حسن جان

جمعرات 13 اگست کو متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان ایک معاہدہ ہوا ہے جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہو جائیں گے۔ مصر اور اردن کے بعد متحدہ عرب امارات تیسرا عرب ملک ہے جس نے اسرائیل کے ساتھ باضابطہ سفارتی تعلقات قائم کیے ہیں۔ اس بات پر کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے کیونکہ سالہا سال سے تمام عرب بادشاہتیں اسرائیل کے ساتھ خفیہ تعلقات قائم رکھے ہوئے ہیں۔ اماراتی حکمرانوں نے فلسطینیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے جس طرح اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کیے ہیں اس نے اس تلخ حقیقت کو پھر سے اجاگر کیا ہے کہ دہائیوں سے عرب بادشاہتیں فلسطین کے مسئلے کو صرف اپنے داخلی سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈیل کا اعلان کرتے ہوئے شیخی بگھاری، ”یہ معاہدہ ایک پر امن، محفوظ اور خوشحال مشرق وسطیٰ کی تعمیر میں ایک اہم قدم ہے۔ “ یقینا دونوں ممالک کے سرمایہ دار اور کاروباری لوگ باضابطہ تعلقات سے خوب مستفید ہوں گے لیکن اس معاہدے سے مشرق وسطیٰ میں امن اور خوشحالی قائم ہونے کی باتیں انتہائی احمقانہ ہیں۔ معاہدے کے بعد بھی پچھلے دس دنوں سے اسرائیل غزہ کی پٹی پر مسلسل بمباری کر رہا ہے۔ اس سے فلسطینیوں کی بدحالی، محرومی اور در بدری مزید بڑھے گی جبکہ دوسری طرف کورونا وبا کے نتیجے میں عالمی سطح پر سرمایہ داری کے بحران کی وجہ سے عرب بادشاہتیں مزید بحران میں چلی گئی ہیں اور لبنان کی انقلابی تحریک کے اثرات ان بوسیدہ بادشاہتوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔

یہ معاہدہ ٹرمپ انتظامیہ کی ثالثی میں ہوا ہے جس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر نے کلیدی کردار ادا کیا۔ معاہدے کی رو سے دونوں ملک ”تعلقات کی مکمل بحالی“ کریں گے جبکہ اس کے بدلے میں اسرائیل مغربی کنارے میں فلسطینی آبادیوں پر قبضے اور انہیں اسرائیل میں شامل کرنے کے منصوبے کو ”معطل“ کرے گا۔ اماراتی حکمرانوں کی جانب سے اسرائیلی قبضہ گیری کے ”تعطل“ کو فلسطینیوں کے لیے ”جیت“ یا مراعات کے طور پر پیش کرنا منافقت کی انتہا ہے۔ یہ دراصل اپنے تاریخی جرائم پر پردہ ڈالنے کی ایک کوشش ہے جو انہوں نے اسرائیلیوں کے ساتھ مل کر فلسطینیوں کے خلاف کیے ہیں۔ یہ بادشاہتیں فلسطینیوں کی حالت زار پر مگرمچھ کے آنسو بہاتی ہیں جبکہ پیٹھ پیچھے اسرائیل کے ساتھ ساز باز بھی کرتی ہیں۔

دہائیوں سے عرب حکمرانوں نے فلسطین کے مسئلے کو اپنی دکانداری کے لیے استعمال کیا ہے۔ فلسطینیوں کی آزادی یا الگ ریاست کا قیام کبھی ان کی دلچسپی رہی ہی نہیں۔ مختلف عرب ممالک میں فلسطینی مہاجرین کی حالت زار ان بادشاہتوں کی فلسطینیوں کے لیے حمایت کا پول کھولتی ہے۔ ان حکمرانوں نے اپنے فلسطینی مہاجرین کو اپنی پالیسیوں اور مفادات کا یرغمال بنا رکھا ہے۔ خلیج جنگ کے دوران جب یاسر عرفات نے کھل کر صدام حسین کی حمایت کی تو سعودی عرب اور کویت نے پانچ لاکھ سے زائد فلسطینی مزدوروں کو اپنے اپنے ملکوں سے نکال دیا تھا۔ اسی طرح ستر کی دہائی میں جب اردن کے ہاشمی سلطنت کو فلسطینی ’پی ایف ایل پی‘ کے مسلح بائیں بازو کی بغاوت کا سامنا ہوا تو اردن نے ہزاروں فلسطینی مہاجرین کا قتل عام کیا اور ان کے کیمپوں کا خاتمہ کیا۔ اس قتل عام کو فلسطینی آج بھی سیاہ ستمبر (Black September) کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ 1988ء میں اردن کی حکومت نے لاکھوں فلسطینیوں کی شہریت منسوخ کر دی۔ موجودہ معاہدے کے بعد ترکی کے طیب اردگان کی منافقت بھی نمایاں تھی۔ اس نے اس معاہدے کو ”فلسطینیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے“ کے مترادف قرار دیا اور عرب امارات سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کی دھمکی بھی دی جبکہ ترکی اور اسرائیل کے تعلقات 1949ء میں ہی قائم ہوگئے تھے۔

کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے لیکن ہمیشہ اعلیٰ پیمانے پر۔ یہ محاورہ ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور سینئر مشیر جیرڈ کشنر پر مکمل صادق آتا ہے۔ وہ ایک پراپرٹی ڈیلر ہے جسے سفارتکاری کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ تہتر سال پہلے برطانوی سامراج نے ایک وکیل سیرل ریڈ کلف کو ہندوستان بھیجا تھا جسے مستقبل کی ریاستوں ہندوستان اور پاکستان کی سرحدیں متعین کرنے کا فریضہ دیا گیا تھا۔ یہ شخص اپنی زندگی میں کبھی ہندوستان آیا ہی نہیں تھا اور اس کے بارے میں اسے بہت کم معلومات تھیں۔ اس کی کھینچی گئی سرحدوں سے جدید تاریخ کی سب سے ہولناک مذہبی خونریزی ہوئی جس میں تیس لاکھ سے زائد لوگ مارے گئے اور لاکھوں لوگ دربدر ہوئے۔ آج جیرڈ کشنر کو مشرق وسطیٰ میں ”امن“ لانے کا فریضہ دیا گیا ہے۔ اس نے صلاح مشورے کے دوران کہا تھا، ”مجھ سے تاریخ کے بارے میں بات مت کرو۔ میں نے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں سے بھی یہی کہا تھا۔ “ اس بات میں کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ اس کے نام نہاد امن منصوبے سے مشرق وسطیٰ میں کسی طرح کا امن نہیں آنے والا۔

تاہم سفارتی چالاکیوں سے فلسطینی عوام کی حالت زار پر کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔ فلسطینی عوام کی آزادی کی جدوجہد کی کامیابی صرف ایک انقلابی جدوجہد کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ سفارتی چالبازی قطعاً کوئی راستہ نہیں ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی فلسطینی عوام نے عوامی تحریک کا راستہ اختیار کیا صیہونی ریاست کو جھکنا پڑا اور رعایتیں دینی پڑیں۔ پہلی فلسطینی بغاوت، جسے پہلا انتفادہ (1987-1993ء) کہا جاتا ہے، سے یہ ثابت ہو گیا تھا کہ انقلابی عوامی جدوجہد کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ یہ بغاوت فلسطینیوں کی جدوجہد میں ایک اہم موڑ تھی۔ عوامی احتجاجوں اور سب سے بڑھ کر مقبوضہ علاقوں میں عام ہڑتالوں کی وجہ سے اسرائیلی معیشت کا پہیہ رک گیا۔ جس سے اسرائیلی ریاست کو پی ایل او کے ساتھ مذاکرات کرنا پڑے۔ معاہدہ اوسلو اور غزہ اور مغربی کنارے پر مشتمل فلسطینی اتھارٹی کا قیام دراصل اسی عوامی بغاوت کا ہی نتیجہ تھا۔

