا واضح اظہار ہیں کہ بھوک کسی بھی وائرس سے کہیں زیادہ مہلک ہے۔
طبقاتی اعتبار سے ایک فیصد بالائی طبقے کی زندگیوں کا تو تصور کرنا ہی محال ہے۔ اس دنیا میں ہوکر بھی یہ کسی اور دنیا کے باسی ہیں۔ ان کے کھانے کے میز صرف پیٹ بھرنے کے لئے نہیں بلکہ پروٹین، وٹامنز، نمکیات اور دیگر ضروری جسمانی ضروریات کے حساب کتاب پر مبنی ہوتے ہیں۔ اور یہ حساب کتاب ہر فرد کا علیحدہ رکھا جا تا ہے۔ مخصوص محلول کو مخصوص وقت پر نوش کرنے کی عیاشی صرف اوپری طبقات کو ہی میسر ہے۔ زندگی بھر اتھاہ غربت میں رہنے والے ایسی سوچ کی عیاشی بھی نہیں کر سکتے۔ یہاں تو مویشی اور انسان ایک جوہڑ سے پانی پینے پر مجبور ہیں۔
بالائی طبقے اور زیریں معاشرے کے درمیان ایک اور پرت پائی جاتی ہے جسے کامریڈ ٹراٹسکی ’پیلے آسمان‘ سے تشبیہ دیتے تھے۔ اس پرت میں سماج کے ستارے، نامور کھلاڑی، بڑے بڑے تجزیہ نگار و دانشور اور اداکار وغیرہ ہوتے ہیں۔ جن میں بظاہر سماج کی تکلیفوں کا بڑا درد دکھایا جاتا ہے۔ کورونا کی اس وبا میں بھی اس پرت کو بڑا سرگرم دکھایا جا رہا ہے۔ حقیقت میں ان کا سماجی تکالیف سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ لاک ڈاون کے اس دور میں یہ ستارے اپنے پر آسائش گھروں سے سوشل میڈیا کے ذریعے سادگی، خیرات اور توبہ کا درس دے رہے ہیں۔ بھارتی کرکٹر ویرات کوہلی جس پانی سے اپنی پیاس بجھاتا ہے اس کی قیمت تقریباً 1400 پاکستانی روپے فی لیٹر بنتی ہے۔ جبکہ عالمی بینک کے تخمینوں کے مطابق 80 فیصد بھارتی آبادی 2 ڈالر یومیہ سے بھی کم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ حتیٰ کہ ہر 3 میں سے ایک بھارتی شہری 1 ڈالر یومیہ پر زندگی گزار رہا ہے۔ یہ صرف ایک مثال ہے۔ ہر بڑے اداکار اور کھلاڑی کے لئے غذائیت کے ایکسپرٹ کھانے کا تعین الگ سے کرتے ہیں۔ ایسے ماہرین ان ستاروں کے یہاں ایک مکمل اور مستقل نوکری کی جگہ بنا چکے ہیں۔ ان کے گھر‘ گھر نہیں محلات ہیں جو ہر قسم کی آسائش سے آراستہ ہیں۔ ایسے طبقاتی سماجوں میں طبقات سے ماورا کوئی وبا یا بلا کیسے حملہ آور ہو سکتی ہے؟
اس پیلے آسمان میں مذہبی پیشوا بھی شامل ہیں۔ ان پیشواوں کی سماجی مرتبت اور دولت کا ذریعہ مذہبی مقامات و اجتماعات ہیں۔ اس لئے اس لاک ڈاون کی ساری بحث میں ریاستوں کو سب سے بڑا چیلنج ان مذہبی اجتماعات کو رکوانا بنا رہا ۔ یہ قطعاً دینی یا مذہبی مسئلہ نہیں بلکہ خالصتاً مالیاتی مسئلہ ہے۔ کالے دھن کی معیشت کو جواز فراہم کرنے کے لئے مذہبی لبادہ اوڑھایا گیا ہے۔ اس لئے سوال صرف وقتی طور پر مذہبی اجتماعات اور مقامات کو بند کرنے کا نہیں ہے بلکہ صدیوں سے انسانی شعور کو مسخ کرنے کی پوری روایت کے اوپر قدغن لگ رہی ہے۔ اسی وجہ سے رجعتی عناصر کی مزاحمت کا سامنا ہے۔ ٹیلیوژن کے پرائم ٹائم پروگراموں میں ملاوں کی آہ و بکا کی براہِ راست کوریج اس ریاست کے کھوکھلے پن کا اظہار ہے۔ ہر مذہب کے حکمرانوں اور مذہبی پیشواﺅں میں اسی قسم کی جہالت اور ڈھٹائی دیکھنے کو ملتی ہے۔
