عمر شاہد
سوات سے لے کر کراچی تک ملک بھر میں اس وقت بارشوں نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔ ملک کے جنوبی علاقے خصوصی طور پر اس آفت کی زد میں ہیں۔ سندھ حکومت کی جانب سے 20 اضلاع کو آفت زدہ قرار دے دیا گیا ہے۔ حکومتی نوٹیفیکیشن کے مطابق ان میں کراچی کے چھ اضلاع کے علاوہ حیدر آباد، بدین، ٹھٹہ، سجاول، جامشورو، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو الہ یار، مٹیاری، دادو، میرپور خاص، عمر کوٹ تھرپارکر، شہید بینظیرآباد اور سانگھڑ شامل ہیں۔ اس صورتحال میں سند ھ کا سب سے بڑا شہر کراچی اربن فلڈنگ کی زد میں ہے۔ زیادہ تر علاقو ں میں پانی ابھی تک کھڑا ہوا ہے۔ صورتحال اس قدر سنگین ہے کہ کراچی کے کئی علاقوں میں بجلی، پانی اور موبائل فون سروس کی بندش کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ صوبائی حکومت، وفاقی ادارے اور شہری انتظامیہ مکمل طور پر بے بس اور ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔
اس سب میں کراچی کے مہنگے اور پوش علاقے ’ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی‘ یا ڈی ایچ اے کی حالت زار نے تعمیرات کے شعبے کی ناقص منصوبہ بندی اور بے ہنگم پن کو عیاں کیا ہے۔ کلفٹن جیسے امرا کے مسکن بھی اب زیر آب ہیں۔ مہنگی ترین اراضی کے باوجود مون سون بارشوں سے نبٹنے کے لئے کوئی بندوبست سرے سے موجو د ہی نہیں۔ یہاں کی غیر ہموار اور مشترک ترقی کے عمل میں نظر آیا کہ امیروں کے بے ہودہ محل تعمیر کرنے کے لئے کروڑوں غریبوں کا سب کچھ قربان کرنے کے باوجود چند مٹھی بھر افراد بھی بارشوں کی تباہی سے بچ نہیں سکے۔
بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے جیسی مصنوعی اور بھدی سوسائٹیوں کے بے ہنگم پھیلاؤ نے شہروں کے قدرتی توازن کو تاراج کر دیا ہے۔ ان سوسائٹیوں نے چند افراد کے فائدے کے لیے کروڑوں زندگیوں کو داؤ پر لگایا ہوا ہے۔
ہمالیہ کی گود میں کشمیر کے سرسبز پہاڑوں سے لے کر شفاف اور تازہ ہوا والے ریگستانوں تک بے ہنگم کالونیوں اور پلاسٹک کے لفافوں نے غلاظت کا سیلاب برپا کیا ہوا ہے۔ سندھ میں حکمرانوں ا ور طاقت کے ایوانوں کو حصہ دینے والے ٹھیکیداروں اور پراپرٹی ٹائیکونوں کی محلاتی سکیموں نے غریبوں کی بستیاں اجاڑ دی ہیں۔ بلڈرمافیا‘ نادار ہاریوں اور غریبوں کے گھروندوں کو مسمار کرتے جا رہے ہیں۔ باران رحمت آج یہاں کے حکمرانوں کی نااہلی اور روایتی نالائقی کی وجہ سے زحمت بن چکی ہے۔
یہی کراچی جہاں امریکہ کے کئی شہروں سے پہلے 1913ء میں بجلی آئی جس نے اسے روشنیوں کا شہر بنایا، اب تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے۔ 1942ء میں امریکی فوجیوں کے لئے شائع ہونے والے کراچی سے متعلق پمفلٹ میں اسے ’ایشیا کا پیرس‘ قرار دیا گیا۔ کیونکہ اس وقت یہ شہر پورے ہندوستان میں سب سے صاف ستھرا اور عالیشان تھا۔ جبکہ آج یہی کراچی عالمی طور پر رہائش کے لئے پانچواں بدترین شہر بن گیا ہے۔
