قمرالزماں خاں
میں ان کوپہچانتا تھا، نام تو کچھ اور تھا مگر اخگر کے تخلص سے پہچانے جاتے تھے۔ حسب عادت وہ جناح کیپ، شیروانی پہنے غیر منظم مجمع سے خطاب کررہے تھے۔ وہ خاصے جذباتی رہا کرتے تھے، ان کے بارے میں مشہورتھا کہ وہ بہت ” محب وطن“ شخص ہیں۔ انکی شخصیت کا اثر تھا یا انکا فن خطابت تھا کہ سامنے والا مجمع سمجھے بنا سمجھے انکی بات کوماننے پر مجبور ہوجاتا تھا۔ اس وقت انکے منہ سے جھاگ بہہ رہی تھی، وہ اپنے گرما گرما خطاب سے ٹھنڈے موسموں کو گرم کرنا جانتے تھے، انکی بات میں دخل اندازی وطن دشمنی کے مترادف ہی ہوتی، کیونکہ وہ کسی سوال یا انکی بات کے اعتراض پربھنا کر کہتے ”سالا‘ دشمن کا ایجنٹ ہے تو“۔ یکایک پاکستانی سے دشمن کا ایجنٹ ہونے والا پھر کبھی انکی بات میں دخل نہیں دیتا تھا۔ وہ اگست کے مہینے میں آپے سے باہر ہوجایا کرتے تھے۔ آج بھی یعنی اگست کی دس تاریخ کو دھاڑ رہے تھے۔ ”یہ تمہارے ”ٹھاٹھ باٹھ“ پاکستان کی وجہ سے ہیں، ”اُدھر“ہوتے تو چپڑاسی ہوتے“۔ وہ کہہ رہے تھے کہ تمہیں کیا پتا کہ اپنا وطن کتنی قربانیوں سے حاصل کیا جاتا ہے؟ تم نے اپنوں کے زندہ جسموں کو کٹتے جو نہیں دیکھا! تمہارے سامنے کسی بہن بیٹی کی آبروریزی ہوتی تو تمہیں بات سمجھ آتی! تم ان بپھرے ہوئے سکھوں کے ہجوم کا تصورکرسکتے ہو، جنکی کرپانوں سے جوان بھائیوں اور ماں باپ کا تازہ لہو ٹپک رہا ہو !تم نے ان سوروں کو نہیں دیکھا جو ہمارے سامنے ہماری بہو، بیٹیوں کا اٹھا کر لے گئے تھے۔ کیا تم میں ہمت ہے کہ قافلے سے چھینی بیٹیوں، بہنوں، ماوّں کی چیخیں سنو! جن کی بازگشت ابھی بھی فضاوّں میں سوال کررہی ہے۔ وہ گردونواح میں کھڑے لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے عام طورپر اپنا حریف ہی سمجھ کر چھنگاڑتے اور کہتے ’سورو‘تم وہاں ہوتے توبس زیادہ سے زیادہ چپڑاسی لگے ہوتے۔ تم نے وہ ہجرت کا سفرنہیں کیا، جو خون اور آگ کے سمندر سے گزرکے طے کیا گیا تھا، ہانپتے کانپتے قافلے ‘پپڑیاں جمے خشک ہونٹ والے خوفزدہ انسانوں کا جمع غفیر ‘جن کے دھڑکتے دلوں کو جمع کیا جاتا تو دھڑکن کی ارتعاش سے زمین پھٹ جاتی۔ تم نے وہ لاشیں نہیں دیکھیں جن کو انکے پیاروں کے سامنے ہی کتے اور گدھ بھنبھوڑ رہے تھے۔ تمہیں کیا پتا کہ بے گھر ہونا کیا ہوتا ہے۔ تم کیا جانو کہ جب اپنی ہی جنم بھومی تم پر جہنم بنا دی جائے۔ جن گلیوں اوربازاروں میں کھیل کر جوان ہوئے‘ ان گلیوں کو مقتل گاہ بنادیا جائے، جن یاربیلیوں کی ہنسی کو اپنی خوشی جانا، جن کے دکھ پر روئے اورسُکھ پر ہنسے، انکے چاقو اور کرپانیں ہمارے گلے کاٹنے چل پڑے۔ تم باتیں کرتے ہو؟تمہیں کیا پتا کہ ”آزادوطن“ کی قدر کیسے کی جاتی ہے؟ تم بس شکوے کرنا جانتے ہو، تمہاری شکایتیں ختم نہیں ہوتیں۔ دیکھو ان کو جو وہاں رہ گئے ہیں۔ کیا تم نے وہ فوٹیج نہیں دیکھیں جس میں تم جیسے جو وہاں ہی رہ گئے تھے‘ کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے؟ کیا تم نے اس ننگ دھڑنگ نہتے کو نہیں دیکھا جسکے جسم سے کپڑے اتار کر شیوسینا کے غنڈوں نے پہلے درخت سے باندھا اور پھر مارمارکر جان سے ہی ماردیا۔ کیا تم نے اس سبزی والے کی بے عزتی نہیں دیکھی جس کو فقط اس وجہ سے بے توقیر کیا گیا کہ وہ مسلمان ہوتے ہوئے بھی ہندووں کے علاقے میں سبزی بیچنے آگیا تھا۔ کیا ان فسادات میں گھری مسلمان فیملی کی بے بسی تم نہیں دیکھ سکے جن کے گھرکی قریبی مسجد کو شہید کرنے کے بعد شہر کے بپھرے بلوائی مسلمانوں کے گھروں کو ڈھونڈڈھونڈ کرآگ لگارہے تھے۔ کیا تمہاری آنکھیں اندھی ہوچکی ہےں؟ کیا تم حواس باختہ ہوچکے ہو۔ آج انکا سامع مجمع نہیں تھا بلکہ میں خود تھا اور میں خواہش کے تحت انکا ”مجمع “ نہیں بنا تھا۔ میں تو سامنے والے سکول سے واپس مڑا تھا مگر اس حالت میں کہ میرا سرگھوم رہا تھا اور کسی سائے کی تلاش میں‘ میں ”اخگر“ کے جلسہ گاہ میں آن پھنسا تھا۔ وہ مجھ پرحملے پر حملہ کئے جارہے تھے۔ شاید وہ مجھے دشمن کا کوئی ہدف سمجھ رہے تھے۔ لفظوں کی اس گولہ بھاری میں وہ مجھ کو کئی بار مسمار کرچکے تھے مگر ان کی تشفی نہیں ہوپارہی تھی۔ تم بے قدرے ہو……..جانتے ہو؟ اگر تم وہاں ہوتے تو کیا ہوتے؟ تم۔ ۔ تم …. وہاں چپڑاسی ہوتے۔ زیادہ سے زیادہ چپڑاسی۔ سمجھے میری بات؟ قدرکرو، قدر!تم آزادی کی قدر کرو، ان نعمتوں کی قدر کروجو تم کو یہاں پر میسر ہیں۔ وہ اسی طرح چلارہے تھے، جس طرح ہر اگست کے مہینے چلاتے ہیں۔ انکے منہ سے تھوک کے ذرات جھاگ بن کر اڑرہے تھے۔ اورمیں بے قدرا، حواس باختہ‘ اورزیادہ حواس باختہ ہوچکا تھا۔ میری سوچنے سمجھنے والی صلاحتیں مفلوج ہوچکی تھیں۔ سوچ رہا تھا کہ میں کتنا بے وقوف ہوں، کیوں کررہا ہوں؟ میں نے کونسی شکایت کی ہے ؟مجھے کچھ یاد نہیں آرہا تھا…. مگر میں نے کہاں شکایت کی ؟مجھے یاد آیا کہ مجھے تو کسی ایسی جگہ کا بھی نہیں پتا‘ جہاں کوئی شکایت کی جاسکتی ہو! مگر…. مگر میری شکایات ہیں کیا؟….میرا ذہن خالی ہوچکاتھا، کچھ یاد نہیں آرہا، کچھ سمجھ نہیں آرہا….مجھے لگا کہ میری کیفیت بالکل میری ماں جیسی ہوگئی ہے۔ میری ماں جو ہمیشہ ہی حواس باختہ رہتی تھیں، ذرا ذراسی بات پر پریشان ہونا اور گھبراہٹ میں ہوش وحواس کھو بیٹھنا ہی انکی عادت بن چکی تھی۔ ایک دفعہ جب ہمارے گھر میں کیروسین والا چولہا پھٹ جانے سے آگ کے چھوٹے چھوٹے شعلے‘ جب اس نالی سے بھی نکل رہے تھے جہاں کیروسین آئل پہنچ گیا تھا تو امی کیسے حواس باختہ ہوکر شورمچاررہی تھیں۔ میرا گھر جل گیا….میرا گھر جل گیا‘کے نعرے لگا کر چھوٹے سے آنگن میں بھاگتی پھررہی تھیں۔ ہم بہن بھائیوں نے جب اس چھوٹی سی آتش زدگی پر قابو پالیا تو پھر بھی ہماری ماں کے حواس قابو میں نہیں آرہے تھے۔ میری ماں کے حواس بھی اسی خونی اگست میں’کپورتھلہ ‘سے’ امرتسر‘کے درمیان میں بالکل وہیں کہیں گم ہوگئے تھے جہاں اسکے خاندان کا ایک بڑاحصہ گم ہوگیا تھا۔ وہ بتایاکرتی تھی کہ وہاں کوئی دریا تھا جس کا پانی بھی سکھوں کی طرح مہاجروں کے قافلوں کو شکارکرنے نکلا تھا۔ جب اجاڑہ ہوا، ان دنوں اباجی برما کے محاذ پر تھے۔ گھر میں امی اپنے شیر خوار بچے کے ساتھ اکیلے ہی رہتی تھیں۔ وہ ہندوستان کے خوبصورت شہر کپورتھلہ کے بالکل بیچ میں اپنے کشادہ اور محفوظ گھر میں تھیں۔ اسٹیشن کے سامنے دائیں طرف والے بازار کے آخر میں انکے اباکاگھر تھا جہاں ساتھ ساتھ ہی انکا سارا ننھال رہتا تھا، اسی گلی کے دو موڑ دائیں چل کر مہاراجہ پیلس کے عقب میں شمال کی طرف والی گلی میں انکا اپنا گھر تھا۔ ساتھ ساتھ سب رشتہ دار رہتے تھے، جو رشتہ دار نہیں بھی تھے وہ بھی رشتہ داروں سے بڑھ کر پیاراور خیال کرنے والے تھے۔ یہ لوگ اس سیاسی اتھل پتھل سے ناواقف تھے جو باہر دوسرے علاقوں میں ہورہی تھی۔ اس شہر میں بھی کبھی ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا تھا کہ ان کو آنے والے خطرے کا احساس ہوتا، پھر ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی پولیس کے محکمے سے ریٹائیر ہونے پرانکے سسر کے اعزاز میں کی جانے والی ایک تقریب میں ریاست کپورتھلہ کے مہاراجہ جگجیت سنگھ نے انکو انعام واکرام اور تمغے سے نوازا تھا، انکے خاندان کا یہاں احترام کیا جاتا تھا۔ یکایک اعلان ہوا کہ بٹوارہ ہوگیا ہے اور اب یہاں پر رہنے والے مسلمان اپنے ملک پاکستان چلے جائیں۔ امی گوشادی شدہ تھیں مگر کم عمر تھیں، مگر یہ بات انکو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ جہاں وہ پیداہوئی، پلی بڑھی، انکا خاندان بھی یہیں ہمیشہ سے رہتا آرہا ہے تو پھر انکا کوئی اور ملک کہاں سے آگیا؟ مگر انکے پاس سوچ بچار کا وقت نا تھا۔ انکو نکل جانے کا کہا جارہا تھا۔ ان کو نہیں پتا تھا کہ جانا کہاں ہے؟ان کے ذہن میں قبولہ گاﺅں آیا جہاں انکے سسرالی عزیزوں کے بہت سے گھرتھے، مگروہ قبولہ بھی جائیں تو کس کے ساتھ جائیں؟ ابا جی بھی نہیں تھے۔ وہ گھر سے اپنے بچے کولیکر نکلیں تو سب طرف ہنگامہ برپا تھا۔ افرتفری میں لوگ ادھر سے ادھر بھاگے جارہے تھے۔ سب ہی حیران تھے کہ وہ اپنے وطن، اپنے شہر اور اپنے گھروں کو آخر کیوں چھوڑدیں ؟ اور پھر جائیں تو جائیں کہاں ؟وہ اسی گومگو میں گھر سے باہر کھڑی تھیں کہ انکی بڑی نند نے انکا ہاتھ پکڑکرکھینچا۔ وہ بولیں، چلو نکلو، بھاگو، بلوا ہوگیا ہے۔ بلوا کیاہوتا ہے؟ وہ سوچ ہی رہی تھیں کہ میری پھوپھی نے امی جان کو بتایاکہ ہمارے شہر میں نہیں مگر اردگرگردکے علاقوں میں مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہا ہے، گھروں کو لوٹا جارہا ہے۔ ہمیں اپنی جان بچاکرسب کے ساتھ ہی نکلنا ہے، جدھر سب جائیں گے ہم بھی انکے ساتھ ہی جائیں گے۔ امی بتاتی تھیں کہ شہر سے باہر ویرانے میں انکے قافلے کے قریب سے کچھ سکھ گزرے تو پھوپھی نے ان میں سے ایک کو ماما(ماموں) کہہ کر امرت سر کا راستہ پوچھا تو ایک سکھ نے مونچھوں پر ہاتھ پھیرتے ٹھنڈی سانس بھری اور کہا تم نے مجھے ماما کہا ہے تو بس ایک بات سن لو، چُپ چاپ نکل لو اس سے پہلے کہ کسی اور کو تمہیں ماما کہنے کی مہلت نا ملے، ”بیاسے“ کے دوسری طرف امرت سر ہے۔ امی کہتی تھیں میں نے اپنے قافلے کے بزرگوں کو باتیں کرتے سنا کہ ہم کسی ایسی جگہ جارہے ہیں جہاں ہمار ا اپنا ملک ہے۔ میں نے اپنی نند کو بتایا تو وہ اپنا سرہلانے لگی، میں نے پوچھا آپا‘ کیا ہم پہلے کسی اور کے ملک میں رہتے تھے تو وہ بولیں، پاگل ہوگئی ہوتم، جہاں ہم ست پیڑیوں سے رہتے آئے ہیں وہ کیسے کسی اور کاملک بن گیا! تو پھر یہ جو بات کررہے ہیں اسکا کیا مطلب ہے؟ امی کہتی کہ آپا نے میرا ہاتھ پکڑ کر جھٹکتے ہوئے کہا زیادہ سرمت کھاﺅ، میری سمجھ سے باہر ہیں یہ سب باتیں۔ سفر تو تکلیف کا نام ہے مگر جس سفر کی کو ئی واضع منزل نہ ہو‘ نہ سفرکی وجہ کا پتا ہو وہ کتنا بھیانک ہوتا ہے۔ امی بتایا کرتی تھیں کہ بیس میل کا سفر دن رات چل کر طے کیا۔ ہمارا راہبر آگے چلنے والے نامعلوم لوگ تھے اور ان سے ہی ہمیں معلوم ہواتھا کہ ہمارا رخ امرت سر کی طرف ہے۔ یہیں سے انکو کسی اور منزل کی طرف جانا تھا۔ کئی بلووں، حملوں، لوٹ مار، قتل وغارت گری اور خون کے دریا سے گزرتے ایک شام کے دھندلکے میں یہ لٹا پٹا قافلہ کسی ایسے ویرانے میں پہنچا جس کو لوگ ’امرت سر‘ کہتے تھے۔ شاید امرت سرشہر جانا مطلوب نہیں تھا بلکہ وہیں سے کسی راستے سے گزرکرآگے کسی انجانی منزل پر یہ لوگ پہنچنا چاہتے تھے۔ کئی سو افراد اب چالیس پچاس ہی بچے تھے۔ جوبلوائیوں سے چھپ گئے وہ بچ گئے جو نظرمیں آگئے، وہ مارے گئے۔ جس میدان میں قیام تھا وہاں سے دور پانی نظرآرہا تھا، کچھ اس کوبیاسا اور کچھ بیاس کہہ رہے تھے۔ پھر قافلے کو تب پتا چلا جب پانی بہتا بہتا ان تک پہنچ گیا۔ یہ دریا کا سیلابی ریلہ تھا جو اس نشیب کی طرف آرہا تھا جہاں اجڑے ہوئے لوگوں نے قیام کا قصدکیا تھا۔ یہ لوگ پیچھے ہٹتے ہٹتے ایک وسیع وعریض عمارت کے پاس پہنچے جس کے آہنی گیٹ بند تھے۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں سے حکومتی حفاظتی دستوں نے انکو کہیں اور لے جانا تھا۔ پانی نے قافلے کو آن لیا اور اب یہ گیٹ کے ریمپ اور پھر اسی ریمپ سے حفاظتی دیوار کی ریلنگ پر چڑھنے لگے۔ امی اسی سیلاب میں اپنے اکلوتے بیٹے کو لیکر اجڑنے والے باقی قافلے کے ساتھ سیلابی پانی سے کافی بلند عمارت کے باہر ریلنگ سے رات بھر لٹکی رہی تھیں۔ نیچے پانی تھا اور پانی میں وہی موت چھپی ہوئی تھی جس سے بچتی ہوئی میری ماں یہاں تک پہنچی تھی۔ امی بتاتی ہےں کہ اپنے ایک سال کے بیٹے کوکندھے سے لگا کرانہوں نے دوسرے ہاتھ سے ریلنگ کوپکڑا ہوا تھا، جب ریلنگ والاہاتھ تھک جاتا تو وہ میرے بھائی کو ایک سے دوسرے کندھے پر منتقل کرتیں اور ریلنگ کو پکڑنے والا ہاتھ بدل لیتیں، امی بتاتیں کہ ایسا کرتے ہوئے ڈررہتا کہ کہیں توازن خراب ہوکروہ پانی میں نا گرجائیں۔ وہ اس عمارت کے گیٹ کو بہت کھٹکھٹاچکی تھیں مگر چوکیدار ان ’اجڑے‘ ہوئے مہاجروں کو گیٹ کھول کراندر ’محفوظ ‘ جگہ پر آنے کی اجازت نہیں دے رہاتھا۔ وسیع وعریض عمارت کے باہر سینکڑوں گز چوڑائی میں ریلنگ ایسے ہی کسی وقت کیلئے ”محفوظ بارڈر‘ ‘ کے طورپر لگائی گئی تھی۔ ریلنگ کی سلاخوں کے باہر ہاتھ بر اینٹ ہی وہ پناہ گاہ تھی جس پر پاﺅں ٹیڑھا کرکے امی اور ان جیسے درجنوں بے یارومددگار انسان لٹکے ہوئے تھے۔ میں نے اپنی امی کو ”بستر مرگ“ سے پہلے کبھی بھی آرام کرتے، لیٹے ہوئے حتیٰ کہ بغیر کام کرتے نہیں دیکھا تھا۔ جب بھی گھر کے کام ختم ہوجاتے تو وہ کچھ نا کچھ کام تلاش کرلیا کرتی تھیں، کبھی چارپائیوں کو بننا شروع کردیتیں اور کبھی گرمیوں میں سردیوں کے لئے ہمارے سویٹربنتی رہتیں۔ امی بہت کم ہنسا کرتی تھیں۔ کبھی کوئی بہت زیادہ ہنسانے والی بات ہوتی تو امی ہنستی مگر عجیب معاملہ درپیش آجاتا، ہنستی ہوئی امی کی آنکھیں آنسووّں سے بھر جاتےں، اپنے کریب کے سفید دوپٹے کے پہلو سے وہ اپنی آنکھوں کے کونے صاف کرتیں اور کسی نہ کسی کام میں مصروف ہوجاتیں۔ ہم نے انکو کبھی روتے ہوئے نہیں دیکھا تھا، بس ان کی آنکھوں کے کنارے بھیگ جایا کرتے تھے۔ جس دن ابا نے معمول سے ہٹ کر ایک ہی وقت میں خون کی دوالٹیاں کیں تھیں تو وہ انکے قریب ہی بیٹھی تھیں، مجھے یاد ہے کہ وہ جمعہ کادن تھا اور میں ساتھ والے کمرے میں کنگھی کررہا تھا۔ امی کا ایک بے معنی سا نعرہ سنائی دیا، اتنی دیر میں شورمچ گیا۔ میں اباجی کے کمرے میں آیا تودیکھا کہ، تو اباجی کاسرلکٹری کے چوکورمیز پر کچھ زیادہ ہی ٹکا ہواتھا۔ اس میز پر نیلا رنگ میں نے ہی کیا تھا، اب نیلے رنگ کے ساتھ سرخ لہو کی ایک دھار بھی چلتی جارہی تھی۔ امی تب بھی نہ روئی تھیں بس انکی ایک آنکھ کے کونے سے پانی بہہ رہا تھا جس کو وہ اپنے کریب کے سفید دوپٹے سے صاف کرتیں مگر پانی آج تھمنے کونہیں آرہا تھا۔ وہ ہجرت کی اس دل سوز رات کا واقعہ بارہاسنا چکی تھیں، مگرہر دفعہ سناتے سناتے وہ اور زیادہ حواس باختہ ہوجایا کرتی تھیں۔ وہ بتاتی تھیں کہ وہ اورانکے قافلے کے لوگ کئی دنوں سے بھوکے اور پیاسے تھے۔ بھوک سے سمجھوتے کے باوجود پیاس اگست کے مہینے میں انکے صبر کو باربارشکست دیتی۔ ریلنگ کے اس پار کوئی حکومتی اہلکار‘ بار بار اعلان کرتا کہ سیلابی پانی مت پئیں اسکو پینا نقصان دہ ہے۔ مگرلٹے پٹے قافلے کیلئے نقصان کا لفظ معنی ہی کھوچکا تھا۔ کئی دنوں کی بھوک سے خشک انتڑیوں کے چٹخنے کی آوازیں ‘نقصان برداشت کرنے پر مجبور کرتیں اور پھر کوئی نہ کوئی اس اندھیری رات میں ہاتھ کا چلو بنا کر پانی کے چند قطرے حلق میں اتار ہی لیتا۔ اس اندھیری رات میں گاہے بگاہے چھپاک کی آواز سے سب چونک پڑتے، وہ سمجھ سکتے تھے کہ کسی شکم میں جانے والے سیلابی پانی نے اپنا کام دکھا دیا اور ریلنگ سے چمٹے ہوئے کسی شخص کے جسم کو لگنے والے جھٹکوں میں سے کسی جھٹکے نے اس انسان اور دیوار کی ریلنگ کے مابین قائم عارضی رشتے کو ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ یہ” چھپاکے“ ساری رات ہوتے رہے مگر اتنے سارے’ چھپاکوں ‘کے باوجود دیوار پر جگہ کشادہ نا ہوسکی۔ امی کہتی تھیں کہ ہر رات کے چار پہر ہوتے ہیں مگر اس رات کا ہر پہر کئی راتوں سے طویل تھا۔ بھوک اور پیاس کی معیت میں کئی دنوں کی مسافت کے بعد اب اس حفاظتی دیوار کے اوپر کیڑے مکوڑوں کی طرح ریلنگ سے چمٹے ہوئے انسانوں کی قسمت اس رات کچھ زیادہ ہی خراب تھی۔ آسمان پر موجود بادلوں نے اس لٹے پٹے مہاجروں کی حالت زار پر آنسو بہانے کا فیصلے کرلیا۔ مگر امی کہتی تھیں کہ مسلسل بہنے والے یہ آسمانی آنسو بے آواز نہیں تھے، بادل بھی چنگاڑ چنگاڑ کر روئے، اتنا روئے کہ پاﺅں سے کچھ نیچے بہنے والا سیلابی پانی ان آنسوﺅں کے استقبال کیلئے اوپر کو اچکنے لگا۔ وہ پانی جو چند گھنٹے پہلے حفاظتی دیوار سے کچھ نیچے تھا اب لٹکتے انسانوں کے پاﺅں تک آن پہنچ رہا تھا۔ امی بتایا کرتی تھیں کہ انکے بالکل برابر کھڑی بوڑھی عورت نے پاﺅں سے چھوتے پانی سے چند قطرے ہاتھ میں بھر کر اپنی چٹختی انتڑیوں کو ترکرنے کیلئے منہ سے نیچے اتاراتھا، پانی اندر گیا مگرپھر اسی لمحے باہر نکل آیا، پھر اس پانی نے جسم کے سارے پانی کو جھٹکوں سے نکال کر سیلابی پانی سے مستعار لئے گئے پانی کو بمعہ سود واپس کیا، مگرادھار کی واپسی اس ”چھپاکے“ تک جاری رہی جس کے بعد امی کو اپنے دونوں پاﺅں رکھنے میں کچھ آسانی ہوئی۔ امی ایسی باتیں کرتی تو روتی نہیں تھیں، بلکہ کبھی کبھی ٹھنڈی آہیں بھر ا کرتی تھیں اور پھر اسکے بعد حواس باختہ سی ہوکر کچھ کرنے میں مصروف ہوجاتیں۔ میں بھی آج اس” محب وطن“کے طعنے سن کرشدید حواس باختہ ہوں، میں خود کو کسی حفاظتی دیوار کی ریلنگ سے لٹکا ہوامحسوس کررہا ہوں، کئی دنوں بھوک اور پیاس سے میرا معدہ چڑمڑ رہا ہے، مجھے لگ رہا ہے کہ نیچے زہر آلودہ پانی ہے اور اوپر سے آسمان سے بادل چنگاڑ، چنگاڑ کر مجھے پر آوزیں کس رہے ہیں۔ بادلوں کی لعن طعن سے میری سماعت مفلوج ہوچکی ہے، آہنی باڑکے سریے میرے ہاتھ کوشل کرچکے ہیں، میرا سرچکرارہا ہے، مگرایک اورآوازمجھے گرنے سے روک رہی ہے، آوازمیں سن سکتا ہوں جو یہ پیغام دے رہی ہے کہ ”نیچے زہریلا پانی ہے گرے تو مرجاﺅ گے“۔ پھر کہیں سے امی کی دھیمی، حواس باختہ آواز آتی ہے، ”میرا بیٹا تو بڑاہوکر جج بنے گا“۔ امی ہمیشہ میرے مستقبل کو اپنے خوابوں کی تعبیر سے روشن کرتی تھی۔ کام سے آتے جاتے اباجی ایک دفعہ گرے۔ ایک دن تو ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم کو پارکرتے ایسے گرے کہ سر میں گہرا زخم آگیا۔ ہمارا تو اباجی کے علاوہ کوئی تھا بھی نہیں۔ اس رات ہمارے گھر افسردگی اور سوگ کا راج تھا۔ امی جان نے اپنے سفید کریب کے دوپٹے سے کچھ حصہ پھاڑکراباکی پٹی کرنے کے بعدابا جی سے پوچھا”اتنی دیر کہاں کردی تھی؟“ چونگیوں کے ٹھیکے دار اپنے ساتھ لے گئے تھے، اباجی نے جواب دیا۔ وہ مجھے اپنی داستان بتارہے تھے کہ جب اجاڑے پڑے تو ہم سیدھے یہیں آگئے تھے پھر ہم نے بڑی محنت کی اور اب اللہ کا شکر ہے، دیکھو کتنے ”ٹھاٹھ باٹھ“ ہیں۔ کروڑوں کی جائیداد، کوٹھی، غلہ منڈی میں دوکانیں اور کراچی میں اپنے چھوٹے دوبحری جہاز بھی ہیں۔ میاں صاحب بتارہے تھے کہ شروع شروع میں ہم یہاں آئے تو غلہ منڈی میں” کراڑ“ آڑھتی ہوتے تھے۔ میں نے اور میرے باپ نے بھی ایک آڑھت کی دکان پر پلے داری شروع کردی، دوکان کا آڑھتی سیٹھ گوپال داس بہت اچھا بندہ تھا، مزدوری کے علاوہ کچھ جنس بھی گاہے بگاہے دے دیا کرتا تھا، اسکو ہماری غربت کاعلم تھا۔ وہ بہت اچھا آدمی تھا، مگرایک مسئلے نے مجھے بہت تنگ کیاہوا تھا۔ ہمارا زیاہ کام تو دوکان کے باہر ہوتا تھا ہم بوریاں خالی کرکے ڈھیریاں بناتے اور پھر بولی کے بعد جنس کو پھر بوریوں میں بھر کے گڈوں پے لاد دیتے۔ مگرگوپال کو جب پتا چلا کہ میں نے دودرجے پڑھائی بھی کی ہوئی ہے تو وہ کبھی کبھی مجھے اندر رکھی بوریوں کی گنتی کرنے بھیج دیتا۔ دوکان کے پیچھے بہت بڑاگودام تھا، جس میں اجناس کی سینکڑوں بوریاں جمع ہوتی تھیں۔ آتے جاتے میری نگاہ دوکان میں ایک آٹھ ہاتھوں والے بندر کی لگی ہوئی تصویر پر پڑتی تھی۔ گوپال داس روز اس پر گیندے کے پھولوں کا تازہ ہار چڑھایا کرتا تھا، دوکان میں سے آنے والا ہمک میری برداشت سے باہر ہوتا۔ میں جب بھی بوریاں گننے کیلئے دوکان سے گزر کر پیچھے گودام کی طرف بڑھتا تو مجھے لگتاجیسے آٹھ بازووں والا بندر آنکھوں آنکھوں میں مجھے کہتا ”ابے او چپڑاسی کدھر گھوم رہے ہو؟کسی چیز کو ہاتھ نہ لگا نا، ورنہ سب بھرشٹ ہوجائے گا۔ میں نے ابا سے بات کی تو انہوں نے کہا وہم نہ کرو، تصویریں بھی کبھی اشارے کرتی ہیں۔ تم تو سیٹھ بنو گے سیٹھ۔ میں سوچتا ابا سترسال کا ہوکر سٹھیاگیا ہے۔ مگرابا مسکرا کرکہتا بیٹا میری بات کو مذاق مت سمجھ توبہت بڑا سیٹھ بنے گا۔ میاں صاحب اپنی کھتا سناتے سناتے کسی لمبی سوچ میں گم ہوگئے۔ پھر ٹھنڈی سانس بھرتے بولے، میرا ابابھی بہت پہنچا ہوا انسان تھا، آنے والے وقت کی ولائت تھی اسکو۔ پھر گویا ہوئے‘ سیٹھ گوپال داس واقعی سیٹھ تھا بہت بڑا سیٹھ۔ شام کو بوری بھر کر چوبارے میں نوٹوں کی لیکر جاتا۔ اچھا انسان تھا، پلے داروں کا بہت خیال رکھتا تھا۔ مگرایک ہی خرابی تھی، بندر کو خدا سمجھ کر ماتھا ٹیکتا تھا، وہ بھی اس شیطان بندر کو جو مجھے اشاروں اشاروں میں زچ کرتا تھا۔ مگرقدرت جس پر راضی ہوتی ہے اس سے بڑے بڑے کام کرالیتی ہے۔ قدرت ہم سب پناہ گیروں پر راضی تھی۔ ہم نے ایکا کیا اور ایک رات میں ہی غلہ منڈی کو کفر سے پاک کردیا۔ گوپال داس سیٹھ بہت اچھا انسان تھااسکا مجھے بہت دکھ ہے، بس ابا نے اچانک ہی اسکے سر پر ڈانگ ماری، دوسرا سانس تک نہیں آیا اسکو۔ مگراسکے ہم پر بڑے احسان تھے، میں نے ابا کو منا لیا اور سیٹھ کی اکلوتی بیٹی کواپنی زوجگی میں لے لیا، اس نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ میرے تین بچوں کی ماں ہے اب۔ سیٹھ کی بیوی ابا نے پسند نہیں کی اور انہوں نے کچھ دن بعد اسکا ہاتھ اپنے بڑے بھائی کے ہاتھ میں دے دیا، اسکی بیوی ادھر ہی مرمراگئی تھی، اب وہ اکیلاتھا۔ مگرکیا یہ ظلم نہیں کیا میاں صاحب آپ لوگوں نے؟ اباجی، کم گو تھے مگر انہوں نے چونگیوں کے ٹھیکے دار سے یہ سوال کرہی دیا۔ یکایک میاں صاحب کے تیور بدل گئے، کیاظلم کیا ہم نے؟ تمہیں پتا ہے کہ ملک ہم نے کس مقصد کیلئے بنایا ہے ؟کیا ہم یہاں کفرکو برداشت کرتے رہتے؟ میاں صاحب گھورتے ہوئے بولے مگر تم احمق کیا جانو ان باتوں کو۔ اگر جان جاتے تو ٹھاٹھ ہوتے تمہارے بھی۔ تم کو تو ”اُدھر“ ہی رہنا چاہئے تھا، پتا نہیں اِدھر کیوں آگئے ہو؟ پھر میاں صاحب خیالوں میں گم ہوگئے اور خودکلام ہوتے ہوئے آہستگی سے بولے” محنت، بھائی محنت کی ہے اور تمہیں تو پتا ہے کہ محنت کا پھل میٹھا ہوتا ہے“۔ ابا جی کے پلے کچھ نہ پڑا، مگر اباجی نے مزید سوال کرنا مناسب نہ سمجھا۔ ہمارا کام ’اوپروالے‘ کو بہت پسند آیا، ہر دوکان اور گودام سے بے پناہ مال نکلا۔ تم حاجی برکت، الحاج سلیم، حافظ شفیع اللہ، چوہدری رحمت اللہ کو تو جانتے ہو، تمام کے تمام کروڑ پتی بن گئے ہیں، یہ سب غلہ منڈی کی صفائی کے نیک کام میں شریک تھے۔ بھائی، محنت میں ہی برکت ہے، ”محنت کا کوئی بدل نہیں ہے“۔ کچھ نہ کرتے تو برکت کیسے پڑتی۔ اب ہمارے ٹھاٹھ باٹھ ہیں۔ ” وہ شیطان بندرکہتا تھا کہ میں چپڑاسی لگتا ہوں“۔ اباجی کہتے ہیں کہ جب میاں صاحب نے اپنی رام کتھا ختم کی تو میں نے پھر سے بغیر سوچے پوچھ لیا ”میاں صاحب، کیا بے گناہوں کا خون خرابہ ٹھیک تھا؟“میاں صاحب نے مجھے گھورتے ہوئے کہا اور جو ”اُدھر“خون خرابہ ہوا‘ کیا وہ ٹھیک تھا؟ میں ان کے جواب سے زیادہ انکی گُھورتی آنکھوں کی چُبھن کو اپنے جسم میں محسوس کررہاتھا۔ انہوں نے گاڑی کی بریک لگائی اور مجھے اترنے کا حکم دیا۔ سامنے اسٹیشن والی چونگی آچکی تھی۔ میں وہیں کھڑا تھا اور سوچ رہا تھا۔ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ٹھیک تھا اور کیا غلط تھا۔ میرا سر گھوم رہا تھا، ایک چکر ایسا تھا جو میرے دماغ میں اودھم مچائے ہوئے تھا۔ پلیٹ فارم پارکرنے کیلئے پاﺅں آگے کیا تو سیدھا لائنوں میں جاگرا۔ بس اسی چکر نے مجھے اس انجام سے دوچار کردیا، اباجی اپنے سر کی طرف انگلی کرکے بول رہے تھے۔ کچھ دنوں بعد پھر اباجی کو ایسے ہی آنے والے چکروں نے سربازار گرادیا توہم سب بہت گھبراگئے۔ میٹرک کے امتحان کے بعد اباجی نے مجھے کوئی کام ڈھونڈنے کا کہا، میں حیران ہوا، میں نے تو ابھی بہت پڑھنا تھا اور جیسے امی کہتی تھیں جج بننا تھا۔ اباجی کہہ رہے تھے کہ بیٹا‘ میں بوڑھا ہوچکا ہوں، مجھ سے کام نہیں ہوتا، تم میرا آسرا بنو۔ میں نے بات پلے باندھ لی۔ میں نے شہر سے باہر نئی بننے والے کھاد فیکٹری میں روزگار کیلئے جانا شروع کردیا۔ سوزوکی وین کے پائیدان پر ایک روپے کرائے پر دس کلو میٹر کا سفر منہ اندھیرے ہی شروع ہوجاتا۔ فیکٹری کے مین گیٹ سے پھر چار میل پیدل چلنا پڑتا۔ ہر روز میل بھر لمبی قطار میں کھڑا رہتا اور پھر ناکام ہی واپسی ہوجاتی۔ واپسی مشکل ہوتی، گرم اڑتی ہوئی ریت، آنکھوں، بالوں، کانوں اور منہ میں گھس جاتی۔ ریت کے یہ رقص کرتے ذرات اپنے ہی کھیل میں مصروف رہتے۔ کاش خالی پیٹ کو اس رقص کرتی بے پناہ ریت سے بھرا جاسکتا۔ مگررقص کرتے ریت کے کچھ ذرات فاقہ زدہ پیٹ میں جانے کے جتن میں منہ کو بھر جاتے۔ کبھی کبھی لگتا جیسے کسی تیز دھار والے بلیڈ سے کسی نے سینے کو چیر کر رکھ دیا ہے۔ ریت کے ذرات کا وہ حصہ جو سانس لینے کے دوران گھس آتا، سب سے زیادہ طیش وہی دلاتا۔ مگر یہ سب بے سود تھا۔ غصے کے اظہار کیلئے سامنے جو بھی تھا وہ مجھ سے زورآور ہوتا۔ ایک دن مجھے پتا چلا کہ مزدوروں کی بھرتی والے ایک دفتر کا چھوٹا افسراسی طلبا تنظیم کا سابق عہدیدار عرفان نادرہے ‘جس کی وال چاکنگ ہم اسکول کے دنوں میں کیا کرتے تھے۔ امید کی ایک کرن پیدا ہوچکی تھی۔ میں نے دفتر ڈھونڈھ لیا۔ دفتر کے سامنے پہنچتے ہی مجھے لگا کہ مایوسی کے دن ختم ہوئے اورمیرا روزگارلگنے والا ہے۔ دفتر کے باہر ملک سراج کھڑا تھا۔ ملک سراج ہمارے محلے میں بچوں اور جوانوں کاہیروتھا، پرازم، باہمت اور ہمیشہ اونچے اونچے خواب دیکھنے اوردکھانے والا۔ اس کے سامنے کوئی مسئلہ‘ مسئلہ نہیں رہتا، چٹکی بجاتے ہی مسئلہ حل ہوجاتا۔ وہ سب کا مددگار تھا، جسکا کوئی نہ ہوتا ملک سراج اسکا ہوتا۔ عرفان نادر کے دفتر کے سامنے ملک سراج کو دیکھ کر جو مجھے خوشی ہوئی تھی وہ جلد ہی حیرانی میں بدل گئی جب ملک سراج نے بتایا کہ وہ اس دفترکا چپراسی ہے۔ مگر آپ نے تو یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرلی تھی، میں تو سمجھا تھا کہ آپ یہاں پر بڑے افسر لگے ہونگے۔ میرے استفسار پر ملک سراج کا ہنستا ہوا چہرہ کچھ مدہم سا ہوا مگر پھر اس نے ہونٹوں کو گول بنایا اور اور سگریٹ کے دھویں کی طرح ہوا کو باہر نکالتے ہوئے کہادیکھو تم ابھی نئے نئے اس منڈی میں آئے ہو۔ یہاں محنت بیچنا ‘ عصمت بیچنے سے بھی مشکل ہے۔ پہلے پہل آیا تو افسر ہی بننے تھا مگر جب دفتروں کے چکر لگا لگا کربوٹ بھی پھٹ گئے تو ”چپڑاسی “ بننے میں ہی عافیت سمجھی، چلو گھر کا چولہا تو جلے گا۔ ملک سراج کا لہجہ سپاٹ ہوچکا تھا۔ مگر اندر تو عرفان بھائی افسر ہیں، انہوں نے تو ابھی ایف اے کا امتحان دیا تھا، وہ بھی دوسرے صوبے میں اپنی جگہ بندہ بٹھا کر، میں نے ملک سراج کی گھمبیرتا کو توڑنے اور حالات کاجائزہ لینے کیلئے سوال کیا۔ ملک سراج جب بولا تو لگاجیسے کسی بولنے والی مشین کا خود کار بٹن دب گیا ہو۔ وہ بولا عرفان نادرکے ”ٹھاٹھ باٹھ“ہیں۔ وہ صرف افسر ہی نہیں ہے پوری فیکٹری کا، افسرو ں کا ….اورافسروں کے بھی افسروں کامالک ہے۔ ہیں ….میرے منہ سے بے معنی سی آواز نکلی۔ مگر کیسے؟میں نے پوچھا، ملک سراج نے مجھے غور سے دیکھا، اسکا چہرہ مشین کی طرح تاثر سے عاری تھا، وہ کچھ دیر توقف سے بولا، مجھ سے وہ سوال مت پوچھو جن کے جواب اب ساری زندگی تم کو ملتے ہی رہیں گے، جاﺅ عرفان نادر سے جاکر مل لو، شاید وہ تمہیں ہیلپر رکھوادے۔ مگرسراج بھائی ایک بات تو بتادیں، میں کچھ جاننا چاہتاتھا۔ بولو ملک سراج نے مجھے سوال کرنے کی اجازت دے دی۔ عرفان بھائی جس پارٹی سے منسلک تھے، یہ فیکٹری تو اس پارٹی کے دشمن بنارہے ہیں، انہوں نے تو ہماری پارٹی کے چیئرمین کوقتل کروایا تھا نا، میں نے سوال داغ دیا۔ کچھ لوگوں کی پارٹی نہیں ”پارٹیاں“ ہوتی ہیں، جاﺅ اب اندرجاکر قسمت آزماﺅ، ملک سراج نے مختصراورمبہم جواب دیکر مجھے دفتر کی راہ دکھائی۔ یہ کیا کہا ملک سراج نے؟ میرا سرچکرانے لگا۔ ہم تو ان دنوں‘ جب ہماری پارٹی کے چیئرمین کوقتل کیاگیا تھا، بہت غصے میں تھے اور جانے کیا سے کیا تک سوچا کرتے تھے، انتقام ہمیں کسی بھی آگ میں جلانا چاہتا تو ہم تیار تھے اور عرفان نادر کے بھی یہیں خیالات تھے، تو یہ پھر ”پارٹیاں“ کیا ہوتی ہیں جو بندے کے خیالات ہی نہیں، اسکے ایمان، اسکے نظریات تک بدل دیتی ہیں؟ یہ میرے ننھے دماغ سے بڑا سوال تھا، جو سمجھ نہ آیا۔ دفتردوحصوں میں تھا، پہلے حصے کی ایک لائن میں ٹائپسٹ بیٹھے تھے اور انکے سامنے ٹائم مشینوں پر مزدوروں کے کارڈز پنچ کئے جارہے تھے، دفتر کا پچھلا حصہ صاف ستھرا، قیمتی فرنیچراور قالین سے مرصع تھا۔ بڑی میز کے پیچھے آفس سپریٹینڈننٹ اور ساتھ ایک چھوٹی مگر زیادہ بہتر میز کے پیچھے عرفان نادر بیٹھاتھا۔ ایک طرف تین خالی کرسیاں پڑی تھیں۔ مجھے دیکھ کر دونوں میں سے کسی نے بھی کوئی تاثر نہیں دیا۔ مجھے حیرانگی ہوئی عرفان نادر کابے تاثر رویہ تکلیف دہ تھا۔ میں نے سلام کیا، جواب سپریٹینڈننٹ نے دیا مگرعرفان نادر چپ رہا۔ جواب دینے کے بعد سپریٹینڈنٹ مجھے دیکھتاہی رہا، سوالیہ نظروں سے مگرجیسے اس کے پاس زیادہ وقت نہ ہو۔ مجھے کام چاہئے، میں نے بغیر توقف کے مدعابیان کیا اور ساتھ ہی سوچا کہ اب عرفان نادر جواب دے گا اور وہ بھی اثبات میں۔ کیاکرسکتے ہو ؟ سپریٹینڈننٹ نے سوال کیا، عرفان نادراپنے کام میں مصروف رہا۔ ہیلپریا چپڑاسی کے طور پر کام کرلوں گا، میں نے جواب دیا۔ درخواست لائے ہو؟ سپریٹینڈنٹ نے میرے ہاتھ میں فائل دیکھتے ہوئے پوچھا۔ جی یہ ہے، میں نے فائل سپریٹینڈینٹ کی طرف بڑھائی۔ اس طرف رکھ دو، انہوں نے ایک فائلوں کے ڈھیر کی طرف اشارہ کرتے کہا، روز ان لوگوں کی لسٹ لگتی ہے جن کو سلیکٹ کیا جاتا ہے، لسٹ دیکھتے رہنا، سپریٹینڈنٹ نے بات ختم کی اور میرے جانے کا‘ بنا کہے انتظار کرنے لگا۔ مجھے لگا کہ اب شاید عرفان نادر مجھ پر توجہ دے، مگروہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ اس سے قبل کہ سپریٹنڈنٹ مجھے جانے کیلئے کچھ کہتا میں عرفان نادر کو براہ راست مخاطب کیا، کیسے ہیں عرفان بھائی اور ملانے کیلئے ہاتھ اسکی طرف بڑھادیا، عرفان نادر کے پاس اب کوئی راستہ نہیں بچاتھا، اس نے نہ صرف ہاتھ ملایا بلکہ کھڑے ہوکر بغل گیر ہوگیا، تم ہو؟معاف کرنا یار میں کام میں اتنا محو تھا کہ دیکھ نہیں سکا، بیٹھو‘اس نے عجیب سی گرم جوشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کمرے میں رکھی ہوئی تین کرسیوں میں سے ایک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ میرے بیٹھتے ہی عرفان نادر نے انٹرکام پرچائے او ر بسکٹ لانے کا کہا۔ سناﺅ کیا حال ہے؟ کیا ہورہا ہے آجکل؟ عرفان نادر گویا ثابت کررہا تھا کہ چند سیکنڈز پہلے جو بات اس چھوٹے سے کمرے میں ہورہی تھی وہ اس سے یکسر لاعلم ہے۔ میں اس سوال سے حیران ہوا مگرغرض مند دیوانہ ہوتا ہے کہ مصداق اپنے حال اور غرض سے اسکو مطلع کیا۔ باس نے کیا جواب دیا ہے ؟عرفان نادر نے عجیب سی مسکراہٹ سے سپریٹینڈنٹ کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا۔ وہ چپ رہا۔ میں نے چند لمحے پہلے والی گفتگو کوپھر سے عرفان نادر کے گوش گزار دیا۔ وہ سن کر مسکرارہا تھا، اسکے چہرے کارخ سپریٹینڈینٹ کی طرف تھا اور مسکراہٹ میں عجب سی پراسراریت پرمبنی پیغام تھا۔ ابھی میری چائے ختم نہیں ہوئی تھی کہ اچانک سپریٹینڈنٹ نے عرفان نادر کی طرف منہ کرکے خشک لہجے میں آواز کو ذرا بلند کرتے ہوئے کہا، انہیں ڈسپوز آف کریں۔ عرفان نادر فائلوں کی دنیا میں کھویا ہوا تھا، اس نے نہ ہوں کی نہ ہاں۔ مجھے پتا چل چکا تھا، اس لئے میں کھسیانا ہوکر وہاں سے باہر کی طرف چل پڑا، عرفان نادر کے قریب سے گزراتو وہ اب بھی اس کاغذ کی طرف دیکھنے میں مصروف تھا جس کووہ بھی فائل کہہ رہا تھا اور میں بھی فائل ہی سمجھ رہا تھا، یہ ایک اٹالین پورن رسالہ تھا، جس میں ہمارا دوست محو تھا۔ یقینا یہ بھی اسی کھیپ کا حصہ ہوگاجو اٹالین کنسلٹنٹ کمپنی میں کام کرنے والے اٹالین بڑی تعداد میں لائے تھے اور جس کے چرچے آج کل فیکٹری میں ہرطرف ہورہے تھے۔ دفتر کے باہر ملک سراج دکھائی نہیں دیا، چلیں غنیمت ہے کہ وہ دفتر سے نکلتے میرے چہرے کی خفت اور پیلاہٹ کونہیں دیکھ پایا۔ مہینہ بھر میں کچھ کمائے بغیر ساٹھ روپے کرائے میں برباد کردیئے۔ روز پمپ والوں کی کوٹھی کے سامنے سے سوزوکی پک اپ پر لٹک کرجانا اور پھر وہیں واپسی پر اترنا میکانکی عمل بن چکا تھا۔ ایک دن کوٹھی والے چوہدری صاحب سے مدبھیڑ ہوئی تو سلام کیا، جواب کی بجائے بولے ”کاکا“ کہاں سے آرہے ہو؟ میں نے بتایا تو کہنے لگے، شاباش، محنت کرو ایک دن کامیاب ہوجاﺅ گے۔ پھر بولے ہم جب یہاں پر آئے تھے تو جنگل تھا، یہاں سے اسٹیشن صاف نظر آتا تھا۔ میں اسٹیشن سے تیل کا ڈرم دھکیل کر یہاں تک لایا کرتا تھا، گرمی ہو یا سردی میں نے نیکر پہنی ہوتی تھی۔ یہ سب ”محنت کاکمال ہے“، اپنے ”ٹھاٹھ باٹھ“ ہیں۔ وہ اپنی دوایکڑ کی کوٹھی کی طرف پشت کئے تفاخر سے آسمان کی طرف دیکھنے لگے۔ میں چل پڑا۔ محنت کاکمال ہے، محنت کا کمال ہے، میرے ذہن میں یہ فقرہ دو کے پہاڑے کی طرح گونجنے لگا۔ کیا ابا جی نے کبھی محنت ہی نہیں کی ؟ سوال ذہن میں آیا، اگر وہ بھی سفید ململ کے کرتے اور سفید شلوار کی جگہ نیکر پہن لیتے تو اپنا گھر بھی بنا لیتے اور ”چوھدری “ کی طرح پیٹرول پمپ نہ سہی کوئی چھوٹی موٹی دوکان کے ہی مالک ہوتے۔ ابا جی محنتی نہیں ہیں شاید، اسی لئے تو وہ ساری زندگی کرائے کے مکانوں میں ہمیں دھکے دلواتے رہے ہیں۔ مگر ابا جی تو دن کو بھی کام کرتے ہیں اور رات کو بھی محصول چونگی پر ملازمت کرتے ہیں۔ کیا یہ ڈبل ڈبل کام بغیر محنت کے ہی ہوجاتا ہے؟ اگر یہ سب محنت ہے تو پھرہم اس حال میں کیوں ہیں؟ اباجی تو دو دو جگہ محنت کرتے ہیںپھر انکی محنت ”چوھدری“ کی محنت کی طرح ”پھل“ کیوں نہیں لاتی ؟ میرا دماغ ماﺅ ف ہونے لگا اور اس میں لہریں دائیں سے بائیں اور اوپر سے نیچے گھومنے لگیں۔ ایک دن فیکٹری میں معمول کے مطابق بےکار گزار کرگھر آیا تو امی سامنے تھی، میں نے کہا امی آپ تو کہتی تھیں کہ میں جج بنوں گا! میں توچپڑاسی تک نہیں بن پارہا، امی میری طرف دیکھتے دیکھتے مڑگئیں اور اپنے کریب کے سفید ڈوپٹے سے اپنی آنکھ کا کونا رگڑنے لگ گئیں۔ پھر امی نے دوبارہ کبھی نہیں کہا تھا کہ ”میرا بیٹا جج بنے گا“۔ آج اس دنیا سے منہ موڑنے کے اتنے سالوں بعد امی پھر سے بولی تھیں، وہ بھی جب میں اسی لوہے کی ریلنگ پر لٹکا ہوا تھا، جس کے اوپر تیز نوکیلے تیر تھے اور نیچے زہرآلودہ پانی تھا۔ امی پھر سے مجھے جج بننے کی نوید سنا رہی تھیں، میں حواس باختہ اور خالی ذہن جس کے ذہن میں کوئی خیال نہیں تھا بس اوپر نیچے، دائیں بائیں گھومتی لہریں تھیں۔ مجھے لگا امی کہہ نہیں رہی ہیں بلکہ پوچھ رہی ہیں کہ تم جج کیوں نہیں بنے؟ بے اختیارمیرا ہاتھ جیب کی طرف‘ اس مڑے تڑے کاغذ کو نکالنے کیلئے بڑھا، جو ہائی اسکول کے چپڑاسی نے مجھے یہ کہہ کر لوٹادیا تھا کہ میڈیم کہہ رہی ہیں کہ اب یہ آسامی پر ہوچکی ہے۔ مڑے تڑے کاغذ پر ”ضلعی ایمپلائی منٹ ایکس چینج“ کی طرف سے ہائی اسکول میں لیبارٹری اسسٹنٹ کی آسامی کے خالی ہونے کی نشاندہی کی گئی تھی، اس آسامی کارتبہ اسی چپڑاسی کے برابر تھا جس نے یہ ”اطلاعی نوٹس“ کسی طمانچے کی طرح میرے منہ پردے مارا تھا، مجھے یکا یک اخگر صاحب یاد آگئے اور لگا کہ یہ چپڑاسی پاکستانی نہیں بلکہ یہ ”اُدھر“ کا کوئی بندہ ادھرآگیا ہے۔ اوہ….کتنی بھول ہوگئی مجھ سے! اگر میں نے چپڑاسی ہی لگنا تھا تو مجھے ”وہیں“جانا ہوگا۔ میں کدھر آگیا ہوں؟…. امی کریب کے سفید ڈوپٹے کو اپنی آنکھ کے کونے پر ملتے ہوئے بڑبڑائے جارہی تھیں۔ ۔ ۔ پھر وہی شور برپا ہوا، اگست کے مہینے والے”اخگر“کی آواز کی گونج نے امی کی دھیمی مگر حواس باختہ بڑبڑاہٹ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ”تم بے قدرے لوگ اگر یہاں نہ آتے تو وہاں پتا ہے کہ کتنا برا حال ہوتا۔ وہاں تم چپڑاسی لگے ہوتے ‘سمجھے کچھ‘ چپڑاسی“۔ مجھے لگا کہ لوہے کی رگڑ سے شل ہاتھ بے جان ہورہے ہیں، میرے خالی دماغ میں چلنے والی لہریں کسی طوفان کی زد میں آکر بہت تیز ہوکر اوپر نیچے اور دائیں بائیں گھومنے لگیں۔ وہاں ”بندہ“ چپڑاسی لگ جاتا ہے !!ہیں ہیں تو پھر یہ چپڑاسی کیسے ”اِدھر“آگیا؟ کیا یہاں پر ساری چپڑاسی ”اُدھر“ کے ہیں؟ اگریہ ”اُدھر“ کے ہیں تو پھریہ ”یہاں“ کیا کررہے ہیں؟میرا سر اور تیزی سے گھوما، ہاتھ اکھڑنے لگے۔ پاﺅں‘ اس بڑے ہوئے چبوترے سے پھسل رہے تھے۔ مجھے لگ رہا تھاکہ اب میرا یہاں کھڑا رہنا مشکل ہے۔ ۔ ۔ اوریہ کیا؟ میں تو اُڑرہا ہوں…. ہوا میں ….چھپاکے کی آواز آتی ہے۔ ۔ اخگرصاحب تھوک میں لپٹے لفظوں کی دھول اڑاتے ہیں….تم۔ ۔ تم ”آزادی“کی قدر نہیں کرتے، شکوے کرتے ہو!ادھر ہوتے توتم چپڑاسی ہوتے! “