اس پیلے آسمان کو مسلط رکھنے میں درمیانے طبقے کی محرومیاں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ پیٹی بورژوازی کی ان پرتوں کے پیر کیچڑ میں ہوتے ہیں لیکن ان کی نظر آسمانوں پر ہوتی ہے۔ انہی کی محرومیوں اور بیگانگی کی وجہ سے یہ اداکار، کھلاڑی اور مذہبی پیشوا ستارے بن جاتے ہیں۔ اور یہی پھر ان ستاروں کی منڈی بھی ہوتے ہیں۔ انہی کو یہ تفریح بھی بیچتے ہیں اور یہی مذہبی چورن کے سب سے بڑے خریدار بھی ہوتے ہیں۔ یہ بظاہر بہت پڑھا لکھا طبقہ انتہائی جہالت کا حامل ہوتا ہے۔ مذہب غریبوں کو آس ضرور دیتا ہے لیکن غربا ان مذہبی پیشواوں کی عیاشیوں کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ یہ درمیانہ طبقہ ہی ہوتا ہے جس کی غیر یقینی کی کیفیت اس کو ان ملاوں اور پنڈتوں کی چوکھٹوں پر لا کھڑا کرتی ہے جہاں یہ خوب مال لٹاتے ہیں۔ حالیہ ہنگامی صورتحال میں اسی طبقے کا ذخیرہ اندوزی سے لے کر گراں فروشی تک کے جرائم میں مجرمانہ کردار ہے۔
سماج کے لمپن عناصر کا بنیادی خاصہ ہر معاملے پر غیر سنجیدگی کا ہوتا ہے۔ اور پاکستان میں تو اس وقت کا حکومتی سیٹ اپ ہی انہی لمپن بورژوا عناصر پر مبنی ہے۔ لاک ڈاون کی کیفیتوں میں ہجوم لگانے اور وائرس کی وبا کو خیالی اور سازشی تصور کروانے جیسے اقدامات کے ذریعے یہ معاشرے کو کہیں زیادہ گہرے بحران کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ انہی میں مذہبی جنونیت کے عناصر عود کر آتے ہیں اور یہ ایسے خود کش بمبار کی شکل اختیار کر لیتے جو اپنی جہالت میں سماجوں کو تاراج کر دیتے ہیں۔ یہ شعوری اور لاشعوری طور پر رجعتی ریاستوں کے اہم اثاثوں کا کام سر انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ مذہبی بلوے ہوں یا نسلی فسادات‘ یہ لمپن عناصر جلتی میں تیل کا کام سر انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ ان عناصر کی کئی طرح کی سماجی پرتیں ہوتی ہیں لیکن ان کا حتمی کرداررجعتی ہی رہتا ہے۔ حالیہ ہنگامی صورتحال میں مذہبی اجتماعات اور ایک خطے سے دوسرے خطے میں وائرس کی وبا پھیلانے میں ان عناصر کا بنیادی کردار ہے۔ ان کو لگام ڈالے بغیر اس وبا کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ریاست نے برسوں ان کی پرورش کی ہے اور یہ ان کو مکمل لگام ڈالنے کی متحمل بھی نہیں ہوسکتی۔
