قمر الزماں خاں
تاریخ کو اگر اسی اسلوب میں سمجھاجائے جیسے ہمارے ہاں لکھی یا بیان کی گئی ہے تو (اکثریت میں ہونے کے باوجود) عام لوگوں کی حیثیت ان گھوڑوں سے بھی کم ہے جن کو شاہ سواروں نے ناکارہ ہونے پر جنگلوں اور بیابانوں میں چھوڑ دیا تھا۔ قدیم و جدید تاریخ ”عوام“ کو شعوری طور پر غیر اہم گرداننے پر مصر ہے۔ کسی بھی عہد کے تاریخی قصے کہانیوں میں بادشاہوں، وزیروں اور عمائدین کا ذکر تو ملتا ہے لیکن آبادیوں کو خوراک مہیا کرنے والے اہم پیداواری عامل یعنی کسان کے کردار کو بھی اس کی پوری اہمیت سمیت تسلیم نہیں کیا گیا۔ ایجادات ہر عہد میں کم یا زیادہ ہوئیں مگر موجدین کی بجائے محلاتی بجھکڑ تاریخ کی سیاہ راتوں میں چمکتے ستارے بنا کر پیش کیے گئے ہیں۔ زندگی کی بقا کی جدوجہد اور اس کے اسباب کو معرض وجود میں لانا ایک طویل تاریخی عمل ہے مگر تاریخ نویس ذرا جلدی میں دکھائی دیتے ہیں۔ وہ زندگی اور سماجوں کی لاکھوں سالوں کی ارتقائی داستان کی بجائے بسے بسائے شہروں کے وسط میں قائم بلند وبانگ محلات میں عین اس جگہ نظریں جمائے بیٹھے ہیں جہاں ایک پر شکوہ تخت پر جلالی بادشاہ براجمان ہے۔ ہزاروں لاکھوں نفوس کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے تاریخ کی کہانیوں کے سارے کردار تیس چالیس افراد تک محدود کر دیے جاتے ہیں جو اس بادشاہ کی مدح سرائی میں مشغول ہوتے ہیں۔
دھات سازی، حربی ساز و سامان کی تیاری اور جدت سازی، اشیائے ضرورت کی پیداوار اور سٹیٹ آف دی آرٹ عمارات کے تخلیق کار گویا خود بادشاہ اور ان کے عمائدین ہی تھے کا تاثر ثابت کرتا ہے کہ ایسی ”تاریخ“ پورے حقائق کو چھپا کر محض فرد یا چند افراد کے کارناموں تک محدود کردیتی ہے۔ یہ جھوٹی، بے ہودہ اور حقائق سے عاری تاریخ نویسی ہے جس کو من و عن قبول کرنے سے صرف مجہول و مخصوص مقاصد پر مبنی پراپیگنڈے کو تاریخ سمجھنے کی غلطی کی جاسکتی ہے۔ تاریخ کا جائزہ کسی بھی عہد کے پیداواری عاملین کے ارتقائی جائزے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ تاریخ کو سمجھنے اور کسی سماج کی ساخت کا جائزہ لینے کیلئے اس عہد کی تعمیرات، تخلیقات، ایجادات، طرز پیدوار اور پیدواری رشتوں کا مطالعہ ناگزیر ہے۔
ہر عہد کی قدیم عمارتوں کی تاریخ کو محفوظ کرنا برحق ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو ماضی کے واقعات کیلئے کسی نسیم حجازی یا ڈاکٹر صفدر جیسے حکمرانوں کے لکھاریوں اور تاریخ کو مسخ کرنے والوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے۔ مگر ایسے قلعے جو کبھی بھی اپنی مملکت کا سامراجی حملہ آوروں کی یورشوں سے دفاع کرنے میں ناکام رہے ان کی فنی ساخت کے ساتھ اس عہد کی جنگی مہارت اور حربی ساز و سامان کا موازنہ کرکے غلبے اور شکست کا سائنسی مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ کہیں کہیں تاریخ کو فرد کے فیصلہ کن کردار کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا پوری وضاحت سے بیان کرنا ضروری ہے۔ مگر ساری تاریخ کو شخصی اوصاف کے سپرد کرنا بطور خاص اس عہد کے محنت کش طبقے، عام لوگوں،ہنر مندوں، تخلیق کاروں اور اہل علم و دانش کو یکسر نظر انداز کرنے اوردیگر ناگزیر عوامل کی نفی کرنے کے مترادف ہے۔ یہ تاریخی حقائق پر فرد کی بالا دستی کی غلطی ہوگی اور اس کے اثرات مہلک ہوتے ہیں۔ ایسی غلطی یا دانشورانہ بددیانتی جعلی اور خیالی ہیروازم کو شعور پر مسلط کرنے کا باعث بنتی ہے جو نسلوں کی بے ہمتی، انحصار پسندی اور معجزوں اور نجات دہندوں کے انتظار پر محیط بربادی پر منتج ہوتی ہے۔ اسی طرح تعمیرات، محلات، باغوں اور بلند و بالا میناروں و عبادت گاہوں کو بھی اسی پیرائے میں اور پوری وضاحت کیساتھ پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سامراجی غلبے کو گہرا کرنے کے طریقوں کا جائزہ لیا جا سکے۔ مطالعے کے راستوں کو عقائد و تعصبات، سیاسی ضروریات، ماضی پرستی اورثقافتی پسماندگی کے عاملین کی دھول سے چھپانے کے عمل کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگرچہ اس طرز کو بے شمار رکاوٹوں اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مغلوب قوموں اور تہذیبوں کے جدید طرز پیدوار، آلات حرب، علم و تکنیک کے سامنے سرنگوں ہونے کے عمل کو کلی طور پر مذاہب، قومی شاونزم، نسلی برتری یا فرد کی طاقت، عقل، تدابیر اور ناقابل تسخیر شخصیات کا شاخسانہ قرار دینا محض پراپیگنڈے کے مقاصد کو تو پورا کرسکتا ہے مگر تاریخ کے تقاضوں کو پورا نہیں کرسکتا۔ نئی نسلوں تک تاریخی حقائق کو من و عن پہنچانا چاہئے نہ کہ سیاسی ضروریات کے تحت توڑ مروڑ کر پیش کیا جائے۔ حملہ آور سامراجیوں کے معاشی اور غاصبانہ کردار کو واضح طور پر بیان کرنا چاہئے تاکہ سماجوں کے طرز ارتقا کو تمام حقائق اور تضادات سمیت سمجھا جاسکے۔ اسی طرح تاریخ اور حملہ آوروں کی قبضہ گیریت کو ان کے معاشی تقاضوں کی حقیقت کے تحت ہی سمجھنے کی کوشش کرنا چاہئے نہ کہ حملہ آوروں کو فضول قسم کے قصے کہانیوں میں لپیٹ کر نجات دہندہ بنانا چاہئے۔ ایسا کرنا تاریخ کے بخیے ادھیڑنے اور نئی نسل کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔ البتہ فن تعمیر اور دیگر فنی حوالوں کو اجاگر کرنا ضروری ہے۔ خاص طور پر تاریخی مادیت کے اصولوں کے تحت تبدیلیوں اور مظاہر کے تعمیراتی فن پر اثرات کا مطالعہ کسی عہد اورمخصوص سماج کے طرز ارتقا کو واضح کرنے میں آسانی پیدا کرتا ہے۔ فن تعمیر کے مطالعے سے متعلقہ عہد کے ذرائع پیدوار اور خاص طور پرپیداواری رشتوں کی نوعیت کی وضاحت ہوتی ہے اور ساتھ ہی تمدن کے ارتقا کی کیفیت کو سمجھا جاسکتا ہے۔ تاریخ بہت کچھ الگ سے واضح کرتی ہے۔ خاص طور پر کہ سب کچھ ایسے ہی نہیں تھا جیسا نظر آر ہا ہے اور اس سے ہم یہ بھی آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ سب کچھ ایسا ہی نہیں رہے گا جیسے اب ہے۔ قدیم زمانوں کی جدید انسانی تہذیبوں کے ادوار کے کھنڈرات جن میں مہر گڑھ، موہنجوداڑو اور ہڑپہ وغیرہ شامل ہیں کی عماراتی وضع اور طرز تعمیر وہاں کی معاشرت کے خدو خال اور باہمی تعلق کو واضح کرتی ہے۔ یہ تعمیراتی کھنڈر اور باقیات ”انفرادیت“ پر مبنی تاریخ کی نفی کرتے ہیں اور آبادیوں کے مل جل کر رہنے اور اشتراک باہمی کی دلیل کے طور پر تاریخی اسباق وضع کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ تاریخ متقاضی ہے کہ اس کو غیر سنجیدہ طرز مطالعہ کی بجائے تاریخی مادیت کے اصولوں کے تحت پرکھا اور سمجھا جائے۔