قمر الزماں خاں
مکاری کی سب سے خوفناک شکل کا نام سفارتکاری ہے۔ یہ مکارانہ سفارتکاری کا ہی کمال ہے کہ اس کی تمام اصطلاحیں اپنے معنوں سے بالکل الٹ تصاویر بناتی ہیں۔ ظاہری مناظر کے پیچھے کتنی متضاد اور خوفناک عیاری چل رہی ہوتی ہیں اس کا اندازہ یا تو سفارتی کٹھ پتلیوں کی ڈوریں ہلانے والوں کو ہوتا ہے یا پھر کئی دہائیوں بعد اگلی نسلوں کو کلاسیفائیڈ دستاویزات کے منظر عام پر آنے سے ہوتا ہے۔ عالمی سیاسی منظرنامے پر ایک نئی سفارتکاری نے بظاہر پوری دنیا کو چونکا کر رکھ دیا ہے۔ یہ ہے ماضی کے ”دو دشمن ممالک“ کی دوستی کا چونکا دینے والا معاہدہ، جس نے مشرق وسطیٰ، جنوب ایشائی اور وسطی ایشیا سمیت دنیا کے مختلف خطوں کی سفارتی بساطوں کو اتھل پتھل کردیا ہے۔ اس دلچسپ مگر بہت ہی مکروہ سفارتکاری کا سہرا بھی عالمی مسخرے کادرجہ حاصل کرنے والے امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے سرپر باندھنے کی کوشش کی ہے۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ اس نئی جنگی حکمت عملی کو امن کی طرف سفر قرار دیا جا رہا ہے۔
13 اگست 2020ءکے دن اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین”نئے تعلقات“ کا آغازبذریعہ ”معاہدہ ابراہم“ سے کیا گیا ہے۔ امریکہ کے توسط سے ہونے والے اس سفارتی معاہدے کا اعلان کرتے وقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ دونوں ممالک نے باہمی تعلقات کو بہتر بنانے پر اتفاق کر لیا ہے۔ اس موقع پر صدر ٹرمپ، اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اور ابو ظہبی کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زائد نے ایک مشترکہ بیان میں اس امید کا اظہار کیا کہ یہ تاریخی پیشرفت مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام میں مدد دے گی۔ اس بیان میں مزید کہا گیا کہ اس کے نتیجے میں اسرائیل مقبوضہ غرب اردن کے مزید علاقے اسرائیل میں ضم کرنے کے منصوبے کو ”التوا “ میں ڈال دےا جائے گا۔ معاہدے کے مطابق آنے والے دنوں میں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے وفود کے درمیان ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو گا جن میں سرمایہ کاری، سیاحت، براہ راست فضائی معاہدوں، سکیورٹی، مواصلات، ٹیکنالوجی، توانائی، صحت، ثقافت، ماحولیات اور ایک دوسرے کے دارالحکومتوں میں سفارت خانے کھولنے کے معاملات طے کیے جائیں گے۔ اس نام نہاد تاریخی معاہدے پر اسرائیل، متحدہ عرب امارات، امریکہ، سعودی عرب، بھارت، اومان، ایتھوپیا، بحرین اور یورپی ممالک میں بہت گرم جوش ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے۔ صدر ٹرمپ کی ٹویٹ کے جواب میں اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے عبرانی زبان میں ٹویٹ کی۔ امریکہ میں متحدہ عرب امارات کے سفیر یوسف العتیبہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ”یہ سفارتکاری اور خطے کی جیت ہے، انھوں نے کہا یہ عرب اسرائیلی تعلقات میں اہم پیش رفت ہے جس سے کشیدگی کم ہوگی اور مثبت تبدیلی آئے گی“۔ یعنی ایران کے گھیراﺅ اور خطے کے دیگر ممالک پر دباﺅ بڑھانے والی حکمت عملی کو ”کشیدگی “ کم کرنے والی پالیسی قرار دیا جا رہا ہے۔ اسرائیل کے ”امارات“ کےساتھ سفارتی تعلقات دراصل سعودی عرب کے ان در پردہ تعلقات کا برملااظہار ہے جو کئی دہائیوں سے قائم تھے۔ جبکہ مخالفانہ رد عمل بھی منافقت اور عیاری میں اپنی مثال آپ ہے۔ مثلاً سب سے شدید رد عمل ترکی کا ہے، ترکی کے سرکاری ترجما ن کا کہنا تھا کہ تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے متحدہ عرب امارات کا اسرائیل کے ساتھ معاہدے پر اتفاق رائے ایک ”منافقانہ عمل“ ہے جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرے گی اور کبھی بھی معاف نہیں کرے گی۔ ترکی کی وزارت خارجہ نے کہا کہ فلسطینی عوام اور انتظامیہ معاہدے کے خلاف سخت رد عمل کے اظہارکا حق رکھتے ہیں، انہوں نے اس معاہدے کو فلسطینیوں سے غداری قراردیا۔ یاد رہے کہ ترکی نے قیام کے فوری بعد 1949ءمیں اسرائیل کو تسلیم کر کے اس سے تعلقات قائم کر لیے تھے۔ مسلمان اور عرب ممالک اکثر ترکی پر زور دیتے رہے کہ وہ اسرائیل سے اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرے مگر ایسا تب ہوا جب ترکی اور اسرائیل کے تعلقات باہمی بنیادوں پر خراب ہوئے۔ بہر حال ایک وجہ اسرائیل کے اس حملے کو بھی قراردیا جاتاہے جس میں اس نے غزہ فلوٹیلا پر حملہ کیا تھا۔ اسرائیل کے مطابق اس فلوٹیلا کا انتظام کرنے والی ترک تنظیم کے تعلقات حماس اور القاعدہ سے تھے، اس قدم سے ترکی کی عسکری حمیت کو زک پہنچی تھی۔ فلسطین کے مسئلے کی آڑ میں دراصل پراکسی جنگوں اور چھوٹے یا بڑے سامراجی مقاصد ہمیشہ پیش نظر رہے ہیں۔ فلوٹیلا پر حملے کے بعد اسرائیل نے ترکی کو نہ صرف ہرجانہ ادا کیا بلکہ بہت سے اقدامات کے ذریعے ترکی کے ساتھ تعلقات کو معمول پہ لانے کی کوشش کی۔ ترکی، بیک ڈور ڈپلومیسی کی پالیسی کے تحت امریکہ اور مغرب مخالف بیان بازی کے عقب میں امریکہ، روس، سعودی عرب حتیٰ کہ اسرائیل کے ساتھ بھی عراق اور شام میں بہت سے آپریشنز میں حلیف رہا ہے۔ ماضی میں عراق میں داعش کو بڑے پیمانے پر اسلحے کی فراہمی ترکی کے ذریعے ہوتی رہی ہے، اسکے بدلے میں داعش کے دہشت گرد ترکی کو عراقی تیل سپلائی کرتے تھے، اس معاملے میں نئے نام نہا د” ارطغرل “ اردوان کے داماد کا اہم کردار رہا ہے۔ ترکی ایک طرف ناٹو کا رکن اور اسکی تمام پالیسیوں میں نیم دلی سے شریک کار بھی چلا آرہا ہے دوسری طرف خود بھی الگ سے کسی چھوٹے سے سامراجی کردار کا خواہاں ہے، جس بنا پر اسکا کہیںنہ کہیں ٹکراﺅ امریکی اور اسکے حلیفوں سے ہوتا رہتا ہے۔ مگرجہاں ایک طرف پچھلے سالوں میں ترکی کا وزیر خارجہ اسرائیل کادورہ کرچکا ہے وہیں ترکی کی اسرائیل سے تجارت کا حجم 5 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔ امریکہ نے ایران سے اسرائیل کی طرف داغے جانے والے میزائلوں کا پتا چلانے والا ریڈار میزائل ڈیفنس سسٹم بھی ترکی میں ہی نصب کیا ہے۔ ترکی، ملیشیا اور پاکستان کے ساتھ مل کر مسلمان ممالک پر مبنی عرب ممالک کے زیر اثر غیر موثر تنظیم ”او آئی سی“ کے متوازی تنظیم بنانے کا ارادہ ظاہرکرتا آرہا ہے۔ اس ضمن کوالالمپو ر میں ہونے والی کانفرنس میں تمام ”سرگرم ارطغرلوں“ کو اس وقت بہت صدمہ ہوا جب اپنے ارادوں پر قدرت نہ رکھنے والے ملک پاکستان نے سعودی عرب اور امریکہ کے دباﺅ میں آکر اس کانفرنس میں شرکت سے معذرت کرلی تھی۔ ترکی ایک طرف ترکش کردوں کی نسل کشی کررہا ہے تو دوسری طرف ایران اور عراق کے کردوں کی حمایت بھی کرتا ہے۔
اسی طرح پاکستان کا رد عمل جس میں وزارت خارجہ نے ایک دن اور ایک رات کی سوچ بچار کے بعد اس معاہدے پر مایوسی کا اظہارکرتے ہوئے اس کو مضمرات کا حامل معاہدہ قرار دیا ہے۔ اگرچہ پاکستانی وزارت خارجہ کے بیان کا متن فلسطینی مسئلے پر لفاظی پر مشتمل ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل، امارات معاہدے کے سب سے گہرے اور سنگین نتائج اگر کچھ ممالک پر مرتب ہونگے تو یہ ایران، قطر اور پاکستان ہیں۔ ہندوستان کے بٹوارے کو برطانوی سامراج نے اس طرح سے ڈیزائن کیا تھا کہ اس میں کشمیر کا مسئلہ ہمیشہ ہی ”جنگی حالت“ کو برقرار رکھے۔ پاکستان کے بھارت کے ساتھ تعلقات 48ئ، 65ءاور 71ءکی تین جنگوں اورسیاچن، کارگل اور فروری 2019ءکے معرکوں پر استوار ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل اور بھارت عسکری، معاشی اور تجارتی شعبوں سمیت تحقیق، تعلیم اور سیاحت کے ذریعے گہرے روابط استوار کرچکے ہیں، ان تعلقات کا گرم جوش موڑ 1992ءمیں نرسیما راﺅ کی حکومت سے شروع ہوا۔ بھارت، روس کے بعد سب سے زیادہ اسلحہ اسرائیل سے خرید رہا ہے۔ دونوں ممالک کاتجارتی حجم 4.44 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ 1971ءکی پاک بھارت جنگ میں اسرائیل نے بذریعہ ایران بھارت کو اسلحہ فراہم کیا تھا۔ اسی طرح متحدہ عرب امارات اور بھارت کے تعلقات بھی مثالی ہیں۔ خلیج ٹائم کے مطابق بھارت اور امارت کی باہمی تجارت 2018-19ءمیں 60ارب ڈالر سے تجاوز کرچکی ہے۔ یوں اس نئے’ معاہدہ ابراہم‘ سے اس نئے بلاک کو مزید تقویت پہنچے گی جس میں پاکستان کا کشمیر کے بارے میں موقف مزیدخطرے میں پڑنے کاامکان ہے۔ سفارتی محاذپر پاکستان کیلئے اس لئے بھی بڑی پریشانی ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں سوائے چین کے پاکستان کا کوئی قریبی حلیف نہیں ہے۔ ایران سے تعلقات کی راہ میں ہمیشہ سعودی عرب اورامریکہ حائل رہتے ہےں۔ ترکی کی پالیسی نعرہ بازی کے ساتھ اپنے مفاد کی طرف بڑھو جیسی ہے۔ ملائیشیاکی اندرونی کہانی پاکستانی سیاست کی طرح کرپشن اور سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہے۔ ایران کوامریکی صدر ٹرمپ کی پابندیوں کے بعد چین کے معاشی معاہدوں سے ایک راستہ ملا تھا مگر ان معاہدوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایران کی بجائے چینی مفاد ات کو تقویت پہنچاتے ہیں، مگر ان حالات میں جب امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے ایران کا معاشی ناطقہ بند کیا ہوا ہے ایران کے پاس اور راستہ ہی کیا بچتا تھا۔ بھارت کے اسرائیل کے ساتھ بڑھتے تعلقات کی بنیاد پر ایران چاہ بہار بندرگاہ کے منصوبے سے بھارت کو الگ کرچکا ہے مگر دوسری طرف ایران،چین،پاکستان،قطر،ترکی بلاک بننے کی راہ میں فیصلہ کن مشکلات حائل ہیں۔ آنے والے دنوں میں پہلے مرحلے میں اومان اور بحرین کے بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے امکانا ت ہیں،اس ضمن میںپچھلے سال اسرائیلی وزیراعظم ’بنیامن نیتن یاہو‘ اومان کا دورہ کرچکا ہے۔سعودی عرب اعلان کرے یا نہ کرے اسکے امریکہ کے بعد اسرائیل کے ساتھ کسی بھی ملک سے زیادہ مضبوط تعلقات ہیں۔مصر اور اردن پہلے ہی اسرائیلی دہشت کے سامنے سرنگوں ہوچکے ہیں۔پھر امارات کی اسرائیل کےساتھ سفارتی تعلقات کی کہانی 13اگست 2020ءسے شروع نہیں ہورہی بلکہ کئی برسوں سے یہ تعلق درپردہ چل رہا تھا جس کا 13اگست کو فقط اعلان کیا گیا ہے۔ اسرائیلی وزرا اور وفود کے تبادلے امارات میں ہوررہے تھے۔ایران مخالف قراردادوں میں اسرائیلی اور امارتی سفارتکارایک ہی پیج پر رہے ہیں۔”نئے سفارتی تعلقات“پر مبنی معاہدہ ابراہم‘ جس میں اب کھلے عام اسرائیلی اورامارتی شہری دونوں ممالک میں آجاسکیں گے ‘بس درپردہ سفارتکاری کی بے پردگی کا مظہر ہے۔ امارات اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات کے بعد فلسطینی اتھارٹی کا ردعمل بے بسی پر مبنی ہے۔فلسطینی صدرمحمودعباس نے ایک دفعہ پھر پرانے اور چلے ہوئے کارتوس کو چلانے کی کوشش کرتے ہوئے امارات اور اسرائیل سفارتی تعلقات کو فلسطینیوں اور بیت المقدس کے ساتھ بے وفائی قراردیا ہے۔ محمودعباس کی تنظیم الفتح اور تنظیم آزادی فلسطین ایسی بے وفائی برسوں پہلے خود کرچکی ہے۔ پھر اب سب کو سمجھ جانے کی ضرورت ہے کہ مذہبی کارڈ اور نعرے صرف محدود مدت کیلئے اور کچھ مخصوص اہداف تک پہنچنے کیلئے تو کارگر ہوسکتے ہیں مگر ان میں ہمیشہ ایک جیسی جان اور کشش نہیں رہتی۔مسئلہ فلسطین بہت کہیں زیادہ الجھا ہوا مسئلہ ہے اور ان مذہبی،فرقہ ورانہ، قومی،علاقائی،نسلی الجھنوں کی ڈوریں عرب وعجم سے لیکر امریکی سامراج کی انگلیوں میں پھنسی ہوئی ہیں۔