ایک محنت کش طبقہ ہی ہے جس کا اس نظام میں کوئی پرسان حال نہیں۔ یہ نظام ان کا ہے ہی نہیں تو اس نظام میں ان کی بقا کی کیا بات ہوگی۔ کورونا وائرس سے اگر کوئی حقیقی معنوں میں تباہ ہو رہا ہے تو یہی محنت کش طبقہ ہے۔ جس کے خون پسینے پر یہ نظام رواں ہے۔ ڈاکٹروں سے لے کے نرسز اور پیرامیڈیکل سٹاف تک اس جنگ کا وہ ہراول دستہ ہیں جن کی اپنی زندگیاں داو پر لگی ہوئی ہیں۔ ریاستی حکم ناموں کے ذریعے ان کو سیلوٹ اور سلامیاں تو دلوائی گئیں لیکن بنیادی آلات کی فراہمی کے مطالبے پر انہی پر ڈنڈے برسائے گئے اور جیلوں میں ڈالا گیا۔ کھوکھلے جذبوں سے اس وبا کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ ٹھیکے داری نظام کی بدولت لاکھوں دیہاڑی دار مزدوروں کے گھروں میں فاقہ کشی ہے۔ لاک ڈاون میں بھوک کا وائرس کورونا سے کہیں زیادہ مہلک ثابت ہو رہا ہے۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 6 کروڑ پاکستانی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے لیکن اگر یہی اعدادوشمار دیکھے جائیں تو سنجیدہ تخمینوں کے مطابق حالیہ بحران میں یہ تعداد 12 کروڑ تک پہنچ سکتی ہے۔ شہروں میں لاک ڈاون کی کیفیت میں آٹے کے حصول کی قطاروں میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے ۔ فاقہ کشی کی صورتحال شدت اختیار کر رہی ہے۔ مختلف سماجی تنظیموں کی طرف سے گھروں میں مفت راشن پہنچانے کے اقدامات ہو رہے ہیں لیکن یہ ریاستی اقدامات کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ اس طرح زیادہ سے زیادہ چند فیصد متاثرین کی ہی مدد ہو سکتی ہے۔ چند ایک گھرانوں کو تو ایک مخصوص دورانیے کے لئے بنیادی غذائی اشیا فراہم کی جا سکتی ہیں لیکن اس طرح آبادی کی وسیع اکثریت تک ایک لمبے عرصے کے لئے یہ ضروریات پہنچانا ناممکن ہو جاتا ہے۔
وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اس بحرانی کیفیت میں وسیع تر آ بادی کو بھوک اور موت کی کھائی میں دھکیل رہی ہے۔ محنت کش طبقہ ایسے حالات میں تیز تر نتائج اخذ کر رہا ہوتا ہے اور زندگی کی لڑائی اس سے بہت جرات مندانہ اقدامات کرواتی ہے۔ بحرانی کیفیت کی طوالت میں کچلے ہوئے طبقات کے پاس زندہ رہنے کا کوئی چارہ نہ رہے گا۔ ایسے میں جہاں پرتشدد احتجاج جنم لے سکتے ہیں وہاں بڑے پیمانے کے جرائم اور بلووں کے امکانات بھی موجود ہیں۔ قدرتی آفات اور جنگوں جیسی ہنگامی صورتحال میں سماجی خلفشار تیزی سے بڑھ کے بے قابو ہو سکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں زیادہ تر واقعات دولت اور پیسوں کی بجائے اشیائے خورد و نوش کی لوٹ مار کے ہوتے ہیں۔ حکمران سماجی خلفشار کے امکانات سے خاصے خوفزدہ دکھائی دیتے ہیں اس لئے کبھی لاک ڈاون پر تذبذب کا مظاہرہ کرتے ہیں تو کبھی سرکاری امداد اور خیرات کے وعدے کر رہے ہیں۔ لیکن ان کے پاس آپشنز محدود ہیں۔ موجودہ سماجی بحران ایسی ہی کیفیات کا عندیہ دے رہا ہے۔
لاک ڈاﺅن اور ماحولیات