تقسیم کے بعد اس شہر نے ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کو اپنے اندر سمویا اور آج بھی کئی علاقوں کے نام مہاجرین کے انہی آبائی علاقوں سے منسوب ہیں۔ آزادی کے بعد حکمرانوں نے شہر کو بہتر کرنے کی بجائے منافع کے لئے اسے مسلسل تاراج کیا۔ گھر خاموش ہو گئے اور ان کی جگہ بے ہنگم ٹریفک کے شور اور فیکٹریوں کی گھن گرج نے لے لی۔
کراچی‘ انسانی زندگی کی سہولیات اور آسائشوں کا حامل شہر تھا جسے بڑی تعداد میں لوگوں نے اپنا مسکن بنایا۔ حکمرانوں نے نہ تو رہائش، غذا، پانی اور دیگر ضروریات زندگی کو پورا کرنیوالی اشیا کی دستیابی کا بندوبست کیا اور نہ ہی آنیوالے لوگوں کی وجہ سے شہر پر بڑھنے والے بوجھ کے تدارک کا کوئی انتظام کیا گیا۔ انہوں نے بس کراچی کو 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں پر تشدد واقعات، بھتہ خوری، دہشت گردی، سیاسی اور سماجی ہنگامہ آرائی کا شکار بنا دیا۔ آج کراچی کا ذکر ہوتے ہی اس کی شان و شوکت کی بجائے بیروزگاری، غربت، دہشت گردی، ٹریفک، بڑھتی ہوئی آبادی، جرائم، آلودگی، گٹر، کچرے اور سیلاب کا ذکر آتا ہے۔ یہی صورتحال پاکستان کے کئی دوسرے بڑے شہروں کی بنتی جا رہی ہے۔
اس کیفیت میں ڈی ایچ اے کے باسیوں نے سیلابی پانی نہ نکلنے اور برسوں سے جاری مختلف فنڈز کے نام پر لوٹ مار کے خلاف کینٹ بورڈ اور ڈی ایچ اے انتظامیہ کے خلاف احتجاج کیا۔ دوران احتجاج انہوں نے اپنے مطالبات کے حق میں سخت نعرے بازی کی۔ ان کے مطالبات میں نکاس آب کی سہولیات اور صاف پانی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ مختلف فنڈز کے نام پر ڈی ایچ اے انتظامیہ کی جانب سے لوٹ مار کو بند کیا جا نا شامل ہے۔ دیکھا جائے تو یہ بنیادی مطالبات ملک بھر کے عوام الناس کے ہیں تاہم یہ بنیادی سہولیات بھی ریاست فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ ڈی ایچ اے انتظامیہ کی جانب سے رہائشیوں کے مسائل حل کرنے کی بجائے ’#DHACARES‘ کے نام سے پیسے دے کر سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلائے جاتے رہے اور ان مظاہرین کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات جیسے قابل مذمت اقدامات کیے گئے۔ تاہم بعض مظاہرین کی جانب سے وادی سندھ کی عظیم تہذیب کے درخشاں ماضی موہنجوداڑو کے بارے میں نامناسب الفاظ استعمال کرکے اس کی تذلیل کی گئی جو کہ دولت کے ان جزیروں میں رہنے والی اس مخلوق کی شعوری اور ثقافتی زوال پذیری کا عکس ہے۔
اصل مسئلہ پھر ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن جیسی سکیموں کی طرز تعمیر کا ہے۔ یہ مقبوضہ زمینوں پر امرا کے جزائر قائم کرنے کی ناکام کوشش ہے۔ ان سوسائٹیوں کا مقصد بہتر رہائشی سہولیات کی فراہمی نہیں بلکہ منافع خوری ہے۔ جس کا عملی ثبوت ان بارشو ں میں سامنے آیا۔ پھر ان ماحول دشمن پراجیکٹوں میں صاف نظر آیا کہ منافعوں کی ہوس میں یہ اندھے لوگ کس طرح قدرتی توازن کو تاراج کرنے میں ذرا برابر بھی نہیں ہچکچاتے۔ برسوں سے قیوم آباد کراچی کے رہائشی اپنے سکول، کالج، ہسپتال اور دیگر سہولیات کی اراضی کے ڈی ایچ اے کے جانب سے جبری ہتھیانے کے خلاف مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی ڈی ایچ اے کی بڑھتی ہوئی تعمیرات ملیر ندی کی چوڑائی کو کم سے کم کر رہی ہیں‘ جو اب ناپید ہونے کے قریب پہنچ چکی ہے۔ یہی حالات پورے کراچی کے ہیں جہاں بلڈر مافیا نے برساتی نالوں اور قدرتی آبی گزر گاہوں کو بھی نہیں بخشا۔ کئی جگہوں پر صاف پانی کی جھیلیں ختم ہو کر گندے پانی کے جوہڑوں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔
لیکن اسی سند ھ کی زمین پر ہزاروں سال پہلے موہنجوداڑو جیسے عظیم اور عالیشان شہر آباد تھے۔ ماہرین آثار قدیمہ نے پہلی بار 1911ء میں موہنجو داڑوکے کھنڈرات کو دریافت کیا۔ 1920ء اور1931ء کے دوران کئی کھدائیاں ہوئیں۔ یہاں ملنے والے آثار سے پتا چلا کہ پورے شہر میں صاف پانی کے کنویں موجود تھے اور نکاسی آب کا مناسب نظام موجود تھا۔ موہنجوداڑو میں شہری منصوبہ بندی، نکاسی آب کے ایک وسیع نظام اور وافر اناج کی موجودگی کے بھی واضح شواہد ملے ہیں۔ اس شہر کی اہم خصوصیت کوئی محلات، مندر یا یادگاریں نہیں ہیں۔ حکومت کی کسی واضح مرکزی نشست، بادشاہ یا ملکہ کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ بلکہ اس کمیونٹی کی ترجیحات میں نظم وضبط اور صفائی شامل تھی۔ مٹی کے برتن اور تانبے اور پتھر کے اوزار معیاری بنائے گئے تھے۔ مہریں اور وزن مضبوطی سے چلنے والانظامِ تجارت تجویز کرتے ہیں۔ موہنجوداڑو اور وادی سندھ کی تہذیب کے دیگر شہر آج کے منافع پر مبنی انفرادیت کے نظام کی بجائے اشتراکیت کے نظام پر مبنی تھے۔
آج حل پھر اجتماعیت میں ہے۔ انسانیت نے ہمیشہ اجتماعی طور پر ترقی کی منازل طے کیں ہیں مگرخصوصاً پچھلے دو سو سال کے دوران سرمایہ دارانہ نظام نے تمام حاصلات اور ٹیکنالوجی کو چند افراد کے منافع کے لئے وقف کر دیا ہے۔ جہاں وسیع تر آبادی کے پاس بیچنے کے لئے اپنی قوت محنت کے سوا کچھ نہیں۔ آج سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اس ملک میں ہر فرد کو بہتر اور معیاری رہائشی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جا سکتی ہیں کیونکہ مسئلہ وسائل کی عدم موجودگی کا نہیں بلکہ مسئلہ ان کی تقسیم کا ہے۔
سوویت یونین کی مثال واضح ہے جہاں انقلاب کے بعد چند سالوں کے اندر پورے ملک میں رہائش اورآبادی کے تناسب سے نئے شہر تعمیر کیے گئے۔ سوویت یونین کے اس تجربے کو سویڈن اور ناروے جیسے ممالک میں بھی نقل کیاگیا۔ اس صورتحال پر عظیم مارکسی استاد ڈاکٹر لال خان نے لکھا تھا کہ’’سیاست اور ریاست کے انتشار کی طرح بے ہنگم تعمیرات کا انتشار بھی اس نظام کے موضوعی بحران کی پیداوار ہے۔ جب تک اِس منافع خوری کے نظام اور منڈی کی معیشت کا خاتمہ نہیں ہوتا‘ کسی شعبے کا ارتقا منصوبہ بندی، ترتیب اور تہذیب کے ساتھ ممکن نہیں ہے۔ منڈی اور منافع سے پاک منصوبہ بندی کے تحت جب تک پیداوار انسانی ضروریات سے ہم آہنگ نہیں ہوتی‘ یہ معاشرہ کبھی سنور نہیں سکتا، تہذیب اور تمدن کو کبھی جلا نہیں بخشی جا سکتی، انسانی رشتے کبھی مخلص نہیں ہو سکتے اور انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ حقیقی معنوں میں ایک خوشحال سماج اور سہل اجتماعی زندگی کا حصول صرف ایک منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت اور معاشرت سے ہی ممکن ہے۔“