شیعہ الجھن سنی الجھن کو کھلنے نہیں دیتی،عیسائیوں کے چرچ بھی منقسم ہیں۔ یہودی اورعرب اور یورپی آبادکاروں میں تضادات موجودہ،گہرے اور سماجی تفاوت پرمبنی ہیں۔ یہ مسئلہ توکم ازکم صرف شیعہ سنی تضادات کو ایران سے لبنان اور رملہ سے یروشلم تک آگ میں دھکیلنے کیلئے کافی ہے۔ پھر عرب نیشنل ازم کا گھوڑا مصر،شام،اردن،لبنان کی شکست کے بعد بدک کر کسی اور جانب نکل چکا ہے ۔ ایرانی عرب نہیں ہیں بلکہ عربوں کی انکے ساتھ تاریخی مخاصمت بلکہ دشمنی چلی آرہی ہے وہ مسئلہ فلسطین کو استعمال میں لاتے ہوئے اب فلسطین، لبنان اور شام میں ایک فریق سمجھے جاتے ہیں ،لہٰذا عرب قومی آزادی کا فارمولہ وحدت کی بجائے انتشار اور جنگ وجدل کاراستہ ہے۔ نام نہادعالمی برادری ایک دھوکے کانام ہے، صرف طاقتورہی فیصلہ کن طاقت ہوتے ہیں۔ مسئلہ فلسطین برطانوی سامراج کی نامراد کوکھ سے نکلا وہ ناسور ہے جس کی پیدائش میں امریکہ کے ساتھ سٹالن ازم کا جرم بھی برابر کا شریک کاررہا ہے۔اس مسئلے کے حل میں سب سے اہم عامل مشرق وسطی کا محنت کش طبقہ ہے جس کو اسکے ابھار سے پہلے کی ہر سفارتکاری،اعلان،معاہدے اور مذاکرات میں نظررانداز کرتے ہوئے دھتکار دیا جاتا ہے۔جب ہم اسرائیل کی بات کریں تو ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ اسرائیلی صہونی ریاست کی مکاری اور ایران ملاوں سے لیکر عرب کے درجنوں ممالک کے حکمران کی گیڈربھبھکیاں ایک جیسے نتائج ہی وضع کرتی ہیں۔جب ایران یا حز ب اللہ کی طرف سے اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں تو اسرائیل کا سفاک حکمران طبقہ اس دھمکی کے ذریعے اسرائیلی محنت کش طبقے کو ”مادرِوطن“ کی حفاظت کیلئے اکساتا ہے۔ ایسی اشتعال انگیزی جس سے پورے خطے کے حکمران اور انکے مفادات مضبوط ہوتے ہوں کے اندر سے ہی فلسطین اور عالم عرب کی نجات کا فارمولہ منظر عام پر آسکتا ہے۔ مصرمیںعرب بہار کے بعد تل ابیب میںاٹھنے والے مزدوروں کے مظاہروں میں بینرز پرنعرے عربی زبان میں لکھے تھے۔”مصریوں کی طرح لڑو“ کی تمثیل وہ کنجی ہے جو مذہبی،فرقہ ورانہ،صہونیت،قوم پرستی اور حکمران طبقے کی چالوں کے تالوں کو کھولنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ صرف طبقاتی یکجہتی کا راستہ ہی اسرائیل سے لیکر پورے مشرق وسطی اور ایران تک کے محنت کشوں کوفتح یاب کراسکتاہے۔مشرق وسطی کی رضاکار سوشلسٹ فیڈریشن کا نعرہ اور پروگرام‘ تمام تعصبات اور حکمرانوں کے حربوں کو شکست دینے صلاحیت رکھتا ہے۔ معاہدہ ابراہم ‘ ان طاقتوں کے مابین ہوا ہے جو امن کی بجائے جنگ، ترقی کی بجائے تباہی،بھائی چارے کی بجائے نفاق اور دھونس پر یقین رکھتی ہیں۔ یہ ایک نئی سردجنگ کے آغاز کا اعلان ہے جو کسی بھی مرحلے پر سرد کی بجائے آتشیں ہوسکتی ہے۔ یادش بخیر 13اگست2020سے ٹھیک 32سال اور چار دن پہلے 17اگست 1988ءکو چولستان کے ریگستانوں میں امریکہ بہادر کے بنائے ہوئے”ابراہام ٹینک“کی عملی مشق میں”ابراہام ٹنک “سے 9اہداف پر فائرکیے گئے تھے، عجب بات تھی ایک بھی اپنے ٹھکانے پر نہیں لگا تھا، البتہ ٹھیک دو گھنٹے بعد”ابراہام ٹنک“ کادلال امریکی سفیر”رافیل“ اور اسکے پاکستانی ”نیکو کار“ دوست بستی لال کمال کے قریب ہوا میں جل کر بھسم ہوگئے تھے۔