آج یہ کرہ ارض وبا کی آگ میں جھلس رہا ہے اور دنیا بھر کے نیرو بانسریاں بجا رہے ہیں۔ کورونا وبا نے اس نظام ِ زر کو بنیادوں سے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ منڈی کا بھرم دھرے کا دھرا رہ گیا ہے۔ چند ہفتوں کے لاک ڈاون نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ ماحولیات کے بگاڑ جیسے دیوہیکل مسائل کوبھی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ لاک ڈاون اور بندشوں کے پیش نظر صرف ابتدائی چند ہفتوں میں ہی انرجی پلانٹس میں فوسل فیول کی کھپت میں 36 فیصد تک گراوٹ ہوئی۔ فضائی آلودگی کے سب سے مہلک عنصر نائٹروجن آکسائیڈ میں 37 فیصد شرح گراوٹ اور صرف چین کے کاربن اخراج میں 25فیصد کمی جیسے حیران کن نتائج موصول ہوئے۔ تھائی لینڈ کے ساحلوں پر دوبارہ سے نادر کچھوں کو افزائش نسل کے مواقع ملے۔ جنوبی افریقہ کی سنسان گلیوں میں پینگوئین گھومنے لگے۔ وینس شہر کی نہروں میں مچھلیاں لوٹ آئیں۔ اٹلی کے شہروں اور قصبات میں بھیڑیے، ہرن اور ریچھ دیکھے گئے اور اسلام آباد کے پہاڑوں میں تیندوے اور چیلیں لوٹ آئیں۔ لیکن یہ نتائج کسی منصوبہ بندی کے تحت حاصل نہیں ہوئے بلکہ دنیا بھر کی ایک تہائی آبادی کے گھروں میں مقید رہنے سے فطرت کو یہ مواقع میسر آئے۔ لیکن مسلسل گہرے ہوتے معاشی بحران میں فطرت کا توازن برقرار نہیں رہ سکتا۔
یہ بھی حقیقت ہے بیشتر ماہرین کے مطابق کورونا جیسی وباﺅں کی بنیادی وجہ ماحولیاتی بگاڑ ہی ہے۔ سرمائے کی ہوس ایسے کئی مہلک جرثوموں کی وجہ بن رہی ہے اور آئندہ بھی بنتی رہے گی۔ ان ہنگامی حالات میں یہ حیران کن حاصلات ضرور ہوئی ہیں لیکن صورتحال میں بہتری کے بعد منافع کی ہوس اپنے نقصانات کے ازالے کے لئے پہلے سے کہیں زیادہ شدت سے فطرت کا استحصال کرے گی۔ سرمائے کے رہتے ہوئے سرمایہ داروں کی نیک نیتی کی خواہشات محض دیوانے کا خواب ہیں۔ اور کوئی بھی نظام افراد کی منشا اور نیت سے ماورا ہوتا ہے۔ یہ نظام وسیع تر انسانیت کے خون پر پل رہا ہے۔ لیکن لاک ڈاﺅن کی ان وقتی حاصلات نے ثابت کر دیا ہے کہ اس کرہ ارض کو دوبارہ صاف کیا جا سکتا ہے۔ اوزون تہہ کی تیز تر بحالی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ معدوم ہونے کے خطرات سے لڑتی بے شمار آبی و زمینی پرجاتیوں کو بچایا جا سکتا ہے ۔ قطبین کے برفانی تودوں کے تیز پگھلاو کو روکا جا سکتا ہے۔ شہروں کے باسی بھی نیلے آسمان کا چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ کاربن کے اخراج میں حیران کن حد تک کمی کی جا سکتی ہے۔ اس کرہ ارض سے سرمایہ داری کی پھیلائی غلاظت صاف کی جا سکتی ہے۔ کروڑوں بے روزگاروں کو نوکریاں دیتے ہوئے اوقات کار میں حیران کن حد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ منڈی کی معیشت ہے جس نے انسانوں کی ایک بڑی اکثریت کو تباہ حال رکھا ہوا ہے۔ محنت ہی اِس نظام کا پہیہ چلا رہی ہے اور محنت کش ہی اس بربریت کے نظام سے انسانیت کی نجات ممکن بنا سکتے ہیں۔