عرب بہار کی انقلابی تحریکوں نے تمام عرب بادشاہتوں اور آمریتوں کی بنیادیں ہلا ڈالیں۔ بوسیدہ آمریتیں تاش کے پتوں کی طرح ایک کے بعد ایک گرنا شروع ہوئیں۔ ان انقلابی تحریکوں نے ان مصنوعی سرحدوں کو عبور کیا جنہیں برطانوی اور فرانسیسی سامراجیوں نے ایک صدی پہلے مشرق وسطیٰ کو تقسیم کرنے کے لیے کھینچا تھا۔ حتیٰ کہ اسرائیل بھی ان انقلابی تحریکوں کی حدت سے محفوظ نہ رہ سکا اور اس پر اتنے گہرے اثرات مرتب کیے کہ تل ابیب میں ہونے مظاہروں میں یہ نعرہ بلند ہونے لگا ”ایک مصری کی طرح چلو!“ جدید تاریخ میں پہلی مرتبہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے عوام اپنی آمرانہ ریاستوں کے خلاف ایک انقلابی تحریک میں متحد ہوگئے تھے۔ عوام نے سامراجیوں کے تمام تر مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات کو مسترد کیا۔ یہی انقلابی تحریکیں ہی فلسطینیوں کی نجات کا راستہ اور امید کی کرن تھیں۔ بد قسمتی سے ایک حقیقی انقلابی قیادت کے فقدان کی وجہ سے ان سرمایہ دارانہ ریاستوں کو نہیں گرایا جاسکا۔ طاقتور عوامی بغاوت ہوا میں تحلیل ہوگئی۔ اگر ایک انقلابی مارکسی قیادت موجود ہوتی تو عرب دنیا کی ان تمام تحریکوں کو جوڑتے ہوئے ان تمام ریاستوں سے سرمایہ داری کا خاتمہ کیا جاسکتا تھا۔ لیکن تحریک کی ناکامی کی وجہ سے سامراجیوں کو مداخلت کا موقع ملا اور انہوں نے اپنے مقامی گماشتہ حکمرانوں کے ساتھ مل کر مشرق وسطیٰ پر ایک سیاہ رجعت مسلط کر دی۔

پچھلی سات دہائیوں کے تجربات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی حدود و قیود میں رہتے ہوئے مسئلہ فلسطین کو حل نہیں کیا جاسکتا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانوی اور فرانسیسی سامراجیوں نے ”سائیکس پیکٹ“ معاہدے کے ذریعے مشرق وسطیٰ کو اپنے اپنے حلقہ ہائے اثرمیں تقسیم کیا اور مصنوعی سرحدیں کھینچی گئیں تاکہ اپنی لوٹ مار کو جاری رکھا جا سکے۔ یہ سرحدیں مقامی آبادیوں کی ساخت کو مکمل نظرانداز کرتے ہوئے کھینچی گئیں جس سے مستقبل میں نئے تضادات پیدا ہوتے گئے۔ اسی طرح برطانوی حکومت نے 1917ء میں اعلان بالفور جاری کیا جس میں یہودیوں کے لیے ایک الگ ریاست کے قیام کا منصوبہ پیش کیا گیا۔ یہ ریاست پورے خطے کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن گئی۔ اپنے قیا م کی سات دہائیوں بعد یہ بات اب واضح ہوچکی ہے کہ موجودہ سرمایہ دارانہ ملکیتی رشتوں کی موجودگی میں محکوم قومیتوں اور گروہوں کا مسئلہ کبھی بھی حل نہیں ہوسکتا۔ یہودیوں کے لیے اسرائیل کی شکل میں ایک الگ ریاست کے قیام نے پورے خطے کو ایک نہ ختم ہونے والی آگ میں جھونک دیا ہے۔ فلسطین کے مسئلے کا دو ریاستی حل کوئی حل ہے ہی نہیں۔ حتیٰ کہ سامراجی طاقتوں نے بھی اس حل کو غیر اعلانیہ طور پر ترک کر دیا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے لیے ٹرمپ کا امن منصوبہ یا ”صدی کا سب سے بڑا معاہدہ“ مستقبل کی فلسطینی ”ریاست“ کو ایک کھلی فضا کے جیل میں تبدیل کردے گا جو ہر حوالے سے اسرائیل کی دست نگر ہو گی۔ مشرق وسطیٰ میں تمام سرمایہ دارانہ ریاستوں کے خاتمے کے بعد ہی فلسطینیوں کے لیے آزاد وطن قائم ہو سکتا ہے۔ ان سرمایہ دارانہ ریاستوں کے خاتمے سے مشرق وسطیٰ کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کے لیے راہ ہموار ہو گی جو تمام سامراجی لکیروں کا خاتمہ کرے گی۔ مشرق وسطیٰ کی سوشلسٹ فیڈریشن کوئی خیالی منصوبہ یا خوش فہمی پر مبنی خیال نہیں ہے بلکہ خطے کے محکوم عوام (چاہے وہ کُرد ہوں، فلسطینی یا یزیدی) کے لئے نجات کا واحد راستہ ہے۔ ایران، عراق اور لبنان میں حالیہ تحریکیں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ کسی ایک ملک میں ابھرنے والی تحریک فوراً آس پاس کی ریاستوں میں ہلچل کو جنم دیتی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے کسی ایک ملک میں سرمایہ داری کا خاتمہ پورے خطے میں نئے انقلابی طوفانوں کا پیش خیمہ بنے گا اور محکوم عوام کی نجات کا راستہ فراہم کرے گا۔