عالمگیر مزاحمت
کارل مارکس نے واضح کیا تھا کہ ”نسل انسان کی تمام تر تاریخ طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہے۔“ جب تک طبقات کا وجود ہے یہ کشمکش ہر حال میں جاری رہے گی۔ کوروناکی وبا پھوٹنے سے پہلے سرمایہ دارانہ پالیسیوں کے خلاف پوری دنیا میں ہڑتالیںاورمظاہرے ہو رہے تھے۔ فرانس، چلی، ایکواڈور، برازیل، عراق، لبنان اور کشمیر میں نوجوان اور محنت کش دائیں بازو کی رجعتی حاکمیتوں اور آئی ایم یف کی سامراجی پالیسیوں کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔ پاکستان میں بھی نوجوانوں اور محنت کشوں کے چھوٹے مظاہرے وقتاً فوقتاً جاری تھے۔
وبا پھوٹنے کے بعد لاک ڈاون اور بندشوں کے پیش نظر وقتی طور پر یہ مظاہرے تھم گئے۔ لیکن بحران نہیں تھما بلکہ کہیں زیادہ گہرا ہو گیا۔ اور جیسے ان حالات میں سرمایہ داری نے آن لائن منڈی کا سہارا لیا اسی طرح نوجوانوں اور محنت کشوں نے مختلف سماجی ویب سائٹس کے ذریعے اپنے غصے کا اظہار کیا۔ پہلے پہل صحت کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں نے بنیادی حفاظتی آلات کی فراہمی کے لیے آواز اٹھائی ۔ لیکن یہاں یہ بات اہم ہے کہ ڈاکٹروں اور نرسوں نے یہ لڑائی ہسپتالوں میں رہ کر لڑی اور بڑی حد تک جیتی بھی۔ بھوک ہڑتال بھی کی مگر ساتھ ہی مریضوں کا علاج بھی کرتے رہے اور اپنے پیغام کو آئن لائن سہولتوں کے ساتھ دنیا بھر کے محنت کشوں تک پھیلاتے رہے۔ مارکسیوں نے ہمیشہ جدید ٹیکنالوجی کو سراہا ہے اور اس کو سرمایہ داری کے خلاف ایک اوزار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ مارکس کی اپنی تحاریر کے مطابق ٹیکنالوجی کے ذریعے سرمایہ داری کی ترقی سوشلزم کی بنیادی شرط ہے۔ سرمایہ داری انٹرنیٹ کے ذریعے منافعے بٹور سکتی ہے تو انسانوں پر ہونے والے جبر اور مظالم کو بھی انٹرنیٹ کے ذریعے بے نقاب کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ایک فیصلہ کن لڑائی زمین پر لڑی جاتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال امریکہ میں ہونے والے حالیہ مظاہرے ہیں۔ امریکی سامراج کی نسلی پرستی کے خلاف ہونیوالے مظاہروں نے تمام ناکہ بندیوں اور بندشوں کو توڑ کر حالیہ تاریخ کی انتہائی جفا کش تحریک منظم کی ہے جو پوری دنیا کے مختلف خطوں تک پھیل گئی ہے۔
پاکستان کی کھوکھلی سرمایہ دارانہ ریاست کو اس وقت سنجیدہ ترین چیلنجوں کا سامنا ہے۔ حقیقی مسائل گہرے ہوتے جا رہے ہیں ۔ اجتماعی مسائل پر محنت کشوں کی جڑت کو توڑنے کے لئے قومی محرومی کے زخموں پر نمک پاشی کی واردات کی جا رہی ہے۔ جبری گمشدگیوں کا سلسلہ تھما نہیں ہے۔ ملازمین کو نوکریوں سے نکالا جا رہاہے۔ عوامی اداروں کوسرمایہ داروں کے ہاتھوں بیچنے کی منصوبہ بندیاں کی جا رہی ہیں۔ بائیں بازو کی طلبہ تحریک کو کمزور کرنے کے ہر ہتھکنڈے میں ناکامی کے بعد دائیں بازو کے رجعتی عناصر کی ریاستی پست پناہی سے طلبہ کے حقیقی مسائل کو کریدا جا رہا ہے۔ اور یہ سب کورونا وبا کے وقتوں میں ہو رہا ہے۔ کئی حوالوں سے پاکستان کے ان نودولتےے حکمرانوں کے لئے کورونا وبا فائدہ مند بھی ثابت ہوئی ہے۔ اپنی تمام تر نااہلی اور اپنے نظام کی ناکامی کی ذمہ داری کورونا پر عائد کی جا رہی ہے۔ اور دوسری طرف اربوں ڈالر کی امداد ہڑپ کر لی گئی ہے۔ 5 ارب ڈالر کی بیرونی امداد کا کوئی نام و نشاں نہیں ہے۔ سبسڈیوں اور بیل آﺅٹ پیکیجوں کے نام پر سرمایہ داروں کو نوازا جا رہا ہے۔ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ سرکاری قرنطینہ سینٹروں میں سہولیات کا مکمل فقدان ہے اور اب ان کو بھی بند کیا جا رہا ہے۔ تمام بڑے شہروں کے ہسپتالوں کی ایمرجنسی اور آئسولیشن وارڈوں میں گنجائش کم و بیش ختم ہو چکی ہے اور مریضوں کو واپس بھیجا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں کورونا کے علاوہ دوسری بیماریوں کے شکار مریضوں کا علاج بھی شدید تعطل کا شکار ہو چکا ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے اور بڑے پیمانے پر اموات ہو سکتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے پہلے ہی واضح کیا ہے کہ پاکستان لاک ڈاﺅن ختم کرنے کی چھ میں سے کسی ایک شرط پر بھی پورا نہیں اترتا ہے۔ لیکن یہاں لاک ڈاون کو ایک مذاق بنا کر سرمایہ داروں کی منافع خوری کے لئے عملاً ختم کر دیا گیا ہے اور کورونا کے پھیلاو کی تمام تر ذمہ داری عوام پر عائد کر دی گئی ہے ۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں ہونا چاہئے کہ حکومت نے اب ’ہرڈ امیونٹی‘ کا راستہ اپنا لیا ہے۔ یعنی جو مرتا ہے مرے اور جو بچ جائیں گے ان میں بیماری کے خلاف قوت مدافعت خود ہی پیدا ہو جائے گی۔ یوں کروڑوں لوگوں کی زندگیاں اس نظام کے پالیسی سازوں نے داﺅ پہ لگا دی ہیں۔ ہر روز درجنوں لوگ معقول علاج سے محرومی کا شکار ہو کے مر رہے ہیں لیکن حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہیں۔ اُلٹا مسلسل نان ایشوز کھڑے کر کے لوگوں کی توجہ منتشر کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ایک ایسا نظام جو کروڑوں انسانوں کو ایک جان لیوا بیماری کے رحم و کرم پر چھوڑ دے‘ اس کے پاس اپنے وجود کو برقرار رکھنے کا ہر جواز ختم ہو جاتا ہے۔ اور جس نظام کے پاس اپنے وجود کا کوئی جواز موجود نہ ہو اسے اکھاڑ پھینک کر ہی انسانیت سکھ کا سانس لے سکتی ہے۔